کیا یہی تاریخ ہے یہ موضوع آج کے مضمون کا ہندوستان میں کچھ لوگوں کے ذریعے تاریخ کو غلط طریقے سے پبلک کے درمیان پیش کرنے کی ہوڑ سی مچی ہے اسی غلط بیانی کو آئینہ دیکھانے والا یہ مضمون۔کیا یہی تاریخ ہے؟ آٹھ پیارے!کہ یہ مظلوم تاریخ اب=تجھے یوں صدا لگاتی ہے ۔
تحریر ✍️محمد وزیر احمد مصباحی صاحب
کیا یہی تاریخی سچائ ہے
محترم احباب! یقیناً اس سرخی پر نظر پڑتے ہی اولا آپ ذرا چونک سا گیے ہوں گے، محض یہ سوچ کر کہ یا اللہ! اب یہ کیا ہو گیا؟ مگر آپ دھیرج رکھیں اور معاملہ کی دو رخی سمجھنے کی کوشش کریں. میرے خیال میں آپ بھی اس حقیقت سے بہتر طور پر واقف ہوں گے کہ قومیں اپنے پروجوں اور پر خوں ذریعے مرقوم کی گئیں روشن تاریخ ہی کی بنا پر برسوں زندہ رہتی ہیں۔
اور اس جہان رنگ و بو میں جب سارے رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ خوف اجنبیت ستانے لگتی ہے اور غیروں کی طرف سے جب کبھی دیش دروہی کی جان لیوا اٹیک کا وہم و گمان غالب ہو جاتا ہے تو پھر اس وقت اپنے اسلاف و پر خوں سے یہ حسن تعلقات اور وطن عزیز تئیں الفت و محبت کی ہی وہ واحد پونجی ہوتی ہے جو ہمیں ناکامی و گمنامی سے نکال کر معرفت کی ڈگر پر قائم رہنے کی زبردست انرجی فراہم کرتی ہے۔
ہاں! اگر بالکل یکسوئی کے ساتھ تاریخی اوراق گردانتے چلے جائیں تو میرے خیال سے آپ کو اس طرح کے انگنت قدیم تاریخی واقعات ضرور مل جائیں گے، جن سے محبت و نفرت کی بنا پر قومیں یا تو اور زیادہ زندہ ہو کر ابھر گئیں یا پھر گلے میں گمنامیوں کا قلادہ ڈالے ہمیشہ کے لیے خطہ ارضی سے رخصت ہو گئیں۔
ہمارا ملک “ہندوستان” بھی اپنی شناخت کی صیانت اور آثارا قدیمہ و پروجوں کی نقش جمیل کی حفاظت کو لے کر کچھ یوں ہے حساس واقع ہوا ہے. برسوں سے اپنے تاریخی مشن کو سنبھال کر زبردست تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہوتا ہوا چلا آ رہا ہے. محبت کی نشان عظمت “تاج محل” “لال قلعہ” اور راجدھانی دہلی کا” قطب مینار”و “جامع مسجد” اسی حقیقت کے تو وہ بین دلائل ہیں جسے دیکھنے کے لیے سیاحوں کی ٹولیاں دور دراز ملکوں سے اس کی طرف کشاں کشاں چلے آتے ہیں اور پھر اپنے ساتھ دیار ہند کی بڑی نیک نامی بھی آفاق کی وسعتوں میں پھیلاتے چلے جاتے ہے۔
میرے اپنے وہم و گمان کے مطابق وطن عزیز کی یہی وہ خصوصیت ہے جو اسے دنیا بھر میں ایک منفرد مقام عطا کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ مگر آج یہ بات بڑی افسوس کے ساتھ رقم کرنی پڑ رہی ہے کہ ادھر چند برسوں سے بھگوادھاریوں و تاریخ کے دشمنوں نے اس کی آثارِ قدیمہ و تاریخی حقائق پر مذہبی منافرت کا جو سیاہ لیپ چڑھانے کے جو ناکام کوششیں کی ہیں وہ اپنے آپ میں انگنت سوالات کی ایک ایسی بھاری بھر کم پوٹری بن کر رہ گئی ہیں کہ اگر اسے نہ کھولی گئی تو نتیجہ خوں چکاں ہی ہوگا۔
ہاں! اس سیاہ کارنامہ کے لیے ہندوستانی جمھوریت اور اس کی جیتی جاگتی تہذیب پر خجل و شرمندگی کا ایک زوردار طمانچہ بننے میں ایک قوی سبب یہ بھی تو ہے کہ یہ سارے گھناؤنے افعال حکومت کی شہ ہی پر تو کی جا رہی ہیں۔ بھلا بتائیں تو سہی! کہ کی ہندوستانی سینسر بورڈ کمیٹی ، جو فلم پاس کرنے کے حوالے سے بڑی ذمہ دار مانی جاتی رہی ہے وہ یوں ہی ایک ایسی غلط تاریخ پر مبنی فلم کو پاس کر دے گی؟
جس سے آج ہر انصاف پسند کے نزدیک یہی نتیجہ برآمد ہو رہا ہے کہ “یہ تو فلم کے نام پر ایک سچی پکی تاریخ سے ایسی کھلواڑ ہے جو دن دہاڑے اس کے گلے پر چھری چلانے سے کچھ کم نہی ہے”. مجھے تو لگتا ہے کہ اب تک آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کس فلم کی بات کرنا چاہتا ہوں. ابھی حال ہی میں ہولی کے موقع پر( جب کہ مذہبی منافرت کے سکے کافی عروج پر ہیں) ریلیز ہوئے فلم” کیسری “کی بات کر رہا ہوں۔
اس حوالے سے محترم رضی احمد مصباحی اور شفیق استاذ مولانا ہارون احمد مصباحی صاحب کی بھی تحریر نظر سے گزری، جسے پڑھ کر ایسا لگا کہ نہیں، تاریخ کے سراپا ہاتھ پیر توڑ کر بنائی گئی اس فلم کے خلاف ہر ہندوستانی منصف مزاج کو اس وقت زبردست احتجاج کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس فلم پر کسی طرح بینڈ لگ سکے اور تاریخ اپنی حقیقت کھونے سے محفوظ رہ سکے۔
کیا یہی تاریخ ہے سچ جان لیں
اس فلم کی کہانی 1897ء/میں لڑی گئی “سارا گڑھی” کے جنگ پر مبنی ہے.اسے آپ وکیپیڈیا پر سرچنگ انجن کے ذریعہ پوری تفصیل سے جان سکتے ہیں. جب پٹھانوں کے دو قبیلوں “آفریدی پٹھان” اور “اوراکزئی” نے مسلسل چار سال تک انگریزی ظلم و ستم برداشت کرنے کے بعد وطن عزیز (ہندوستان) کی حریت کے لیے گل بادشاہ نامی نوجوان کی قیادت میں” سارا گڑھی” کے قلعہ پر چڑھائی کر دی تو اس وقت قلعہ میں سکھ بٹالین کے ٢١/فوجی ہی موجود تھے۔
اس لیے اصول جنگ کے مطابق پٹھانوں نے یہ کہلا بھیجا کہ وہ حملہ کرنے سے پہلے قلعہ چھوڑ دیں کہ آپ تو ہمارے وطنی بھائی ہیں ہمارے اصل دشمن تو تن کے گورے اور من کے کالے (انگریز) لوگ ہیں. مگر انگریزوں کے یہ وظیفہ خوار(سکھ) قلعہ سے باہر آنے کے بجائے قلعہ بند ہو گیے اور دونوں کے ما بین زبردست مدبھیڑ ہو گئی آخر کار انگریزی وظیفہ خوار اور اس وطن کے سچے پکے جاں نثار دونوں نے اپنے اپنے ڈھیروں جوان گنوائے، مگر انگریزی حکومت کی ما تحتی میں یہ سکھ آزمودہ کار فوجی پٹھانوں کے غیر آزمودہ کار سرفروشان وطن پر غالب رہے اور پٹھانوں نے اپنی کثیر تعداد گنوانے کے بعد بھی (تقریباً 980۔/افراد)وطن عزیز کے لیے پروانہ حریت کے خاطر تمغہ سرخروئی حاصل نہ کر سکا
. ( ملخصا از :کیسر فلم ہندوستانی سینسر بورڈ کے علمی و اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت. محرر؛ رضی احمد مصباحی، روزنامہ محاسبہ ٥،اپریل ٢١٠٩ء، صفحہ نمبر :٥) اس فلم میں دودھ سے زیادہ اس سفید تاریخ کو بالکل برعکس پیش کی گئی ہے اور وطن عزیز کے سچے پکے محبین (پٹھان) کو دیش دروہی ٹھہرا کر آزادی وطن عزیز کے خاطر اضطرابی و بےچینی اور انگریزوں کے خلاف برسرپیکار رہنے کے کے سارے کریڈٹ کو ہندوستانی سینسر بورڈ نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ سکھوں کی جھولی میں ڈال دی ہے۔
فلم کے مقاصد کو اس نہج پر بڑے ہی اچھوتے انداز میں باور کرایا گیا ہے کہ “اس فلم سے ہندی باشندوں میں دیش بھکتی کا جذبہ پیدا ہوگا” اور اس کے لیے فلم بنانے والوں نے گانے کے دو بول کا بھی سہارا لیا ہے۔
تیری مٹی، تیری مٹی میں مل جاواں
گل بن کے میں کھل جاواں
جی ہاں! حیرت کی ساری حدیں تو اس وقت پار ہو جاتی ہیں جب مجندر ایس سرسا نے اس فلم تئیں یہاں تک بیان دے دیا کہ ” آپ بھی اپنے بچوں کو یہ فلم دکھانے کے لیے لے جائیں تا کہ اس کے دل میں بھی دیش بھکتی کا جذبہ پیدا ہو “. اب آپ ہی بتائیں کہ کیا کبھی تاریخ سے بالکل کوسوں دور مبنی فلم سے اپنے بچوں کے اندر دیش بھکتی کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے؟
نہیں؛ ہرگز نہیں
ہاں! یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ غیر شعوری طور پر چند لمحوں کے لیے دیش بھکتی کا اظہار کر لے اور سکھوں کی بہادری کے گن بھی گائے، مگر میں پورے وثوق سے یہ بات کہ سکتا ہوں کہ کل کو جا کر جب آپ کا یہی بچہ شعور کی دہلیز پر قدم رکھے گا اور تاریخ بینی و واقعات کی تہ تک پہنچنے میں ظفریاب ہو جائے گا تو پھر آپ کو اس بات پر واقعی بہت کوسے گا کہ آپ ہی وہ شخص ہے جس نے اپنی ایڑی چوٹی کی مکمل زور لگا کر غلط تاریخ پر مبنی فلم کے سہارے اس کے نہا خانہ دل میں سرابی دیش بھکتی (وطن پرستی) کی روح پھونکنے کی ناکام کوششیں کی تھیں۔
اس موقع پر فلم تنقید نگار پرگتی سکسینہ نے جو غیر جانبدارانہ بات اس فلم (کیسر) کے حوالے سےکہی ہیں وہ واقعی اس نفرت بھرے ماحول میں تاریخ پسندی کی بہت بڑی بین دلیل ہے. سکسینہ نے بطور تنقید اس بات کا کھلے دل سے اظہار کیا کہ “سارا گڑھی کی جنگ سکھ فوجیوں کی بہادری کی زبردست مثال ہے، لیکن وطن پرستی و حب الوطنی سے اس کا کوئی تعلق نہیں”. اور پھر بطورِ نصیحت یہ بھی بیان کیا کہ “اگر آپ مار پیٹ اور خون خرابے کے مناظر دیکھنا پسند کرتے ہیں تو فلم دیکھیں ورنہ اس فلم کو نہ دیکھنا ہی بہتر ہے. اس سے بہتر ہے کہ آپ سارا گڑھی کے جنگ کی تاریخ پڑھ لیں کہ وہ زیادہ ترغیب دینے والی ہے”.(کیسری کی کہانی __حقیقت یا فسانہ از محمد ہارون مصباحی، روزنامہ سہارا، ٢٩،مارچ ٢١٠٩ء، ص:٥)
محترم قارئین سینسر بورڈ کی غلط پالیسی
فلم کے ذریعہ تاریخ مسخ کرکے دیش دروہی کو دیش بھکت اور دیش بھکت کو غدار وطن ثابت کرنے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل بھی فلم” پدماوت” کے ذریعہ یہ حربہ آزمایا جا چکا ہے. مجھے تو لگتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک بھر میں تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کی ایک لو سی لگی ہوئی ہے۔
فلم کیسر میں جھوٹی کہانی ہے مزید معلومات فراہم کریں اس مضمون کو پڑھ کر
اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو سر عام بلکہ اب تو بسا اوقات خود کے اس کے اپنے ہی چہار دیواری میں ایک امنڈتی بھیڑ کا شکار ہو جانا پڑ جا رہا ہے، بھگوادھاری وسنگھی حضرات مسلمانوں کو پاکستانی بتا کر اس کے گلے میں دیش دروہی کا مالا جپنے کے فراق میں ہیں اور ٢١٠٩ء /کا معرکہ سر کرنے کے لیے دن بدن ان سنگھیوں کو کوئی بھی ہنگامہ برپا کرتے لمحے بھر کی دیر نہیں لگ سکتی ہے، اس طرح کے مار کاٹ اور غلط تاریخی مواد پر مشتمل فلم (جو ہندوستانی معاشرے میں مذہب کے نام پر زیادہ عروج پا رہا ہے ) ریلیز کرنا اسی نوعیت کی ایک خطرناک کڑی ہے۔
جسے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انجام دی جا رہی ہے کہ کسی طرح فرقہ وارانہ فساد کی آڑھ میں ہندو و مسلم کی مدبھیڑ ہو اور ہم ٢١٠٩ء /کا انتخابی معرکہ بڑی آسانی و چابک دستی سے سر کر لے جائیں.
سچ پوچھیں تو ایسے موقعوں پر وطن کے انصاف پسند افراد (مسلم ہو کہ غیر مسلم) کی یہ کڑی و اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہندوستانی سینسر بورڈ کے اس اخلاقی دیوالیہ پن اور تاریخی حقائق کو لہو لہان کر دینے کی اس سعی مذموم کے خلاف زبردست احتجاجات درج کرائیں، اس جنگ (سارا گڑھی) کی سچی پکی تصویر قوم کے سامنے پیش کریں، اپنے واقف کاروں و سناشاؤوں کی اس حوالے سے درست رہنمائی کریں اور چند لمحات ہی کے لیے صحیح، اس حقیقت کے تمام بھیدوں سے نقاب کشائی کی زحمت ضرور برداشت کریں تا کہ وہ کسی طرح بھی اس سوچی سمجھی سازش اور اس کے ذریعہ بنے گیے جھانسوں میں نہ آ سکیں۔
ہمارے دوسرے مضامین پڑھنے کے کلک کریں
یاد رکھیں! اگر موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آج ہی ہم نے یا کام نہ کیا تو پھر کل کو جا کر نتیجہ ضرور افسردہ کن ہو سکتا ہے. کچھ ہو نہ ہو، پر اتنی سی بات کا تو ہونا ضرور طے ہے کہ کل مستقبل میں اسی طرح تاریخ سے کھلواڑ کرنے والوں کی بالکل بہتات ہو جائے گی اور وطن عزیز سے جڑی ساری سچی پکی زریں تاریخ کو فلم اور دوسرے وسائل کے سہارے مفادات سے جوڑ کر اپنی انا کے لیے تسکین کا سامان فراہم کریں گے۔
ہاں! اگر ایسا ہے تو پھرچلیں! اٹھیں! جاگیں اور بالکل امانت و دیانت داری کے ساتھ اس زریں تاریخ کو انصاف دلائیں، وطن عزیز کی خوبصورت شبیہ کو مسخ ہونے سے بچا لیں اور اس کی جمھوریت کی مانگ میں ان فرقہ پرستوں کے ذریعے مذہبی منافرت کی سندور بھردیے جانے کے بجائے حق و انصاف، امن و آشتی، پیار و محبت، شفقت و رحمت، میل و ملاپ، عزت و تکریم اور اخوت و بھائی چارگی کی خوبصورت فرحت بخش روح پھونک دیں تا کہ کسی طرح وطنی شیرازہ تار تار ہونے سے بچ جائے اور ایک دفعہ پھر سے ہمارا یہ ملک سارے جہاں سے اچھا ہو جائے. (خدا اس عمل کی توفیق دے. آمین) بس اسی امید پر کہ…..
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔
از۔۔۔۔۔ محمد وزیر احمد مصباحی(بانکا۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی
6394421415
wazirmisbahi87@gmail.com