Wednesday, November 20, 2024
Homeشخصیاتحضرت خواجہ غریب نواز تاریخ کے آئینہ میں

حضرت خواجہ غریب نواز تاریخ کے آئینہ میں

از فہیم جیلانی احسن مصباحی معصوم پوری حضرت خواجہ غریب نواز تاریخ کے آئینہ میں

حضرت خواجہ غریب نواز تاریخ کے آئینہ میں


حضرت سید خواجہ غیاث الدین حسین امیر تاجر، اور با اثر صاحب ثروت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عابد و زاہد شخص تھے۔آپ نسلی اعتبار سے نجیب الطرفین صحیح النسب سید ہیں۔ آپ کا شجرہ عالیہ گیارہ رہ واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔

آپ کی بیوی محترمہ سیدہ ماہ نور بھی ایک عبادت گزار صالحہ خاتون تھی۔

آپ کے مکان پر 14 رجب المرجب 536 ھ بمطابق 1141 عیسوی بروز پیر 14 رجب 530ھ مطابق 1135ء کو تاج اولیاء ، حجۃ الاولیاء، سراج الاولیاء، فخر الکاملین، قطب العارفین، ہند الولی، عطاء رسول ، سلطان الہند، معین الحق، وارث النبی فی الہند، خواجہء خواجگان ، خواجہ غریب نواز، سید معین الدین حسن چشتی اجمیری بن سید غیاث الدین بن سید سراج الدین بن سید عبد اللہ بن سید کریم بن سید عبدالرحمن بن سید اکبر بن سید محمد بن سید علی بن سید جعفر بن سید باقر پیدا ہوئے۔

آپ کا پیدائشی نام حسن رکھا گیا اور آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں :’’جب معین الدین میرے شکم میں تھے تو میں اچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا۔ ‘‘ ( مرأۃ الاسرار)

آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی حضرت سید غیاث الدین حسین خواجہ بہت بڑے عالم دین تھے۔

آپ نے نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔

ابھی آپ کی عمر پندرہ برس کی بھی نہ ہوئی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد حضرت سید غیاث الدین حسین خواجہ کے وصال سے آپ کو ایک گہرا صدمہ لگا۔ایسے موقع پر والدہ نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوے بیٹے کو تسلی بخش نصیحت آمیز گفتگو سے حوصلہ افزائی کی ۔

اور کہا کہ بیٹا! زندگی کے سفر میں ہر مسافر کو تنہائی کی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے اگر تم ابھی سے اپنی تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ گئے تو زندگی کے دشوار گزار راستے کیسے طے کرو گے۔ تمہارے والد کا ایک ہی خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کرے۔

چناں چہ تمہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے حصول کے لیے ہی صرف کر دینی چاہئیں“۔ بیٹے نے آخر اپنے آپ کو بمشکل سنبھالا۔سفر زندگی کو آگے بڑھانا چاہا ہی تھا کہ ٹھیک ایک سال بعد والدہ ماجدہ سیدہ بی بی ماہ نور بھی اس دنیا سے چل بسیں۔ “انا للہ وانا اليه رجعون “۔

والد بزرگوار کی وفات پر آپ کو اس وقت ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی ورثے میں ملی تھی۔اب والدین کی جدائی کے بعد آپ نے باغبانی کا پیشہ اختیار کیا۔جس کی وجہ سے آپ کا تعلیمی سلسلہ بھی موقوف ہو گیا ۔ آپ تعلیم کے موقوف ہونے کی وجہ سے رنجیدہ اور بڑی تکلیف کا احساس کرتے لیکن آپ کرتے بھی کیا کہ گھریلو ذمہ داری جو آپ کے کاندھوں پر آن پڑی۔

اللہ اکبراب آپ بآسانی اپنے ذمہ داری کو سنبھالنے کے عادی ہوچکے تھے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کی اصلاح کے لیے منتخب فرمالیا تھا۔

ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب خواجہ معین الدین چشتی اپنے وراثت میں ملے ہوئے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔

آپ نے بزرگ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے پاس گئے اور ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔

حضرت ابراہیم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا:اے نوجوان! ”آپ کیا چاہتے ہیں؟“خواجہ معین الدین چشتی نے عرض کی کہ”آپ چند لمحے اور میرے باغ میں قیام فرمائیے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوگی کہ نہیں“۔

آپ کا لہجہ اس قدر میٹھا اور عقیدت مندانہ تھا کہ ابراہیم قندوزی سے انکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق معین الدین چشتی نے ابراہیم قندوزی کے سامنے رکھ دیے اور خود دست بستہ کھڑے ہو گئے۔

ابراہیم قندوزی نے اپنے پیرہن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر معین الدین کی طرف بڑھایا اور فرمایا”وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے“۔ اس ٹکڑے کا حلق سے نیچے اترنا ہی تھا کہ معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔پھر تو آپ کو کائنات کی ہر شے بے معنی لگنے لگی ۔

اور آپ نے اپنا تمام مال راہ خدا میں لٹا کر خراسان کو خیرآباد کہتے ہوئے سمرقند کی طرف چلے گئےاور وہاں جا کر آپ نے علوم ظاہری میں مہارت تامہ حاصل کی۔علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ علوم باطنی کے حصول کے لیے نیشاپور کے قصبۂ ہارون میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے

اور آپ کی دن رات خدمات کی حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روے نیاز زمین پر رکھ دیا 

حضرت مرشد نے فرمایا: دورکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا۔

اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ۔

اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ۔

عرض کیا عرشِ معلا تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہو اکہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھل دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟۔

عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘ (انیس الارواح )۔

یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا کہ جبآپ روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کے لیے حاضر ہوئے۔ تو خواب میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی تشریف لائے اور آپ کو حکم دیا۔”معین الدین! آقائے کائنات کے حضور سلام پیش کرو۔

خواجہ معین الدین چشتی نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔”السلام علیکم یا سید المرسلین۔“ وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ روضہ رسول سے جواب آیا۔”وعلیکم السلام یا سلطان الہند“۔ایک اور روایت اسی طرح کی ملتی ہے کہ ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ :

۔ ’’ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا۔ ‘‘ ( سیر الاقطاب ص ۱۲۴)۔

جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہوگیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کرلی تو تھوڑا حیرا ن ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟۔

یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آگئی ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر ، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کرکے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔ ( مونس الارواح ص ۳۰)۔

نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ بھارت (اجمیر ) کا قصد کیا۔اور یہاں آنے کے بعد آپ ہی کے ذریعے سلسلہ چشتیہ بھارت میں پھیلا ( سلسلہ چشتیہ پانچویں صدی ہجری میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام انجام دیا

اور آپ کی شہرت و مقبولیت کی وجہ سے لفظ ’’چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے) بھارت میں آپ کے قدموں کی برکتوں سے نوے لاکھ آدمی آپ کے ہاتھ پر اسلام لائے۔

در حالانکہ آپ نے یہاں بہت سے ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم کو برداشت کیا۔

آپ پر پانی بند کردیا گیا، جادوگروں نے آپ پر جادو کرنا چاہا اس کے باوجود آپ نے ہمت نہیں ہاری اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب دنیا نے دیکھا کہ آپ کی دعوت و تبلیغ کے جلوے پوری دنیا میں عیاں ہوتے ہوئے نظر آئے۔

دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ آپ کے قلم سے درجنوں کتابیں معرضِ وجود میں آئی ان میں سے کچھ کتابوں کا نام یہ ہے:انیس‌الارواح گنج اسرار، دلیل‌العارفین،بحرالحقائق ، اسرارالواصلین، رسالہ وجود یہ کلمات خواجہ معین‌الدین چشتیدیوان مُعین الدين چشتي

آپ کے اہل وطن پر جو انعام و احسان ہیں اسے دنیا بھلا نہیں سکتی۔ اگر اسلام کو نواسہ رسول حضرت امام حسین نے اپنی شہادت کے زریعے بچایا ہے تو حضرت حسن خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے اسے پھیلایا ہے۔بالاخر آپ ۹۷ سال یا ۱۰۳ سال کی عمر پا کر اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر گیے۔ اور آپ کا مزار مبارک اجمیر شریف میں موجود ہے جو آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے

از قلم : فہیم جیلانی احسن مصباحی معصوم پوری

(ایڈیٹر: آفیشل ویب سائٹ “ہماری فکر” مرادآباد)

ان مضامین کا بھی مطالعہ فرمائیں

سلطان الہند کا تبلیغی مشن

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و ارشادات

  اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ علوم ظاہری کے امام

خواجۂ ہند وہ دربا ر ہے اعلیٰ تیرا

ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن