تحریر: محمد مکی القادری الحنفی الازھری تین مقدس راتیں قرآن وحدیث کی روشنی میں
تین مقدس راتیں قرآن و حدیث کی روشنی میں
رجب ، شعبان اور رمضان میں جاگنے کی راتیں آتی ہیں ‘ ان راتوں میں ہم جاگ کر اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں، اس بارے میں میرے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان راتوں میں خاص طور پر کیوں جاگتے ہیں ؟ کیا ان راتوں کے بارے میں قرآن وحدیث میں کچھ ذکر آیاہے ؟
تو جب ہم قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور علماء اہل سنت کے دامن سے وابستہ ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سال میں چند ایسی مقدس راتیں آتی ہیں جو اپنے خصائص و فضائل، برکات و رحمتوں میں امتیازی شان رکھتی ہیں اور ہر ایک رات کی جداگانہ خصوصیت ہے اور قرآن شریف میں بطور خاص تین راتوں کا ذکر آیا ہے
۔ (١) ماہ رجب میں شب معراج: جس میں عبد و رب، محب و محبوب کی ملاقات ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت باری تعالیٰ کا شرف حاصل کیا اور محب و محبوب کے درمیان اسرار و رموز کی باتیں ہوئیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کریمہ’’ سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً‘‘میں ’’لیلا‘‘ سے بالاتفاق یہی شب معراج مراد ہے۔رجب المرجب اسلامی تاریخ کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے۔ ترجیب کے معنی تعظیم کے ہیں۔ اہل عرب اس کو اللہ کا مہینہ کہتے تھے اور اس کی تعظیم بجا لاتے تھے۔
رجب المرجب کے اہم واقعات
رجب کی پہلی تاریخ کو سیدنا نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے۔ چار تاریخ کو جنگ صفین کا واقعہ پیش آیا۔ ستائیسویں شب کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسمانی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اٹھائیسویں تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا۔ (عجائب المخلوقات، ص ٤٥)
رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والوں کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سی ایک سور ت اور ہر دو رکعت پر التحیات پڑھے۔ اور بارہ رکعتیں پوری ہونے پر ١٠٠ مرتبہ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر، استغفار سو بار، درود شریف سو بار پڑھے اور پھر دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا۔ سوائے اس دعا کے جو گناہ کے لی ے ہو۔ (شعب الايمان، ج٣، ص٣٨٤، حديث ٣٨١٢)
(٢) ماہ رمضان میں شب قدر: جو نزول قرآن کی مقدس شب ہے جس میں فرشتوں کا ورود ہوتاہے اور اس شب میں بندگان حق کو ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ثواب عطا ہوتا ہے،ارشاد الہی ہے: لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ۔(قدر۔٣) اس آیت کریمہ میں شب قدر کا ذکر ہے۔
شب قدر کا معنی و مفہوم انما سمیت بذلک لعظمها و قدرها و شرفها امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنی مرتبہ کے ہیں ‘چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ شب قدر کیوں عطا کی گئی؟ اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ ان رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم اری اعمار الناس قبله او ماشاء ﷲ من ذلک فکانه تقاصر اعمار امته عن ان لا یبلغوا من العمل‘ مثل الذی بلغ غیرهم فی طول العمر‘فاعطاہ لیلة القدر خیر من الف شهر۔
جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی‘ جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔ (موطا امام مالک‘ کتاب الصیام‘باب ماجاء فی لیلة القدر‘ )
شب قدر فقط امت محمدیہ کے لیے
لیلۃ القدر فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان ﷲ وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔
شب قدر کی فضیلت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا من قام لیلة القدر ایماناً و احتساباً غفرله ما تقدم من ذنبه جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی‘ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری‘ ١: ٢٧٠‘ کتاب الصیام)
امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت
لیلۃ القدر فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان ﷲ وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا شب قدر کی تعین کے بارے میں تقریباً پچاس اقوال ہیں‘ ان میں سے دو اقوال نہایت ہی قابل توجہ ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تحرو الیلة القدر فی الوتر‘ من العشر الاواخر من رمضان لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
(٣) ماہ شعبان میں شب براءت آتی ہے یہ برکتوں والی رات ہے جس میں بندگان خدا کو بخشش کامژدۂ جانفزا ملتا ہے۔ اس رات کا ذکر سورۂ دخان کی ابتدائی چار آیات کریمہ میں ہے۔ مفسرین و مشاہیر امت کی ایک جماعت کے پاس’’ لیلۃ مبارکۃ ‘‘سے مرادشعبان کی پندرھویں شب ہے جسے’’ لیلۃ البراءۃ‘‘ (شب براء ت )کہا جاتا ہے۔ترغیب ملتی ہے۔
شب برات کی وجہ تسمیہ
احادیث مبارکہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی ١٥ ویں رات کو شب برات قرار دیا گیا ہے۔ اس رات کو براۃ سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا کر دیتا ہے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں خمس ليال لا ترد فيهن الدعاء: ليلة الجمعة، و أول ليلة من رجب، و ليلة النصف من شعبان، و ليلتی العيدين ’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتیں: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرھویں رات، دونوں عیدوں کی راتیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، يَغْفِرُ اﷲُ لعباده إلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ
جب ماہِ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے اوربغض رکھنے والے کے سوا اپنے تمام بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(ترمذی،ج٢،ص١٨٢)۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(١٥ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے۔ پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی،ج٢، ص١٨٣) ۔
معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج٢،ص٢٩٠) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا أبی بکر رضی الله عنه قال: قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَنْزِلُ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ لِأَخِيْهِ
جب ماہِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اﷲ تبارک وتعالی آسمانِ دنیا پر (اپنے حسب حال) نزول فرماتا ہے پس وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے
مذکورہ قرآن کی آیتیں اور احادیث مبارکہ کے بیان کا مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر ہو سکتا ہے۔
اِن بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لیے بے قرار ہوتی ہے لہٰذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں۔
اس لیے جو شخص بھی اب اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر ہے اور فقط ہوائے نفس کی اتباع اور اطاعت میں مشغول ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی راہ پر گامزن ہونے اور زیادہ سے زیادہ عبادتیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !۔ واللہ اعلم بالصواب
از۔۔ محمد مکی القادری الحنفی الازھری (گورکھ پوری)
پرنسپل دارالعلوم اہل سنت نورالاسلام بلرام پور یو،پی