Thursday, November 21, 2024
Homeاحکام شریعتگالی گلوچ زبان کی تباہی ہے

گالی گلوچ زبان کی تباہی ہے

             تحریر  محمد ایوب مصباحی   قسطِ ششم  ۔ مطالعہ: البریقہ شرح الطریقہ  موضوع :  زبان کی تباہ کاریاں  گالی گلوچ زبان کی تباہی ہے 

گالی گلوچ زبان کی تباہی ہے


      زبان کی تباہی گالی گلوچ ہے جو نہایت ہی مذموم عادت ہے لیکن صد حیف کہ یہ دورِ حاضر میں لوگوں کا عام شیوہ اور تکیہ کلام بن چکی ہے۔
      احادیث شریف میں اس کی قباحت

بخاری ومسلم میں حضرتِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس نے اپنے بھائی کو کہا:اے کافر! تو وہ (کلمہ) ان دونوں(متکلم و مخاطب) میں سے کسی ایک کی طرف پلٹے گا تو اگر وہ(مخاطب) ایسے ہی ہو جیسے اس نے کہا (تو متکلم اپنے قول میں سچا ہے) ورنہ وہ اسی کی طرف لوٹ آئے گا”۔

 تشریح : بعض حضرات ظاھرِ حدیث پر بنا کرتے ہوئے اس طرف گئے ہیں کہ وہ شخص کافر ہوجائے گا جس نے کسی مسلمان کو کہا اے کافر!، اور جمہور اس پر ہیں کہ وہ کافر نہیں ہوگا بلکہ گناہگار ہوگااور تعزیر کا مستحق ہوگا لیکن تطبیق کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ عدم کفر کی مراد کو طریقِ شتم پر محمول کیا جائے اور کفر کی مراد کو قائل کی مخاطب سے رضامندی و اعتقاد پر محمول کیا جائے۔

جیسا کہ فتاوی بزازیہ اور درمختارمیں ہے کہ قائل جب گالی کا ارادہ رکھے اور مخاطب کو کافر نہ سمجھتا ہو تو قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور اگر کافر سمجھتا ہو تو تکفیر کی جائے گی، اسی کے موزوں بعض کتب فقہ میں ہے اگر غصے کی حالت میں کہا: اے کافر! تو تکفیر نہیں کی جائے گی اور اگر خوشی رہتے ہوئے کہا: تو تکفیر کی جائے گی، اسی سے ائمہ بلخ کے قول:کہ تکفیر نہیں کی جائے گی، اور بعض کے قول:کہ تکفیر کی جائے گی؛ کے درمیان تطبیق حاصل ہوگئی۔

صحیحین میں حضرتِ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کو گالی دینا فسق ہےاور اس سے باہم جنگ کرنا کفر ہے”۔ 
    تاویل : مومن سے باہم غارت گری کرنا کفر ہے بشرطیکہ اسے حلال گردانتا ہو ،یا پھر یہ تہدید و تشدید پر محمول ہے، یا یہ فعل علاماتِ کفر سے ہے، یا کفر سے مراد کفرانِ نعمت یعنی ناشکری ہے۔

مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :دو شخصوں کا باہم گالی دینے کا گناہ پہلے شخص پر ہے یہاں تک کہ مظلوم حد سے بڑھ جائے”۔ 
     اگر کسی شخص نے گالی گلوچ کی پھر اس کے جواب میں دوسرے شخص نےبھی دشنام سے نوازا تو اول شخص پر گالی کا گناہ ہوگا ثانی پر نہیں لیکن اگر دوسرے نے گالی کا جواب دینے میں ظلم و تعدی کی  یعنی ایک کے بدلے میں دو یا اس سے زائد گالی دیں تو پھر گناہ دونوں پر ہوگا اور اس کی نص یہ آیتِ کریمہ:”وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃ مِّثْلُھَا“۔(الشوری،آیت:40) اور برائی کا بدلہ اسی کے برابر برائی ہے(کنزالایمان)۔
      اگر کوئی گالی دے تو کیا ردعمل ہونا چاہیے

البحر الرائق میں ہے ” انسان کے لیےبہتر یہ ہے کہ جب اسے گالی دی جائے تو اس کا جواب نہ دے”۔فقہاے عظام فرماتے ہیں:” کہ جب اسے کہا جائے:اے خبیث! تو احسن یہ ہے کہ اپنی زبان کو اس کا جواب دینے سے روکے، لیکن اگر اس نے جواب دیا اور یہ کہ دیا :بلکہ تو خبیث ہےتو اس میں کوئی حرج نہیں” ؛”المنح” میں ہے کسی نے دوسرے سے کہا :اے خبیث! تو اس نے اسے اسی کے مثل جواب دے دیا تو جائز ہے، اس لیے کہ یہ انتصار بعدِ ظلم ہے اور اس میں وہ ماذون ہے

 اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہِ فَاُولٰئِکَ مَاعَلَیْھِمْ مِنْ سَبِیْلٍ(الشوری، آیت:41)اور بیشک جس نے اپنی مظلومی پر بدلہ لیا ان پر کچھ مواخذہ کی راہ نہیں؛لیکن عفو و درگذر افضل ہے فرمانِ غفار ہے :”فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ” تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا اس کا اجر اللہ پرہے۔(کنز الایمان)۔


  کون سی گالی میں رد عمل کی اجازت ہے ؟

یا جاہل!، یا احمق! جیسی گالیوں میں رد عمل کی رخصت ہے کہ یہ اسی کی مثل دشنام دہندہ کو گالی دے اور حد سے تجاوز نہ کرے دریں صورت گالی کا گناہ  شخصِ اول پر ہوگا؛ اور یا لوطی! یا زانی! جیسی گالیوں میں تقابل جائز نہیں تو اگر دوسرے شخص نے پہلے کو جواب میں گالی دے دی تو دونوں گناہ گار ہوں گے اگرچہ پہلے کا گناہ زیادہ ہے ، تو ایسی صورت میں دوسرے شخص کو مناسب ہے کہ صبر کا التزام کرے اور اسے معاف کردے اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مازاد اللہ عبدا بعفو الا عزا” کہ اللہ تعالی بندے میں معافی کے سبب اس کی عزت بڑھادیتا ہے، یا قاضی کے ہاں دعوی کردے تاکہ وہ اسے تادیباً، تشفیاً جزا دے یا پھر یا جاہل جیسے الفاظ سے اس کا بدلہ دے۔

وہ کونسی اشیاء ہیں جن کی گالی کی بابت احادیث میں نہی وارد نہیں مسلم شریف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تم زمانے کو گالی مت دو اس لیے کہ اللہ ہی زمانہ ہے” شرحِ مسلم میں امام نووی نے فرمایا:کہ بعض حضرات کے نزدیک دہر بمعنی ازلی و ابدی اللہ تعالی کے اسماء میں سے ہے۔

مرغ کو گالی دینا مناسب نہیں
  
جامع ترمذی میں ہے، کہ مرغ کو گالی نہ دو اس لیے کہ یہ نماز کے لیے بیدار کرتا ہے، ایک روایت میں ہے کہ مرغ کو گالی نہ دو اس لیے کہ یہ نماز کے اوقات بتاتا ہے، ابو نعیم کی روایت میں ہے مرغ کو گالی نہ دو اس لیے کہ یہ میرا دوست ہے اور میں اس کا دوست ہوں اور اس کا دشمن میرا دشمن ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اگر اولادِ آدم اس بھلائی کو جان لے جو اس کے آواز میں ہے تو ضرور اس کا گوشت اور پروں کو سونا اور چاندی کے بدلے خریدتے اور یقینا یہ اپنی بلند آواز سے شیطان کو نکال دیتا ہے

 اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ جس سے بھلائی کا استفادہ ہو تو اسے گالی دی جائے نہ اس کی اہانت کی جائے بلکہ اس کا حق اکرام و احسان و شکر ہے
      حدیث شریف میں ہے کہ جس نے سفید مرغ رکھا تو وہ ہر شیطان و جادوگر وکاہن تینوں کے شر سے محفوظ ہوگیا ۔
      داوری سے منقول ہے کہ مرغ سے پانچ خصلتیں سیکھی جاسکتی ہیں :عمدہ آواز، فجر میں قیام، غیرت وحمیت، سخاوت اور کثرتِ جماع۔   

حدیث شریف میں ہے کہ سفید مرغ میرا دوست ہے اور میں اس کا دوست ایک روایت میں ہے کہ “سفید دیسی مرغ میرا دوست ہے اور میرے دوست کا دوست ہے، جبرئیل اس کی اور اس کے پڑوس کے سولہ گھروں کی حفاظت کرتا ہے
      امام مناوی نے فرمایا:کہ ابو نعیم نے اتنا اور اضافہ کیا :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اس کے ساتھ رات گذارتے تھے

امام نودی نے فرمایا:کہ حافظ ابو نعیم نے مرغ کے متعلق احادیث پر مشتمل ایک رسالہ تحریر فرمایا لیکن امام مناوی کا بیان ہے کہ بابِ مرغ میں وارد بعض احادیث منکر ، بعض کی سند صحیح نہیں ہے، بعض موضوع، بعض متروک اور بعض ضعیف ہیں حتی کہ شمس الدین سخاوی نے فرمایا :مرغ کی بابت وارد شدہ تمام حدیث ضعیف ہیں ۔

        لیکن کہا جاسکتا ہے کہ اصولِ حدیث میں ایک ضابطہ یہ ہے کہ ضعیف احادیث کثرت طرق سے قوی ہوجاتی ہیں، اور ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ مرغ کے متعلق جملہ حدیثیں من گھڑت ہیں سوائے اس ایک حدیث کے جو صحیحین و جامع ترمذی وابو داؤد ونسائی میں حضرتِ ابوہریرہ سے مروی ہے”جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو اس لیے کہ اس نے فرشتے کو دیکھا “۔ 
       حصنِ حصین میں ہے صبح مرغ کی بانگ کے وقت دعا مستجاب ہوتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ یہ عز و شرف سے خالی نہیں ہے۔
   مردوں کو گالی دینا جائز نہیں

جامع ترمذی میں ہے کہ مُردوں کو گالی نہ دو اس لیے کہ جو کچھ اچھا برا انہوں نے آگے بھیجا وہ اس تک پہونچ گئے اور ایک روایت میں ہے اس سے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے”۔
      مناوی نے فرمایا:کہ مراد مسلمان مردے ہیں اس لیے کہ کافر مردوں کو گالی دینا تو قربت ہے اور زندوں کو تکلیف دینے سے مراد اپنے اہلِ خانہ، اعزاواقربا ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو گالی دینے کا حکم
       ایک جماعت نے اسی حدیثِ پاک سے یہ استدلال کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدینِ کریمین کو گالی دینا حرام ہے اس لیے کہ اس میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیناہے اور یہ اجماعی طور پر کفر ہے

ہوا کو گالی دینا کیسا ہے؟؟

     حدیث شریف میں ہے کہ ہوا کو گالی نہ دو اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی راحت سے ہے۔
        شیطان کو گالی دینا کیسا ہے۔۔۔۔؟؟؟
    سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ” شیطان کو گالی نہ دو  مناوی نے فرمایا:کہ شیطان کو گالی دینا تم سے اس کے ضرر کو دفع نہیں کرسکتا۔

کتبہ: محمد ایوب مصباحی

استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی، بہادر گنج، سلطانپور دوست، مرادابا

قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں 

 قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک  کریں

قسط سوم پڑھنے کے لیے کلک کریں 

 قسط چہارم پڑھنے کے لیے کلک کریں 

قسط پنجم پڑھنے کے لیے کلک  کریں

Amazon   Flipkart   Bigbasket  

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن