از قلم : محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی غیر اسلامی تعلیم گاہوں کی قباحتیں اور اہل ثروت حضرات کو دعوت فکر
غیر اسلامی تعلیم گاہوں کی قباحتیں
دو سو سا ل قبل کے ہندوستان کا نقشہ کھینچتے ہوئے مایہ ناز مؤرخ و صوفی حضرت مولانا غلام علی آزاد بلگرامی (متوفیٰ 1784ء) اپنی مشہور کتاب مآثر الکرام میں تحریر فرماتے ہیں؛
امرا اور اصحاب خیر کی حویلیاں اور ڈیوڑھیاں طلبہ کی قیام گاہیں ہیں، جہاں ان کی ضروریات زندگی کا مفت انتظام کیا جاتا ہے۔ہر بستی کے صاحب خیر حضرات طالب علموں کا بھر پور خیال رکھتے ہیں اور ان کی خدمت کرنے کو بڑی سعادت تصور کرتے ہیں۔(مآثرالکرام…….)
جاگیریں اور اوقاف جو مدارس اور مکاتب پر وقف تھیں انگروں نے ان کو بھی ضبط کر لیا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے علمی سوتے خشک ہو گئے۔ان کے تعلیمی مراکز ویران ہوگئے۔اس طرح جو ان کا مقصد تھا وہ پورا ہو گیا۔ان کا مقصد تھا مسلمانوں کو مکمل طور پر مفلوج و محکوم بنانااور اس کے لیے ان کو علم سے بے بہرہ کرناسب سے پہلے ضروری سمجھا، کیوں کہ علم ہی ساری بھلائی کا سر چشمہ ہے۔عزت بھی اسی سے ہے۔وقار و حکومت بھی اسی کے صدقے میں ملتی ہے۔اور اخلاقی قدریں بھی اسی سے بلند ہوتی ہیں۔جس کا اثر دوسری اقوام پر بھی ہوتا ہے۔
آزادی کے بعد اب مسلمانوں کا یہ حال ہو اکہ انگریزوں نے جو کچھ لوٹاتھا وہ تولوٹا ہی تھا فرقہ پرست مشرکین نے اس بے دست و پائی میں ا ور اضافہ کرکے انھیں مزید صدیوں پیچھے ڈھکیل دیا۔جانی ،مالی نقصان پہنچا کر اور خوف وہراس پیدا کرکے ذہن و دماغ پر شب خوں مارا۔مدارس و مقابراور مساجد پر قبضہ کیا غرض کہ مسلمانوں کے رہے سہے وقار وآثار کو حرف غلط کی طرح مٹا ڈالنے کی پوری کوشش کی اور کر رہے ہیں۔مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار کہاں سے حاصل کرتا۔علم و ہنر کیسے حاصل کرتا۔جائیداد کہاں سے خریدتا۔مقابر ومساجدا ور مدارس کی حفاظت کب کرتا۔روزی،روٹی اور محتاجی نے اس سے متاعِ فکرِ فردا کو بھی چھین لیا۔اس لیے پہلے مرحلے میں ہر آدمی فکر معاش ہی کا شکار ہو کر رہ گیا۔
اب جب کہ ۶۰ سال کے جانکاہ اور نازک حالات سے مسلسل نبر دآزمائی کے بعد مسلمان اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق ہو رہا ہے تو درندہ صفت ا ور فرقہ پرست اسلام دشمنوں نے ہماری آبادیوں میں پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں۔ہماری فکری بے راہ روی کے لیے سازشیں کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔اور ہم ہیں کہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔زیادہ تر مسلمان اب فکر معاش سے اوپر اٹھ کر فکر ِجمعِ مال اور حصول ِآسائش ِدنیا میں مگن نظر آتے ہیں۔اور پھر جنھیں تعلیم کی طرف کچھ دھیان کرنے کا موقع ملا تو ان میں زیادہ تر عیسائی مشینری اسکولوں اور عیسائی ماڈل انگلش میڈیم نرسری اسکولوں کا رخ کر رہے ہیں یا پھر بندے ماترم اور جنگڑ منگڑ والے پاٹھ شالاون میں اپنے بچوں کو بھیج کر خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر ما ر لیا اور ترقی کی معراج حا صل کر لی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اپنے بچوں کو ہندی،انگریزی،گجراتی،مراٹھی اور بنگلہ وغیرہ مقامی زبانیں نہ پڑھا ئیں اور نہ تو اسلام نے کسی زبان کی تحصیل سے روکا ہے۔ہاں صرف زبان حاصل کی جائیدوسرے مذاہب کے شعار اور ان کے کفری افکار وعقائد سے اپنے کو آلودہ نہ کیا جائے۔ جب کہ مذکورہ بالا اسکولوں اور پاٹھ شالاوں میں اپنے بچوں کو داخل کرانے کے بعداس قباحت سے بچنا تقریبا ً ناممکن ہے۔
اب ان حالات میں کیا کیا جائے، یہ بات قابل غور ہے۔ اس سلسلے میں تمام ہی مسلم طبقوں کو سوچنا چاہیے۔چاہے وہ علما کا طبقہ ہو یا عوا م و امرا کا طبقہ، سب ذمیدار ہیں۔ اپنی اپنی طاقت بھر سب کو اس زبردست المیہ اور بھیانک صورت حال سے نپٹنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس رخ پر ذرا بھی توجہ کی گئی توان مسائل کا حل مشکل نہیں بلکہ آسان ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے پا س آج پیسے کی کمی نہیں ہے،کمی ہے تو اسلامی غیرت و حمیت کی۔نرسری اسکولوں میں ہزاروں ہزار روپے داخلہ و ماہانہ فیس اد اکرنے کی جب طاقت ہے،تو آخر یہ اہل ثروت حضرات اسلامی دائر ے میں رہ کر ہندی،انگریزی اور دیگر علوم و فنون کی تعلیم گاہیں کیوں نہیں کھولتے؟کیا غیروں کی غلامی ہی پسند ہے!آج تمام قومیں اپنے پاوں پر کھڑی ہو رہی ہیں،آزادی کی فضا میں سانس لے رہی ہیں۔
لیکن مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ غلامی کی زنجیروں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں ۔غلامی ہی کرنی ہے تو اسلامی اصولوں کی غلامی کریں،نبی عربی ﷺ کی کریں، جو محسن انسانیت ہیں،جو رحمت کل عالم اور رب العالمین کے پیغمبر ِاعظم ہیں،جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔جن کی اتباع و پیروی نجات اخروی کی ضمانت ہے۔جن کے نقش قدم پر چلنا رضاے الٰہی کا سبب ہے۔
زبان دنیاکی کوئی بھی ہو اس کی ضرورت ہو تو اسے حا صل کرنا گناہ نہیں، جائزہے،مگر طریقہ تعلیم ا پنا اسلامی ہو،ماحول دینی ہو،اخلاق و کردار مذہبی ہو ں،تو پھر دنیا میں بھی ترقی کرنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے۔جو قوم تعلیم کے معاملے میں خود کفیل نہ ہو ، جو اپنا نظام تعلیم و نصاب تعلیم تشکیل نہ کر سکتی ہو،وہ بھلا کیسے دنیا میں دو قدم آگے چل سکتی ہے۔وہ کیسے اپنے مد مقابل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر سکتی ہے۔
زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی،نہ طریقہ تعلیم کسی مذہب کا ہوتا ہے۔ہاں تعلیمات اورافکار ذہن و دماغ پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ نہ سائنس کسی خاص مذہب کی ہے نہ ریاضی کسی مذہب کی پابند ہے اور نہ طب کسی دین دھرم سے مختص۔
جن آبادیوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے یا مسلمان معاشی اعتبار سے بہت کمزور ہیں وہاں تو کوئی عذر ہو سکتا ہے لیکن جہاں مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ اور معاشی پوزیشن بھی اچھی،وہاں آخر مسلمان کیوں دوسروں کی دریوزہ گری کرتے نظر آتے ہیں۔وہ کیوں نہیں آگے بڑھتے! اسے فکری افلاس اور احساس کمتری کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ زیادہ حیرت تو ان اہل ثروت اور ماڈرن تعلیم یافتہ حضرات پر ہوتی ہے جو مولویوں کو کو ستے،دقیانوس بتاتیاور ان کو پست ہمت کہتے نہیں تھکتے
وہ آخر کیوں اس معاملے میں پست ہمتی،احساس کمتری اور دقیانوسیت کا شکار نظر آتے ہیں۔انھیں تو اوپر اٹھ کر سوچنا چاہیے،اپنے بچوں اور اپنی آئندہ نسل کی فکر کرنی چاہیے۔ان کے دین و ایمان کے تحفظ کی تدبیریں کرنی چاہیے۔کیا دین سے آنکھیں موند کر صرف دنیاوی ترقی کی راہ پر بگ ٹُٹ آگے بڑھتے جانااپنی نسل کو جہنم میں ڈھکیلنے کے مترادف نہیں!
حدیث پا ک میں آیا ہے کہ ایک باپ کا اپنے بچوں کو سب سے بڑا تحفہ دینا یہ ہے کہ اس کو اچھی تعلیم اور اچھا ادب دے۔
میں سمجھتا ہوں مسلمانوں کا احساس ذرا بیدار ہو جائے، قومی ایمانی حمیت جاگ جائے،اور تعلیم کے نا م پر کچھ اور خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔
اب جلد سے جلد مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنا نظام تعلیم قائم کریں۔اپنا نصاب بنائیں۔جس میں غیر اسلامی اور کفری باتوں کی آ میزش ہرگزنہ ہو۔اپنے اساتذہ ہوں،اور حسب ضرورت کسی دوسرے مذہب کے اساتذہ کا تقرر کیا جائے تو ان کو اس کا پابند بنا دیا جائے کہ اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔ یا کم از کم ان پر اتنی نظر رہے کہ وہ غیر اسلامی و کفری حرکات و تعلیمات سے بچوں کے ذہن کو خراب نہ کر سکیں،کفری علامت ٹائی کی لعنت سے اپنے نونہالوں کو یکسر دور رکھا جائے، جسے فیشن کے نام پررواج دیا جارہا ہے،اور عام طور سے مسلمان اس سازش کا ناآشنائی کی بنا پر شکار ہو رہے ہیں۔
انگریزی کے ساتھ تمام علاقائی زبانیں مثلاً؛پنجابی،گجراتی،بنگلہ،کنڑ،ملیالم وغیرہ تعلیم دی جائیں، مگر ان کے ساتھ عربی اور اردو کو لازم قرار دیا جائے اور سب پر بالا قرآن حکیم کی تعلیم ہے کہ یہ بقدر ضرورت فرض عین ہے،ہر مسلمان کو اس کا صحت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔
قابل اور ذی استعداد اساتذہ کے ذریعے نصاب تعلیم بنوایا جائے۔
اور نصاب کی کتابیں بھی حسب ضرورت تصنیف کرائی جائیں۔ یہ کتابیں بھی انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ہوں۔ابتدائی بچوں کی کتابوں میں ڈ سے ڈاگ کے بجاے ڈور اور ہندی میں م سے مندر کے بجاے مسجد دیا جائے۔
یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ انھیں نہ تو م سے مندر، پ سے پجاری (سادھو) چھاپنے میں کوئی تکلف ہوا اور نہ انھوں نے ہماری کوئی رعایت کی تو پھر ہمیں ان کی اتنی رعایت کی کیا ضرورت ہے، کہ وہ جو پڑھائیں ہم پڑھتے چلے جائیں اور جو لکھائیں لکھتے چلے جائیں۔
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ کفر سر چڑھ کر بولے اور مسلمان ابھی تک گومگو میں پڑ اہوا ہے۔ وہ ہماری ایک نہ سنیں،نہ ہماری کچھ رعایت کریں او ر ہم ہیں کہ مکمل رعایت کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔سن لو! قرآن میں ہے:
ترجمہ: یہود و نصاریٰ (کافر) تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے د ین کی پیروی نہ کرو۔(بقرہ ۲/۰۲۱)
لہٰذا ہمیں ا ب خود اعتمادی کے ساتھ اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔لاکھوں روپے بیاہ شادی کی فضول رسموں پر خرچ کرنے کے بجاے ان اہم امور پر خرچ کریں،اعراس بزرگان دین میں بعض غیر ضروری اخراجات سے بھی رقمیں بچا کر تعلیم کی مدوں میں خرچ کیا جائے۔ہر سال اجمیر جانا اور بار بار حج و عمرہ کرنا بھی فرض نہیں،جب کہ تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر ایسی تعلیم گاہوں کی تشکیل جن سے فروغ علم کے ساتھ ایمان کا بھی تحفظ ہو اس سے کہیں زیادہ ضروری اور اہم ہے۔
میں ان علماے کرام اور مشائخ عظام سے بھی گزارش کروں گا کہ جو قوم میں اعتماد کی منزلوں پر فائزہیں وہ ایسے مدارس قائم کریں جو دینی دنیاوی دونوں طریقہ تعلیم کا سنگم ہوں، تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کی توجہات کو گمراہ کن ماڈرن تعلیم سے موڑ کر دین کی طرف پھیرا جاسکے۔
ہمیں امید ہے کہ ان معروضا ت پر مسلمانوں کے تمام طبقے اپنے اپنے طور پر غور کرکے عمل کی کوشش کریں گے۔
ع
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
اگر دینی ماحول میں رہ کر جدید تعلیم کی طرف بھر پور توجہ دی گئی تو دنیاوی ترقی کے ساتھ اس سے اسلام کو بھی فروغ ملے گا۔آج پوری دنیا میں عیسائی مشنری اسکول اسی راہ پر چل کر اپنے عیسائی مشن کو پھیلارہے ہیں۔میں نے خود دیکھا ہے کہ ان کے اسکولوں میں جو بچے عیسائی نہیں، ہندو یا مسلمان ہیں ان بچوں سے عیسی ٰ علیہ السلام کی تصاویر کی پوجا کرائی جاتی ہیاور ان کے سامنے ہاٹھ جوڑ کر کھڑا کیا جاتا ہے ۔ماں باپ تو مگن ہیں کہ ہمارا بچہ انگریزی بولتا ہے،آگے بڑھ رہا ہے۔لیکن یہ نہیں جانتے یا جان کر انجان بن رہے ہیں کہ ان کا بچہ صرف انگریزی ہی نہیں بولتا کفر بھی سیکھتا ہے، اور جہنم کی طرف بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
افسوس اور ہزار بار افسوس کہ آج بہت سے مسلمان ایسا لگتا ہے کہ کفر کو ہلکا سمجھ رہے ہیں۔انگریزی بولنا اور دنیا میں ترقی کرنا تو ان کو ضرور سمجھ میں آتا ہے لیکن کفر سے بچنا اور اپنے بچوں کو بچانا گویا ضروری نہیں سمجھتے۔
جب کہ حدیث پاک میں آیا سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی حلاوت وہی پا سکتا ہے جو ایمان کے بعد کفر میں پلٹنے کو ایسا ہی ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو۔(مشکوٰۃ،ص۲۱)
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے گرمی کی ایک رات میں ہم لوگ چھت پر بیٹھے تھے کہ قریب کیایک اسکول میں سالانہ جشن منایا جا رہا تھا،وہاں سے آواز آئی اور کانوں نے سنا ((سب سے پہلے ترنم بانو آئیں اور سرسوتی ماتا کی مورتی پر ہار چڑھائیں))
یہ سن کر ہم لوگ حیرت اور افسوس کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے کہ مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے،اپنے بچوں اور بچیوں کو ایسے اسکولوں میں آنکھ بند کرکے ڈال رہے ہیں جہاں ان سے بتوں کی پوجا کرائی جا رہی ہے،اور آپ کو یہ سن کراور حیرت ہوگی کہ جہاں وہ اسکول تھا وہاں کی مکمل آبادی مسلمانوں کی ہے۔
البتہ کچھ دوری پر غیر مسلموں کی آبادی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم اور سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ کیا ایسی بھی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ جہاں خالص غیر مسلم آباد ہوں وہا ں کسی مسلمان نے جاکر کوئی ایسا اسکول قائم کیا ہوجہاں دنیاوی تعلیم کے ساتھ اسلامی مذہبی تعلیم کا بھی کوئی شعبہ قائم ہو اور وہا ں کسی اسلامی رسم و رواج کو فروغ دیا جا رہا ہو۔
آخر مسلمان کب بیدار ہوں گے ، اپنے اسلام کے تحفظ کی فکر کب کریں گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے اور ہم خواب غفلت میں سوتے ہی رہ جائیں۔
محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی
ناظم اعلیٰ،دارالعلوم قادریہ،
چریاکوٹ ضلع مئو،یوپی