تحریر: محمد امثل حسین گلاب مصباحی قرآن کے اجمال و تفصیل کی ایک جھلک
قرآن کے اجمال و تفصیل کی ایک جھلک
کل قرآن پاک کے چھبیسویں پارہ کی تلاوت کر رہا تھا، غور سے معنی و مفہوم سمجھ سمجھ کر تلاوت کر رہا تھا، جب “واللہ یعلم متقلبکم و مثوٰںکم” پر پہنچا تو کچھ چیزیں ذہن میں آئیں، کل کسی وجہ سے نہیں لکھ پایا
آج موقع ملا، تو تحریر کیا۔ اسے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تبارک و تعالی نے لوگوں کی ہدایت کے لیے، ان کی تفہیم و تسہیل کے لیے، ان کی بھلائی کے لیے، قرآن حکیم کے اندر طرح طرح کے واقعات، قسم قسم کی مثالیں اور نوع بہ نوع قصص بیان فرما کر حق کو اظہر من الشمس اور ابیض من الامس فرما دیا ہے
ان سب چیزوں کے باوجود اگر کس کو حق کی روشنی نظر نہ آۓ، قرآن کی خوشبو سے اس کا دہن معطر نہ ہو، نور قرآن سے اس کا ذہن منور نہ ہو، تو یہ اس کی نعمت عظمیٰ سے محرومی اور رحمت کبریٰ سے ناکامی نہیں تو اور کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ: مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ (النور: آیت،٤٠)۔
جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور نہیں۔ قرآن پاک میں انسانی ضرورت کے مطابق اور انسانی حاجت کے موافق چیزیں بیان کی گئی ہیں۔
اس وجہ سے بھی قرآن میں کوئی واقعہ، کوئی مثال یا کوئی قصہ کہیں شرح و بسط اور تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، تو کہیں اختصار اور اجمال کے ساتھ مذبور ہے۔
ہم ذیل میں ایک چیز کے متعلق قرآن کے واقعۂ اجمال و تفصیل یا اختصار و تطویل کو بیان کرتے ہیں۔
قرآن حکیم میں ایک جگہ اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ (المجادلة: آیت،٧) بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: وَاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا(الطلاق: ۱۲) اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
اس طرح کی اور بھی کچھ آیتیں ہیں۔ تو اجمالی طور سے یا اختصار کے ساتھ بتا دیا گیا کہ اللہ تعالی تمام چیزوں کا عالم ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کو محیط ہے، اس کے علم سے کوئی چیز باہر یا مخفی نہیں ہے۔ اب اس اجمال کی تفصیل یا اس اختصار کی تطویل ملاحظہ فرمائیں۔
اللہ تعالی ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے
١۔ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یَكْتُمُوْنَۚ (۔آل عمران: ۱۶۷)
اور اللہ بہتر جانتا ہے جو باتیں یہ چھپارہے ہیں۔ یہ آیت خاص موقع پر نازل ہوئی جس میں بتایا گیا کہ اللہ تعالی اسے بھی جانتا ہے جو یہ منافقین اپنے دل میں چھپا رکھے ہیں۔ یہ آیت خاص موقع کی ہے اس وجہ سے منافقین کی تخصیص ہے، ورنہ اللہ تعالی ہر ایک کے دل کی بات جانتا ہے جیسا کہ آگے آۓ گا۔ ان شاء اللہ
٢۔ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْؕ (التوبة: آیت،١٠١)
ہم انہیں جانتے ہیں ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جو دیہاتی منافق ہے، اللہ اسے بھی جانتا ہے اور جو شہری منافق ہے، اللہ تعالی اسے بھی جانتا ہے۔
٣۔ قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ (الانعام: آیت،۳۳)
ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تمہیں رنجیدہ کرتی ہیں۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا کہ کفار و مشرکین جو آپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں، آپ کو پریشان کرنے کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں، اللہ تعالی ان سب چیزوں کو جانتا ہے۔
٤۔ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ(الحجر: آیت،۹۷)
بے شک ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ مطلب واضح ہے۔
٥۔ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌؕ(النحل: آیت، ۱۰۳)
اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ کافر کہتے ہیں اس نبی کو ایک آدمی سکھاتا ہے۔ اس آیت سے واضح ہوگیا کہ کفار کے احوال و اقوال کو بھی اللہ تعالی جانتا ہے۔
٦۔ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ (یس: آیت،۷۶)
تو ان کی بات تمہیں غمگین نہ کرے بیشک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اورجو ظاہر کرتے ہیں۔ اوپر میں صرف باطن کے جاننے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں اس کی بھی وضاحت ہے کہ اللہ تعالی کفار کے ظاہر کو بھی جانتا ہو۔
٧۔ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ۚۖ (ق: آیت، ١٦)
اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے۔ اس سے مکمل طور سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالی مطلق انسان کے دل اور اس کے وسوسوں سے باخبر ہے عام ازیں کہ وہ منافق ہو، یا کافر ہو، یا گمراہ ہو، یا مسلمان ہو۔
٨۔ وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗؕ (البقرة: آیت،٢٧٠)
اور تم جو خرچ کرو یا کوئی نذر مانو اللہ اسے جانتا ہے۔ اور ایک دوسری جگہ ہے
وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ (البقرة: آیت، ١٩٧)
اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے۔ ان دو آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو لوگ مطلق خرچ کرتے ہیں یا جو راہ حق میں خرچ کرتے ہیں، یا جو نذر منت مانتے ہیں، اللہ تعالی ان سب کو جانتا ہے۔
٩۔ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِؕ (البقرة: آیت،۲۲۰) اور اللہ بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے جداخوب جانتا ہے۔ کون اصلاح کرنے والا ہے، اللہ تعالی اسے بھی جانتا ہے اور کون فساد برپا کرنے والا ہے، اللہ تعالی اسے بھی جانتا ہے۔
١٠۔ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(البقرة: آیت،۲۱۶)
اورقریب ہے کہ کوئی بات تمہیں ناپسند ہوحالاں کہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے حالاں کہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ہم سب کو، آپ سب کو کیا پسند ہے، اللہ تعالی وہ بھی جانتا ہے اور کیا ناپسند ہے، وہ بھی جانتا ہے۔اور یہ بھی جانتا ہے کہ کس میں بھلائی ہے اور کس میں بھلائی نہیں ہے۔
١١۔ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ (الانعام: آیت،۳)
وہ تمہاری ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے اور وہ تمہارے سب کام جانتا ہے۔ ایک جگہ ہے۔
وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ (محمد: ١٩)
اور اللہ دن کے وقت تمہارے پھرنے اور رات کو تمہارے آرام کرنے کو جانتا ہے۔
اور ایک جگہ ہے: اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(ھود: آیت،۵)
بے شک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے۔ اللہ تعالی تمہارے ظاہر و باطن، تمہارے کام کاج، تمہارے رات دن چلنے پھرنے حتی کہ تمہارے دل کی آہٹ کو بھی جانتا ہے۔
یہاں تک منافق، کافر، مسلم، پھر مطلق انسان، پھر ان کے چھپے اور ظاہر، ان کے کام، ان کے چلنے پھرنے اور ان کے دل کی بات تک کا ذکر ہوا۔ اب آگے ہم اور تفصیل کرتے ہیں۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
١٢۔ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ (ھود: آیت، ٦)
اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ اس میں مزید تفصیل ہے کہ اللہ تعالی ہر جاندار خواہ وہ انسان ہو، یا جانور، چوپایہ ہو یا پرندہ، مچھلی ہو یا بچھو، مچھر ہو یا پسو غرض کہ ہر ایک جاندار چیز کو جانتا ہے، ان کے مستقر اور مستودع کو بھی جانتا ہے۔
ہم آگے اور تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
١٣۔ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ (الانعام: آیت، ٥٩)
اور جو کچھ خشکی اور تری میں ہے وہ سب جانتا ہے۔ اس میں مزید تفصیل ہے۔ کوئی جاندار یا تو خشکی میں ہوگا یا تری میں، اللہ تعالی خشکی اور تری میں رہنے والے جان داروں کو بھی جانتا ہے۔ اور صرف جانداروں کو ہی نہیں بلکہ غیر جانداروں کو بھی جانتا ہے۔
جیسا کہ لفظ “ما” اس پر دلیل بین ہے۔ انسان، ہر قسم کے حیوان اور ہر قسم کے غیر جاندار چاہے وہ خشکی میں ہوں یا تری میں، ان سب کا بیان ہوگیا۔ ہم آگے اور تفصیل کرتے ہیں۔
١٤۔ وَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ (اٰل عمران: آیت، ٢٩)
اور وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی ایسی مخلوق خواہ وہ جاندار ہو یا غیر جاندار ہو، نہ خشکی میں ہو، نہ تری میں ہو، بلکہ فضا میں ہو یا سما میں ہو۔
تو اس آیت میں مزید تفصیل ہے کہ ان تمام مخلوقات کو جو آسمان میں ہیں عام ازیں کہ وہ جان دار ہوں یا غیر جاندار، اسی طرح ان تمام مخلوقات کو جو زمین میں ہیں، عام ازیں کہ وہ جاندار ہوں یا غیر جاندار ان سب کو اللہ تعالی جانتا ہے۔
اور اس مضمون کی قریباً سینکڑوں آیتیں ہیں جن میں مزید تفصیل ہے۔ اگر طوالت تحریر مانع نہ ہوتی تو ان سب کو بھی ہم تفصیلاً بیان کرتے۔ خیر
درج بالا سطور میں ہم نے صرف ایک چیز یعنی علم باری تعالی کی اجمالاً و تفصیلاً قرآن پاک سے تفصیل پیش کی، اس طرح قرآن میں ہزاروں چیزیں ایسی ہیں، جن کا ایک مقام پر اجمالی بیان ہے
تو دوسرے مقام پر تفصیلی بیان ہے۔ مثلاً بہت سارے انبیا و رسل کے حالات، ان کی قوم کے واقعات، اختلاف لیل و نہار، موسم گرما، موسم سرما اور موسم بہار، زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، سیارے، بروج، انسان، مسلم، کافر، منافق، گمراہ، عالم، جاہل، مصلح، مفسد، شریف، شریر، نیک، بد، حیوان، چرند پرند، دریا، سمندر، نہر، پہاڑ، پتھر، مٹی، قبل ولادت کے مراحل، بعد ولادت کے درجات و مشاغل
زندگی، معیشت، تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، موت، قبر، برزخی زندگی، بعث بعد الموت، حشر و نشر، قیامت، وضع میزان، قیام عدل و انصاف، عذاب، ثواب، جنت، اس کی رعنائیاں، حور و غلماں، سب سے بڑی نعمت دیدار حق تعالی، دوزخ، اس کی ہولناکیاں، وغیرہ
یہ سب چیزیں قرآن میں کسی مقام پر اجمال یا اختصار کے ساتھ مذکور ہیں، تو کسی مقام پر تفصیل و تطویل کے مسطور ہیں، اور قرآن پاک کے اجمال کی سب سے بہتر تفصیل یا قرآن پاک کے اختصار کی سب سے بہتر تطویل وہی ہے جو خود قرآن سے ہو جیسا کہ علوم القرآن میں ہے۔
تو اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں کہ حسب ضروت کسی واقعہ کو اجمال سے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور وفق حکمت کسی واقعہ کو تفصیل سے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
اللہ تعالی ہم سب کو علم اجمال و تفصیل سے وافر حصہ عطا فرماۓ اور اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصّل کا یہی ہے مجمل
تحریر: محمد امثل حسین گلاب مصباحی
فیض پور، سیتامڑھی
۔ ٧ رجب المرجب ١٤٤٢ھ
ان مضامین کا بھی مطالعہ فرمائیں
اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و ارشادات
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے تعلیمات کی ایک جھلک
ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ ۔ماشاءاللہ بہت خوبصورت تحریر
آپ نے۔میں اس موضوع پر اپ سے کچھ مزید رہنمائی کا طلب گار ہوں۔جزاک اللہ