تحریر محمد ایوب مصباحی قسطِ ہفتم:مطالعہ:البریقہ شرح الطریقہ عنوان:زبان کی تباہ کاریاں
زبان کی تباہ کاریاں
زبان کی ساتویں تباہی ایسے کام کے لیے اجازت دینا اور اجازت طلب کرنا ہے جو نافرمانی ہو۔ جیسے خاوند کا اپنی شریکہ حیات کو چند مخصوص مقامات کے علاوہ گھر سے باہر جانے کی اجازت دینا اور بیوی کا اپنے شوہر سے اجازت لینا۔
عصرِ حاضر میں یہ بیماری بڑی تیزی سے پھیل گئی کہ کہیں کسی کا انتقال ہوجائے تو عورتیں اس میں پیش پیش نظر آتی ہیں ، بعض اوقات تو شوہر کو اس کا علم عورت کی واپسی پر ہوتا ہے پھر عورتوں کو اس سے کیا غرض کے وہ جس کے انتقال پر گئیں وہ اعزا و اقارب میں سے بھی ہے یا نہیں کہیں وہ اجنبی اورغیر محرم تو نہیں ہے
لیکن ہوش تو تب اڑجاتے ہیں کہ جب وہ اس ناجائز کام کےلیے شوہر سے اجازت بھی نہیں لیتیں آخر وہ گھر کی سرپرست جو ٹھریں انہیں “اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ ” کہ مرد سرپرست ہیں عورتوں پر؛ سے کیا سروکار! نہ انہیں “النساء حبالۃ الشیطان“کہ عورتیں شیطان کاپھندا ہیں؛ کی فکر! وہ تو خود کو ناقص العقل نہیں بلکہ کامل العقل سمجھتی ہیں ۔
اس لیے آج ہماری مطالعاتی میز پر قلم اسی عنوان چلنے والا ہے کہ عورت کو کہاں جانے کی اجازت ہے؟ شوہر سے بغیر اجازت کے گھر سے کب نکل سکتی ہے؟ اگر عورت بغیر شوہر کی اجازت کے گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو اس پر کیا وعیدیں ارشاد ہوئیں؟ شوہر کو بیوی کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟؟؟
وہ کتنے مقامات ہیں جن کے لیے شوہر بیوی کو گھر سے نکلنے کی اجازت دے سکتا ہے؟
والدین کی صحت و تندرستی میں ہر جمعہ کو زیارت کے لیے جانا | 1 |
بیماری میں بیمار پرسی کے لیے جانا | 2 |
والدین میں سے کسی ایک کے مرنے پر تعزیت کے لیے جانا | 3 |
رشتے داروں کی زیارت کے لیے جانا | 4 |
دایہ ہو یا مُردوں کو غسل دینے والی ہو | 5 |
دوسرے کا اس پر حق اس کی ادائیگی کے لیے جانا | 6 |
حج فرض کے لیے جانا | 7 |
فتاوی خلاصہ اور مجموع النوازل میں ہے کہ شوہر کو سات مقامات پر بیوی کو گھر سے نکل کی اجازت دینا جائز ہے۔
۔1=والدین کی صحت و تندرستی میں ہر جمعہ کو زیارت کے لیے۔
۔2=بیماری میں بیمارپرسی کے لیے۔
۔3=جب والدین میں سے دونوں یا کوئی ایک داعی اجل کو لبیک کہ دیں تو ان کی تعزیت کے لیے۔
۔4=رشتے داروں کی زیارت کے لیے ہر سال، اسی طرح اس کے والدیں یا اس کا کوئی قریبی اس کے پاس آنے جانے والا۔ حضرتِ امام ابو یوسف سے”نوادر” میں منقول ہے جب والدین اپنی بیٹی کے پاس جانے پر قادر ہوں تو یہ اپنے والدین کے یہاں نہ جائے اور اس کا شوہر اسے ہر دو ماہ میں جانے کی اجازت مرحمت کرے۔درجِ بالا چاروں صورتوں میں شوہر پر بیوی کو اجازت دینا لازم ہے۔
۔ 5=بیوی حاملہ عورتوں کے پاس جانے والی یعنی دایہ ہو یا مُردوں کو غسل دینے والی ہو یا اس کا دوسروں پر حق ہو، وہ اسے وصول کرنا چاہتی ہو اور یہ وہاں جائے بغیر ممکن نہ ہو یا دوسرے کا اس پر حق ہو اور اس کی ادائیگی اس کے گھر سے نکلے بغیر ممکن نہ ہو تو ان تمام صورتوں میں عورت شوہر کی اجازت و بغیر اجازت گھر سے باہر نکل سکتی ہے اس لیے کہ شریعت و مال کا حق شوہر کے حق پر مقدم ہے۔
۔7=حجِ فرض کے لیے یعنی عورت اذن و بلا اذنِ شوہر نکل سکتی ہے جب کہ محرم کے ساتھ ہو۔
کیا بیوی بغیر اجازت اجنبی کی زیارت و عیادت اور شادی میں جاسکتی ہے؟
ممذکورہ ہفت مقام اور اس کے ملحقات کے سوا اجنبی شخص سےملنے، بیماری میں اس کی عیادت کے لیے اور شادی بیاہ میں عورت کا گھر سے باہر جانا جائز نہیں اور نہ شوہر کو حق ہے کہ وہ اسے اجازت دے؛ اگر عورت بے اذنِ شوہر باہر گئی تو گناہگار ہوگی اور اگر شوہر نےمواضع منہیہ کے لیے اجازت دی اور وہ چلی گئی تو دونوں گناہگار ہوں گے۔
” ادب القاضی” میں ہے کہ شوہر کو یہ حق ہے کہ اپنی بیوی پر اس کے والدین کے علاوہ گھر کا دروازہ بند کردے۔ “السیرالکبیر” اور “ذخیرہ “میں مذہبِ مختار یہ ہے کہ شوہر بیوی کو اس کو والدین و اولاد کے پاس جانے سے روک دے اس حال میں کے اس کے والدین و بھائی بہن اس کی زیارت کے لیے ہر جمعہ کو شوہر کی موجودگی میں اسے دیکھ جایا کریں اور شوہر کو یہ بھی حق ہے کہ اس کے گھر والوں کو اپنی بیوی کے پاس مستقل رہنے سے منع کردے،اسی کو مشائخ نے لیا ہ
عورتوں کے درگاہوں پر حاضری میں ثواب کے بجائے عذاب ہی عذاب!!۔
“کفایۃ الشعبی” میں ہے کہ عورتوں کے قبروں کی زیارت کے لیے جانے کی حاضری کے جواز کے متعلق سوال نہ کیا جائے بلکہ اس نقصان کی بابت ہوچھا جائے جو اس سے ہوتا ہے،اس لیے کہ عورت گھر سے نکلنے کے قصد کے وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے، نکلتے وقت شیاطین اسے ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں
اور جب قبر پر آتی ہے تو مردے کی روح اس پر لعنت بھیجتی ہے اور واپسی میں گھر پہونچنے تک اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی لعنت اس پر ہوتی ہے۔حدیث شریف میں ہے جو عورت قبرستان نکلے تو ساتوں زمین اور ساتوں آسمان کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں تو وہ اللہ کی لعنت میں چلتی ہے اور جس عورت کو بھلائی کی دعوت دی جائے اور وہ اپنے گھر سے نہ نکلے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب عطا فرماتا ہے۔
بیوی کو ادب سکھانے کے لیےشوہر کیا کرے؟
“فتاوی خلاصہ” میں ہے مرد اپنی بیوی کو ایسی چیزوں میں جن میں تعزیر لازم ہو ضرب لگا سکتا ہے، اور “فصولِ استروشنی” میں ہے کہ مرد بیوی کو ادب سکھانے کے لیے مارے، اس سے مباشرت نہ کرے اور اس روز جس دن اس نے شوہر کی نافرمانی کی بیوی کے بستر میں نہ سوے، تاکہ تادیب کا فائدہ باطل نہ ہو، اسی لیے آقائے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :اپنا ڈنڈا بیوی سے اٹھا نہ رکھو اور سونٹا ایسی جگہ لٹکاکر رکھو جہاں سے تمہاری گھر والی اسے دیکھتی رہے ۔
اس جلسے میں جو بدعات وخرافات سے پاک ہو عورت جاسکتی ہے ؟
“فتاوی بزازیہ” میں ہے کہ اگر شوہر نے عورت کو اس وعظ ونصیحت کی محفل میں نکلنے کی اجازت دی جو بدعات وخرافات سے پاک ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور ایسی محفل میں جانے کی اجازت نہ دے جس میں مردوعورت دونوں کا اجتماع ہو اور جس میں برائیاں ہوں جیسے گانا بجانا، یا جہاں مختلف آوازیں بلند ہوں، اور ڈانس پارٹیاں ہوں یہ سب ناجائز ہے نہ یہاں خود جائے اور نہ بیوی کو اجازت دے اور اگر ایسا کر چکا ہے تو فورا اللہ سے توبہ کرے۔
آپ صرف آڈر کریں کتاب گھر تک پہنچ جاے گی ایک بار خدمت کا موقع دیں
عورت کو کوئی دینی مسئلہ درپیش ہو تو کیا کرے؟
۔”فتاوی خلاصہ” میں ہے بیوی کو کوئی دینی مسئلہ درپیش ہو اور کسی عالمِ دین کے پاس جانے کی ضرورت پڑجائے تو اس کا شوہر عالم صاحب سے وہ مسئلہ دریافت کرے اور اسے آکر بتادے کہ اس بارے میں جو تم نے پوچھا یے حکمِ شرعی یہ ہے اور عورت کو گھر سے نکلنےکی قطعا اجازت نہیں ،اور اگر شوہر نہ خود پوچھنے جائے اور نہ ہی کسی کو بھیجے تو اس وقت عورت کو شوہر کی رضا کے بغیر نکلنے کی اجازت ہے اور یہ نکلنا مسئلے کی حیثیت کی طرف نظر کرتے ہوئے کبھی جائز، کبھی مستحب اور کبھی واجب ہوگا، اس لیے کہ فقہ کا ایک ضابطہ ہے “الضرورات تبیح المحظورات” کہ ضرورت ناجائز کو جائز کردیتی ہے۔
عورتوں کا خصوصا کنواری لڑکیوں کا بے پردہ، زیورات سے آراستہ ہوکر اور فیس پاؤڈر لگاکر گھر سے نکلنا گناہ اور جرائم کی اصل بنیاد!!!۔
علامہ ابن الھمام نے فرمایا: جن احوال میں عوتوں کا گھر سے نکلنا جائز ہے تو وہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ بناؤ سنگار نہ کریں، ہیئت و صورت نہ بدلیں مگر صرف اتنی کہ مردوں کو دیکھنے کی خواہش نہ ہو اور نہ ان کا دل ان کی طرف مائل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی”(الاحزاب:33) اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی(کنز الایمان)۔
بیوی نے ناجائز کام کی اجازت مانگی اور شوہر خاموش رہا تو گناہ میں برابر کا شریک ہے
کبھی کبھی شوہر کا معصیت کی اجازت دینا سکوت سے ہوتا ہے اس کا حکم وہی ہے جو قول کا ہوتا ہے، اس لیے کہ برائی سے روکنا فرض ہے سواے اس کے کہ روکنے پرقادر نہ ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَ النِّسَاءَ”(النساء: 34) مرد افسر ہیں عورتوں پر(کنز الایمان)۔
۔ “قہستانی” میں “محیط” سے ہے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کچھ عورتوں نے یہ شکایت کی کہ امیر المومنین حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں مسجد جانے سے روک دیا ہے تو آپ نے فرمایا:کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہ جان لیتے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جان رہے ہیں یعنی اس برائی کو دیکھ لیتے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھ رہے ہیں تو عورتوں کو مسجد آنے کی اجازت نہ دیتے ۔
کتبہ:محمد ایوب مصباحی
استاذ دارالعلوم گلشنِ مصطفی
بہادر گنج، سلطانپور، ٹھاکردوارہ، مراداباد، یوپی، ہند
اس سے پہلے کے قسطوں کے لیے کلک کریں
آن لائن شاپنگ کے لیے نیچے دیے گیے لنکوں پر کلک کریں