تبصرہ نگار: مولانا ڈاکٹر توصیف علوی ماہنامہ صداے بازگشت
ماہنامہ صداے بازگشت
اس وقت دینی،ادبی اصلاحی،سیاسی،قومی،تنقیدی وتحقیقی مضامین کا حسین ای مجلہ ماہنامہ صداے بازگشت آپ کے زیر نظر ہے۔اس کے تمام مشمولات اول تا آخرقابل دید ہیں ،ماشاء اللہ بہترین مواد،نہایت جاذب نظر عمدہ ترتیب کے ساتھ خوب صورت مضامین و منظومات درس قرآن وحدیث اور شخصیات وتبصرہ اور حالات حاضرہ پر مشتمل اعلی درجے کے افکار و خیالات و بہترین تحریروں سے مزین و آراستہ ہے۔
جس سے اس کی ادارتی و انتظامی امور سے وابستہ افراد کی علمی وادبی اور انتظامی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔
مجلہ کی مجلس مشاورت و ادارت میں تحقیق وتدقیق اور ارباب علم و دانش و ادب کی قد آور شخصیات کی شمولت جہاں مجلہ کو جلابخشتی ہے وہیں ادبی و صحافتی معیار کو بلند بھی کرتی ہے۔اس کا سہرا بھی انتظامیہ مجلہ کی فہم و فراست کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ بہت ہی اچھوتے انداز میں کیا ہے۔اس مجلہ میں وہ سب آپ کو پڑھنے کو ملے گا جو ایک قاری کی توقع اور ادبی ضرورت ہے۔
لہٰذا! اسے ایک دینی،ادبی اصلاحی،سیاسی،قومی،تنقیدی وتحقیقی مضامین کا حسین سنگم کہا جائے تو دروغ نہ ہوگا۔بہتری کی گنجائش ہر شعبے میں ہوتی ہے مگر اس مجلہ کوجس محنت ولگن اور اہتمام سے شائع کیا گیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔ ہزارہا مبارک باد کے قابل ہیں اس مجلے کے متنتظمین خاص کر مدیراعلیٰ مولانا محمد قمر انجم قادری فیضی و معاون ایڈیٹر ڈاکٹر محمد قائم الاعظمی علیگ اور سب ایڈیٹر مولانا اویس رضا قادری منظری صاحب جنہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اس مجلہ کو آپ تک پہونچایا۔
مجلہ ھٰذا کے سبھی سلسلے قابل تحسین ہیں ایک طرف مدیر اعلی کا اداریہ ”مسلمان اور موجودہ حالت کے وجوہات ذمہ دار کون؟“نظریاتی، فکری اور اصلاحی لحاظ سے ایک عمدہ اور نایاب اداریہ ہے، جس میں بڑے ہی سلیقے سے حالات کی عکاسی کی گئی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ کسی بھی مجلہ یا جریدے کی جان اداریہ ہوتا ہے تو ٹھیک اس پر علامہ موصوف کھرے اترتے ہوئے ہنرمند اور قابل اعتماد صحافیوں کی فہرست میں اپنی شمولیت کاثبوت بھی پیش کیا۔
تجلیات قرآن وحدیث کی شکل میں علامہ مفتی عبدالحکیم نوری و علامہ مفتی محمد شعیب رضا نظامی. فیضی صاحب کے مضامین کی مہک روح کی گہرائیوں تک پھیل کر مسحور کرتی نظر آرہی ہے۔اسلامیات میں مولانا نفیس القادری صاحب نے ”سنت رسول کی اہمیت“ پرجہاں عمدہ واعلیٰ درجہ کی خامہ فرسائی کی وہیں مولانا فہیم جیلانی مصباحی نے ”جمعہ کی فضیلتیں“ پر۔
اور حالات حاضرہ پر”مذہب حق کی شہزادی،مذہب باطل میں رچائے شادی“ کے عنوان سے مولانا امثل حسین گلاب مصباحی صاحب نے بہترین رہ نمائی کی ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارا طریقہ ءِ کار وہ نہیں جو ہونا چاہئے، جس کام کو ہمیں زمینی سطح پر کرنا چائے ہم اسے اخبارکی سرخیوں میں بیان کرکے گوشہ ءِ عافیت سدھار جاتے ہیں۔
ہمارے پاس اس برائی کی روک تھام کے لئے نہ کوئی مستقل لائحہ عمل ہے اور نہ کوئی منصوبہ بندی، پھرکیونکر ہم اپنا دفاع کرسکتے ہیں، اس سمت میں ملک کی تمام مسلم تنظیموں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔
محمدقاسم ٹانڈوی صاحب نے ”ملکی ترقی کی اصل شاہراہ کھیت اور جنگل سے گزرتی ہے جہاں بیٹھ کر غریب مزدور پیٹ بھرتا ہے“ کے عنوان سے مزدوروں کی حمایت کرتے ہوئے ایک آئینہ بھی پیش کیا ہے کہ سیاسی اور سماجی لوگوں کے لیے یہ دن کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو لیکن مزدوروں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ اگر انہوں نے آج کام نہیں کیا تو انہیں روٹی نہیں ملے گی۔
بڑے بڑے سمیناروں اور اے سی کمروں میں بیٹھ کر حکومت کی اسکیموں کی تعریف کرنے والے اور راج نیتاوں کے قصیدے پڑھنے والے لوگوں کو چاہئے کہ وہ کبھی راج محلوں اور اے سی ہالوں سے نکل کر سسکتی بلکتی زندگیوں کا بھی زمینی مشاہدہ کریں جس سے انہیں کم از کم خود احتسابی کا موقع تو مل سکے۔
مفتی فیاض احمد مصباحی صاحب کشی نگر نے ”نئے ہندوستان میں مسلمان اور ان کی تہذیب وثقافت کی محافظ مادری زبان اردو“ کے عنوان میں دنیابمیں تیسرے نمبر کی سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان کی خصوصیات پر گفگوکی، اور یہ با ت اہل علم سے پوشیدہ نہیں کہ اردوزبان کو دیگر زبانوں میں وہی حیثیت حاصل ہے جو عمارتوں میں تاج محل کو۔
اصلاح معاشرہ کے کالم میں علامہ مجیب احمد فیضی صاحب نے ”سجدہ خالق کو اور ابلیس سے یارانہ بھی“ کے کالم میں جس طرح جاہل پیروں کی کثرت اور اُن کے مریدین کے خرافات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے وہ قابل تقلید ہے۔مولانا ضیاء المصطفیٰ صاحب کا ”زندگی کیا ہے؟“ کا موضوع ایک بہترین انتخاب ہے جو انسان کو اس کی وجہ تخلیق کی طرف رغبت دلاتی نظر آرہی ہے۔
نقوش رفتگاں میں علامہ فیاض احمد برکاتی مصباحی شراوستی صاحب نے ”ملک کی ترقی و آزادی میں مدارس اسلامیہ کا کردار“ کے عنوان سے ایک بہترین ترجمانی کی ہے۔ اور اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ مدارس اسلامیہ ہند نے جہالت و ناخواندگی کے قلع قمع، علوم و فنون کے کی تعلیم و اشاعت کے ساتھ ساتھ ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک اہم کردار ادا کیاہے۔
مولانا روشن رضا ازہری صاحب نے ”سارے صحابہ عدل کے ستارے ہیں“ اور مولانا افسرعلوی صاحب ”حضور شعیب الاولیاء ایک تعارف“کی شکل اپنا نذارنہ محبت وعقیدت بہت ہی احسن طریقے سے پیش کیا ہے۔ ”غریب نواز علیہ الرحمہ کی صوفیانہ تعلیمات“ پر مولانا محسن رضا ضیائی صاحب نے سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کے ارشاد و ہدایات پر بڑی معلوماتی گفتگو فرمائی ہے۔
ادبیات کے کالم میں پروفیسر احمد بدر صاحب ”کلام نور کی نرالی طرز“ کے عنوان پر یوں لب کشاء ہیں کہ اگر سرکار دوجہاں سرورکون ومکاں اس خاکدان گیتی پر تشریف نہ لاتے تو نعت گوئی کی صنف وجودمیں نہ آتی۔
گوشۂ خواتین میں عالمہ ماریہ امان امجدی صاحبہ (پرنسپل جامعہ خدیجۃ الکبریٰ نسواں عربی کالج گوراچوکی )نے ”خواتین اسلام اور وقت کی قدر و قیمت“کے عنوان پر بہت اعلیٰ انداز میں خواتین اسلام کی قدر و قیمت اور عفت و عصمت کی بھر پور رہ نمائی کی ہے۔
منظومات کے کالم میں محترمہ فردوس فاطمہ اشرفی صاحبہ نبی رحمت کی تعریف وتوصیف کچھ انداز میں کرتی نظر آرہی ہیں کہ “ع ہے مداح تیرا کلام الٰہ۔اے ممدوح معبود لاریب فیہ-تو وہیں بارگاہ حضور شعیب الاولیا میں اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار مولانا عبدالمبین فیضی نے کچھ اس طرح کیا ہے ‘عخوف بخشش کا ہو کیوں مجھ کو بروزحشر جبمیری بخشش کا سہارا ہیں شعیب الاولیا حضرت مفتی محمد امیر حسن امجدی صاحب نے ”واحدی طیبی پاکٹ جنتری“ پر ایک تحقیقی وتدقیقی تأثر پیش کیاہے۔
مدیراعلیٰ مولانا محمد قمرانجم قادری فیضی نے معروف ومشہور مزاح نگار ڈاکٹر محمدقائم الاعظمی علیگ صاحب کی مشہور زمانہ کتاب”طنزو مزاح“ پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں ”،مزاح صرف عیب جوئی، طعن وتشنیع، یا فقرے بازی کا نام نہیں،بلکہ ہم آہنگی، تضاد میں امتیاز، نا معقولیت اور ناہمواریوں کو ایسے دل پذیر انداز میں اجاگر کرنے کا نام ہے کہ سننے والا قائل ہوجائے۔
الغرض اس مجلہ میں شامل تمام مشمولات دراصل معلومات کا خزینہ ہیں۔کسی بھی مجلے کا معیار اس کی مشمولات کی وجہ سے قائم ہوتا ہے،اور اس مجلہ کی تمام تحریریں موضوع اور معیار کے اعتبار سے عمدہ اور اعلیٰ ہیں کیونکہ اس میں مدیر اعلی مولانا محمد قمرانجم قادری فیضی صاحب نے ہر قسم کے قارئین کا خیال رکھا ہے۔
بہ لحاظ مجموعی یہ ایک عمدہ دینی،ادبی اصلاحی،سیاسی،قومی،تنقیدی وتحقیقی ایک مکمل اور جامع مجلہ ہونے کے ساتھ ساتھ برقی دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ان شاء اللہ عنقریب اپنی بہترین ترتیب و تدوین کے ساتھ آسمان علم و ادب کا درخشاں ستارہ ہوگا جس کی روشنی کہکشاؤں کی مانند نمایاں ہوگی۔
میری نیک خواہشات ہمیشہ مولانا محمد قمر انجم فیضی اور ان کے تمام رفقاے مجلہ و انتظامیہ کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اس مجلے کی رہنمائی کی۔اس مجلہ میں جتنے بھی شعرا،ادبا ۔ مبصرین و ناقدین کی تحریریں شامل ہیں مجموعی طور پر سب قابل مبارک باد ہیں اور داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
یقیناً آپ سب پیغام اسلام کو عام کرنے اور اسلام کی نشر واشاعت کی غرض سے و قوم کی فلاح و بہبود کیلئے بہترین کردار ادا کررہے ہیں۔
اللہ رب رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی اس کے معاونین ومحسنین بلخصوص حضرت مولانا محمد قمر انجم قادری فیضی صاحب کو صحت و تندرستی دے اور اس مجلہ کو دن دونی رات چوگنی ترقی سے ہمکنار کرے۔اور علم و ادب کے آسمانوں پر ہمیشہ چمکتا دمکتا رہے۔آمین یا رب العالمین
اس تبصرہ کو بھی پڑھیں
ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں