تحریر: کمال مصطفیٰ ازہری جوکھن پوری جامعة الأزهر الشريف ، مصر ازلہ شبہات در آیات جہاد قسط اول
ازلہ شبہات در آیات جہاد
بسم الله الرحمن الرحيم
قارئین حضرات ! اس دور پر فتن میں اپنے اور اغیار آئے دن اسلام کے تقدس و وقار کو مجروح اور پامال کرنے اور اسلام کے مصادر اصلیہ سے متعلق لوگوں کے قلوب و اذہان میں شکوک و شبہات ڈالنے کی ناپاک کوشیشیں کر رہے ہیں
ابھی تک تو انکار حدیث رسول ﷺ کا فتنہ ہوتا تھا اور اب خود اسلام کی تشریعات کے پہلے مصدر اصیل پر حملہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان نازک حالات میں ہمیں قرآن و سنت پر مضبوطی سے عمل پیرا رہنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات کی بابت پہلے ہی ارشاد فامایا دیا ہے : تركتُ فیکم أمرين، لن تَضِلوا ما تمسكتم بهما ، كتاب الله و سنتي [مؤطا امام مالک : 899/2] میں تم میں دو چیزیں کتاب اللہ اور اپنی سنت چھوڑ رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے
ان شبہات کو بالترتیب مع ترديد چند فصلوں میں پیش کیا جاتا ہے
شبہ نمبر( 1) کیا مذہب اسلام غیر مسلموں پر داخل اسلام ہونے کے لیے بلا وجہ جبر و اکراہ کرتا ہے
کیا اسلام آنتک واد کو بڑھاوا دیتا ہے ؟
کچھ اسلام دشمن لا علم و کم عقل لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا کرتے ہیں کہ دین اسلام دیگر اہل ادیان پر داخل اسلام ہونے کے لیے ظلم و تشدد کرتا ہے اور جو داخل نہ ہونا چاہیں ان سے بلا وجہ جہاد کا حکم دیتا ہے کیوں کہ اس پر قرآن مجید کی کئی آیات ہیں جو آتنک واد
( Terrorism)
کو بڑھاوا دیتی ہیں الأمان والحفيظ
اس شبہہ فاسدہ کی مندجہ ذیل چار وجوہ سے مع دلائلِ قرآن و سنت تردید کی جاتی ہے
۔(۱) یہ اسلام کی پاک دامنی پر بے جا الزام ہے۔ یہ حقیقت ہر صاحب عقل پر منکشف ہے کہ عقیدہ بغیر کسی جبر و اکراہ دل کے پختہ ارادہ و یقین کا نام ہے
اسلام کسی فردِ بشر کو اپنی آگوش میں آنے کے لیے بلا وجہ جبر و اکراہ کو پسند نہیں کرتا جیسا کہ خود انسان کا دستورِ حیات قرآن کریم اس کا اعلان فرماتا ہے : لَاۤ إِكۡرَاهَ فِی ٱلدِّینِۖ قَد تَّبَیَّنَ ٱلرُّشۡدُ مِنَ ٱلۡغَیِّۚ [سورہ البقرۃ : 256]کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے
مذہب اسلام یہ چاہتا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے کیوں کہ وہی سب کا خالق و مالک ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے یہی انسان کا مقصد حیات ہے
خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے { یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعۡبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِی خَلَقَكُمۡ وَٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ } [سوره البقرة :21]اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا یہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔
اور فرماتا ہے : وَٱعۡبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشۡرِكُوا۟ بِهِ شَیۡ [سورہ الالنساء : 36]اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ.
اسی لیے اسلام نے غیر عرب مشرکین پر جزیہ رکھ کر انہیں امان کی صورت عطا فرمائی اور اسلام لانے پر جزیہ بھی ساقط ہو جاتا ہے
اسلام ایک روشن مذہب ہے جس کی حقانیت کے دلائل و براہین بیّن و واضح ہیں اسلئے اس میں داخل ہونے کے لیے کسی پر بلا وجہ جبر و اکراہ کی کوئی حاجت نہیں ہے یعنی ایمان لانا سعادت ازلی پر موقوف ہے
اللہ پاک نے جسے ہدایت عطا فرمائی اس کے سینے کو کشادہ اور بصیرت کو منور فرما دیا, ایمان وہی لائے گا جس کے لیے توفیق الٰہی شامل ہو۔
اور رب قدیر جس کے دل کو اندھا فرما دیتا ہے اور اس کی سمع و بصر پر پردے ڈال دیتا ہے تو اس کو دین میں جبرا داخل کیا بھی نہیں جا سکتا کہ ارشاد ربانی ہے { وَمَن یُضۡلِلِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِنۡ هَادࣲ } [سوره الرعد : 33] اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ۔
اللہ پاک ﷻ نے اپنے حبیب ﷺ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا : { وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًاؕ – اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ } [سقرہ یونس آیت : 99]اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کرو گے یہاں تک کہ مسلمان ہوجائیں۔
اس آیت مقدسہ میں اللہ پاک ﷻ نے اپنے حبیب ﷺ کو تسلی عطا فرمائی کہ آپ چاہتے ہیں کہ سارے لوگ ایمان لے آئیں اور دین اسلام میں داخل ہو جائیں لیکن آپ کی کوشش کے باوجود یہ داخل نہیں ہوتے ہیں تو آپ کو غم نہ ہونا چاہیۓ کیوں کہ جو روز ازل سے شقی ہے وہ ایمان نہیں لائےگا۔
اور ارشاد فرمایا : ” { فَإِنَّمَا عَلَیۡكَ ٱلۡبَلَـٰغُ وَعَلَیۡنَا ٱلۡحِسَابُ } ” [ سوره الرعد : 40 ]تو بہر حال تم پر تو صرف پہنچانا ہے اور حساب لینا ہمارا ذمہ۔
دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَوۡ شَاۤءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمۡ أُمَّةࣰ وَ ٰحِدَةࣰ وَلَـٰكِن یُضِلُّ مَن یَشَاۤءُ وَیَهۡدِی مَن یَشَاۤءُۚ (سورة النحل : 93)اور اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت کرتا لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے۔
امام بغوی علیہ الرحمہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : ” على ملة واحدة و هي الإسلام ” : وه ملت واحدہ اسلام ہے. [ تفسیر البغوی ]
رحمت عالم ﷺ نے مکہ شریف میں ١٣ سال قیام فرمایا اور لوگوں کو اللہ ﷻ کی طرف بلایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو , آپ کی دعوت پر اس مدت میں کثیر لوگ ایمان لے آئے جب کہ اس وقت آپ کے پاس ایسی قوت بھی نہیں تھی کہ آپ دوسروں پر دخول اسلام کا دباؤ بناتے
۔(۳) اعتقاد کے معاملہ میں یقین کامل ہونا ضروری ہے اس لئے کہ جو مجبور ہو وہ بہت جلد ہی کمزور سبب پاتے ہی پھر جاتا ہے , جب کہ یہاں یہ حقیقت ہے کہ صف اول کے مسلمان خود اپنی مرضی سے اپنے جان و مال کو دین پر قربان کرنے کے جذبہ صادقہ کے ساتھ داخل اسلام ہوئے
سیرت رسول خدا ﷺ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ آپ ﷺ نے مشرکین پر طاقت و قوت رکھنے کے با وجود بھی ان کو اسلام لانے کے لیے مجبور نہیں فرمایا بلکہ انہیں سوچنے سمجھنے اور خود سے اسلام لانے کی کھلی آزادی
(Freedom of Religion)
عطا فرمائی تھی
جیسا کہ حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے داخل اسلام ہونے کی مثال ہے
فتح مکہ شریف کے موقع پر وہ یمن کی طرف راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سوار ہونے لگے تو حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا : یا نبي الله ﷺ : إن صفوان بن أمية سيد قومه، وقد خرج هاربا منك ؛ ليقذف نفسه في البحر، فأمِّنه، صلى الله عليك ، قال : ” هو آمن “۔
یا رسول اللہ ﷺ کافروں کا سردار صفوان بن امیہ آپ سے بھاگ کر اپنے آپ کو پانی میں ہلاک کرنے گیا ہے, یا رسول اللہ ﷺ اس کو امان عطا فرما دیں. آپ نے فرمایا : ” اس کو امان ہے ” ۔
بالآخر حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے انہیں اس بات کی خبر دی اور اور اپنے ساتھ حضور ﷺ کی بارگاہ میں لے آئے تو صفوان امیہ نے کہا کہ مجھے اسلام میں داخل ہونے کے لیے دو مہینے کی مہلت عطا فرمائیں تو آپ نے فرمایا : “ أنت بالخيار فيه أربعة أشهر ” تمہیں چار مہینے کا اختیار ہے. اور پھر وہ خود اسلام میں داخل ہوئے. [سیرت ابن ہشام : 417/2]
قارئین حضرات !۔
اسلام تو دین سلام ہے اس کا نام اسلام تو خود سلام (سلامتی و عافیت) سے مشتق ہے یہ کسی پر بلا وجہ کسی پر جبر و تشدد کیسے کر سکتا ہے
مذکورہ شواہد سے یہ امر واضح ہو گیا کہ اسلام کسی غیر مسلم کو مسلمان ہونے کے لیے بلا وجہ مجبور نہیں کرتا ہے بلکہ ہر دور میں لوگ خود اس کی حقانیت کو دیکھ اس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں
تحریر: کمال مصطفیٰ ازہری جوکھن پوری
بن مناظر اہل سنت علامہ صغیر احمد رضوی جوکھن پوری حفظہ الله
ان مضامین کو بھی پڑھیں
قرآن مجید ایک ناقبل تحریف کتاب
قرآن مجید کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں
امام احمد رضا قادری : مجدد اعظم
اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی اہمیت