حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے آقا حضور نبی کریم ﷺ کو جتنا کچھ عطا فرمایا گیا ہے اتنا کسی نبی کو حق تعالی نے نہیں عطا فرمایا ۔اور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے کا معجزہ عطا فرمایا ۔اور ہمارے آقا حضور اکرم ﷺ کو حنین جِذ٘ع یعنی استن حنانہ کا معجزہ عطا فرمایا۔ یہاں تک کہ اس کھجور کے تنے کی آہ و نالہ ک آواز سب لوگوں نے سنا۔
استن حنانہ کا بیان
ہمارے آقا حضور اکرم ﷺ کی مسجد شریف کھجوروں کے تنوں پر مسقّف تھی۔منبر شریف کی تعمیر سے قبل اس کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر کائنات کے والی ہم غریبوں کے ماویٰ وملجا حضورِ اکرم ﷺ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔
مسجد نبوی شریف میں جب منبر شریف تعمیر کیا گیا تو اسے علیحدہ کر دیا گیا ۔اس کے بعد اس تنے سے رونے کے آواز سنی گئی۔ جیسے وہ اونٹنی روتی ہے جس کا بچہ اس سے جدا کردیا گیا ہو۔
حضرت انس رضی اللہ تبارک و تعالی عنہ کی حدیث پاک میں آیا ہے کہ اس تنے کی رونے کی آواز سے ساری مسجد لرزنے اور کانپنے لگی۔اور اس کھجور کے تنے کی آہ و نالہ ،بےقراری،بےچینی کو دیکھ کر لوگوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ وہ کھجور کے تنے پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔اور حضور اقدس ﷺ نے اپنا دست اقدس رکھا اور اس کھجور کے تنے کو چپٹا لیا تو وہ تنہ خاموش ہوگیا ۔
پھر حضرت رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا تنہ ذکر خدا سے دور ہوگیا ۔اگر میں اسے نہ چپٹایا یعنی استن حنانہ کو سینے سے نہ لگایا ہوتا تو یہ کھجور کا تنہ (استن حنانہ )قیامت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار غم وحزن میں یوں ہی روتا رہتا۔
اس کھجور کے تنے استن حنانہ کو خاموش کرنے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسے منبر کے نیچے دفن کردیا جائے۔اور پھر محبوب خدا ﷺ اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ کھجور کا تنہ یعنی استن حنانہ کو ہمارے کریم آقا حضور نبئ رحمت ﷺ نے اپنی طرف بلایا تو وہ بےجان کھجور کی لکڑی حکم آقاﷺ پاکر زمین کو چیرتے ہوئے حاضر ہوگیا ۔ اور پھر حضور ﷺ نے اسے چپٹالیا یہاں تک کہ اسے اس کے مقام تک پہنچا دیا گیا۔
حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ لکھتے ہیں
حضرت علامہ روم علیہ الرحمہ مثنوی شریف میں استن حنانہ کا واقعہ خوبصورت انداز میں لکھتے ہیں اور انسان کو عشق نبی ﷺ کا درس دیتے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
استن حنانہ در ہجر رسول = نالہ میزد ہمچوں ارباب عقول
خلاصہ ۔۔۔رسول اللہ ﷺ کے فراق می استنن حنانہ انسانوں کی طرح رودیا۔
درمیان مجلس وعظ آنچناں = کزوے آگاہ گشت ہم پیر وجواں
خلاصہ ۔۔۔استن حنانہ اس طرح رویا کہ تمام اہل مجلس اس پر مطلع ہوگئے۔
در تحیر ماند اصحاب رسول = کزچہ می نالد ستون باعرض وطول
خلاصہ۔۔۔ تمام صحابہ حیران ہوئے کہ یہ استنن حنانہ کس وجہ سے سر پا محو گریا ہے
گفت پیغبر چہ خواہی اے ستون = گفت جانم از فراقت گشت خوں
خلاصہ ۔۔۔آپ ﷺ نےفرمایا اے استن حنانہ تو کیا چاہتا ہے، اس نے عرض کی میری جان آپ کے فراق میں خون ہوگئی ہے۔
از فراق تو مرا جان سوخت = چو ننالم بے تو اے جان جہاں ۔
خلاصہ ۔۔۔یارسول اللہ ﷺ آپ کے فراق سے مری جان نکل گئی۔اے جان جہاں تو کیوں نہ آپ کی جدائ میں روؤں۔
مسندت من بودم از من تاختی = بر سر منبر تو مسند ساختی۔
خلاصہ ۔۔۔ پہلے میں آپ کی مسند تھا آپ نے مجھ سے کنارہ کش ہو کر منبر کو مسند بنا لیا۔
پس رسولش گفت اے نیکو درخت= اے شدہ باسر تو ہمراز بخت
خلاصہ ۔۔۔ پس رسول خداﷺ نے فرمایا اے خوش نصیب درخت تو وہ ہے جس کے باطن میں خوش بختی ہے
گرہمے خواہی ترا نخلے کنند= شرقی وغربی ز تو میوہ چنند
خلاصہ ۔۔۔اگر تو چاہیے تو تجھ کو ہری بھری کھجور بنا دیں تاکہ پورب وپچھم کے لوگ تیرا پھل کھائیں
یادراں عالم حققت سروے کند= تاتروتازہ بمانی ابد
خلاصہ ۔۔۔حق تعالی تجھے اگلے جہاں کا سرو یعنی تناور درخت بنادے تاکہ تو ہمیشہ ہمیشہ تروتازہ رہے۔
گفت آں خواہم کہ دائم شد بقاش= بشنو اے غافل کم از چوبے مباش
خلاصہ ۔۔۔عرض کیا استنن حنانہ نے کہ یارسول اللّهﷺ میں وہ بننا چاہتا ہوں جو ہمیشہ باقی رہے اے غافل انسان تو بھی بیدار ہو ایک خشک لکڑی سے پیچھے نہ رہ جائے۔یعنی جب ایخ سوکھ لکڑی(استنن حنانہ ) دارالبقاء ہمیشگی کا طالب ہے تو انسان کو اس سے زیادہ اس کی خواہش و آرزو کرنی چاہیے ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کیا خوب فرماتے ہیں ۔
جان دیدو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائےگا
آں ستون را دفن کرد اندر زمیں= کوچو مردم حشر گردد یوم دیں۔
خلاصہ ۔۔۔اس کھجور کے تنےکو زمین میں دفن کردیا گیا قیامت کے دن اسے انسانوں کی طرح اٹھایا جائےگا۔(مشنوی شریف )۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پاک میں ہے کہ حضور شفیع المذنبین ﷺ نے اس کھجور کے تنے سے فرمایا کہ اگر تو چاہیے تو تجھے اس باغ میں بودیا جائے جہاں تو پہلے تھا اور تیرے رگ وریشے کو مکمل کردیا جائے اور تیری شاخوں کو تروتازہ کردیا جائے۔اور تجھ سے پھل نکلے ۔
آقائے نامدار حبیب پروردگار مالک جنتﷺ نے فرمایا یا اگر تو چاہیے تو تجھے جنت میں جما دیا جائےتاکہ محبوبان خدا تیرا پھل کھائیں۔ بعدۂ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک کانوں کو اس کی جانب کیا کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔تو کھجور کے تنے نے عرض کیا ۔
یا رسول اللّه ﷺ مجھھ جنت میں قائم کر دیا جائےتاکہ محبوبان خدا کو اپنا پھل کھلاؤں۔یہی وہ جگہ جہاں نہ میں پرانا ہوں گا اور نہ مجھے فنا ہوگی۔ان باتوں کو حضرت برکہ نے بھی سنا اس وقت قریب تھے۔
اس کے بعد حضور رحمت العالمین ﷺ نے فرمایا میں یہی کرتا ہوں اور فرمایا تو نے دار فنا پر دار بقا کو پسند کیا۔
امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔
وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنّت کا
ہم مفلس کیا مول چکائیں ہمارا ہاتھ ہی خالی ہے۔
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ جب اس حدیث پاک کو بیان کیا کرتے تھے تو فرمایا کرتے تھے اے خدا کے بندو! ایک لکڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق میں اتنا روتی ہے تو تم تو اس سے زیادہ مستحق ہو کہ رسولِ خدا ﷺ کے لقا کے مشتاق بنو۔
پروردگار عالم ہم کو اپنے محبوب ﷺ کی محبت میں جلائےقبر میں حشر میں نبئ کونین ﷺ کا دیدار نصیب فرمائے اور شفیع المذنبین ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
ہمارے دیگر مضامین خود پڑھیں اور اپنے دوست و احباب کو ثواب کی نیت سے شئیر کریں ۔
ہمارے ویب سائٹ پر آپ کو الگ الگ موضوعات پر مضامین مل جائیں وزٹ کریں افکار رضا ۔ afkareraza.com
ہمارے محب جناب قاری غلام صمدانی قادری دیناجپوری کے مضامین پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں ۔
ماشاء اللہ