Tuesday, November 19, 2024
Homeاحکام شریعتتحقیق و مناظرہ اور لغزش و خطا قسط اول

تحقیق و مناظرہ اور لغزش و خطا قسط اول

تحریر: طارق انور مصباحی تحقیق ومناظرہ اور لغزش وخطا قسط اول

تحقیق ومناظرہ اور لغزش وخطا 

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

سوال : اگر کسی عالم نے بوجہ لغزش قطعیات میں کوئی ایسا قول پیش کردیا جوموافق شرع نہیں تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب : ظنیات میں اجتہاد ہوتا ہے۔اس میں چوں کہ اجتہادکی اجازت ہے،اس لیے مجتہد کی خطا پربھی ایک اجر کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے،کیوں کہ مجتہدنے اپنی پوری قوت صرف کی،محنت ومشقت کی

گرچہ صحت تک رسائی نہ ہوسکی،پس کوشش صرف کرنے کے سبب ایک اجر ہے۔اگرصحت تک رسائی ہوجاتی تو دواجر کااستحقاق ثابت ہوتا۔ قطعیات میں نہ اجتہاد کی اجازت ہے،نہ ہی لغزش وخطا قابل قبول ہے۔

۔ (الف) فتویٰ میں لغزش کا حکم کیا ہے؟

اگر عالم ومفتی سے کسی شرعی مسئلہ میں لغزش ہوجائے تو اس کے لیے مغفرت کا ذکر کتابوں میں مرقوم ہے،پھر جب اسے خود توجہ کرنے یا کسی کے توجہ دلانے سے اپنی لغزش پر اطلاع ہو جائے تو اس سے رجوع کرنے کا حکم ہے:الاسلام یعلوولا یعلی(صحیح بخاری)

فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے۔

سوال : جوصاحب جھوٹامسئلہ بیان کریں،ان کے واسطے شرع شریف کا کیاحکم ہے؟

الجواب : جھوٹامسئلہ بیان کرنا سخت شدیدکبیرہ ہے۔اگرقصداً ہے توشریعت پر افترا ہے، اور شریعت پر افترا، اللہ عزوجل پرافترا ہے،اور اللہ عزوجل فرماتاہے:(اِنَّ الَّذِینَ یَفتَرُونَ عَلَی اللّّٰہِ الکَذِبَ لَا یُفلِحُونَ) وہ جواللہ پرجھوٹاافتراکرتے ہیں، فلاح نہ پائیں گے،اور اگر بے علمی سے ہے توجاہل پرسخت حرام ہے کہ فتویٰ دے۔

حدیث میں ہے۔نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:(مَن اَفتٰی بِغَیرِعِلمٍ لَعَنَتہُ مَلٰءِکَۃُ السََّمَاءِ وَالاَرضِ)جو بغیر علم کے فتویٰ دے،اس پرآسمان وزمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔

ہاں،اگرعالم سے اتفاقاً سہواً واقع ہو،اوراس نے اپنی طرف سے بے احتیاطی نہ کی،اورغلط جواب صادر ہوا تو مواخذہ نہیں،مگرفرض ہے کہ مطلع ہوتے ہی فوراً اپنی خطا ظاہر کرے۔ اس پراصرارکرے گا تو پہلی شق یعنی افترامیں آئے گا۔
(فتاویٰ رضویہ جلدنہم:جزدوم:ص 275-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:اگرمفتی ومحقق نے مکمل محنت کی۔اپنی جانب سے کوئی کمی نہ کی،پھر بھی خطا ہو جائے تومفتی معذور اور عند اللہ مغفور ہے،بشرطے کہ خطاکا علم ہوتے ہی اپنی خطا سے رجوع کرے۔اصرار اوربے جا تاویل کی ضرورت نہیں۔نہ ہی رجوع میں کوئی عار کی بات ہے۔ جب بشر غیر معصوم سے خطاکا صدور ایک امر عادی ہے تو تاویل واصرار کی ضرورت کیا ہے۔

۔(ب) سستی وکاہلی کے سبب غلط فتویٰ دینے پر حکم شرع وارد

یہ بالکل واضح ہے کہ کسی عالم یا مفتی سے اپنی کوشش صرف کرنے کے باوجود کوئی لغزش ہوجائے تومعاف ہے،لیکن اگر کوئی شرعی مسائل کوکتابوں میں نہ دیکھے،اوراپنی سمجھ کے مطابق مسائل بیان کرے اور اس میں غلطی ہوجائے تو یہ ہرگز معاف نہیں ہوسکتی۔

معافی اسی وقت ہے،جب اس نے اپنی قوت بھر کوشش کرلی ہو،کتابیں دیکھ لی ہو، اس کے لیے مسئلہ کی وہی صورت ظاہر ہوئی تواس نے صحیح سمجھ کر اسے بیان کردیا تووہ اپنی کوشش صرف کرنے کے سبب معذور ہے۔

کاہلی اور غفلت میں مبتلا لوگوں کا حکم درج ذیل ہے۔

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت منکوحہ کو اسی روز اس کے خاوند نے طلاق دی اور اسی روز قاضی صاحب نے اس کا نکاح دوسرے شخص کے ساتھ پڑھادیا قاضی مذکور سے کہا گیاکہ یہ نکاح ناجائز ہے، کیوں کہ اس میں عدت کی ضرورت ہے

انھوں نے کہا کچھ ضرورت نہیں ہے۔ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے کتنے نکاح ایسے پڑھائے ہوں گے۔انھوں نے کہاکہ سیکڑوں نکاح ہم نے ایسے ہی پڑھائے ہیں، حالاں کہ وہ عورت بالغ تھی اور اپنے شوہر کے یہاں آتی جاتی اور رہتی تھی۔ اس حالت میں وہ نکاح جائز ہوا یانہیں؟ اور نکاح پڑھانے والے پر شریعت کاحکم کیا ہے؟ اس شخص کانکاح پڑھانا جائزہے یانہیں؟ او ران قاضی صاحب کابھی نکاح رہا یانہیں؟

الجواب:وہ نکاح حرام قطعی ہوا،اور اس میں قربت زنائے خالص ہے۔ان مرد وعور ت پر فرض ہے کہ فورًا فورًا جداہوجائیں،او ر عورت پر فرض ہے کہ عدت پوری کرے اس کے بعدنکاح کرسکتی ہے،قاضی جو مدت سے نکاح خوانی کررہاہے نراوحشی جنگلی نہیں ہو سکتا، جو مسئلہ عدت سے آگاہ نہ ہو، اس حالت میں ا س کا کہناکہ”عدت کی کچھ ضرورت نہیں“ کفر ہے۔اس کی عورت نکاح سے نکل گئی اور وہ ایمان سے خارج ہوگیا۔

اس پر فرض ہے کہ توبہ کرے اور مسلمان ہو،ا س کے بعد اس کی عورت راضی ہو تو اس سے دوبارہ نکاح کرے، ایسے شخص سے نکاح ہر گز نہ پڑھوایا جائے:واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص 139-رضا اکیڈمی ممبئ)

۔ (ج) جاہل کی لغزش پر حکم شرع وارد

چوں کہ جاہل کوفتویٰ دینے کا حق نہیں ہے،اس لیے وہ غلطی کرے تو حکم شرعی وارد ہوگا۔

امام احمدرضا قادری نے تحریر فرمایا:”جاہل کو احکام شرع خصوصًا کفرواسلام میں جرأت سخت حرام،اشد حرام ہے۔کوئی ہو، کسے باشد۔ واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلدششم: ص209-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح :منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ عوام کومسئلہ تکفیر یا دیگر مسائل میں اپنی جانب سے کچھ بیان کرنے کی اجازت نہیں۔آج کل ہوٹلوں اور چوراہوں پربیٹھ کر عوام الناس جو فتاویٰ صادرکرتے ہیں، ان کو ایسی حرکتوں سے باز آنا چاہئے۔

عالم ومفتی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی باتیں بتائیں،پس اگر مکمل کوشش صرف کرنے کے باوجود ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو وہ معذور ہیں۔جاہل کونہ فتویٰ دینے کی اجازت ہے،نہ اس کو معذور سمجھا جائے گا۔

ایک غیرعالم شخص نے اپنی جانب سے ایک غلط مسئلہ بیان کردیا تو اس کے لیے توبہ وتجدیدنکاح کا حکم ہوا۔

فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال جواب درج ذیل ہے۔

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص سامنے سے گزرا، دوسرے سے کہا:صلوٰۃ ہوگئی اور جماعت تیار ہے۔اس نے کہا:نماز پڑھنے والے پر لعنت بھیجتا ہوں۔

جب یہ ذکر ایک تیسرے شخص کے سامنے ہوا، اور لوگوں نے کہا:یہ کلمہ کفر ہے تو اس نے کہا کہ ایسی باتوں سے کفر نہیں عائد ہواکرتا، حالاں کہ یہ شخص عاقل بالغ ہے۔ اس شخص کا حکم کیا ہے:بینوا توجروا

الجواب: اس کہنے سے وہ شخص کافر ہوگیا۔اس کی عورت نکا ح سے نکل گئی،اور یہ تیسرا بھی نئے سرے سے کلمہ اسلام پڑھے،اور اپنی عورت سے اس کے بعد نکاح کرے: واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص175 -رضا اکیڈمی ممبئ)

(د)مسئلہ تکفیر میں مفتی کی لغزش کا حکم

ایک فتویٰ میں تفصیل کے ساتھ یہ بیان ہوا کہ ایک عالم دین نے کسی پر کفر کا فتویٰ دیا، چوں کہ وہ فتویٰ غلط تھا تو امام اہل سنت قدسرہ العزیز کی تفہیم پر اس عالم دین نے رجوع فرما لیا۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا کہ جب انہوں نے لغزش کا علم ہونے پر رجوع فرما لیا توان پر سخت حکم شرعی نہیں۔

ہاں،اگر لغزش کا علم ہونے کا بعدبھی ملزم کووہ کافر کہیں تو سخت حکم ہوگا،یعنی مومن کو تایل فاسدکے سبب کافرکہنے والا کافر فقہی ہوتا ہے،وہی حکم یہاں بھی عائد ہوگا۔

امام احمدرضا قادری کا فتویٰ مندرجہ ذیل ہے۔

الجواب:فقیر غفرلہ المولی القدیرجب جمادی الاولیٰ1324ھ میں بعدِ سفر مدینہ طیبہ کراچی آیا اور وہاں سے احباب احمد آباد لانے پر مصر ہوئے۔

یہاں میرے معظم دوست حامیِ سنت ماحی بدعتِ مولانا مولوی نذیر احمد صاحب مرحوم و مغفور کے دو معزز شاگردوں مولوی عبدالرحیم صاحب و مولوی علاؤ الدین صاحب سلہما اللہ تعالیٰ میں نزاع تھی۔دو فریق ہورہے تھے،اور اس سے پہلے مولوی علاؤ الدین صاحب غریب خانہ پر تشریف لائے تھے اور ایک رسالہ پیش کیا جس میں مولوی عبدالرحیم صاحب پر سخت الزام قائم کرنے چاہے، حتی کہ نوبت بہ تکفیر پہنچائی تھی۔

فقیر نے انہیں سمجھایا اور اس رسالہ کی اشاعت سے باز رکھا اور ان الزامات کی غلطی پر دوستانہ متنبہ کیا۔الحمدللہ مولوی علاؤ الدین صاحب نے گزارشِ فقیر کو قبول کیا،مگر باہم فریق بندی اس وقت تک تھی کہ فقیر حج سے واپس آیا۔
اس وقت مولوی عبدالرحیم صاحب نے یہ سوال پیش کیا جس کا میں نے وہ جواب لکھا،وہ جواب میرا ہی ہے،مگر اس وقت کی حالت سے متعلق تھا۔

میں نے اس جواب ہی میں بتادیا تھا کہ مولوی علاؤ الدین صاحب نے مولوی عبد الرحیم صاحب کی تکفیر عنادًا نہ کی تھی، بلکہ مسئلہ ان کی سمجھ میں یوں ہی آیا تھا جس سے انہوں نے بعد تفہیم فقیر رجوع کی تو ان پر کوئی حکم سخت نہیں۔ہاں، اگر وہ بعد اس کے کہ حق سمجھ لیے، پھر بلاوجہ شرعی تکفیر کی طرف رجوع کریں تو اُس وقت حکم سخت ہونا لازم ہے۔

اس کے بعد وہیں ایام اقامت فقیر میں فریقین فیصلہ فقیر پر راضی ہوئے اور بحمداللہ تعالیٰ باہم صلح کرادی گئی۔میں نے اس وقت تک صلح شکن نہ پایا،بلکہ قریب زمانہ میں جب کہ بعض فساد پسندوں نے تکفیر مولوی عبدالرحیم صاحب کا باطل و بے معنی غلغلہ پھر اٹھایا اور پرانا مہمل اشتہار مولوی قندھاری نے دوبارہ کسی شخص وزیر الدین کے نام سے چھاپا۔

اور مولوی عبدالرحیم صاحب کو دفع فتنہ کے لیے یہاں کے فتویٰ کی ضرورت ہوئی ہے اور اس پر ان سے واقعات پوچھے گئے جس کا مفصل جواب انہوں نے ہفتم ذی الحجۃ۹۲۳۱؁ھ کو بھیجا۔اُس خط میں بھی یہ لفظ موجود ہیں

۔ ”احمد آباد میں آپ کے قدم مبارک کراچی سے رونق افروز ہوئے تھے،اور آپ نے صلح بندی کی اور مولوی علاؤ الدین صاحب کی کرائی تھی،جب سے اب تک بحمداللہ تعالیٰ صلح ہے، وہ میرے موافق ہیں: انتہی بلفظہ“۔

اس کے بعد میرا یہی فتویٰ جواب شیر محمد صاحب نے چھاپا۔مولوی عبدالرحیم نے اس کی نقل مجھے بھیجی تھی اور اس میں سے اُن تمام سطروں پر کہ مولوی علاوہ الدین صاحب کے متعلق تھیں،سُرخی سے قلم پھیر دیا کہ اب اُن کی ضرورت نہیں۔

مولوی علاؤ الدین صاحب کا جو خط فقیر کے نام آیا،اس میں وہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ ہم اس وقت تک بدستور صلح پر قائم ہیں۔یوں ہی اس سے بھی تازہ تر عنایت نامہ جناب شاہ صاحب وجیہی علوی میں ہے،پھر فقیر نہیں کہہ سکتا کہ اس فتوے کے چھاپنے کی کیا ضرورت ہوئی، اور اس سے کیا نفع ہوسکتا ہے۔
اس میں تو مولوی علاؤ الدین صاحب پر حکم سخت ہونا اس شرط سے مشروط تھا کہ وہ بعد کشف شبہہ تکفیر مسلم کی طرف معاذ اللہ پھر عود کریں۔

جب یہ شرط نہیں تو ہر گز اس فتوے سے نہ مولوی علاؤ الدین صاحب کو ضرر، نہ چھانپے والے کو نفع،اور خدانخواستہ شرط متحقق ہوئی تو اس کا حال اللہ جانتا ہے۔

بالجملہ یہ امر دین ہے، اور دین میں کسی کی رعایت نہیں۔دونوں صاحب میرے دوست ہیں اور دونوں صاحب ذی علم اور ایک استاد کے شاگرد ہیں۔میں امید کرتا ہوں کہ بدستور صلح پر قائم ہوں گے جیسا کہ دونوں صاحبوں کی تحریر سے مجھے معلوم ہوا،ورنہ جس طرف سے نقض عہد واقع ہو،وہ ضرور اپنے حکم شرعی کا مستحق ہوگا“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد29:ص590-589-جامعہ نظامیہ لاہور)

توضیح:منقولہ بالا فتویٰ میں ہے کہ ایک عالم دین نے کسی پر کفرکا فتویٰ دیا،لیکن اس میں لغزش ہو گئی،پھر امام اہل سنت قدس سرہ کے توجہ دلانے پرانہوں نے فتویٰ سے رجوع کر لیا تو ان پر کوئی شرعی حکم عائد نہیں کیا گیا۔اس سے واضح ہوگیا کہ مفتی کی لغزش قابل مغفرت ہے۔تحقیق وافتا میں لغزش کے سبب مومن کوکافر کہنے کا حکم عائد نہیں کیا گیا۔

تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر :ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر :افکار رضا

ان مضامین کو بھی پڑھیں

غیر مقلد وہابیہ اور کفر کلامی

نماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ

 تکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت و جماعت

بدعتی اور بد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم

گمراہ کافرفقہی وکافر کلامی کی نمازجنازہ

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن