تبصرہ نگار: محمد صدام حسین مصباحی کلام نور کے ادبی محاسن ایک مطالعہ
کلام نور کے ادبی محاسن ایک مطالعہ
مرکز علم و فن “جامعہ اشرفیہ” میں عہد طالب علمی کے بعد محب گرامی محترم طفیل احمد مصباحی صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے مجھ تہی دست کو ضرور کسی وقیع تحفے سے شاد کام فرماتے ہیں۔ یہ ان کا اپنا معیار ہے کہ وہ ” نہ زنہار رفتن سوئے دوستاں ” سے حقیر ” تہی دست رفتن سوئے دوستاں” کو سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان سے دو ملاقاتوں کے درمیان جو فاصلہ ہوتا ہے اس کی وسعت سے مجھے ہمیشہ شکایت رہی ہے… یہ بھی بات ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے ذوق، وسعت اور معیار کے لحاظ سے اپنے شناساوں کو تحفے دیتا ہے۔۔۔ برادر بزرگوار کا اظھار اپنائیت کا اپنا مخصوص انداز ہے بقول بابا سعدی شیرازی علیہ الرحمہ »۔
نہ قندے کہ مردم بہ صورت خورند
کہ اربابِ معنی بہ کاغذ برند
تقریبا پانچ سال بعد سرکار مخدوم عالم پناہ علیہ الرحمہ کی دختر نسبتی اور قبلہ شیخ المسلمین کی اہلیہ محترمہ کے فاتحہ چہلم کے موقع پر ملاقات ہوئی
آپ نے پہلی بار ہمارے غربت کدے کو اپنے قدوم میمنت لزوم کی خیرات عطا کی۔۔۔ ساتھ ہی انتہائی عرق ریزی اور جانفشانی سے لکھی گئی اپنی تازہ ترین اور قابل قدر کتاب “کلام نور کے ادبی محاسن” مرحمت فرمائی۔
ع۔۔۔
شاہاں چہ عجب گر بہ نوازند گدا را
یوں تو نام سے یہ خود کوئی مستقل کتاب نہیں، بلکہ کسی کتاب پر فقط تبصراتی تحریر معلوم ہوتی ہے۔۔۔ میں بھی اسی غلط فہمی میں رہتا اگر موصوف کا یہ عنایت نامہ ہماری نظروں سے نہ گزرا ہوتا
اس کی جامعیت یہ ہے کہ اگر ہم اس کے دو حصے کریں تو بھی تقریبا سوا سوا سو صفحات کی دو مستقل کتاب ہو جائے گی، جن میں ایک اردو “دروس البلاغۃ” اور دوسری “تبصراتی کتاب” ہوگی جس نام سے ابھی ہے… اسی کتاب کی رفاقت میں ایک اور کتاب “حرف مدحت” ملی تھی جو ان کے مذاق شعری کی پہلی نشانی تھی۔۔
تب یہ گمان فاسد تھا کہ ابھی شاید کلام موزوں کرنا سیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ محسوس کیا گیا ہے کہ شاعری “عطیہ ربانی” ہے… کتنے ہی دیگر فنون کے ماہرین اور لفظوں کے بازیگر شاعری کے موضوع پر کتابیں لکھ سکتے ہیں
ان کا نثر، شعرا کی نظم پر بھاری پڑ سکتا ہے۔۔ مگر خود شاعری یا شعر گوئی ان کے لئے سہل ممتنع رہی اسی کتاب میں میں نقل کیے گئے ابن رشیق کے شعر کے بموجب۔۔۔
فاذا قیل، اطمع الناس طرا
واذا ریم، اعجز المعجزینا
(یعنی شعر کے انداز میں جب کوئی بات کہی جائے تو سامنے والا کہے کہ میں بھی ایسا کہ سکتا ہوں، لیکن جب کہنے کا ارادہ کرے تو نانی یاد آ جائے)
اور کتنے ہی انگوٹھا چھاپ “پان فروش” اور “رکشہ بردار” فی البدیہ کلام موزوں کر لیتے ہیں۔۔ جب کہ کچھ کے لیے یہ ترجیحی میدان تو نہیں ہوتا مگر اضافی وقت میں اس پر توجہ مرتکز کر کے اپنے اندر کے چھپے ہوئے شاعر کو باہر نکال لاتے ہیں
مگر انہیں اس کے تمام نکات و اسرار کا احاطہ کرنے کے لیے خاصا وقت اور کثیر ریاضت درکار ہوتی ہے۔۔۔۔میں محترم طفیل احمد مصباحی صاحب کو اسی قسم کا شاعر سمجھ رہا تھا۔۔۔ اور ان کے پہلے مجموعہ کو اسی نقطہ نظر سے دیکھا تھا، مگر جب “کلام نور کے ادبی محاسن” نظروں سے گزری تو پھر کچھ پوچھنے کی ضرورت رہی اور نہ بتانے کی
آفتاب آمد دلیل آفتاب
یہ کتاب معروف نعت گو شاعر، سید الشعراء سید نور الحسن نور نوابی عزیزی کی نعتیہ شاعری میں ادبی و فنی کمالات کے بیان و اظہار کی غرض سے لکھی گئی ہے۔۔۔ لیکن اگر کوئی صرف اسی نیت سے یہ کتاب خریدے تو اضافی طور پر “اسباقِ بلاغت” پر مشتمل ایک وقیع کتاب بھی مفت ہاتھ آ جائے گی۔
کتاب 235 صفحات پر مشتمل ہے۔۔۔۔ ابتداء میں معروف ادیب “ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی، مالیگاؤں” اور جناب “سید صبیح رحمانی” مدیر “نعت رنگ” کے تحسینی و تبریکی کلمات ہیں۔… کتاب کے مندرجات کی ترتیب کتب بلاغت کی طرز پر رکھی گئی ہے۔۔۔ طریق تجزیہ یہ نہیں کہ محض کلام لکھ دیا اور پھر اس کے محاسن اجاگر کر دیے، بلکہ پہلے اس صنعت کی تعریف اور وضاحت کی ہے۔
یہ بھی سرسری نہیں بلکہ ان کے زور علم سے مفصل، ادبا کے موقف سے مدلل اور استاد شعراء کے کلام سے مستشہد ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران ایسا لگے گا کہ تجزیہ کے دوران صرف سید نور الحسن نور نوابی کی دیوان نعت نہیں، بلکہ تقریبا پچاسوں کتب ماخذ پیش نظر رہیں اور حسب موقع ان سے اقتباسات نقل کیے گئے
اسلوبِ تحریر اس قدر دلکش ہے کہ کئی جگہ ایک طرح کی باتیں ہونے کے باوجود گراں نہیں گزرتی، بلکہ متبادل الفاظاور متنوع تعبیرات ذائقہ دار سالن کا کام کرتی ہیں۔
البتہ مجھ جیسے کم فہم کو استعارہ کے بیان میں کچھ خلجان ہو سکتا ہے. کیوں کہ صفحہ نمبر 124 میں ہے۔
“مثلا اگر کسی بہادر آدمی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بڑا بہادر ہے تو یہ ایک معمولی انداز بیان ہوگا اور کلام میں کوئی حسن اور زور نہیں پایا جائے گا اور اگر اسی بات کو یوں کہیں کہ “وہ شیر کے مثل ہے” تو یہ اب تشبیہ کہلائے گا اور اس سے کلام کا زور بڑھ جائے اور اگر کلمہ تشبیہ (مثل، طرح وغیرہ) حذف کر کے کہا جائے کہ وہ شیر ہے تو اس سے سے کلام کا زور اور زیادہ بڑھ جائے گا اور اب بھی اسے تشبیہ ہی کہیں گے۔
لیکن اگر مذکورہ بہادر شخص کا مطلق ذکر نہ کیا جائے اور یوں کہا جائے کہ “میں نے ایک شیر دیکھا” اور مراد وہی بہادر شخص ہے تو یہ استعارہ ہے۔”۔
جب کہ صفحہ نمبر 125 میں ہے کہ
“زید شیر ہے” یہ استعارہ ہے۔
اب “وہ شیر ہے” تشبیہ اور “زید شیر ہے” استعارہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟ اس رمز تک میری رسائی نہ ہوسکی۔۔۔ ویسے کاتب کی مہربانیوں کا میں منکر نہیں ہوں
آپ نے کتاب میں شواہد کے ذریعے یہ واضح کر دیا ہے کہ محض الفاظ کا افاعیل کے ساتھ وفا کرنا ہی شاعری نہیں، بلکہ یہاں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے بھی مطلوب ہوتے ہیں جو شاعری کو ‘از دل خیزد بر دل ریزد’ کا حامل بناتے ہیں ۔ سوز دل، ساز جگر اور حضوری قلب کے آمیزہ کے بنا یہ کھچڑی نہیں تیار ہوتی۔۔۔ آپ کی یہ کاوش آپ کے اعلیٰ ذوق سخن، وسعت مطالعہ اور زود نویسی وخوب نگاری کی غماز ہے۔ اہل ذوق کو دعوت قرآت دیتی ہے
ع۔۔۔۔
” کہ بیا، بیا اے قاری! تو ز خاصگان ما ئی
ساتھ ہی ہم جیسے درس نظامی کے غیر جفاکش طلبہ، جو عربی میں “دروس البلاغۃ” “مختصر المعانی” اور “معین العروض” پڑھ کر اردو میں اس کی تطبیق نہ کر سکے، کےلیے تلافیِ مافات میں دلیل راہ ہو سکتی ہے۔
تبصرہ نگار : محمد صدام حسین مصباحی
مدرسہ چمن بغداد، گورول، ویشالی (بہار)۔
ان تبصروں کو بھی ضرور پڑھیں
مجلس شرعی کے فیصلے جلد دوم زیور طبع سے آراستہ
مختصر سیرتِ ابن ہشام مطالعاتی میز پر
हिन्दी में आर्टिकल्स पढ़ने के लिए क्लिक करें
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع