از قلم , برکت خان چشتی پیپاڑ جودھ پور راجستھان رکن: تحریک فروغ اسلام ، شعبۂ نشر و اشاعت ، دہلی سیاست میں علماے کرام کی حصہ داری کیوں ضروری
سیاست میں علماے کرام کی حصہ داری کیوں ضروری
بر صغیر کی سیاست میں علماے کرام کا ایک اہم کردار رہا ہے اور علماے کرام نے سیاست کو نظام مصطفی سے بدلنے کی ایک سعی بلیغ کی ہے علما ہی نے سیاست میں حقیقی روح پھونکی ہے لیکن آج کل ایک شوشہ چھوڑا جارہا ہے کہ علما کو سیاست سے دور رہنا چاہیے علما کو صرف دین کی تبلیغ کرنی چاہیے دنیاوی امور سے دست بردار رہنا چاہیے
علما کو فقط مدارس و مساجد کی ہی نگرانی کرنی چاہیے یہ نظریہ آج جس انداز سے عام ہوا ہے اس کی آڑ میں علماء کے لئے سیاست کو جرم ٹھہرا یا جانے لگا اگر کوئی عالم سیاسی امور انجام دیتا بھی ہے تو لوگ کھلے عام اس کا دفع کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ سیاست میں جھوٹ و دھوکہ دہی ہے اس لئے علماء کو زیب نہیں دیتی ہے
اسی باطل نظریہ کو فروغ دیتے ہوئے کچھ تحریکیں اور خانقاہی افراد اپنے آپ کے لئے غیر سیاسی کا لیبل چسپاں کرتے ہیں جبکہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست اسلام سے الگ نہیں ہے بلکہ خود اسلام میں سیاست ہے اگر تم دین سے سیاست کو الگ مان کر مسند لگا لوگے تو ظلم زیادتی نا انصافی لوٹ چوری گناہ اکبر کا ارتکاب بداخلاقی بد عنوانی کے سواء باقی نہ بچے گا۔
اور یہ سیاسی خونخوار درندے آزاد ہو جائیں گے اپنی دل چاہی کریں گے اور من چاہا قانون نافذ کریں گے اور معاشرے کو ضلالت و گمراھی کی طرف لے جائیں گے شریعت کے خلاف قوانین ترتیب دینگے جیسا کہ آج ہو رہا ہے اگر علماے کرام ان سیاسی لیڈران کی لگام اپنے ہاتھ میں لیں گے تو قوانین شریعت کے مطابق عائد ہوں گے۔
اگر ہند کے دستور میں یہ ممکن نہیں تو کم از کم شریعت مطہرہ میں تبدیلی تو نہیں ہوگی سیاست سے دوری اختیار کرکے آپ کروڑ ہا کروڑ کوشش کرلیں معاشرے میں تبدیلی واقع نہیں کر سکتے۔ آج مسلم سماج میں لاکھوں کی عدد میں تحریکیں تنظیمیں خانقاہیں اور ٹولے و گروہ اصلاح امت کا بین بجا رہیں ہے
سوال یہ کہ ان سب نے مل کر کئی عشروں کی انتھک محنت سے کوئی ایک بھی ایسی برائی ختم کی ہے جو آج ہمارے معاشرے میں نہیں ہے کیوں کہ ان میں اکثریت نے اپنے آپ کو سیاست سے کنارہ کش رکھا ہے اسی لیے یہ تنظیمی و تحریکی افراد کسی کو نرم لہجہ میں سمجھا تو سکتے ہیں۔
لیکن وہ اس بات پر قادر نہیں کہ برے کا ہاتھ پکڑ کر اچھائی کی طرف موڑ دیں کیونکہ ان کے ہاتھ اختیار سے خالی ہیں اگر ان کے ہاتھ میں سیاست و قیادت و نظام ملک ہوتا تو ہر طرح سے عملی اقدامات اٹھا سکتے تھے ایسے تحریک ساز اور گدی مکین حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ قول ضرور یاد رکھیں
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملی طور پر دیکھایا ہے آپ سے بڑھ کر امت مسلمہ کے لیے کون رہ نما ہو سکتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیاسی امور انجام دیے ہیں اور اگلی امتوں کے انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی سیاسی ذمہ داریاں ادا کی ہیں علماے کرام تو انبیاے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں تو کیا وراثت میں مال و دولت گدی و مسند ملا ہے؟ ۔
نہیں بلکہ قوم کی قیادت اور اللہ کے پاکیزہ دین کی نشر و اشاعت ملی ہے جتنی امتیں گزری ہے ان میں انبیاء کرام علیہم السلام نے سیاسی اور ریاستی ذمہ داریاں نبھائی ہے ایک بہترین نظام عطا کیا عدل انصاف خدا کے احکامات کی پیروی کا عادی بنایا تھا ۔
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی و ریاستی کام کئے ہیں جنگیں لڑی سرحدوں کی حفاظت کی فوجی دستے تیار کئے معاشرے سے برائیوں کا قلع قمع کیا یہ سب سیاسی کام کاج ہی تو تھے اس بات کو خوب ذہن نشین کرلیں کہ اللہ کی فرمانبردار قوم اللہ کا تابع دار بندہ ہی پیدا کر سکتا ہے اللہ سے خائف ہی قوم کو خائفین میں بدل سکتا ہے اور اللہ سے خوف خانے والے علماے کرام ہیں اس پر قرآن شاہد ہے
یاد رکھیں وہ قوم ضلالت و گمراھی پستی و ذلت و لادینی کے گہرے گھڑے میں ویراز مان ہو جاتی ہے جس قوم کے علماء و مشائخ سیاست و ریاست سے منھ موڑ لیتے ہیں اگر علماء سیاست سے جدا گانہ راہ اختیار کر جائیں تو دین کی اشاعت میں کافی دشواریاں پیش آئیں گی
سیاسی دوکان دار پارٹیاں چور ظالم خائن لادینی جمہوری مداری تو دین کی بات ہر گز نہیں کرینگے بلکہ کچھ سیاست دان سیاست میں دین کی بات کرنا سیاست کی توہین سمجھتے ہیں
اس بات پر تاریخ شاھد ہے کہ جب تک علماء نے سیاسی اور ریاستی امور انجام دئے ہیں دین کو بھی فروغ ملتا رہا ہے دین کی سرحدیں وسعت و عرض میں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن جب سے علما سیاست و ریاست سے دست بردار ہوئے ہیں سرحدیں تنگ ہوتی گئی ہیں اور ہمارے مفتوحہ علاقے ہم سے چھین لیے گیے اندلس و قرطبہ کے تخت ہم سے تاراج کردئیے گئے فارس روم یونان اور مشرقی یورپ کے کئی ایک علاقے ہم سے خالی کروائے گئے ہمیں ملک بدر ہونا پڑا
خود بر صغیر ہندوستان میں کئی سالوں تک مسلم حکمرانوں نے تخت پر قبضہ کر رکھا تھا لیکن آج ہم کو ہر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے ابتداء اسلام میں آدھی دنیا پر اپنے علم بلند کرنے والوں کے پاس آج اس کا چوتھائی بھی نہیں بچا
بر صغیر ہند وپاک میں تو جنگ آزادی 1857 سے آزادی کاملہ تک علماء نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے سیاست علماء سے کبھی خالی نہیں رہی اگر آپ کو ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینا ہے تو سیاست کا ایک پاکیزہ لبادہ ملبوس کرنا ہوگا اس کے بعد آپ بااختیار بن سکتے ہیں ۔
دور حاضر میں سیاست سے علما کا وابستہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے اس لئے کہ آج جو نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں جو امت کے ساتھ دغا کر رہی ہیں وہ کسی پر مخفی نہیں جب علماے کرام ایمانداری کے ساتھ سیاست کرینگے تو قوم ان فریبوں سے محفوظ رہے گی
ہر روز شریعت مخالف جو ایجنڈے ایوانوں میں بنائے جاتے ہیں ان کا دفع بھی کماحقہ علماء ہی کر سکتے ہیں
اسلام دشمن عناصر قرآن و حدیث اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جو توڑ مڑوڑ کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اسی سے اپنی سیاست گرماتے ہے ایسے بہروپیہ لوگوں کا دفع بھی علماء کر سکتے ہیں اور لوگوں تک صحیح بات پہنچا سکتے ہیں اسلام اور تعظیم نبی پر اٹھنے والی انگلیوں کا دفع بھی ہر دور میں علماء نے ہی کیا ہے
یاد رکھیں یہ دفع اسی وقت اثر انداز ہوگا جب سیاسی غیر مسلم رہنماؤں کا دفع کرنے والا مسلم بذات خود سیاسی ہو اور سیاست میں ایک قابل مقام رکھتا ہو ورنہ خالص ایک لاشہرت و غیر سیاسی عالم کے کہدینے سے کچھ بھی فرق نہیں پڑنے والا۔
الغرض اگر آپ کو اس دور میں دین کی خدمت اور اسلام کے مخالفین کا منھ توڑ جواب دینا ہے تو آپ کو سیاست کے دامن میں آکر بیٹھنا ہوگا اور صداقت و حقانیت عدل و انصاف کے ساتھ سیاسی کام کرنے ہوں گے آج علما کا سیاست سے وابستہ ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ حیات انسانی کے لئے آب و ہوا اپنے آپ کو غیر سیاسی کہہ کر دامن جھٹک لینا کسی زہر قاتل سے کم نہیں
از قلم : برکت خان چشتی
پیپاڑ جودھ پور راجستھان
رکن: تحریک فروغ اسلام، شعبۂ نشر و اشاعت ، دہلی