Friday, November 15, 2024
Homeشخصیاتسرکار غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی دریا دلی قسط دوم

سرکار غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی دریا دلی قسط دوم

تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی سرکار غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی دریا دلی قسط دوم  قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں

سرکار غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی دریا دلی قسط دوم

تیسرا واقعہ: شیخ طلحہ بن مظفر رحمۃ اللہ علیہ سرکارِ غوثِ اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا یہ ایمان افروز واقعہ بیان فرماتے ہیں :قیامِ بغداد کے دوران ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کو بیس دنوں تک کھانے کے لیے کوئی مباح چیز میسَّر نہ آئی ،آپ اِیوانِ کِسرٰی کے کھنڈرات کی جانب چل پڑے کہ شاید وہاں کوئی مباح چیز مِل جائے ۔

جب وہاں پہنچےتو دیکھا کہ ستَّر اولیاء اللہ مباح چیز کی تلاش میں پہلے ہی سے وہاں موجود ہیں آپ نے اُن کے راستے میں مزاحم ہونا مناسب نہیں سمجھا اور بغیر کچھ تلاش کیے ،اپنی بھوک پر صبر کرتے ہوئے بغداد کی جانب چل پڑے ۔ راستے میں جیلان کے ایک شخص سے ملاقات ہوئی ، دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ وہ آپ ہی کو تلاش کر رہا ہے ۔

اُس نے نام و پتہ دریافت کرنے کے بعد اللہ عز وجل کا شکر ادا کیا اور آپ کو سونے کے چند سکے دے کر کہا : یہ سکے جیلان سے آپ کی والدۂ محترمہ نے آپ کے اخراجات کے لیے بھیجے ہیں،میں کئی دنوں سے آپ کو تلاش کر رہا تھا،خدا کا شکر ہے کہ آج مَیں بارِ امانت سے سبک دوش ہوا ۔

رقم ملنے کے بعد آپ نے اللہ عز وجل کی حمد بیان کی ،اُس میں سےچند سکے اپنے لیے مختصّ کیےاور ما بقی رقم لے کر ،تیز قدموں کے ساتھ ایوانِ کسریٰ کے کھنڈرات کی طرف چل پڑے۔وہاں پہنچ کر،اُن اللہ والوں کوجمع کیا اور اُن کی خدمتِ اقدس میں نذرانہ پیش کیا ۔

اُنھوں نے دریافت کیا کہ یہ رقم کہاں سے لائے ؟ آپ نے فرمایا: بالکل حلال و طیب ہے ،میری والدۂ محترمہ نے جیلان سے میرے لیے بھیجی ہے ؛ مگر میں نے مناسب نہ سمجھا کہ تنہا کھاؤں ، اِس لیے آپ حضرات کی بارگاہ میں لے آیا؛ تاکہ آپ لوگ بھی اپنے کھانے کا بندوبست کر سکیں۔ یہ سن کرانھوں نے وہ رقم قبول فرما لی ۔

بعدہٗ سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ بغداد تشریف لائے ، اپنے پاس موجود اُن چند سکوں سے اپنے لیے کھانا خریدا ؛ مگر اُسے بھی تنہا کھانا گوارا نہ کیا ، فقرا و مساکین کی بھوک آپ کو تڑپانے لگی ، فوراً اعلان کیا کہ جو شخص بھی بھوکا ہے ،میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو جائے ۔

اُس وقت آپ کےقرب وجوار میں ایسے بہت سے فقرا و مساکین تھے جو کئی کئی دنوں کے فاقے سے تھے ؛ مگر غیرت و حمیت اُنھیں لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے روک رہی تھی ، اُنھوں نے جب آپ کی صداے دل نواز سنی تو فوراً لبیک کہتے ہوئےلپکے اور آپ کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف حاصل کیا ۔[قلائد الجواہر ، ص۹:۔سیرتِ غوثِ اعظم ، ص۴۱:]  ۔

 شکم سیری اور آسودگی کی حالت میں دوسروں پر خرچ کرنا کوئی خاص کمال کی بات نہیں سمجھی جاتی ؛ مگر فقر و محتاجی اور سخت بھوک کی کیفیت برداشت کرتے ہوئے سب کچھ فقیروں پر لٹا دینا اور تمام کھانا اللہ عز وجل کے بھوکے بندوں کو کھلا دینا واقعی بڑی ہمت کا کام اور کمالِ ایمان کی دلیل ہے ۔یہ مقام صرف اللہ عز وجل کے مقرَّب بندوں کو حاصل ہوتا ہے۔

علی العموم ہوتا یہ ہے کہ بھوکا انسان کھانا ملنے کے بعد پہلے خود اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے ،تب کہیں دوسروں کا خیال آتا ہے۔ اِسی طرح ہمارا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ فقر و اِفلاس کے حالات سے گزرنے والا ،رقم پاکر اُسے اپنے لیے جمع کر لیتا ہے ؛ تاکہ اس طرح کے زَہرہ گداز حالات سے دوبارہ دوچار نہ ہونا پڑے ۔

مگر سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شانِ سخاوت کو سلام ! کہ بیس دنوں کے فاقے کے باوجود اپنا پیٹ بھرنا گوارا نہ کیا ؛ بلکہ  پہلے اُن ستر اللہ والوں کے کھانے کا اہتمام کیا جو ایوانِ کسریٰ کے کھنڈرات میں رزقِ حلال کی تلاش میں سر گرداں تھے

اُس کے بعد جب ما بقی رقم سے اپنے لیے کھانا خریدا تو اُسے بھی اکیلے اکیلےکھانا گوارا نہ کیا؛ بلکہ قرب و جوار کے فقیروں کو بلا کر اُن کے ساتھ مل بانٹ کر تناول فرمایا اور مستقبل کی پرواہ کیے بغیر ، اللہ عز وجل پر مکمل اعتماد رکھتے ہوئے وہ ساری رقم ایک ہی دن میں راہِ خدا میں خرچ کر ڈالی جو کئی مہینوں کے اخراجات لیے کافی تھی ۔

ہمارے امام سرکارِ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نےکیا ہی خوب کہا ہے

کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی القاسم ہے

کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا

چوتھا واقعہ: ابو بکر تمیمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :دورِ طالبِ علمی میں ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کے کئی دن فاقے سے گزر گئے، بھوک سے نڈھال ہو کر ،کسی حلال و طیب چیز کی تلاش میں ، بغداد کی مشہور منڈی ’’سوق الریحانیین ‘‘ تشریف لےگئے ،جب شدتِ ضعف کے سبب سر چکرانے لگا تو لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ قریب ہی کی ایک مسجد میں داخل ہوکر اُس کے ایک گوشے میں تشریف فرما ہو گئے ۔

تھوڑی دیر کے بعد اُس مسجد میں روٹیوں اور بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ ایک عجمی شخص داخل ہوااور ایک گوشے میں بیٹھ کر کھانا تناول کرنے لگا ۔اُس وقت غوثِ پاک پر بھوک کی شدت اِس قدر غالب تھی کہ وہ شخص جب لقمہ کھانے کے لیے اپنا منہ کھولتا تو بے ساختہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس منہ بھی کھل جاتا اور آپ کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ لقمہ آپ کے منہ میں آ جائے۔

بالآخر آپ نے اپنے نفس کو ملامت کرتے ہوئے کہا : بے صبر مت بن،آخر توکُّل بھی تو کوئی شے ہے ۔یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ اُس شخص کی جانب سے بالکل بے پرواہ ہو گیے ۔جب اُس اجنبی کی نظر آپ کے رخِ زیبا پر پڑی تو اُس نے آپ کو بھی کھانے کے لیے مدعو کیا ، آپ نے اولاً انکار کیا

مگر جب اُس نے شدید اصرار کیا تو مجبور ہو کر کھانے میں اُس کے ساتھ شریک ہو گئے۔دروانِ گفتگو اُس نے حضرت کا تعارف دریافت کیا ، آپ نے بتایا کہ میں جیلان کا رہنے والا ہوں ، یہاں علمِ دین حاصل کر رہا ہوں ، مجھے لوگ ’’عبد القادر جیلانی‘‘ کہتے ہیں ۔

یہ سنتے ہی اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ زارو قطار رونے لگا اور رِقَّت آمیز لہجے میں کہنے لگا کہ حضور ! میں نے آپ کی امانت میں خیانت کی ہے ؛ لہذا آپ مجھے معاف فرما دیں !آپ نے فرمایا: کیسی امانت اور کس طرح کی خیانت ؟ کچھ وضاحت کرو ! اُس نے کہا :میں جیلان سے آیا ہوں ، چلتے وقت آپ کی والدۂ محترمہ نے مجھے آٹھ دینار دیے تھے اور کہا تھا کہ یہ دینار میرے بیٹے عبد القادر تک پہنچا دینا جو کہ بغداد میں علمِ دین حاصل کر رہا ہے ۔

حضور ! میں یہاں آیا اور مسلسل کئی دنوں تک آپ کو تلاش کرتا رہا ؛ مگر آپ سے ملاقات نہ ہو سکی ،آپ کی تلاش و جستجوکے سبب یہاں میرا قیام طویل ہو گیا ، جس کے سبب میری ذاتی رقم بالکل ہی ختم ہو گئی ۔اب فاقوں کی نوبت آ گئی ، شروع کے چند دنوں تک، بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہوئے، میں تمھیں تلاش کرتا رہا  ؛ تاکہ امانت آپ کے حوالے کر دوں ؛ مگر جب آپ کا کوئی سراغ نہیں ملا تو آج بھوک سے مجبور ہو کر ، آپ کی رقم سے یہ بھنا ہوا گوشت اور روٹیاں لایا ہوں ، جسے ہم دونوں مل کر تناول کر رہے ہیں ۔

حضور ! یہ کھانا میرا نہیں ؛ بلکہ آپ کا ہے ، آپ میرا نہیں ؛بلکہ میں آپ کا کھانا کھا رہا ہوں ، مہمان آپ نہیں ؛ بلکہ میں ہوں ۔ حضرت ! مجھ سے خیانت سرزد ہو گئی ہے ، آپ خدا کے لیے مجھے معاف کر دیں ۔ اُس کی گفتگو سن کر آپ نے اُسے گلے سے لگایا ، اُس کے حسنِ نیت کی تعریف کی ، بچا ہوا کھانا اُس کے حوالے کیا اور کچھ دینار دے کر ، انتہائی خوشی کے ساتھ اُسے روانہ فرمایا اور وہ رقم فقرا و مساکین میں تقسیم فرما دی ، حالاں کہ وہ دینار کئی مہینوں کے اخراجات کے لیے کافی تھے ۔[قلائد الجواہر ، بحوالہ سیرتِ غوثِ اعظم ، ص۴۲:،۴۳]۔

    اِس واقعے میں بھی سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبۂ عفو و در گزر، شانِ جود و سخاوت اور وصفِ غربا پروری و دریا دلی کے انوار پوری آن بان شان کے ساتھ اپنا جلوہ بکھیر رہے ہیں ۔

اِن کے علاوہ بھی آپ کے ایسے متعدد واقعات ہیں جو مسلمانانِ عالم کو انسانیت و رواداری اور جذبۂ ایثار کی ترغیب ،نیز حُبِّ مساکین و فقرا کا درس دے رہے ہیں ۔آج المیہ یہ ہے کہ ہم نے اہم اور لا بُدِّی [ضروری]چیزوں کو چھوڑ کر غیر ضروری کاموں کو اختیار کرلیا ہے ۔

کچھ لوگ ہر سال گیارویں کے نام پر پچاس پچاس ڈیگیں بنواکر اپنے احباب اور رشتے داروں کو کھلا تے ہیں ، جب اُن کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ایک سال، سرکارِ غوثِ اعظم کے نام پر، اُسی رقم سے،کسی غریب اسلامی بہن کی شادی کا اہتمام کر دیں تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں ۔خود کو غوثِ پاک کا غلام کہنے والے

اہلِ ثروت حضرات میں سے بعض قادری فقیر ایسے بھی ہیں کہ جب اُن سے کہا جاتا ہےکہ آپ اِس سال ، گیارہویں شریف کے موقع سے،حضور غوثِ پاک کے نام پر ،کسی غریب مسلمان کو کسی مناسب کاروبارمیں لگا دیں تو اُن کی سٹی پٹی گم ہو جاتی ہے ۔

یہ ہے ہماری قوم کے نادانوں کا حال ۔ایسے حالات میں ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟۔

آج کم نصیبی سے مسلمان دنیا کے ہر شعبے میں دیگر قوموں سے بہت پیچھے ہو چکے ہیں ، سرکارِ اعظم رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والے صاحبانِ مال و زَر اگر ہر سال ،صرف گیارہویں کے مہینے میں ،اللہ عز وجل کی رضا جوئی کے لیے، پیران ِپیر کے نام سے اپنی دولت کا کچھ حصہ ،اپنی قوم کے لیے نکال دیں تو کافی حد تک بہتری آ سکتی ہے اور کئی شعبے ترقی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں

بشرطے کہ حسنِ تنظیم سے کام کیا جائے ۔خلاصۂ کلام یہ کہ سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دریا دلی اور شانِ جو د و سخاوت کا عشرِ عشیر حصہ بھی اگر آج ہمیں حاصل ہو جائے تو ہمارے بہت سے مسائل چٹکیوں میں حل ہو سکتے ہیں اور ہمارے معاشرے سے غربت و افلاس کا جنازہ بھی نکل سکتا ہے ۔

اللہ رب العزت ہمیں توفیقِ خیر سے مالا مال فرمائے ۔آمین بجاہ سید المرسلین محمد المصطفیٰ الصادق الامین ﷺ

تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ
من جانب: نورِ ایمان اسلامک آرگنائیزیشن کرلا ویسٹ ممبئی 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن