تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط پنجم [کُتُبِ شیعہ سے خلیفۂ دوم حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقِب کا ثبوت]
خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط پنجم
۔[۲] شرحِ نہج البلاغہ للشیخ ابن ابی الحدید شیعی میں ’’نہج السعادۃ للشیخ محمود الرافضی‘‘کے حوالے سے حضرتِ شیرِ خدامولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب یہ خطبہ منسوب کیا گیا ہے
الحمد للہ علی کل أمر و حال فی الغدوِّ والآصال ، وأشھد أن لَآ الہ الا اللہُ و أنَّ محمدا عبدہ و رسولہ ،ابتعثہٗ رحمۃً للعبادو حیاۃً للبلاد حین امتلأتِ الأرضُ فتنۃً واضطرب حبلُھا و عُبِدَ الشیطانُ فی أکنافھا واشتمل عدوُّ اللہ ابلیسُ علیٰ عقائد أھلھا
فکان محمدُ بن عبد اللہ بن عبد المطلب الذی أطفأ اللہُ بہ نیرانَھا و أخمدَ بہ شرارَھا و نزع بہ أوتادَھا و أقام بہ مَیلَھا ۔ اِمامُ الھدی والنبی المصطفیٰ ﷺ ، فلقد صَدَعَ بما أمر بہ و بلَّغ رسالاتِ ربہ فأصلح اللہُ بہ ذاتَ البین وآمن بہ السُّبُلَ و حَقَنَ بہ الدماءَ و الَّف بہ بین الضغائن الواغرۃ فی الصدور حتیٰ اتاہُ الیقینُ ،ثم قبضہ اللہُ الیہ حمیدا ۔
ثم استخلف الناسُ أبا بکر فلم یالُ جھدَہ ثم استخلف ابو بکر عمرَ فلم یال جھدہ ثم استخلف الناس عثمان فنال منکم و نِلتم منہ حتی اذا کان مِن أمرہ ما کان أتیتمونی لِتُبایعونی ،لا حاجۃ لی فی ذٰلک و دخلتُ منزلی فاستخرجتمونی فقبضتُ یدی فبسطتموھاو تداککتم علیَّ حتی ظننتُ أنکم قاتلی و أن بعضَکم قاتِلُ بعض فبایعتمونی و أنا غیر مسرور ولا جَزِل۔۔۔۔ ۔[شرح نہج البلاغہ للشیخ ابن البی الحدید ،ج۱:،ص۱۹۴:۔نہج السعادۃللشیخ محمود ،ج۱:،ص۲۸۰:]
ترجمہ : صبح و شام ہر حال اور تمام معاملات میں ہر طرح کی حمد و ثنا اللہ عز وجل ہی کی لیے ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عز وجل کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اور شہادت دیتا ہوں کہ حضرتِ محمد مصطفیٰ ﷺ اُس کے عبدِ خاص اور رسول ِ معظم ہیں ، جن کو اُس نے اپنے بندوں کے لیے سراپا رحمت اور ملکوں کے لیے مجسمۂ حیات بنا کر اُس وقت بھیجا ؛ جب کہ روے زمین فتنوں سے بھر چکی تھی
اُس کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا ،اطرافِ عالَم میں شیطان کی عبادت کی جا رہی تھی اور دشمنِ خدا ابلیس مردود زمین والوں کے عقائد فاسد کر چکا تھا ۔پس حضرتِ محمد مصطفیٰ ﷺ بن عبد اللہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما ہی کے ذریعے اللہ رب العزت نے فتنوں کی آگ سرد کی ، اُن کی چنگاریوں کو بجھایا ، اُنھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور لوگوں کےعقائد کی کجی[ٹیڑھے پن] کو درست کیا ۔
آپ ﷺ ہی ہدایت کے امام اور اللہ عز و جل کے منتخب پیغمبر ہیں ؛لہذا آپ نے تمام ماموراتِ الہی پر عمل کیا اور رب تبارک و تعالیٰ کے جملہ پیغامات بندوں تک پہنچائے۔
اللہ عز وجل نے آپ ﷺ کے ذریعے بندوں کے آپسی معاملات کی اصلاح کی ، راستوں کو پر امن بنایا ،انھیں خون ریزی سے بچایا اور دلوں میں بغض و حسد کے بھڑکتے شعلوں کو بجھا کر اُن میں الفت و محبت کا چراغ روشن کیا ؛ یہاں تک کہ آپ کے پاس حق کا پیغامِ اجل آ گیا اور پھر حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے آپ اپنے رب اللہ عز وجل کے حضور حاضر ہوگئے ﷺ ۔
پھر صحابۂ کرام نے حضرتِ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا اور انھوں نے خلافت کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔
پھر حضرتِ ابو بکر صدیق نے حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا، انھوں نے بھی خلافت کی ذمے داریوں کو ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اُن کی شہادت کے بعد اربابِ حل و عقد نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا ؛ لیکن تمھارے اور اُن کے مابین اختلافات رو نما ہوئے ۔
اُن کے مقدر میں جو کچھ لکھا تھا جب وہ واقع ہو گیا [یعنی جب اُن کی شہادت ہو گئی]تو تم لوگ بیعت کرنےکے لیے میرے پاس آئے۔ حالاں کہ مجھے اس کی کوئی حاجت نہ تھی ۔
میں[خلافت سے بچنے کے لیے] اپنے گھر میں داخل ہو گیا تو تم نے[پیہم اصرار کے ذریعے مجھے گھر سے] نکلنے پر مجبور کر دیا ،میں نے[خلافت سے] اپنے ہاتھوںکو سمیٹا تو تم نے اُنھیں[خلافت کی جانب] پھیلا دیا اور تم [خلافت کے لیے ]مجھ پر اِس طرح ٹوٹ پڑے کہ مجھے گمان ہوا کہ[اگر میں قبول نہ کروں گا تو] تم مجھے قتل کر دوگے اور با ہم لڑ پڑوگے۔
بالآخر تم نے مجھ سے بیعت کر لی ؛ حالاں کہ میں اِس سے خوش نہیں ہوں ۔
یہ خطبہ حضرتِ مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے خلیفہ بننے کے بعد ’’مقامِ ذی القار‘‘ میں دیا تھا ۔اِس سے مندرجہ ذیل امور واضح ہو رہے ہیں : حضور ﷺ نے کسی کو بھی اپنا جانشین نامزد نہ کیا تھا، نہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اور نہ ہی حضرتِ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو۔؛ لہذا اہلِ تشیع کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ مولا علی کی خلافت منصوص تھی ۔
اگر حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت منصوص ہوتی تو آپ اِس خطبے میں اُس کا ذکر ضرور کرتےاور وصالِ اقدس کے بعد تمام صحابہ حضرت صدیقِ اکبر کے دستِ اقدس پر بیعت نہ کرتے۔
حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت اربابِ حل و عقد کے اجماع سے ثابت ہوئی تھی ،جس طرح حضرت عثمانِ غنی کی شہادت کے بعد حضرتِ علی کی خلافت اربابِ حل و عقد کے اجماع ہی سے ثابت ہوئی تھی۔ حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نہ ہی خلافت کے دعوے دار تھے اور نہ ہی خلیفہ بننا پسند کرتے تھے
حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے با دلِ نخواستہ امرِ خلافت کو قبول کیا تھا۔لہذا اہلِ تشیع کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ حضرت ِمولا علی رضی اللہ عنہ خلفاے ثلاثہ کے عہد میں خود کو خلیفہ سمجھتے رہے اور’’ آپ کا اُن کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنا ، اُنہیں مشورہ دیتے رہنا اور خلافت کے اہم امور میں اُن کی نصرت و حمایت کرتے رہنا‘‘ یہ سب’’ بطورِ تقیہ‘‘ تھا ۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
شیخینِ کریمین[حضرتِ ابو بکر و حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما] کی خلافت منہاجِ نبوت پر تھی ،دونوں نے خلافتِ رسول اللہ ﷺ کا حق ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی تھی ۔
اگریہ دونوں حضرات ،حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کا حقِّ خلافت غصب کرنے والے ہوتے یااِن کی خلافت درست نہ ہوتی تو حضرتِ شیرِ خدا کبھی بھی اُن کے بارے میں یہ نہ کہتے کہ انھوں نے حضورِاقدس ﷺ کے مشن کو آگے بڑھانے میں کوئی کمی نہیں کی تھی۔
بلکہ صاف لفظوں میں تنقید کرتے ،جس طرح خطبے کے آخر میں انھوں نے جنگِ جمل میں حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ساتھ دینے کے سبب[بقولِ اہلِ تشیع]حضرت طلحہ اور حضرتِ زبیر رضی اللہ عنہما کی سخت مذمت کی ہے ۔
صحابۂ کرام بالخصوص خلفاے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے دل آپسی عداوت و رنجش اور بغض و حسد سے مکمل طور پر پاک تھے ۔ وہ سب حضور ﷺ کے سچے عاشق اور آپس میں ایسے دینی بھائی تھے کہ سگے بھائی سے بھی زیادہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ؛ کیوں کہ اُن کی تربیت مربِّیِ اعظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمائی تھی ۔
غرض یہ کہ حضرتِ علی مشکل کشا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا یہ خطبہ حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ،’’حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی منقبت گنگنا رہا ہے اور اہلِ عقیدت و محبت سے خوب خوب داد و تحسین وصول کر رہا ہے‘‘ ۔
۔[۳] نہج البلاغہ کے شارح ’’ابن ابو الحدید شیعی ‘‘ کہتے ہیں لمَّا أسِر الھُرمزان حُمِل الی عمر من تُستَر الی المدینۃ و معہ رجالٌ من المسلمین ، منھم الاحنف بن قیس و انس بن مالک فأدخلوہ المدینۃَ فی ھَیئتہ و تاجہ و کِسوتہ ،فوجدوا عمرَ نائما فی جانب المسجد ، فجلسوا عندہ ینتظرون انتباہَہٗ ۔
فقال الہرمزان:واین عمرُ ؟قالوا : ماھو ذا۔قال: این حَرَسُہٗ؟قالوا: لا حاجبَ لہ ولاحارثَ ۔قال: فینبغی أن یکون ھٰذا نبیًّا ۔قالوا: انما یعملُ بعملِ االاَنبیاء۔۔۔[شرح نہج البلاغہ للشیخ ابن ابی الحدید الشیعی ،ج۱:،ص۱۱۵:۔مطبوعہ دار الکتاب العربی ، بغداد]
ترجمہ:جب ہرمزان بادشاہ کو قیدی بنایا گیا تو اُسے تستر سے مدینہ منورہ لایا گیا ۔اُس وقت اُس کے ساتھ بشمول حضرت احنف بن قیس اور حضرتِ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہما چند مسلمان بھی تھے ۔مسلمان اُسے اُس کی ہیئت،اس کے تاج اور اُس کے شاہی لباس کے ساتھ مدینہ لائے ۔
انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مسجدِ نبوی کے ایک کونے میں سو رہے ہیں،چناں چہ وہ اُن کے پاس بیٹھ کر اُن کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔ہرمزان [ فاروقِ اعظم کی سادگی کو دیکھ کر اُنھیں پہچان نہ سکا اور اُس ]نے مسلمانوں سے پوچھا :عمر کہاں ہیں ؟انھوں نے کہا: [یہ جو سو رہے ہیں ]یہی عمرہیں ۔اُس نے کہا: اِن کے محافظ[باڈی گاڈس] کہاں ہیں ؟۔
اُنہوں نے بتایا کہ نہ اِن کا کوئی دربان ہے نہ محافظ ۔یہ سن کر[اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور] اُس نے کہا: پھر تو اِس شخص کو نبی ہونا چاہیے !مسلمانوں نے کہا: یہ[ نبی تو نہیں ہی ؛ مگر] نبیوں کی سیرتِ پاک پر عمل کرتے ہیں ۔
شرح نہج البلاغہ کی یہ روایت مندرجہ ذیل وُجوہ سے حضرتِ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت و شان پر دلالت کر رہی ہے
حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ عدل و انصاف کے تمام تقاضوں پر عمل کیاکرتے تھے ؛ اِسی لیے اِتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے والی ہونے کے باوجود آپ کو کبھی بھی اپنے لیے کسی دربان و محافظ رکھنے کی حاجت پیش نہ آئی ۔جب کہ ظالم و غاصب بادشاہ کو سکون نہیں ملتا ،اُسے اپنی جان کی فکر ستاتی رہتی ہے ؛ اسی لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے محافظوں کا بندو بست کرتا ہے ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسلمین اور امیر المومنین ہونے کے باجود دنیاوی آرائش و نِعَم سے بالکل بے نیاز اور شاہی تکلفات سے یکسر دورتھے ۔ کیا ایسی زاہدانہ شان کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا شخص حضرتِ مولا علی شیرِ خدا اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدۂ کائنات حضرتِ خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ظلم کر سکتا ہے ؟
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انبیاے کرام صلوات اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بالخصوص حضور سرورِ انبیا ﷺ کی سیرتِ پاک پر سختی کے ساتھ عمل کیا کرتے تھے ۔حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی اِس کی گواہی دیتے تھے ۔کیا ایسا نیک وصالح شخص کافر و منافق اور ظالم و غاصب ہو سکتا ہے؟
کفر و ارتداد اور ظلم و غصب کا الزام دھرنے والے ظالمو! کچھ تو شرک کرو !کافروں نے بھی انھیں نیک و صالح مسلمان مانا ، حضور ﷺ کا سچا غلام جانا اور اُن کی عظمت و شان کا اعتراف کیا اور تم ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اُن کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے ؟
۔ [۴] اللہ ربُّ العزت نے سورۂ تحریم میں ارشاد فرمایا وَ اِذْ أسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ أزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا۔ فَلَمَّا نَبَّأتْ بِہٖ وَ أظْھَرَہُ اللہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَ أعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ۔ فَلَمَّا نَبَّأھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ أنَبَأکَ ھٰذَا ۔قَالَ نَبَّأنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ [سورۂ تحریم ، آیت نمبر۳:]
ترجمہ:اور جب نبی نے اپنی ایک بیوی سے ایک راز کی بات کہی،پھر جب اُس نے وہ راز کسی کو بتا دیا اور اللہ نے نبی پر اُس کا اِظہار فرما دیا تو نبی نے اپنی اُس بیوی کو کچھ بتا دیا اور کچھ بتانےسے اعراض کیا ۔پھر جب نبی نے اُنھیں اُس کی خبر دے دی تو وہ بولیں : آپ کو کس نے خبر دی؟انھوں نے کہا: مجھے [میرے ]علیم و خبیر[رب]نے خبر دی ہے۔
حضور ﷺ نے اپنی کس زوجۂ محترمہ کو راز کی کون سی بات بتائی تھی جسے انھوں نے افشا کر دیا تھا ؟ اُسے شیعی تفسیر کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں!شیعہ مفسرِ اعظم شیخ ابو علی فضل بن حسن طبرسی کہتے ہیں
[وَ اِذْ أسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ أزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا]یعنی حفصۃَ۔ عن الزجاج قال : لمَّا حرَّمَ ماریۃَ القِبطیۃَ أخبرَ حفصۃَ أنہ یملِکُ مِن بعدہ أبو بکر و عمرُ ۔فعرَّفھا بعضَ ما أفشَتْ مِن الخبر و أعرضَ عن بعضٍ۔ أن أبا بکر و عمر یملکان بعدی۔ و قریبٌ من ذٰلک ما رواہ العیاشی بالاسناد عن عبد اللہ بن عطا المکی عن أبی جعفر علیہ السلام اِلَّا انہ زَادَ فی ذٰلک أن کلَّ واحدۃ منھما حدثتْ أباھا بذٰلک ۔فعاتَبَھُمَا رسولُ اللہ ﷺ فی أمرِ ماریۃَ وما أفْشَتَا علیہ من ذٰلک و أعرض عن أن یُّعَاتِبَھما فی الأمر الآخر ۔[مجمع البیان ، ج۱۰:،ص۴۲:۔مطبوعہ دارالمرتضی بیروت]
ترجمہ: بعضِ ازواج سے مراد[ام المومنین حضرتِ ]حفصہ[رضی اللہ عنہا] ہیں
زجاج سے مروی ہے کہ جب حضور ﷺ نے حضرتِ ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا تو[دخترِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرتِ ]حفصہ[رضی اللہ عنہا] کو یہ خبر دی کہ میرے [وصال کے] بعد[عائشہ کے والد] ابو بکر اور[تمھارے والد] عمر حکمراں[خلیفہ]ہوں گے ۔
پھر جب انھوں نے اِس راز کو فاش کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے[اُن کی افشا کی ہوئی باتوں میں سے] انھیں بعض سے آگاہ کیا[یعنی بعض باتوں پر عتاب کیا] اور بعض سے اعراض کیا [ یعنی عتاب نہیں کیا۔ اور جس بات پر عتاب کیا تھا وہ یہ تھی ]کہ میرے بعد ابو بکر و عمر [بالترتیب] حکمراں ہوں گے ۔
اور اِسی سے قریب وہ روایت بھی ہے جسے عیاشی نے عبد اللہ بن عطا مکی کی سند سے، حضرت امام جعفرِ صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے ؛ مگر اُس میں یہ اضافہ ہے کہ حضرتِ عائشہ اور حضرتِ حفصہ [رضی اللہ عنہما]میں سے ہر ایک نے اپنے والد کو اِس کی خبر دے دی تھی ۔
تو ماریہ قبطیہ کے معاملے میںاور اِفشاے راز کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے دونوں سے ناراضگی کا اظہار فرمایا ؛ لیکن دوسرے معاملے میں عتاب کرنے سے اعراض فرمایا ۔
اِس روایت سے واضح ہوا کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے اپنی حیاتِ ظاہری ہی میں حضرتِ حفصہ اور حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اپنے بعد ’’حضرتِ صدیقِ اکبر اور حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما‘‘ کی خلافت و حکمرانی کے بارے میں بتا دیا تھا ۔
اِس روایت کو شیعہ مفسر شیخ طبرسی نےبھی بلا تردد بیان کیا ہے اور اسے حضرتِ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ذکرکیا ہے ۔
یہ ہےعظمتِ صدیقی و شانِ فاروقی کہ حضور سید ِعالَم ﷺ نے اُن کی حکم رانی کا اعلان اپنے وصالِ اقدس سے بہت پہلے فرما دیا تھا ۔ اِس کھلی حقیقت کا انکار شیعہ مفسر بھی نہ سکا ۔
اہلِ تشیع سے گزارش ہے کہ اپنے اِس عظیم مفسر کی بات مانیں ،حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق علی جدہ و علیہ الصلاۃ والسلام سے مروی اِس روایت کو تسلیم کریں اور حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمتوں کا اعتراف کریں ۔واللہ الموفق لکل خیر۔[جاری]
تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ
صدر مدرس : دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی
صدر : تحریکِ فروغِ اسلام شاخ کرلا
من جانب : نورِ ایمان اسلامک آرگنائیزیشن کرلا ویسٹ ممبئی
خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں کے گزشتہ قسطوں کے لنک حاضر خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں