Sunday, April 14, 2024
Homeاحکام شریعتقربانی کے فضائل و ضرری مسائل

قربانی کے فضائل و ضرری مسائل

از قلم: شیر محمد مصباحی؛ ڈائریکٹر البرکات ویلفیئر ٹرسٹ، ٹھاکر گنج، کشن گج، بہار قربانی کے فضائل و ضرری مسائل

قربانی کے فضائل و ضرری مسائل

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا کہ’’ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے

لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ اور ابن ماجہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ جس میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ ‘‘۔
ذبح کے مسائل
مستحب یہ ہے کہ جانور کو لٹانے سے پہلے چھری تیز کر یں اور لٹانے کے بعد چھری تیز کرنا مکروہ ہے۔

 ذبح کرتے سر دھڑ سے الگ کر نا مکروہ ہے۔اگرسر دھڑ سے الگ ہو ہی گیا تو اس کا کھانا مکروہ نہیں ۔

 کچھ لوگ ذبح کے بعد فوراً کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں ایسا کرنا مکروہ ہے۔ روح جسم سے نکل کر جانور ٹھنڈا ہو جائے پھر اس کی کھال اتارے۔

 بعض اوقات جانور(خواہ مرغی ہو یابکرا و غیرہ ) ذبح کے لیے گھر کی عورتیں مردوں کا انتظار کرتی ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورتیں ذبح نہیں کر سکتی۔ یہ غلط ہے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ جس طرح مرد قربانی کرتاہے اسی طرح عورتیں بھی کر سکتی ہے۔

 ذبح کرنے میں جان بوجھ کر بسم اﷲ نہ کہی جانور حرام ہو گیا اور اگربسم اللہ کہنا بھول گیا (کبھی جلدی میں بسم اﷲ کہنا بھول جاتا ہے) اس صورت میں جانور حلال ہے۔

 خود ذبح کرنے والے کو بسم اﷲ کہنا ضرور ی ہے ۔دوسرے کے بسم اﷲ پڑھنے سے جانور حلال نہ ہوگا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ذبح کر رہا تھا لیکن وہ ڈھنگ سے ذبح نہیں کر پا رہا ہے تو فوراً کوئی دوسرا شخص اس سے چھری لے کر یا اسی کے ساتھ مل کر ذبح کرتا ہے تو دونوں کا بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھا تو جانور حرام ہے۔ ہاں بھول کر ایسا ہوا تو حلال ہے۔
قربانی عورتوں پر بھی واجب

قربانی کے دنوں حاجت کے سوا جوساڑھے 52تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مالک ہو اس پر قربانی واجب ہے۔محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی کی تحقیق کی روشنی میں ساڑھے باون تولہ چاندی برابر 653.184گرام ہے۔ موجودہ قیمت 70 روپے پر گرام کے حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت/ 45,710پینتالیس ہزار سات سو دس روپے ہو رہے ہیں۔ لہٰذا حاجت کے سوا جو 45,710  کا مالک ہو اس پر قربانی واجب ہے۔

عام طور پر گھر کی عورتوں پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ان کے نام پر قربانی نہ کرکے گنہ گار ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس اتنا زیور ضرور ہوتا ہے جس کی قیمت/45,710 روپے ہوں۔ البتہ اگر زیورات گروی پر ہیں تو مسئلہ یہ ہوگا کہ مان لیجیے زیورات کی قیمت ایک لاکھ روپے ہیں

اور پچاس ہزار پرانہیں گروی رکھ دیا تو گویا اب بھی آپ پچاس ہزار روپے کے مالک ہوئے۔ جب کہ قربانی واجب ہونے کے لیے 45,710پینتالیس ہزار سات سو دس روپے ہی چاہیے تھا۔ لہٰذا قربانی واجب ہے۔ ہاں گروی میں اتنے پیسے لے لیے کہ اب ان کی قیمت/45,710پینتالیس ہزار سات سو دس روپے باقی نہیں تو قربانی واجب نہیں۔

اس جانب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت

 قربانی میں یا تو ایک بکری واجب ہے یا پھر بڑے جانور میں ساتواں حصہ۔ اگر کسی کا ساتواں حصہ سے کم ہے یعنی دو لوگوں نے مل کر آدھا آدھا حصہ دیا تو کسی کی بھی قربانی ادا نہ ہوئی۔ان لوگوں کی بھی نہیں جنہوں نے پورے پورے حصے دیے۔ ایسے ہی سب کی نیت قربانی اور ثواب حاصل کرنا ہو۔ اگر شریک ہونے والوں میں کسی کی بھی نیت گوشت حاصل کرنا ہوا تو کسی کی بھی قربانی نہ ہوئی۔

 قربانی تین دن تک کر سکتے ہیں۔ دسویں ذی الحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے۔ عام طور سے ایک ہی دن سب کی قربانی ہو جاتی ہے۔ اس دن سب کے یہاں گوشت ہوتا ہے کوئی کسی کا گوشت لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ پھر دو تین دن میں گوشت خراب ہونے لگتا ہے۔

بعض اوقات گوشت پھینکنا پڑ جاتا ہے۔ جہاں ایسی صورت حال ہو وہاں کچھ لوگ مل کر اس طرح سے پروگرام بنا سکتے ہیں کہ پہلے دن ایک گروپ کاجانور کٹے گا دوسرے دن دوسرے کا اور تیسرے دن تیسرے کا۔ یوں سب کے لیے آسانی ہوگی اور گوشت برباد ہونے سے بچے گا۔

 کچھ لوگ اپنے بڑے بیٹے کے نام سے قربانی کرتے ہیں۔ وہ بھی اس طرح کہ جب تک سات مرتبہ اس کے نام کی قربانی نہ ہو جائے دوسرے کے نام سے قربانی نہیں کرتے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ بلکہ گھر کے ان لوگوں کے نام کی قربانی واجب ہے جو حاجت کےسوا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت/ 45,710پینتالیس ہزار سات سو دس روپے کے مالک ہوں اور نہ ان پر اتنا قرض ہو کہ جو بینک بیلنس ہے اگر اس سے قرض ادا کر دے پینتالیس ہزار سات سو دس روپے کا بھی مالک نہ ہوں گے تو قربانی واجب نہیں۔

 بالغ اولاد گھر پر ہوں یا باہر، ان پر قربانی واجب ہے اور گھر والوں نے ان کی اجازت لیے بغیر ان کے نام کی قربانی کر دی تو قربانی ادا نہ ہوئی۔ ہاں جن کے نام کی قربانی کرنا چاہتے ہیں ان کو معلوم ہیں کہ گھر والے ان کے نام کی قربانی کر رہے ہیں اور وہ اس پر راضی بھی ہیں تو یہی اجازت ہے پوچھنا ضروری نہیں۔

 ذبح سے پہلے قربانی کے جانور سے فائدہ اٹھانا منع ہے۔ جیسے؛ دودھ دوہنا، جانور پر سوار ہونا یا اس پر کوئی چیز لادنا مکروہ و ممنوع ہے۔ دودھ دوہ لیا تو اسے صدقہ کر دے۔ اگر خود سوار ہوا یا اس پر کوئی چیز لادی تواس کی وجہ سے جانور میں جو کچھ کمی آئی اتنی مقدار میں صدقہ کرے۔

ا ن جا نوروں کی قربانی جائز نہیں

قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہواس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور مینگ تک(جڑ تک) ٹوٹا ہے تو ناجائز ہے اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔

اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ اتنا دبلا جس کی ہڈیوں میں گُدا نہ ہو اور لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے۔ اتنا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو اور جس کے کان یا دم کٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے۔

جس کے دانت نہ ہوں یاجس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں اس کی قربانی ناجائز ہے۔ بکری میں ایک کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے اور گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے۔ جلّالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔

اگر قربانی کے جانورکے پیٹ سے بچہ نکل آئے

قربانی کے لیے جانور خریدا تھا قربانی کرنے سے پہلے اس کے بچہ پیدا ہوایا ذبح کے بعد دکھا تو وہ بچہ اگر حیات سے ہے تو اس کو بھی ذبح کر ڈالے۔ پیٹ سے بچہ نکلے تو کچھ لوگ گھن اور نفرت محسوس کرتے ہیں۔ یہ جہالت ہے۔ ایسا ہر گزنہ کرے۔ مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پھینک دے وہ مردار ہے۔

ایک ضروری مسئلہ

عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ منت مانتے ہیں اور بعد میں جانور ذبح کرکے امیر و غریب سب کو کھلاتے ہیں۔ یہ جائز نہیں۔ قربانی اگر منت کی ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھاسکتا ہے نہ مالداروں کو کھلا سکتا ہے بلکہ اس کو صدقہ کر دینا واجب ہے۔

وہ منت ماننے والا فقیر ہو یا غنی دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ خود نہیں کھا سکتا ہے نہ غنی کو کھلا سکتا ہے۔ کوئی بڑا جانور قربانی کر رہا ہےاورکچھ حصے بچ رہے ہیں تو اگر اس کے ذمہ کوئی منت کی قربانی باقی ہے تو وہ بچے ہوئے حصوں سے منت کی قربا نی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ان حصوں کو صدقہ کرنا لازم و ضروری۔ نہ خود کھا سکتے ہیں نہ مالداروں کو کھلا سکتے ہیں۔

نوٹ: قربانی کے یہ ضروری مسائل بہار شریعت از صدر الشریعہ،مطبوعہ دعوت اسلامی،15 ویں حصہ سے ماخوذ ہیں۔ تفصیل کے لیے بہار شریعت و دیگر کتب فقہ کا مطالعہ کریں!۔


من جانب:دار العلوم فیضان تاج الشریعہ

زیر اہتمام: البرکات ویلفیئر ٹرسٹ

ٹھاکر گنج، کشن گج، بہار۔ 9905084119

البرکات ویلفئیر ٹرسٹ کی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں از قلم: ڈاکٹر محمد سجاد عالم رضوی مصباحی اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ تاریخ ، پریسیڈینسی یونیورسٹی، کولکاتا، مغربی بنگال

قربانی کے فضائل و ضرری مسائل

قربانی کے فضائل و مسائل سوال و جواب کے تناظر میں

قربانی کے فضائل و مسائل سے متعلق ان مضامین کا بھی مطالعہ کریں

وجوب قربانی اور اس کے شرائط و مسائل

قربانی کی شرعی حیثیت چند توضیحات

فضیلت ماہ شوال اور عظمت عیدین

 ذی قعدہ کی فضیلت اور غلط فہمی کا ازالہ

 ہمارے لیے آئیڈیل کون 

 ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ لازم ہے

تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کا اولین فریضہ 

 تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में आर्टिकल्स पढ़ने के लिए क्लिक करें 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن