Saturday, April 13, 2024
Homeعظمت مصطفیٰشب معراج اور خاتم الانبیاء فرش زمیں سے عرض بریں تک

شب معراج اور خاتم الانبیاء فرش زمیں سے عرض بریں تک

ازقلم ۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی شب معراج اور خاتم الانبیاء فرش زمیں سے عرض بریں تک

شب معراج اور خاتم الانبیاء فرش زمیں سے عرض بریں تک

حضور اکرم ﷺ کے معراج شریف کا واقعہ نہایت ہی مشہور ومعروف ہے اُسے علمائے اسلام نے نہایت ہی تفصیل سے تحریر فرمایا ہے اور اکثر واقعہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں موجود ہے ان سارے واقعات سے دورِ حاضر کے مسلمانوں کو سبق حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔اب ہم معراج کے تعلق سے کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں آپ اسے ملاحظہ فرمائیں۔

لفظ “معراج “عروج سے نکلا ہے، جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں چونکہ حدیث شریف میں آپ ﷺ کے لفظ” عروج بی” یعنی مجھے اوپر چڑھایا گیا مروی ہے ۔

اس لیے اس معجزاتی سفر کا نام معراج رکھا گیاہے اس سفر کے لیے قرآن کریم میں ایک دوسرا لفظ “اسراء” بھی استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی رات کو چلانے یا لے جانے کے ہیں چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں اسی لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

حضور اکرم ﷺ چوں کہ امام الانبیاء،ختم الرسل، سرور عالم اور افضل البشر ہیں، اس لیے آپ کو اس معجزاتی سفر میں وہاں تک رسائی حاصل ہوئی ہے جہاں تک کسی فرزند آدم اس سے پہلے نہیں پہنچا اور آپ نے وہ کچھ مشاہدہ کیا اور اس بلند ترین سفر میں وہ سب کچھ آپ کوعطا ہوا،جواب تک مقربان بارگاہ کی حد نظر سے باہر تھا۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ معراج کب اور کس تاریخ کو ہوئی،ایک دفعہ ہوئی، یا متعدد بار،جسمانی ہوئی یا روحانی یا دونوں، صحیح اور مستند روایت کے مطابق اورجمہور علماء کی رائے کے موافق یہ معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی معراج صرف اور صرف ایک دفعہ ہی ہوئی ہے۔

معراج کا واقعہ حضور اکرم ﷺ کا ایک خصوصی اعزاز اور امتیازی معجزہ ہے یہ ایک ایسا محیر العقول واقعہ ہے کہ یہ سارا واقعہ پوری رات میں نہیں بلکہ رات کے ایک مختصرسے حصے میں واقع ہوا جس کی طرف سے قرآن مجید میں لفظ” لیلا ” سے اشارہ کیا ہے۔یہ اس کا کچھ حصہ صرف ہوا ہے۔

چناں چہ قرآن مقدس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ سے جو سفر آسمان کی طرف ہوا اس کا نام حدیث میں معراج آیا ہے، اسراء کا سفر اس آیت کریمہ کی نص قطعی سے ثابت ہے

اور سفر معراج کا ذکر سورۃ العجم کی آیات میں آیا ہے جبکہ حدیث نبوی میں تو اس کی وضاحت بڑی تفصیل سے آئی ہے احادیث متواترہ سےبھی اس کاثبوت ملتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ان متواتر روایات کو نقل کیا ہے حتی کہ پچیس کے قریب جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے نام لکھ دیے ہیں وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ واقعہ معراج کی تمام احادیث کریمہ پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے صرف اور صرف ملحد اور زندیق اس عظیم الشان واقعے کا انکار کرتے ہیں۔

واقعہ معراج، مختصر تعارف و تجزیہ

جب اسلام کی سخت اور پرخطر زندگی کا باب ختم ہونے والا تھا اور ہجرت کے بعد سے اطمینان وسکون کے ایک نئے دور کا آغازہونے والا تھا تو شب مبارک میں وہ ساعت آئی جو حضور اکرم ﷺ کے لیے مقرر تھی

حضرت جبرائیل علیہ السلام کو فرمان پہنچا کہ وہ سواری جو بجلی سے زیادہ تیزگام اور روشنی سے زیادہ سبک خرام ہے حرم حضرت ابراہیم علیہ السلام میں لےکر جلد حاضر ہوں کارکنان کو حکم ہوا کہ مملکت آب و خاک کے اتحادی مادی احکام و قوانین تھوڑی دیر کے لیے معطل کردیے جائیں اور زمان ومکان سفر واقامت ۔

رویت وجماعت
تخاطب وکلام کی تمام طبعی پابندیاں اٹھا دی جائیں۔معراج کی شب انبیاء کرام علیہم السلام نے آپکی امامت میں نماز ادا کی۔آپ کو امام بنا کر آپ کی سیادت اور فضیلت کا عملی ثبوت دیا گیا۔اس کے بعد آپ بیت المقدس سے رخصت ہو کر بذریعہ براق رات کی تاریکی میں مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔

معراج کے وقت اور زمانے کے تعین میں اختلاف ہے مگر اتنی بات پر بلا اختلاف سب کا اتفاق ہے کہ یہ واقعہ بعثت اور آغاز وحی کے بعد ہجرت سے پہلے کا ہے جو مکہ مکرمہ میں پیش آیا جبھی تو کسی شاعر نے اس کے متعلق کیاہی خوب کہاہے

زنجیر بولتی رہی در بولتا رہا

لوٹے تو ام ہانی کا گھر بولتا رہا۔

آے گیے حضور سرعرش بار بار

نیزے پہ جب حسین کا سر بولتا رہا۔

شب معراج اور خاتم الانبیاء فرش زمیں سے عرض بریں تک

معراج کے متعلق غیر مسلم کی شہادت

حضور اکرم ﷺ نے شاہ روم، قیصر کے پاس نامۂ مبارک دے کر وحیہ ابن خلیفہ صحابی کو بھیجا۔ جب شاہ روم ہرقل نے آپ کا نام مبارک پڑھا تو آپ کے حالات معلوم کرنے کے لیے عرب کے ان لوگوں کو بلایا جو اس وقت ان کے ملک میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے

شاہی حکم کے مطابق ابو سفیان ابن حرب اور ان کے رفقاء کو حاضر کیا گیا۔شاہ ہرقل نے ان سے چند سوالات کئے ابو سفیان (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس موقع پر آپ کے متعلق کچھ ایسی باتیں بیان کریں

جن سے آپ کی حیثیت مجروح ہو مگر ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنے اس ارادے سے کوئی چیز اس کے مانع نہیں تھی کہ مبادا میری زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس کا جھوٹ ہوتا کھل جائے اور میں بادشاہ کی نظروں میں گرجاؤں اور میرے ساتھی بھی ہمیشہ مجھے جھوٹا ہونے کا طعنہ دیا کریں

البتہ مجھے اس وقت خیال آیا کہ اس کے سامنے واقعہ معراج ‌بیان کروں جس کا جھوٹ ہونا بادشاہ خود سمجھ لےگا تو میں نے کہا کہ ان کا ایک واقعہ آپ سے بیان کرتا ہوں جس کے متعلق آپ خود معلوم کریں گے کہ وہ جھوٹا ہے، پھر ہرقل نے پوچھا کہ واقعہ کیا ہے ؟۔

ابوسفیان نے کہا کہ وہ مدعی نبوت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک رات مکہ مکرمہ سے نکلے اور آپ کی اس مسجد یعنی بیت المقدس میں نماز پڑھی اور پھر اسی رات آسمان پر تشریف لے گئے صبح ہونے سے قبل مکہ مکرمہ میں ہمارے پاس پہنچ گئے۔ایلیا نامی عیسائی عالم جو اس وقت بیت المقدس کا سب سے بڑا عالم تھا۔

اس وقت شاہ روم کے سرہانے کھڑا تھا اس نے بیان کیا کہ میں اس کی جانب متوجہ ہوا اور پوچھا کہ آپ کو اس کا علم کیسے اور کیوں کر ہوا؟ ۔

اس نے عرض کیا کہ میری عادت تھی کہ رات کو اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک بیت المقدس کے تمام دروازے بند نہ کردیتے تھے ۔اس رات حسب عادت میں نے تمام دروازے بند کر دیے، مگر ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا تو میں نے اپنے عملے کو بلایا،مگر ان سے بھی بند نہ ہوسکا پھر عاجز ہو کر میں نے کاریگروں اور نجاکاروں کو بلوایا

انہوں نے دیکھ کر کہا کہ ان کواڑوں کے اوپر دروازوے کی عمارت کا بوجھ پڑ گیا ہے اب صبح سے پہلے اس کے بند ہونے کی کوئی تدبیر نہیں صبح ہم دیکھیں گے چنانچہ میں مجبور ہو کر لوٹا اور دونوں کواڑ کھلے رہ گئے۔صبح ہوتے ہی میں جب اس دروازے پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دروازہ مسجد کے پاس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی جانور رات کو باندھا گیا ہے

اس وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ آج اس دروازے کو شاید اللہ تعالی نے اس لیے بند ہونے سے روکا کہ کوئی نبی یہاں آنے والے تھے اور پھر اس نے بیان کیا کہ اس رات آپ نے ہماری مسجد میں نماز پڑھی تھی۔

اس کے بعد اور بھی تفصیلات بیان کیں،جس سے واقعہ معراج کی صداقت و حقانیت پر روشنی پڑتی ہے ۔( ابن کثیر،جلد 3/صفحہ 24)۔

ستائیسویں روز و شب کے فضائل و اعمال

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ” حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے ماہ حرام (رجب المرجب) میں تین روزے رکھے۔

اس کے لیے نو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میرے کان بہرے ہوں اگر میں نے حضور اکرم ﷺ سے یہ بات نہ سنی ہو”۔( مکاشفتہ القلوب)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ” حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے رجب المرجب کی ستائیسویں کا روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ ماہ کے روزوں کا ثواب لکھا جاتا ہے،یہ پہلا دن ہے جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم ﷺ کے لیے پیغام الہی لے کر نازل ہوئے

اور اسی ماہ میں حضور اکرم ﷺ کو معراج شریف کا شرف حاصل ہوا مکاشفتہ القلوب)۔

اللہ ربّ العزت ہم سبھوں کو شب معراج کے فیوض و برکات سے مالا مال فرماے اور ستائیویں رجب المرجب شریف کے روزہ رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

ازقلم۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی

خطیب وامام۔ نہالیہ جامع مسجد دکھن نارائن پور

راجر ہاٹ گوپال پور

کولکاتا۔136

رابطہ نمبر۔9007124164

اس کو بھی پڑھیں: سرکار دو عالم ﷺ کی سیر معراج اور اس کے چند اسرار و نکات

ہندی مضامین کے تشریف لائیں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن