Monday, November 18, 2024
Homeاحکام شریعتمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط یازدہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط یازدہم

تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط یازدہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

کفرکلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں

سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ فتویٰ تکفیرمیں ہرایک کو تحقیق کا حق ہے ،یعنی انکار کا حق ہے ،اور انکار کی چند صورتیں بھی بیان کی جاتی ہیں؟

جواب : آج کل بعض لوگوں نے تحقیق کو انکار کا مرادف قرار دے دیا ہے ۔ اگر دیگر متکلمین کو بلا سبب کفر کلامی کے انکار کا حق حاصل ہوجائے تو ’’من شک فی کفرہ فقد کفر ‘‘کا مفہوم ہی باطل ہو جائے گا ۔

یہ بات صحیح ہے کہ جس کو کافرکلامی کے کفرکا علم نہ ہو،وہ عدم علم کے وقت اس کے کفر کا انکار کردےتو وہ معذور ہے ،جیسے عدم علم کے وقت کسی نے ضروری دینی کا انکار کر دیا تومعذور ہے ،لیکن علم ویقین کے بعد بھی انکار ہی پرقائم رہا تو حکم کفر اس پرعائد ہوگا ۔

شریعت ،عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی ۔اگر دیگر متکلمین کوحق انکار حاصل ہوجائے تو ایک ہی ملزم کسی کے یہاں قطعی بالمعنی الاخص طور پر کافر ہوگا کہ ایمان کا ذرہ برابراحتمال بھی نہ ہوگا،اورکسی کے یہاں مومن ہوگا اور ایمان وکفر دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور مذکورہ صورت میں ایک ہی جگہ ایمان وکفر کا قطعی طورپر پایا جانا لازم آتا ہے، اوریہ اجتماع ضدین ہے۔

نیزباب اعتقادیات میں دوقول حق نہیں ہو سکتے ،پس یقینی طورپر ایک باطل ہوگا ۔ہاں ،فقہ کے اجتہادی مسائل میں ایسے متضاد اقوال کو حق تسلیم کیا جاتا ہے ،کیوںکہ وہ ظنی امورہیں اور وہاں دونوں قول کوکسی ایک میں احتمال خطاکے ساتھ ظنی طورپر حق تسلیم کیا جاتا ہے۔مجتہد صواب وخطا دونوں صورت میں اجر کا حقدار ہوتا ہے۔

قال التفتازانی:(لان المخطئ فی الاصول والعقائد یعاقب،بل یُضَلَّلُ اَوْ یُکَفَّرُ-لان الحق فیہا واحد اجماعًا-والمطلوب ہو الیقین الحاصل بالادلۃ القطعیۃ-اذ لایعقل حدوث العالم وقدمہ وجواز رویۃ الصانع وعدمہ-فالمخطئ فیہا مخطئ ابتداء وانتہاء)۔

(التلویح حاشیۃ التوضیح جلددوم ص121)

تکفیر کلامی کے انکار کی تین صورتیں

سوال : بعض اہل علم کا قول ہے کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ جاری ہونے کے بعد بھی کسی عالم و مفتی کو کلام ، تکلم یا متکلم میں کوئی احتمال نظر آیا تو وہ کفر کلامی کا انکار کر سکتا ہے ،اور “من شک فی کفرہ فقد کفر‘‘کا حکم اس پر وارد نہیں ہو گا؟

جواب :اگر کلام،متکلم یا تکلم میں احتمال ہو گا تو کفر کلامی کا فتویٰ ہی جاری نہیں ہو گا۔

اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ مفتی اول کے لیے ساری جہات محتملہ یقینی ہو گئی تھیں تو اس نے قائل پرکفر کلامی کا فتویٰ دیا،لیکن بعد کے مفتی کے لیے جہات ثلاثہ یعنی کلام یا تکلم یا متکلم میں سے کسی جہت میں کوئی احتمال پیدا ہو گیا تو اس مفتی ما بعد کو کفر کے انکار کا حق حاصل ہو گا تو یہ بھی غلط ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب تحقیق کامل کے بعد ملزم پر فتویٰ عائد کیا جا چکا ہے تو اب دوبارہ فتویٰ دینے کی ضرورت کیا ہے ؟

اگرکسی مفتی کو تکفیر کلامی کے صحیح فتویٰ کے بعد جہات ثلاثہ میں سے کسی جہت میں کوئی احتمال نظر آتا ہے تو یہ اس کی لاعلمی کے سبب ہے ،ورنہ وہ احتمالی جہت بھی یقینی ہے ،کیوں کہ تکفیر کلامی کا وہ فتویٰ صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔

اب اس لاعلمی کے سبب مفتی مابعدکو انکار کا حق نہیں ہوگا ،بلکہ اس احتمال کودور کرنے کے واسطے مفتی اول سے دریافت کرے ،یا اہل علم سے رجوع کرے ۔لاعلمی کی صورت میں عالم وجاہل سب کے لیے ((فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون ))کا حکم ہے۔

تفصیلی جواب درج ذیل ہے۔

کلام میں احتمال

کلام میں احتمال کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ کلام کفری معنی میں مفسر نہیں،کیوں کہ مفسر میں احتمال بالدلیل یا احتمال بلا دلیل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ایسی صورت میں مفتی اول کا فتویٰ،کفر کلامی کا فتویٰ نہیں ہو گا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کلام میں کوئی احتمال پہلے تھا،لیکن وہ احتمال بیان متکلم سے دور ہو گیا۔اس سبب سے مفتی اول نے کفر کلامی کا فتویٰ جاری کر دیا۔اب بعد کے مفتی کو ملزم کا قول مل گیا

لیکن اس کا بیان نہیں مل سکا جس سے وہ کلام کفری معنی میں مفسر ہو گیا تھا تو چوں کہ اس مفتی مابعد کو یہ معلوم ہے کہ ملزم کے بیان کے سبب اس کا کلام کفری معنی میں متعین ہو چکا ہے

لیکن اسے یہ بیان تواتر کے ساتھ نہیں مل سکا،یا بالکل معلوم ہی نہ ہو سکا تو اسے عدم علم کے سبب فتویٰ دینے کا حق نہیں ہو گا اور چوں کہ اسے معلوم ہے کہ اس ملزم پر کفر کلامی کا فتوی تحقیق صحیح کے بعد نافذ کیا گیا تھا تو اس پر اس فتویٰ کو ماننا لازم ہو گا،کیوں کہ کفر کلامی کے فتویٰ کے سبب اس ملزم کو کافرماننا ضروریات دین میں سے ہوگیا ۔ضروری دینی کے علم یقینی کے بعد اس کا انکارکفر کلامی ہے۔

احتمالی جہت کی قطعیت سے لاعلمی کے سبب مفتی ما بعد سائل کی منزل میں ہو گا،نہ کہ مفتی کی منزل میں۔
(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون) میں عدم علم کے سبب سوال کا حکم عائد ہواہے،نہ کہ لاعلمی کے سبب کسی کو فتویٰ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

تکلم میں احتمال

اگر بعد کے مفتی کو تکلم میں احتمال پیدا ہو گیا،کیوں کہ اسے تواتر کے ساتھ وہ قول نہیں مل سکا،بلکہ خبر واحد سے موصول ہوا تو بھی اسے انکار کا حق نہیں۔

عہد صدیقی میں چار لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔مسیلمہ کذاب، اسود عنسی،سجاح اور طلحہ بن خویلد اسدی نے۔ان چارمیں سے طلحہ اور سجاح نے توبہ کرکے قبول اسلام کر لیا۔

مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے توبہ نہ کیا۔یزیدی عہد میں مختار ثقفی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔عبد الملک بن مروان کے زمانے میں حارث دمشقی نے نبوت کا دعوی کیا۔آج تک بہت سے لوگ نبوت کا دعویٰ کرچکے ہیں ۔

حدیث نبوی میں تیس دعویداران نبوت کا ذکرآیا ہے۔ان میں سے بہت سے لوگ ظاہر ہو چکے ہیں۔ نبوت کے دعویداروں میں سے ہرایک کو ہم نام بنام مرتد مانتے ہیں،لیکن آج ان کے اقوال ہمیں تواتر کے ساتھ نہیں ملتے۔

کسی مفتی نے یہ کہہ کر کفر کا انکار نہیں کیا کہ اسود عنسی یا مسیلمہ کذاب کا دعویٰ نبوت والا قول مجھے تواتر کے ساتھ نہیں مل سکا،اس لیے میں اسود عنسی یا مسیلمہ کذاب کو کافر نہیں مانتا۔

دراصل یہ ضرور مروی ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا،اس لیے ان کو کافر قرار دیا گیا،لیکن ان مدعیان نبوت کا وہ قول تواتر کے ساتھ مروی نہیں جس قول کی بنیاد پر ان لوگوں کو کافر قرار دیا گیا۔

یہ تحقیق اس مفتی کو کرنی ہے جس نے اس کو مرتد قرار دیا۔جب تحقیق صحیح کے بعد معتمد مفتی نے کسی پر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ دے دیا ۔ اس عہد کے اہل حق نے اس کو جانچ پرکھ کر دیکھ لیا اور اسے تسلیم کر لیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تکفیر کے لیے جو شرطیں ضروری ہیں،وہ شرائط موجود و متحقق تھے۔

آج کسی مفتی کے لیے تمام شرائط متحقق نہ ہو سکے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شرائط متحقق ہیں،لیکن اس مفتی ما بعد کے پاس وہ وسائل نہیں کہ تمام شرائط کی کامل تحقیق کرسکے تو لا علمی کے سبب اس مفتی کو فتویٰ کا حق نہیں ہو گا ۔

ایسا نہیں کہ اس کوثابت شدہ فتویٰ کے انکار کا حق ہو گا۔یہ مفتی لا علمی کے سبب سائل کی منزل میں ہو گا، جس طرح عام مومنین عدم علم کے سبب سائل کی منزل میں ہوتے ہیں۔

فتویٰ کے شرائط میں یہ ہے کہ مفتی کو اس کا علم ہو جس بارے میں وہ فتوی دے رہا ہے۔جس ثابت شدہ امر کا علم نہیں ہے،اس بارے میں وہ فتویٰ نہیں دے سکتا۔

سوال :جب قائل کا قول تواتر کے ساتھ بعد کے مفتی کو نہیں مل سکا تو وہ اس کو کافر کیسے مانے گا؟

جواب :عہد صدیقی اور ما بعد کے مدعیان نبوت کے اقوال آج کے مفتیان کرام کو تواتر کے ساتھ نہیں مل سکے، اس کے باوجود ان مدعیان نبوت کے کفر کا منکر خود کافر ہے،کیوں کہ عہد تحقیق میں ان کا کفر ثابت ہو چکا ہے اور ان پر کفر کلامی کا حکم صادر ہو چکا ہے۔

اگر کوئی مفتی کفر کلامی کے اس فتوی کا انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عہد ماضی میں خطا پر امت کا اجماع ہو گیا تھا،حالاں کہ خطا پر امت مسلمہ کا اجماع شرعا محال ہے۔

سوال : ضروری دینی کا علم تواتر کے ساتھ نہ ہو سکے تو اس کے انکار پر حکم کفر عائد نہیں ہوتا ہے تو اس مفتی ما بعد پر ’’من شک فی کفرہ فقد کفر ‘‘کا حکم عائد نہیں ہونا چاہئے،کیوں کہ اس کو ملزم کا قول تواتر کے ساتھ نہیں مل سکا؟

جواب : جب اس ملزم پر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ عائد ہوا تھا تو اس کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہو گیا۔جب مفتی ما بعد تک اس ملزم کے کافر ہونے کا قول تواتر کے ساتھ موصول ہوا تو مفتی ما بعد کو ضروری دینی کاعلم تواتر کے ساتھ ہو گیا۔اب اس پر لازم ہے کہ اس ملزم کو کافر مانے۔انکار کی صورت میں من شک فی کفرہ فقد کفر کا حکم عائد ہو گا۔

اگر ملزم کا کفری قول اسے تواتر کے ساتھ معلوم نہیں ہو سکا تو وہ فتویٰ نہیں دے گا،کیوں کہ کفر کلامی کا فتویٰ نافذکرنے کے لیے قائل کا قول مفتی تک تواتر کے ساتھ پہنچنا ضروری ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ملزم خود مفتی کے سامنے اپنا کفری کلام بولے ،یا اقرار کرے کہ وہ کلام ہمارا ہے ۔

مفتی ما بعد عدم علم کے سبب فتویٰ نہیں دے سکتا ہے،لیکن اس پر اس ملزم کو کافر ماننا لازم ہے،جیسے غیر عالم فتویٰ نہیں دے سکتاہے،لیکن اس پر کافر کلامی کو کافر ماننا لازم ہے۔

متکلم میں احتمال

اگر بعد کے مفتی کو متکلم میں احتمال پیدا ہو گیا،کہ متکلم نے ہوش وحواس میں اپنے قصد ورضا سے وہ کلمات کہے تھے ،یا حالت نشہ یانیند میں ،یا کسی کے جبر واکراہ کے سبب ،یا کہنے کے بعدتوبہ کرلی تھی یا نہیں ؟

مشہور قاعدہ کلیہ ہے :الیقین لایزول بالشک ۔جب اس کا کفر ثابت ہے اور اس کی توبہ کی کوئی خبر ہی نہیں تو محض توبہ کے امکان کے سبب ثابت شدہ کفر زائل نہیں ہو گا۔

اسی طرح اگر وہ ہوش وحواس میں نہ کہا ہوتا تو اپنے قول کی تاویل نہیں کرتا,بلکہ ہوش آنے پر اس کو تبدیل کرتا۔

اگر جبر کے سبب کہتا تو جبر ختم ہونے کے بعد اس کا اظہار کرتا۔محض تخمین واندازہ کے سبب ثابت شدہ کفر زائل نہیں ہوتاہے۔

جہات محتملہ کی قطعیت میں اختلاف کی گنجائش نہیں

جب کفر کلامی ثابت ہوچکا تواس کا مطلب یہ ہوا کہ مجرم ایسا قطعی کافر ہے کہ اس کے مومن ہونے کا احتمال بلادلیل بھی باقی نہیں ۔ اب کوئی اسے مومن کہتا ہے توگویا کسی قطعی کافر کومومن کہتا ہے۔

اسی حقیقت کی تفہیم کے لیے کہا جاتا ہے ۔’’من شک فی کفرہ فقد کفر‘‘-کفر کلامی کا حکم اسی وقت جاری ہوتا ہے ،جب تمام جہات محتملہ قطعی بالمعنی الاخص ہوجائیں اور قطعی بالمعنی الاخص میں عوام وخواص کسی کا اختلاف نہیں ہوتا ،اور قطعی بالمعنی الاعم میںعلما کا اختلاف نہیں ہوتا۔

کسی محقق کوکسی جہت محتملہ میں کوئی شبہہ ہے تو مفتی اول یا دیگر اہل علم سے دریافت کرے ،جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکات کے خلاف حکم جہاد جاری فرمایا تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا شبہہ پیش فرمایا اور شبہہ ختم ہونے کے بعد حکم صدیقی کوتسلیم فر مایا ۔ذیل کی عبارت میں قطعی کی حیثیت پرغور کیا جائے۔

امام احمدرضاقادری نے فرض اعتقادی کے بارے میں تحریرفرمایا

(اَلْاَمْرُالَّذِیْ اَذْعَنَ الْمُجْتَہِدُ طَلَبَہ جَزمِیًّا وَحَتْمِیًّا-فان کان ذلک الاذعان فی درجۃ الیقین المعتبرفی اصول الدین-وعلٰی ذلک التقدیرلا تکون المسئلۃ الامجمعًا عَلَیْہَا بین ائمۃ الدین-لان ما فیہ خلافٌ وَلَوْ مَرْجُوْحًا لاَیَصِلُ الٰی دَرجۃ ہذا الیقین-فہو فرض اِعْتِقَادِیٌّ -وَمُنْکِرُہ کَافِرٌ مُطْلَقًا عِنْدَ الْفُقَہَائِ وَکَافِرٌ عند المتکلمین اذا کَانَتِ الْمَسْئَلَۃُ من ضروریات الدین-وَاِنَّمَا ہٰذَا اَحْوَطُ وَاَسَدُّ عند المحققین وَمُعَوَّلٌ وَمُعْتَمَدٌ عِنْدَ اَسَاتِذَتِنَا الْکِرَام)۔

(فتاویٰ رضویہ جلد اول :ص6-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح :جب فرض اعتقادی میں ائمہ کرام کا اختلاف نہیں ہوتاہے تو تکفیرکلامی میں بدرجہ اولیٰ اختلاف نہیں ہوگا ، کیوں کہ فرض اعتقادی قطعی بالمعنی الاعم ہوتاہے،اورتکفیر کلامی میں تمام جہات مجتملہ قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں۔

جب قطعی بالمعنی الاعم میں اہل علم کا اختلاف نہیں ہوتا ہے تو قطعی بالمعنی الاخص میں کیسے اختلاف ہوسکتا ہے ؟

ضروری دینی کا علم ظنی ہوتو اسے ماننے کا حکم

سوال :عہد ماضی کے کسی کافرکلامی کے کافرہونے کی خبر واحد سے موصول ہوتو ملزم کو مومن سمجھے یا کافر؟

جواب : شریعت اسلامیہ میں صرف خبر متواتر ہی معتبر نہیں ،بلکہ خبر واحد پر بھی عمل ہوتا ہے ،گرچہ وہ ظنی ہوتی ہے اور خبر متواتر قطعی اور یقینی ۔بے شمارفقہی اورظنی احکام کا ماخذخبر واحد ہے ۔

اسی طرح کسی کافرکلامی کے کافر ہونے کا علم خبرواحد کے ذریعہ ہوا تو اسے کافرماننا ہوگا ۔ہاں ، اس کے انکار پر حکم کفر نہیں ہوگا ،کیوں کہ اس کی متواتر روایت موصول نہیں ہوسکی ۔جب منکر کو اس کی تکفیر کلامی کی متواتر روایت مل جائے تو اس کا انکار کفر ہے۔

الحاصل کافر کلامی کو کافرماننا ضروریات دین میں سے ہے اورضروری دینی کا ظنی علم ہوتو بھی اسے ماننا ہے ، گرچہ ظنی علم کی صورت میں انکار پرحکم کفر عائدنہیں ہوگا ۔

ضروری دینی کا علم قطعی ہوتو اسے ماننا فرض قطعی

جس وقت کسی مومن کو آیات متشابہات کے بارے میں قطعی علم ہوگیا کہ یہ قرآن مجید کی آیات مقدسہ ہیں،اسی وقت سے ان کو آیت قرآنی ماننا ضروری دینی ہوگیا ۔آیات متشابہات کا معنی حقیقی تو ہرگز سمجھ میں نہیں آئے گا ،کیوں کہ بندوں کو متشابہات کا علم نہیں دیا گیا ، لیکن قرآن مجید ہی میں ان آیتوں پر ایمان کا حکم دیا گیا ۔

اس سے قطعی طورپر واضح ہوگیا کہ ایمان کے لیے اس ضروری دینی کے مفہوم کاعلم ضروری نہیں ،بلکہ اس کے ضروری دینی ہونے کاقطعی علم ہونا ضروری ہے۔

اسی طرح کسی کو یہ علم یقینی حاصل ہوگیا کہ اشخاص اربعہ کافر کلامی ہیں یعنی ایسے کافر ہیں کہ ان کوکافرماننا ضروری دینی ہے ،مثلاً بہت سے علما ئے معتمدین نے بتادیا کہ اشخاص اربعہ کافرکلامی ہیں اور کافرکلامی کو کافرماننا ضروری دینی ہے تواب اس امر کا ضروری دینی ہونا اس کے لیے متواتر ہوگیا ،اوراسے اس بات کا یقینی علم ہوگیا تو اس پر اشخاص اربعہ کو کافر ماننا فرض قطعی ہوگیا۔

اب اسے اشخاص اربعہ کی تکفیرسے متعلق مزیدمعلومات حاصل کرنے اور تحقیق وتفتیش کی اجازت ہے ، لیکن اس امر کے انکار کاحق حاصل نہیں ،خواہ اسے حکم تکفیر سمجھ میں آئے ،یا نہ آئے ،جیسے آیات متشابہات کو ماننا ضروری ہے،حالاں کہ اس کے معانی بندوںکومعلوم نہیں ۔

ضروری دینی کوماننے کے لیے اس کے حقائق ودقائق کو سمجھنا ضروری نہیں۔ کوئی ضروری دینی سمجھ میں نہ بھی آئے تو بھی ماننا فرض ہے ،جیسے صدق نبوت کی دلیل یعنی معجزہ کا دلیل نبوت ہوناسمجھ میں نہ آئے توبھی نبی کو نبی ماننا فرض ہے۔

سب کی عقل وفہم یکساں نہیں ہوتی ۔ممکن ہے کہ بعض عقلوں کوبعض امور سمجھ میں نہ آسکیں۔تو عدم فہم کے سبب حکم شرعی موقوف نہیں ہو گا۔

اشخاص اربعہ کی تکفیرکلامی اورجہات محتملہ کی قطعیت

اشخاص اربعہ کی تکفیرسے متعلق جہات محتملہ آج بھی یقینی ہیں ۔جہات محتملہ کے یقینی ہونے کے باوجود اشخاص اربعہ کے کفر کا انکار کرنا ہٹ دھرمی ہے۔

دراصل بعض دنیاوی اغراض ومقاصد اور خاص کر دیابنہ سے روابط وتعلقات کے سبب یہ سب امراض جنم لیتے ہیں ۔

جہت کلام اس طر ح یقینی ہے کہ وہ کلمات کفری معنی میں یا خداورسول(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی تنقیص میں مفسر اورقطعی بالمعنی الاخص ہیں ۔جتنی تاویلات کی گئیں ،ان تمام تاویلات باطلہ کا رد علمائے اہل سنت نے اپنی تصانیف اور مناظروں میں فرمادیا۔

جہت متکلم اس طرح یقینی ہے کہ اشخاص اربعہ نے خودہی اپنی عبارتوں کی تاویل لکھی۔

تھانوی نے اپنے دو رسالوں ،بسط البنان اورتغییر العنوان میں،نانوتوی نے مناظرئہ عجیبہ میں ،انبیٹھوی نے المہند میں اپنی کفریہ عبارتوں کی تاویل لکھی۔

نانونوتوی نے اپنی کفری عبارتوں پر دہلی میں علامہ محمدشاہ پنجابی علیہ الرحمۃوالرضوان سے مناظرہ کیا ۔ گنگوہی کے حکم پر انبیٹھوی نے اپنی کفری عبارتوں پربہاول پور میں علامہ غلام دستگیر قصوری علیہ الرحمۃ والرضوان سے مناظر ہ کیا ۔

یہ مناظرے اورتاویلیں واضح دلیل ہیں کہ ساری کفری عبارتیں ان ہی لوگوں نے لکھی ہیں,ورنہ صاف انکار کر دیتے کہ یہ ہماری تحریریں نہیں ہیں۔

آج تک ان عبارتوں پر دیوبندیوں کے مناظرے اور کفری عبارتوں کی تاویل وتوضیح کرنے والی تحریریں یقینی دلیل ہیں کہ یہ تحریریں ان کے ان اکابرین کی ہیں جن کی طرف یہ منسوب ہیں۔

الحاصل ان کتابوں اور تحریروں کی نسبت اشخاص اربعہ کی طرف تواتر سے ثابت ہے۔آج تک کسی دیوبندی نے بھی انکار نہیں کیا۔

حرمین طیبین سے حکم کفر آنے کے بعد بھی دیوبندیوں نے انکار نہیں کیا کہ یہ عبارتیں ہماری نہیں ہیں۔بلکہ المہند لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ تحریریں ہماری ہی ہیں۔

حسام الحرمین سے قبل ’’المعتمد المستند ‘‘میں حکم کفر عائد ہوا،اس سے قبل علمائے اہل سنت نے نانوتوی ،گنگوہی وانبیٹھوی پر حکم شرعی جاری فرمایا ۔کبھی انکار نہیں ہوا،بلکہ تاویل یا جواب کی کوشش ہوئی ۔ اس سے بالکل یقینی ہوگیا کہ یہ عبارتیں انہیں کی ہیں ،جن کی طرف منسوب ہیں ۔

جہت متکلم اس طرح یقینی ہے کہ جب ان مصنفین نے توجہ دلانے کے باوجود ان عبارتوں میں تبدیلی نہیں کی,بلکہ توضیح و تشریح کرتے رہے تو اس سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ عبارتیں ہوش وحواس میں بلا جبرواکراہ اپنے قصد وعزم سے لکھی گئی ہیں اور ان عبارتوں سے توبہ ورجوع ثابت نہیں۔اگر اشخاص اربعہ توبہ کر لیتے تو پھر توبہ ورجوع کے بعد آج تک دیوبندیوں کو تاویل اور مناظرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کفریہ عبارتوں میں تاویل کا حکم

اشخاص اربعہ کے کلام میں کوئی تاویل قریب یاتاویل بعید کا احتمال نہیں اور تاویل باطل عند الشرع قابل قبول نہیں۔

قائلین کی جانب ان کلمات کی نسبت تواترکے ساتھ ثابت ہے۔ قائلین نے خود بھی ان کتابوں کواپنی تصنیف قرار دیا۔صرف ان عبارتوں میں تاویل کی ہے اوروہ تاویل باطل ہونے کے سبب ناقابل قبول قرار پائی ۔

تاویل کے بھی حدود وشرائط ہیں،ورنہ تاویل باطل ہرکلام میں پیش کی جا سکتی ہے۔قائلین نے ان کلمات خبیثہ کو کسی کے جبر واکراہ کے سبب یا حالت غشی وجنون میں نہیں کہا ہے ،بلکہ ہوش وحواس کے ساتھ قصداًکہا،اورشرعی حکم ہے کہ اللہ ورسول (عزو جل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی توہین وبے ادبی کفر ہے۔

اب اگر کسی کویقینی علم ہوگیا کہ فلاں نے اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )کی بے ادبی کی ہے ،اس کے باوجود وہ اس مجرم کو مومن سمجھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ وہ توہین خدا ورسول ( عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )کو کفر ہی نہیں مانتا ہے۔

اگر وہ توہین خدا ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )کو کفر مانتا تو ضرورمجرم کوکافر مانتا اور خداورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )کی بے ادبی کوکفر نہ سمجھنا خود کفر ہے۔

تاویل قریب یاتاویل بعیدکا احتمال ہوتومتکلمین کفر کا حکم عائد نہیں کرتے،لیکن جب متکلمین نے تفتیش وتحقیق کے بعدحکم کفر عائد کر دیا اور کسی امر کوکفرکلامی اورقائل کوکافر کلامی قرار دے دیا تواس کا مفہوم یہی ہے کہ یہاں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ۔ نہ تاویل قریب کی گنجائش ہے ،نہ تاویل بعید کی۔

اب اگرکسی کا استاد یاپیر کافر کلامی ہے اور شاگرد یا مریدبھی ساتھ میں جہنم جانا چاہتا ہے تو کفر کلامی کے انکار سےکون رو ک سکتا ہے۔استاد وپیر کی محبت میں کفر کلامی کرے اور جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنالے:لا اکراہ فی الدین۔حق اور باطل بالکل واضح ہے۔ماننا اور نہ ماننا الگ بات ہے۔

تحریر:طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر افکاررضا
www.afkareraza.com

مسئلہ تکفیر کس کےلیے تحقیقی ہے ؟۔ تمام قسطوں کو پڑھیں

قسط اول

قسط دوم

قسط سوم

قسط چہارم

قسط پنجم

قسط ششم

قسط ہفتم

قسط ہشتم

قسط نہم 

قسط دہم

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن