ازقلم۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی اسرائیل کے ناپاک عزائم کے سامنے دنیائے اسلام آخر بے بس کیوں؟ یاخدا فلسطین میں فرشتے مددکو بھیج دے
یاخدا فلسطین میں فرشتے مددکو بھیج دے
عزیزان گرامی! سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے، اس سرزمین پر اکثر انبیاے کرام اور رسل آئے ہیں،۔ اس جگہ کو ہی “قبلہ اول” کا شرف حاصل ہے، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتداء اور انتہاہوئی ہے ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ۔
اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرما یا ہے۔ابن جریر طبری فرماتے ہیں کہ یہاں دائمی اور ابدی طور پر خیر وبرکت قائم ودائم رہے گی، علامہ شوکانی نے برکت کے معنی یہاں کی زراعت اور پھل لئے ہیں
اسی کی پیدوار بہت زیادہ ہوگی، دیگر لوگوں نے برکت سے نہریں، پھل،انبیاء او ر صلحاء مرا د لیے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے بَارَکْنَا حَوْلَہُ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ( سورہ اسراء)۔
اس سے مراد ملک شام ہے،ٍسریانی زبان میں شام کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاے کرام کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور “وحی” کا مقام رہا ہے ، یہیں لوگ روزِ محشر میں جمع کئے جائیں گے
حضرت حسن اور حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے ، زید بن اسلم سے مروی ہے کہ اس سے مراد ملک شام کے گاؤں مراد ہیں، عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں، اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے۔
سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں کئ مواقع سے بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ اسراء میں ہے۔ اللہ تعالی عزوجل فرماتا ہے کہ “پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ خاص کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والی اودیکھنے والی ذات ہے۔
فلسطین کاحالیہ منظر
حالیہ وحشیانہ حرکت اور بربریت پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں؟ مظلوم فلسطینیوں پر ہورہے اسرائیلی حملہ کی شدید الفاظ میں جہاں ہمیں مذمت کرنی چاہیے وہیں اسے ظلم و بربریت کی انتہا قرار دینا چاہیے کیونکہ اس طرح کے حملے کرکے انسانیت کو شرمسار کررہاہے
لیکن اس کے باوجود مسلم ممالک کی خاموشی سے شہہ پا کر اسرائیل اب لاچار فلسطینی عوام سے انکے حقوق کو چھیننے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ دنیا اس تاریخی سچائی سے انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی کیوں کہ اسرائیل ایک غاصب ملک ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے جبرا قبضہ کر رکھا ہے۔اب وہ اسی خاموشی کے نتیجہ میں اس سرزمین سے فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کردینے کے درپے کھڑا ہے۔
اسی لیے اسرائیلی فلسطینی عوام کو مسلسل ظلم و بربریت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس دوران مصالحت اور مفاہمت کی لاتعداد کوششیں ہوئیں لیکن سب کی سب بے سود رہیں۔بعض طاقتور ملکوں کی در پردہ حمایت کے نتیجہ میں اسرائیل فسلطین کے تعلق سے اقوام متحدہ سے وقت بہ وقت منظور ہوئی قرار دادوں کو بھی اپنے پیروں تلے روندتا رہا ہے
اور اب تو مسلم ملکوں سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد اس کے ناپاک عزائم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مسجد اقصی میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی عبادت میں مصروف فسلطینی مرد و خواتین یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کر رہا ہے۔
اور آئے دن حملے ہو رہے ہیں کبھی غزہ شہر،حماس اور اس کے ارد گرد میزائل سے لگاتار دو ہفتوں سے شدید حملے ہو رہے ہیں ۔
مقد س فلسطین لہو لہان ہوچکا ہے ، کتنے زخموں کی تاب نہ لا کر ہمیشگی کی نیند سوچکے ہیں، کتنوں کے مکانات منہدم ہو چکے ہیں، قبلہ اول کی بازیابی کے لیے کتنوں نے جام شہادت نوش کرلیاہے پھربھی اپنی ہمت نہیں ہارے ہیں کیا بچے بوڑھے جوان خواتین ،بچیاں سرپہ کفن باندھ کے مقابلے کے لئے بے خطر اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ڈٹے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اسرائیل کا اس طرح ناپاک سازش یقیناً مسلمانوں اور دنیائے اسلام کی بے حسی اور خاموشی کا نتیجہ ہے۔اگر ممالک اسلامیہ اس مسئلہ کی اہمیت اور سنگینی کا ابتداہی میں اندازہ کرکے کوئی مؤثر مشترکہ حکمت عملی فسلطین کے تعلق سے تیار کرلی ہوتی تو آج اسرائیل اس طرح فلسطینی شہریوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنانے کا حوصلہ نہیں کر سکتا تھا۔
آج کی وہ مہذب دنیا بھی اس پر خاموش ہے، جو عالمی امن اور اتحاد کی نقیب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ انسانی حقوق کا مسلسل ورد کرنے والے عالمی ادارے بھی چپ چاپ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا مذاکرات کے ذریعہ کوئی حل نہ نکالا جاسکے۔
عالمی برادری بالخصوص دنیا کے وہ طاقتور ملک جو اقوام متحدہ کے مستقل ممبر ہیں اگر مخلص ہوتے تو اس مسئلہ کا بھی کوئی پر امن اور قابل قبول حل نکال سکتے تھے۔ مذاکرات کی میز پر بات چیت کا ڈھکوسلا تو کئی بار ہوا مگر اس مسئلہ کا کوئی حتمی اور پائیدار حل نکالنے کی کبھی بھی کوئی ذمہ دارانہ کوشش نہیں ہوئی۔
اس سے اسرائیل کے لیے بربریت انتہاپسندی اور اس کی مستقبل کی خطرناک منصوبہ بندی ظاہر کردیتی ہے کہ یہ صیہونیت اور اسلام کی ایک جنگ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یورپین یونین ہو، عالمی ادارے ہو یا پھر دنیا کے باثر ممالک کوئی بھی کھل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا، بلکہ ان کی طرف سے اگر کوئی بیان بھی جاری ہوتا ہے تو نپے تلے لفظ ہوتے ہیں۔ان الفاظ میں بھی اسرائیل کی حمایت بھی شامل ہوتی ہے
دوسرے اس طرح کے اسرائیلی اقدامات سے اس پورے خطہ میں قیام امن کی کوششوں میں بڑی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ یورپین یونین،ورلڈ مسلم لیگ، حکومت ہند اور تمام انصاف پسند بین لاقوامی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جارحانہ ہشت گردی کے خلاف پختہ قدم اٹھائیں۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو بلاتاخیر مسجد اقصی کی حدودسے باہر کیا جائے اور مشرقی یروشلم میں اس کی مداخلت کو روکا جائے۔
مسلم ممالک جو خواب غفلت کی آغوش میں نیند کے مزے لے رہے ہیں انہیں بھی بیدار کرکے جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ کہ اگر وہ اب بھی خواب خرگوش میں رہ کر اب بھی خاموش رہے تو پھر یہ معاملہ فلسطین کی حدود تک ہی محدودنہیں رہے گا بلکہ دیگر مسلم ممالک تک جا پہنچے گا اسی لئے اگر اب بھی نہ جاگے تو کل تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
مسلم ممالک کے حکمراں خواب خرگوش کی نیند میں:دنیا دیکھ رہی ہے ،مسلمان ملکوں کے حکمران خواب خرگوش کی نیند لے رہے ہیں عرب کے حکمران کچھ تو عیش و عشرت میں لگ چکے ہیں اور کچھ مغربی سیکولرازم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ انہیں یہ پریشانی نہیں ہے کہ فلسطین میں کیا کیا ہورہاہے۔
مسلمان ملکوں کی نام نہاد سربراہ تنظیم ، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس، بھی مسئلہ فلسطین کی طرف دیکھناگواراہ نہیں کرتی ہے انہیں معلوم ہے کہ اگر انہوں نے فلسطین کے حق میں زبان کھولی تو اسرائیل ان کی زبانیں کاٹے ڈالے گا ،اس لئے یہ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی”پیپسی
“(Pepsi)
“فنٹا”
(Fanta)
“اسپرائٹ
(Sparite)
وغیرہ پی کرخاموش رہا جائے اور یہ اپنے لیے یہی کافی سمجھتے ہیں کہ یہ تمام مسلم ملکوں کے سربراہ ہیں
لہٰذا تمام عالم اسلام کو چاہیئے کہ اپنی بند آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ فلسطین میں کیا کیا ہورہا ہے۔ اور کیوں ہورہا ہے؟ اور کس وجہ سے ہورہا ہے؟
ورنہ اگر امت مسلمہ کی حالت یہی رہی کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں غفلت کی نیند سوئے رہے اور فلسطین کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور یونہی الگ الگ خانوں میں بٹے رہے اور تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم یہ بھی سنیں گے کہ امریکہ اور اسرائیل نے خدانخواستہ حجاز مقدس پر قبضہ کرکے ہمیشہ کے لئے فتح ونصرت کا جھنڈا گاڑدیا۔
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ میرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
مگرآہ!! یہ وہ سرزمین ہے جس کے تقدس وتبریک کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آیا ہے، جس کے مسلمانوں کو بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے ، یہ سرزمین مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے
لیکن افسوس ہے کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ناپاک یہودی اپنی طاقت وقوت ک بل بوتے پر بمباری کرکے توکبھی میزائل کے گولے داغ کے صیہونیت اپنے قدم جمانےاور اس کو اپنے ملک اسرائیل کا دار الحکومت بنانے کے ناپاک عزائم بناچکے ہیں اور منصوبہ پر عمل در آمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
ساری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے، ہمیں بھی اپنے طور پر جس قدر ممکن ہوسکے وہ اپنے اپنے منصب پر فائز رہتے ہوے احتجاج کرنے کی کوشش کرنا چاہیے اس کوروناکال اور لاوکڈاون میں جو سوشل میڈیا پہ ایکٹیو ہے انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے احتجاج کرنا چاہیے چند افراد تو اپنے علاقے کے تھانے میں ایف آئی آر درج کراہی سکتا ہے۔
اسرائیلی مصنوعات
(Products)
سے گریز رہنے کی ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے چاہے وہ فیس بک،واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹوئٹر وغیرہ دیگر سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے ذرائع ہی سے کیوں نہ ہو
ہمیں خود بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اوردوسروں کے لیے بھی ایک عظیم مہم چلائیں ، جہاں تک اس کرونا اور لاوکڈاون میں ہوسکے مسلمانوں کو اس بیت المقدس کے تقدس کو سمجھتے ہوئے اور اس کی بازیابی کے لئے ہمیں ہر قدم اٹھانے کی سعی کرنی پڑےگی۔
تیرے محبوب کے قبلہ اول کو بچانے کی خاطر
یا خدا فلسطین میں فرشتے مدد کو بھیج دے
ظلم وہ ظلم ہے جو ابھرے گا تو دب جائے گا
خون وہ خون ہے جو ٹپکے گا تو جم جاے گا۔
ازقلم۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔ مجلس علمائے اسلام مغربی بنگال شمالی
کولکاتا نارائن پورزونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔9007124164
ان مضامین کو بھی پڑھیں
عصر حاضر میں خدمت خلق کی اضرورت و اہمیت
تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کا اولین فریضہ
تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے
آن لائن شاپنگ کریں : امیجون