Saturday, July 20, 2024
Homeنعتقصیدہ معراج

قصیدہ معراج

قصیدہ معراج شریف امام العاشقین ،زبدۃ العارفین ،سند المحققین ،شیخ الاسلام والمسلمین ،مجدد ماۂ ماضیہ ،مؤید ملتِ طاہرہ ، واقفِ رموز شریعت ، امام ارباب طریقت ، امام الکلام کلام الامام امام اہل سنت اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے اس قصیدے کو حضور سلطان الانبیاء علیہ افضل الصلوۃ والثناء تہنیت شادی اسراء کے نام نذر کیا ہے۔قصیدہ معراج بذاتِ خود فکر وفنکار کا عظیم شہکار ہے یہ قصیدہ معراج روانی وتسلسل اور زبان کی لطافت وپاکیزگی کے اعتبار سے معاصرین کے معراجیۂ قصائد میں سب سے بلند وبالا ہے۔

وہ سرور کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نِرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے

بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک

مَلک فَلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے

وہاں فَلک پر یہاں زمیں پر رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں

اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفخات اٹھ رہے تھے

یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی

وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نَصب آئینے تھے

نئ دُلھن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نِکھرا

حجر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے

خوشی کے بادل امنڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے

وہ نغمۂ نعت کا سَماں تھا حرم کو خود وَجد آرہے تھے

یہ جھوما میزاب زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر

پھوہار برسی تو موتی جھڑکر حطیم کی گود میں بھرے تھے

دُلھن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے

غلافِ مشکیں جو اُڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے

غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اُس رَہ گزر کو پائیں

ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پَر جہاں بچھے تھے

خدا ہی دے صبر جانِ پر غم دکھاوں کیوں کر تجھے وہ عالم

جب ان کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولھا بنا رہے تھے

اتار کر ان کے رُخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا

کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

وہئ تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے

نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے

بچا جو ان کے تلوؤں کا دھون بنا وہ جنت کا رنگ وروغن

جنھوں نے دولھا کی پائ اُترن وہ پھول گلزار نور کے تھے

خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رُت سُہَانی گھڑی پھرے گی

وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے

جو ہم بھی واں تھے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لپٹے اُترن

مگر کریں کیا نصیب میں تو نامرادی کے دن لکھے تھے

اٹھی جو گردِ رِہ مُنوّر وہ نور برسا کہ راستے بھر

گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل امنڈ کے جنگل ابل رہے تھے

براق کے نقشِ سم کے صدقے و گل کھلائے کے سارے راستے

مہکتے گلبن ہرے بھرے لہلا رہے تھے

نماز اقصیٰ میں تھا یہی سِرّ عیاں ہوں معنیٰ اول آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شئ کی ہو رہا تھا

نجوم وافلاک جام ومینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے

چلا وہ سروِ چماں خراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں

پلک جھپکی رہی وہ کب کے سب این وآں سے گزر چکے تھے

مزید نعت شریف یا دیگر مضامین پڑھنے کے لئے دیکھیں

تھکے تھے روح الامیں کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو

رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے

سنا یہ اتنے میں عرشِ حق نے کہ لے مبارک وہ تاج والے

وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج شرف تیرے تھے

جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزم بالا

یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا وہ گرد قرباں ہو رہے تھے

یہی سَماں تھا کہ پیکِ رحمت خطر یہ لایا کہ چلیے حضرت

تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے

بڑھ اے محمد قریں ہو احمد قریب آ سرور مُمجّد

نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سَماں تھا یہ کیا مزے تھے

تبارك اللّه شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی

رکیں تو وہ جوش لَن تَرَانِی کہیں تقاضے وصال کے تھے

بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے

جو قرب انھیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے

پڑ ان کا بڑھنا تو نام کا تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا

تَنزلوں میں ترقی افزا دَنیٰ تَدَلّٰے کے سلسلے تھے

اٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے کوئ خبر دے تو کیا خبر دے

قصیدہ معراج سے متعلق مزید پڑھیں

وہاں تو جا ہی نہیں دُوئ کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے

حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے

عجب گھڑی تھی کہ وصل وفرقت جنم کے گلے ملے تھے

زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں

بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے

وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاھر

اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے

کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو تم اول آخر کے پھیر میں ہو

محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے

زبان کو انتظارِ گفتن تو گوش کو حسرتِ شنیدن

یہاں جو کہتا تھا کہہ لیا تھا جو بات سنی تھی سن چکے تھے

سرور مَقدَم کی روشنی تھی کہ تابشوں سے مہہِ عرب کی

جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے

خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کر کے

ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدل کہ نور کے تڑکے آ لیے تھے

نبی رحمت شفیع امت ! رضاؔ پہ للّه ہو عنایت

اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

  1. I, Azhar Raja, write my own na’ats and recite na’at of other writers, as well. Life is nothing without the love for Allah and His Nabi Pak (SAWS). May Allah give us enough strength and power to spread the love of Rasul Pak (SAWS) to every person on this planet.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن