Saturday, September 14, 2024
Homeحدیث شریفاحادیث صحیحہ کے صحاح ستہ میں منحصر ہونے کا منصفانہ جائزہ

احادیث صحیحہ کے صحاح ستہ میں منحصر ہونے کا منصفانہ جائزہ

آج کے مضمون کو ترتیب دیا شہزادہ حضور فقیہ ملت حضرت علامہ ازھار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ پروردگار عالم بطفیل رسول امم صلی اللہ علیہ وسلم علامہ موصوف کے علم وعمل میں بے شمار برکتیں عطا فرمائے۔موضوع ہے، احادیث صحیحہ کے صحاح ستہ میں منحصر ہونے کا منصفانہ جائزہ۔ آپ خود پڑھیں اور ثواب کی نیت سے اپنے دوست و احباب کو شئیر کریں ۔


احادیث صحیہ کے صحاح ستہ میں منحصر ہونے کا منصفانہ جائزہ

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

ایک طویل زمانے سے کچھ لوگ جیسے وہابی وغیرہ سنی حضرات سے بحث و مباحثہ کے درمیان دلیل کے طور پر کتب ستہ یا بلفظ دیگر صحاح ستہ کی حدیث کا مطالبہ کرتے ہیں، ان میں سے کچھ تعصب میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ سنن اربعہ کو چھوڑ کر صرف صحیحین ہی کی حدیث کا مطالبہ کرتے ہیں اور بعض تو ان سے بھی دس قدم آگے ہوتے ہیں اور صرف صحیح البخاری کی حدیث کو ہی بطور دلیل قبول کرنے پر اڑے رہتے ہیں، ۔

اگر انہیں کتب ستہ یا صحیحین یا صحیح البخاری کے علاوہ کتب متون سے دلیل دی جائے؛ تو انہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے اور کسی طرح بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے گویا کہ ساری صحیح احادیث انہیں کتب متون میں محدود ہیں، ان کے علاوہ دوسری کتابوں میں صحیح حدیث پائی ہی نہیں جاتی،۔

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جب اپنا معاملہ ہوتا ہے؛ تو یہ ناعاقبت اندیش اپنی حد بندی بھول جاتے ہیں یا عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنے والی ضعیف حدیث ہی لے لیجئے، یہ حدیث صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں بھی موجود نہیں بلکہ صحیح ابن خزیمہ میں پائی جاتی ہے، مگر جب اپنے موقف پر استدلال کرنا ہوتا ہے؛ تو بے دھڑک صحیح ابن خزیمہ کی حدیث کو بطور استدلال پیش کردیتے ہیں اور اپنی ہی حد بندی سے خروج کرنے میں ذرا بھی شرم و عار محسوس نہیں کرتے! ۔

اور کچھ تو مسلم عوام کو گمراہ کرنے کے لیے یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیحین میں موجود ہے، جب کہ یہ حدیث صحیحین کیا سنن اربعہ میں بھی موجود نہیں! ۔

ایک مرتبہ ایک سنی شخص نے میرے پاس فون کیا اور کہا کہ ایک سنی شخص حرمین طیبین چلا گیا اور وہاں جاکر وہابیوں کی وجہ سے اس کی فکر بدل گئی، کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ سینے پر رکھنا چاہیے اور بطور دلیل یہ کہتا ہے کہ یہ حدیث صحیحین میں موجود ہے، میں نے کہا کہ یہ حدیث صحیحین تو صحیحین سنن اربعہ میں بھی موجود نہیں، مگر یہ فون کرنے والے صاحب بھی اتنا مرعوب ہوچکے تھے کہ وہ میری بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہورہے تھے اور کہے جارہے تھے کہ وہ صحیح البخاری و مسلم کا حوالہ دے رہا ہے! ۔

پھر میں نے ان سے کہا کہ ایسا کریئے اگر آپ کو اطمینان نہیں ہے؛ تو ان سے کتاب، باب، ج،ص اور حدیث نمبر پوچھ لیجئے، ان شاء اللہ میں آپ کو اس شخص اور اس کو تربیت دینے والے کی کذب بیانی واضح کرتا ہوں، مگر اس کے بعد ابھی تک دوبارہ کوئی فون نہیں آیا۔

خیر اس طرح سے یہ یا تو اپنی حد بندی اپنے لیے بھلادیتے ہیں اور اسے سنیوں کے لیے ہی خاص رکھتے ہیں یا پھر عوام کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں، سنیوں پر لازم ہے کہ وہ ان سے دور رہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں اور اپنے سنی علما کے بتائے ہوئے طریقہ پر ہی چلیں۔

جامعہ ازہر، مصر میں تعلیم کے دوران ہی سے اس موضوع پر شدت سے لکھنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا مگر توفیق نہ مل سکی، جامعہ ازہر، مصر سے آنے کے بعد بھی کچھ دوسرے موضوعات کی طرف ذہن چلا گیا؛ جس کی وجہ سے یہ موضوع زیر تحریر نہیں آسکا، شاید کہتے ہیں کہ دیر آید درست آید۔

بہر کیف اب اللہ جل شانہ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ میں توفیق عطا فرمائی؛ تو اب لکھ رہا ہوں، و ما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔

صحیح احادیث صرف صحیح البخاری یا صحیحین یا کتب ستہ میں منحصر!۔۔

            صحیح احادیث صرف صحیح البخاری یا صحیحین یا کتب ستہ میں منحصر نہیں، جو انحصار کا قائل ہے یا صرف انہیں کتابوں کی صحیح احادیث بطور دلیل قبول کرتا ہے یا انہیں کتابوں سے صحیح احادیث کا مطالبہ کرتا ہے، وہ کج فہمی، انانیت اور جہالت کا شکار ہے، ملاحظہ فرمائیں:۔

            امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ نے اپنی کتابوں میں صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کیا اور نہ ہی آپ حضرات نے صحیح احادیث کے احاطہ کرنے کا التزام کیا، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ۔

میں نے ’الجامع‘ میں صحیح حدیث کے علاوہ کوئی دوسری حدیث شامل نہیں کی اور طوالت کے خوف سے دوسری صحیح احادیث چھوڑ دی‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، صالنوع الأول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، ط: دار زاہد القدسی)۔

            اگر امام بخاری رحمہ اللہ کے صرف اسی قول کو پیش نظر رکھا جائے؛ تو صحیح احادیث کو صرف صحیح البخاری میں محصور کرنے کی کوشش کرنا یاصرف اسی کی حدیث کا مطالبہ کرنا بہت بڑی جہالت اور بہت ہی مذموم حرکت سمجھی جانی چاہیے؛ کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خود وضاحت فرمادی کہ ہم نے بہت ساری صحیح احادیث طوالت کے خوف سے چھوڑ دی۔

            نیز امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مجھے ایک لاکھ (۱۰۰۰۰۰) صحیح احادیث اور دو لاکھ (۲۰۰۰۰۰) غیر صحیح احادیث یاد ہیں‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، صالنوع الأول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص ۳۹۲، ط: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر)۔

    اگر وہابیوں کی طرح امام بخاری رحمہ اللہ کے صرف اس دوسرے قول کو اپنے ظاہری معنی پر محمول کرکے دیکھا جائے؛تو ان کا صحیح احادیث کو صرف صحیحین یا صرف کتب ستہ میں منحصرکرنے کی سعی نا مسعود کرنا یا صحیح احادیث کو صرف انہی کتابوں سے مانگنا جرم عظیم سمجھا جانا چاہیے؛ کیوں کہ فربری کی روایت کے مطابق صحیح البخاری کی تعداد مکرر کے ساتھ صرف سات ہزار دو سو پچہتر (7275) اور بلا مکرر چار ہزار4000) احادیث ہیں ۔

نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے جو یہ فرمایا: ’’اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں‘‘ اس سے یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے کہ یہ دو لاکھ احادیث غیر صحیح یعنی صرف ضعیف اور موضوع تھیں جیسا کہ بعض متشددین سمجھتے ہیں؛ کیوں غیر صحیح کا دامن بہت وسیع ہے، ضعیف وغیرہ کے علاوہ اس کے دائرے میں حدیث حسن بھی آتی ہے۔

امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اسی طرح جب کسی حدیث کے بارے ناقدین فرمائیں: یہ حدیث صحیح نہیں؛ تو یہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ قطعی طور سے نفس الامر میں وہ حدیث جھوٹی ہے؛ کیوں کہ کبھی نفس الامر میں صحیح بھی ہوسکتی ہے؛ اس لیے ان کی مراد اس قول سے یہ ہے کہ اس کی حدیث کی اسناد شرط مذکور کے مطابق صحیحؤ نہیں‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الأول معرفۃ الصحیح، ص۸)۔

 امام بخاری رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول کی وضاحت ان شاء اللہ آگے آتی ہے۔

 امام ابن الملقن شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اور ہر غیر صحیح حدیث قابل احتجاج نہ ہو، ایسا نہیں ہے؛ کیوں کہ حدیث حسن بھی غیر صحیح ہے مگر وہ قابل استدلال و احتجاج ہے‘‘۔ (المقنع فی علوم الحدیث، ابن الملقن رحمہ اللہ، ج۱ص۸۹، ط: دار فواز، سعودیہ)۔

   امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ حدیث جو صحیح ہے، اسے میں نے یہاں اس کتاب میں ذکر نہیں کیا بلکہ میں نے یہاں اسی صحیح حدیث کو ذکر کیا ہے جومجمع علیہ شرائط صحیح کی جامع ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب التشھد فی الصلاۃ، ج۱ص۳۰۴، رقم:۴۰۴، مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الأول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، ط: دار زاہد القدسی، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۲)۔

  امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں انہی احادیث کو رکھا ہے جن میں ان کے نزدیک صحیح مجمع علیہ کی شرائط پائی گئی اگر چہ ان میں سے بعض احادیث میں بعض کے نزدیک وہ شرائط نہیں پائی گئیں‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الأول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، حاشیۃ الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۳)۔

  امام مسلم رحمہ اللہ ہی سے مروی ہے کہ جب ایک کتاب میں صحیح احادیث جمع کرنے کی وجہ سے ان پر عتاب کرتے ہوئے کہا گیا: آپ کا یہ عمل اہل بدعت کے لیے ہم اہل سنت و جماعت کے خلاف راستہ ہموار کردے گا اور جب ان کے خلاف کسی حدیث کے ذریعہ استدلال کیا جاے گا؛ تو وہ کہیں گے: یہ حدیث صحیح میں نہیں ہے؛ تو امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور میں نے یہ کہا ہے کہ اس کی احادیث صحاح ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ اس کتاب میں جس حدیث کی میں نے تخریج نہیں کی وہ ضعیف ہے‘‘۔ (توجیہ النظر إلی أصول الأثر، طاہر بن صالح دمشقی، ج۱ص۲۲۶، ط: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص ۳۹۲-۳۹۳

  امام مسلم رحمہ اللہ نے جب اپنی حدیث کی کتاب تصنیف فرمائی؛ تو بعض حساس علما نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ طریقہ کار اہل بدعت کو دسیسہ کاری کرنے کا مزید موقع فراہم کرے گا؛ کیوں کہ جب ان سے کہا جاے گا کہ یہ حدیث صحیح ہے؛ تو وہ کہیں گے کہ یہ حدیث صحیح میں نہیں ہے، تنقید جب بجا ہو اور دل تنگ ہونے کے بجائے علم نور سے روشن و کشادہ ہو؛ تو تنقید بہر حال مفید ثابت ہوتی ہے، امام مسلم رحمہ اللہ نے ان کی اس تنقید کو برا نہ مانا اور ایک عقلمندانہ جواب دے کر اہل بدعت کی پشت پر آخری کیل ٹھوک دی اور فرمایا: میںنے یہ کہا ہے کہ اس کتاب کی احادیث صحیح ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ صرف اسی کتاب کی احادیث صحیح ہیں، باقی دوسری احادیث ضعیف ہیں؛ اس لیے جو بھی پڑھا لکھا شخص میرے قول کو مد نظر رکھے گا وہ کبھی نہیں کہے گا کہ اس کتاب کی احادیث کے علاوہ ساری احادیث ضعیف ہیں۔

  امام ابوزہو رحمہ اللہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے ان اقوال کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ان باتوں سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوکر سامنے آئیں:۔

            پہلی بات

 امام دار قطنی، بیہقی اور ابن حبان علیہم الرحمۃ نے تنقید کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی کہ جب امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے مختلف شروط کے ساتھ اپنی کتابوں میں صحیح احادیث تخریج کرنے کا التزام کیا؛ تو ان پر لازم تھا کہ ان کی شروط پر موجود دوسری احادیث کو ترک کرنے کے بجائے انہیں بھی اپنی کتاب میں جگہ دیتے۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ پر اس جہت سے نقد کرنا جائز ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بہت ساری ایسی احادیث کو جگہ نہیں دی جو احادیث خو د ان کے شرط کے مطابق تھیں‘‘۔

 امام بیہقی رحمہ اللہ وغیرہ نے ذکر کیا  ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے احادیث روایت کیں اور ان کی یہ احادیث ایسے طرق سے مروی ہیں جن کے نقل کرنے والوں میں کوئی طعن و تشنیع نہیں، اس کے باوجود ان دونوں حضرات نے ان کی کوئی حدیث اپنی کتاب میں تخریج نہیں کی، حالاں کہ ان دونوں کے طریقہ کار کے مطابق ان کی احادیث کا تخریج کرنا لازم تھا‘‘۔

امام بیہقی رحمہ اللہ مزید ذکر کرتے ہیں: ’’شیخین کا ہمام بن منبہ رحمہ اللہ کے صحیفہ سے احادیث تخریج کرنے پر اتفاق ہے اور ہر ایک اس صحیفہ میں سے کچھ احادیث روایت کرنے میں دوسرے سے منفرد ہے حالاں کہ اسناد ایک ہی ہے‘‘۔

  امام دارقطنی اور امام ابوذر ہروی رحمہما اللہ نے اس نوع کے متعلق جو شیخین کے حق میں لازم کیا گیا ہے، کتابیں بھی لکھی ہیں، لیکن یہ بات شیخین پر لازم نہیں؛ کیوں کہ ان دونوں حضرات نے صحیح احادیث کے استیعاب کا التزام کیا ہی نہیں بلکہ ان کی تصریح موجود ہے کہ انہوں نے صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کیا بلکہ منتخب صحیح احادیث کو جمع کرنے کا ارادہ کیا اور اسے پورا کیاجیسے فقہ کا مصنف اس کے منتخب مسائل کو جمع کرنے کا ارادہ کرکے اس کو پورا کرتا ہے (المنھاج شرح صحیح مسلم بن حجاج، ج۱ص۲۴، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، مقدمۃ، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۳) ۔

 نیز وہابیہ زمانہ کے جہل اور ہٹ دھرمی سے پردہ چاک کرتے ہوئے  حصر احادیث  کے متعلق اعلی حضرت مجدد دین و ملت محدث بریلوی رحمہ اللہ  گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’رابعا ان حضرات کا داب کلی ہے کہ جس امر پر اپنی قاصر نظر، ناقص تلاش میں حدیث نہیں پاتے اس پر بے اصل و بے ثبوت ہونے کا حکم لگادیتے اور اس کے ساتھ ہی صرف اس بنا پر اسے ممنوع و ناجائز ٹھہراتے ہیں۔۔۔۔۔صاحبو! لاکھوں حدیثیں اپنے سینوں میں لے گئے کہ اصلا تدوین میں بھی نہ آئیں، امام بخاری کو چھ لاکھ حدیثیں حفظ تھیں، امام مسلم کو تین لاکھ، پھر صحیحین میں صرف سات ہزار حدیثیں ہیں، امام احمد کو دس لاکھ محفوظ تھیں، مسند میں فقط تیس ہزار، خود شیخین وغیرہما ائمہ سے منقول کہ ہم سب احادیث کا استیعاب نہیں چاہتے، اور اگر ادعاے استیعاب فرض کیجئے؛ تو لازم آئے کہ افراد بخاری، امام مسلم اور افراد مسلم، امام بخاری اور صحاح افراد سنن اربعہ، دونوں اماموں کے نزدیک صحیح نہ ہوں، اور اگر اس ادعا کو آگے بڑھائیے؛ تو یوں ہی صحیحین کی وہ متفق علیہ حدیثیں جنہیں امام نسائی نے مجتبی میں داخل نہ کیا، ان کے نزدیک حلیہ صحت سے عاری ہوں وہو کما تری‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۰ص۲۹۴)۔

صحیح احادیث کے حصر کا مفسدہ کتنا زیادہ خطرناک ہے خود امام محدث بریلوی رحمہ اللہ کے اس علمی تبصرہ سے بخوبی واضح و ظاہر ہے مگر بے جا تشدد تعنت کا انجام چوں کہ قعر مذلت ہی میں گرنا ہے؛ اسی لیے وہابیہ اور ان کے ہم نوا بولتے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔

 اور جو لوگ صرف صحیح البخاری یا صحیحین کی احادیث کا مطالبہ کرتے ہیں یا صرف انہیں کی احادیث کو صحیح سمجھتے ہیں؛ تو ان کے نزدیک صرف وہی راوی معتبر ہونا چاہیے جو صحیح البخاری یا صحیحین میں موجود ہو اور جو راوی ان میں موجود نہ ہو، وہ معتبر نہیں ہونا چاہیے اور یہ ظاہر البطلان ہے، ملاحظہ فرمائیں:۔

   دوسری بات: شیخین کا صحیحین میں راویوں میں سے کسی راوی سے حدیث تخریج نہ کرنا اس بات کو لازم نہیں کہ وہ راوی ساقط یا ضعیف ہے؛ کیوں کہ جیسے ان دونوں حضرات نے احادیث صحیحہ کا استیعاب نہیں کیا ہے بالکل اسی طرح انہوں نے ان راویوں کا بھی احاطہ نہیں کیا ہے جن میں صفات قبول و صحت پائے جاتے ہیںاور ان کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے؛ کیوں کہ تاریخ بخاری چالیس ہزار (۴۰۰۰۰) سے زائد راویوں پر مشتمل ہے اور انہیں کی کتاب ’الضعفاء‘ میں تقریبا سات سو (۷۰۰) راوی ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الجامع الصحیح‘ میں دو ہزار (۲۰۰۰) سے کم راویوں کی احادیث تخریج کی ہے جیسا کہ اس کی وضاحت حافظ حازمی رحمہ اللہ نے ’شروط الأئمۃ الخمسۃ‘ میں کی ہے۔

            نیز امام حاکم ابو عبد اللہ نیساپوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’معرفۃ علوم الحدیث‘ کے النوع الحادی و الخمسون میں صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے راویوں کو ذکر کیا ہے، جن کی احادیث صحیح میں تخریج نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں ساقط قرار دیا گیا، ان میں سے بعض کے نام ملاحظہ فرمائیں:۔

            صحابہ: ابوعبیدہ بن جراح، عتبہ بن غزوان اور ابوکبشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ، تابعین: محمد بن ابی بن کعب، سائد بن خلاد بن سائب اور ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہم اللہ وغیرہ، تبع تابعین: عبد الرحمن بن ابی الزناد، عطاء بن السائب الثقفی اور ابو یعقوب العبدی رحمہم اللہ وغیرہ (معرفۃ علوم الحدیث، حاکم نیساپوری رحمہ اللہ، النوع الحادی و الخمسون، ص۴۵۲، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۴)۔

            تنبیہ: امام حاکم نیساپوری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو تبع تابعین میں شمار کیا ہے لیکن چوں کہ میرے اعتبار سے امام اعظم رحمہ اللہ کو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے شرف لقا حاصل ہے؛ اس لیے میں نے یہاں پر آپ کو تابعین میں شمار کیا ہے۔

            استاذ محدث و مفکر شیخ امام محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ امام حازمی رحمہ اللہ کی کتاب ’شروط الأئمۃ الخمسۃ‘ پر تعلیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

            ’’صحیح بات یہ کہ شیخین نے صحیحین میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ایک حدیث بھی روایت نہیں کی ہے، حالاں کہ انہوں نے ان کے شاگردوں کے شاگردوں کے چھوٹے لوگوں کا زمانہ پایا اور ان سے حدیث لی ہے، ان دونوں حضرات نے اپنی کتاب میں امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی حدیث روایت نہیں کی حالاں کہ ان دونوں حضرات کو امام شافعی رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں سے شرف لقا حاصل ہے، اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں صرف دو حدیثیں ایک بطور تعلیق اور دوسری ایک واسطہ سے نازلا امام احمد رحمہ اللہ سے روایت کی ہے حالاں کہ آپ نے ان کا زمانہ پایا اور طویل زمانہ تک ان کی مصاحبت میں رہے، اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے ایک حدیث بھی روایت نہیں کی حالاں کہ آپ طویل زمانہ تک ان کی صحبت میں رہے اور اپنی کتاب تصنیف کرنے میں انہیں کا طریقہ کار اختیار کیا، اور امام احمد رحمہ اللہ سے تقریبا صرف تیس (۳۰)احادیث روایت کی، اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المسند‘ میں عن مالک عن نافع بطریق الشافعی جو أصح الطرق یا من أصح الطرق شمار ہوتا ہے، صرف چار احادیث اور اس طریق کے علاوہ جو احادیث امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت کی ہے وہ تقریبا بیس (۲۰) احادیث ہیں حالاں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کی شاگردی اختیار کی، آپ سے موطأ مالک سنی اور آپ کو ان کے مذہب قدیم کے راویوں میں شمار کیا گیا۔

            امام زاہد کوثری رحمہ اللہ شیخین و غیرہ کا بہت سارے ائمہ کرام سے احادیث روایت نہ کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

             ’’شیخین کے دین و امانت کے پیش نظر اس کا ظاہر ی سبب یہ ہے: انہوں نے دیکھا کہ مشرق و مغرب میں ان کے شاگرد بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کی روایت ضائع ہونے سے محفوظ ہے، اور اصحاب دواوین کا صرف بعض راویوں کی احادیث پر توجہ دینا دوسرے راویوں کی احادیث کے ضائع ہونے کا سبب بن سکتا تھا اگر ان کی طرف توجہ نہ دی جاتی اور یہ مضر ہوتا؛ کیوں کہ بعد میں آنے والے لوگ بعض دواوین کی احادیث حاصل کرکے بعض دوسرے دواوین کی احادیث سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ہیں‘‘۔ (حاشیۃ شروط الأئمۃ الخمسۃ، حازمی رحمہ اللہ، ص، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو،ص۳۹۵)۔

            امام زاہد کوثری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’جس نے یہ گمان کیا کہ شیخین نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان کی احادیث سے بچ سکیں یا ان ائمہ کے متعلق جرح کی کتابوں میں بعض کلام جیسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام ثوری رحمہ اللہ کا قول، امام شافعی کے بارے میں امام ابن معین رحمہ اللہ کا قول، امام احمد رحمہ اللہ کے بارے میں امام کرابیسی رحمہ اللہ کا قول، امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق امام ذہلی رحمہ اللہ کے قول اور اسی طرح دیگر ائمہ کے بارے میں اقوال کی وجہ سے ایسا کیا؛ تو ان کا یہ گمان ان کے ظلم و زیادتی کی بنا پر ہے‘‘۔ (الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۶، حاشیۃ شروط الأئمۃ الخمسۃ، حازمی رحمہ اللہ)۔

            شیخ محمد محمد ابو زہو فرماتے ہیں: ’’امام حاکم وغیرہ کے کلام سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شیخین یا ان دونوں میں سے کوئی ایک کبھی کسی ثقہ امام سے روایت نہیں کرتے ہیں، اس کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں، وہ یہ ہیں:۔

            (۱) اس اسناد میں ضعف واقع ہو جو اس ثقہ اور صاحب صحیح کے درمیان ہے؛ تو صاحب صحیح اس طریق سے حدیث روایت نہیں کرتا (۲) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صاحب صحیح جس امام کی حدیث ترک کردیتا ہے، ان کے بڑے بڑے شاگرد ہوتے ہیںجو ان کی احادیث کو روایت کرتے ہیں؛ تو صاحب صحیح وہ حدیث اس امام سے روایت کرنے سے بے نیاز ہوجاتا ہے (۳) کبھی طلب علو اسنا د پیش نظر ہوتا ہے؛ کیوں کہ حدیث کبھی امام کے طریق سے نازل اور دوسرے ثقہ راوی کے طریق سے عالی ہوگی؛ تو صاحب صحیح اسناد عالی کا انتخاب کرتا ہے؛ کیوں کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرب زیادہ میسر آتا ہے‘‘۔ (الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۶)۔

کتب ستہ کے علاوہ کتابوں کی احادیث

            امام عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ سنن اربعہ اور دیگر کتب احادیث کے متعلق تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد فرماتے ہیں:۔

            ’’دوسرے سوال کے جواب میں جو باتیں میں نے لکھی ہیں شاید اس کے ذریعہ غور و خوص کرنے والا یہ سمجھ جائے کہ بعض عوام کے ذہن جو یہ بات ذہن نشیں ہو چکی ہے کہ کتب سنن کی ہر حدیث قابل احتجاج ہے، یہ قابل اعتبار نہیں اور اسی طرح بعض کے ذہن میں جو یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ کتب ستہ یا کتب سبعہ کے علاوہ میں جو موجود ہے، وہ حدیث ضعیف ہے، یہ بات بھی قابل توجہ اور قابل احتجاج نہیں‘‘۔ (الأجوبۃ الفاضلۃ للأسئلۃالعشرۃ الکاملۃ، عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ، ص۱۱۷، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، بیروت)۔

اعلی حضرت مجدد دین و ملت محدث بریلوی رحمہ اللہ محدثین کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اسی تشدد و تعنت،  جہل اور کتب ستہ میں احادیث صحیحہ کو محدود سمجھنے والے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’اور استناد کا روایات صحیحہ مرفوعہ متصلۃ الاسناد میں حصر اور صحاح کا صرف کتب ستہ پر قصر جیسا کہ ’صاحب مأۃ مسائل‘ سے یہاں واقع ہوا، جہل شدید و سفہ بعید ہے، حدیث حسن بھی بالاجماع حجت ہے، غیر عقائد و احکام حلال و حرام میں حدیث ضعیف بھی بالاجماع حجت ہے، ہمارے ائمہ کرام حنفیہ و جمہور ائمہ کے نزدیک حدیث مرسل غیر متصل الاسناد بھی حجت ہے، ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک حدیث موقوف غیر مرفوع قول صحابی بھی حجت ہے کہ یہ سب مسائل ادنی طلبہ علم پر بھی روشن ہیں اور حدیث صحیح کا ان چھ کتابوں میں محصور نہ ہونا بھی علم حدیث کے ابجد خوانوں پر بین و مبرہن و لکن الوہابیۃ قوم یجہلون‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۹ص۶۵۱، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)۔

کیا صحیحین کے علاوہ کتب متون میں صحیح احادیث کم ہیں؟!

            بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ صحیح البخاری و مسلم یا اصول خمسہ کے علاوہ کتب میں جو صحیح احادیث ہیں، وہ بہت کم ہیں، اس نظریہ کا بھی زیر نظر بحث سے کافی حد تک تعلق ہے؛ اس لیے اس کے متعلق بھی دو چند باتیں ملاحظہ فرمالیں:۔

            ’’حافظ ابوعبد اللہ بن اخرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بہت کم ایسا ہے کہ کوئی حدیث ثابت ہو اور وہ بخاری و مسلم میں نہ ہو‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الأول: معرفۃ الصحیح، ص۱۰)۔

            حافظ ابوعبد اللہ رحمہ اللہ کے اس قول سے پتہ چلتا ہے کہ صحیحین کے علاوہ دوسری کتابوں میں ثابت شدہ احادیث بہت کم ہیں، مگر ان کا یہ قول محل نظر ہے؛ کیوں کہ یہاں پر یہ بجا طور سے کہا جاسکتا ہے کہ سنن اربعہ وغیرہ کو چھوڑ کر اگر صرف ایک کتاب ’المستدرک علی الصحیحین للحاکم‘ کو مد نظر رکھا جائے؛ تو صرف یہی ایک کتاب اس قول کے غیر صحیح ہونے کے لیے کافی ہے، امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔

            ’’کہنے والا یہ کہ سکتا ہے کہ دیگر کتب میں صحیح احادیث کم نہیں ہیں بلکہ زیادہ ہیں؛ کیوں کہ ’المستدرک علی الصحیحین للحاکم‘ متون حدیث میں بڑی کتاب مانی جاتی ہے، یہ خود بہت ساری ایسی صحیح احادیث پر مشتمل ہے جو صحیحین میں نہیں، اگرچہ اس کتاب میں کچھ کلام ہے مگر پھر بھی اس میں کثرت سے صحیح احادیث موجود ہیں‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الأول: معرفۃ الصحیح، ص۱۰)۔

            اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ امام ابن اخرم رحمہ اللہ کی مراد صحیحین سے فوت ہونے والی مطلقا صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ ان کی مراد اپنے اس قول سے وہ صحیح احادیث ہیں جو صحیحین کی شرط کے مطابق ہوں، یعنی صحیحین کی شرط کے مطابق جو احادیث ہیں وہ ان دونوں سے بہت کم فوت ہوئی ہیں (النکت علی کتاب ابن الصلاح، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، ص۴۴، ط: المکتبۃ التوفیقیۃ، قاہرہ)۔

            اعتراض اور جواب سے یہ واضح ہوگیا کہ صحیحین کی شرط کے مطابق اگرچہ صحیح احادیث دیگر کتب متون میں تھوڑا کم ہیں لیکن دوسری صحیح احادیث جو اگرچہ صحیحین کی شرط کے مطابق صحیح نہیں، وہ کتب متون میں کثرت سے موجود ہیں؛ لہذا مطلقا یہ سمجھنا یا سمجھنانے کی مذموم کوشش کرنا کہ صحیحین کے علاوہ کتب متون میں صحیح احادیث کم ہیں، غلط اور بے بنیاد ہے۔

کیا اصول خمسہ کے علاوہ کتب متون میں صحیح احادیث کم ہیں؟!

            امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اصول خمسہ یعنی صحیحین، سنن أبی داؤد، سنن الترمذی اور سنن النسائی سے صحیح احادیث بہت کم فوت ہوئی ہیں‘‘۔

            مذکورہ بالا امام نواوی رحمہ اللہ کے قول سے بھی کسی کو دھوکا ہوسکتا ہے کہ اصول خمسہ کے علاوہ کتب متون میں مطلقا صحیح احادیث کم ہیں؛ کیوں کہ امام نواوی رحمہ اللہ کا قول اسی پر دلالت کرتا ہے، مگر میرے خیال سے اس کے متعلق فیصلہ کرنے میں اتنی جلدبازی نہیں کرنی چاہیے، امام نواوی رحمہ اللہ کی مراد جاننے کے لیے امام ابن حجر رحمہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں:۔

            ’’اس قول سے امام نواوی رحمہ اللہ کی مراد خاص کر احکام کی احادیث ہیں ورنہ احادیث احکام کے سوا صحیح احادیث بہت زیادہ ہیں‘‘۔ (النکت علی کتاب ابن الصلاح، ص۴۴، ط: المکتبۃ التوفیقیۃ، قاہرہ)۔

            نیز امام عراقی رحمہ اللہ امام نواوی رحمہ اللہ کے قول کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ کلام محل نظر ہے، کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اس قول سے شاید امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد تکرار اسانید کے ساتھ احادیث اور موقوفات بھی ہیں؛ کیوں کہ کبھی ایک حدیث جو دو سند سے مروی ہوتی ہے، اسے دو حدیث شمار کیا جاتا ہے‘‘۔ امام ابن جماعہ رحمہ اللہ نے ’المنہل الروی‘ میں کچھ اضافہ فرماتے ہوئے لکھا: ’’یا امام بخاری رحمہ اللہ نے کثرت میں مبالغہ مراد لیا ہے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’پہلا قول اولی ہے‘‘۔(تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، ص۷۴، ط: دار الحدیث، قاہرہ)۔

            فقیہ نجم الدین قمولی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کل احادیث چودہ ہزار (۱۴۰۰۰)ہیں‘‘۔ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح، زرکشی رحمہ اللہ، النوع الأول من أنواع علوم الحدیث، ص۶۴، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)۔

            پھر امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

            ’’آپ کے قول سے طرق و اسانید کا تعدد، صحابہ اور تابعین کے آثار وغیرہ سب مراد ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سب کو احادیث کا نام دیا؛ کیوں کہ سلف صالحین ان تمام چیزوں پر حدیث کا اطلاق کرتے تھے اور یہ تاویل کثرت میں مبالغہ کی تاویل سے بہتر و اولی بلکہ یہی تاویل متعین ہے، اس سے عدول جائز نہیں ‘‘۔(النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح، زرکشی رحمہ اللہ، النوع الأول من أنواع علوم الحدیث، ص۶۴)۔

            اس کے بعد امام بدر الدین زرکشتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔

            ’’اس تاویل کی تائید حفاظ کی ایک جماعت سے صحیح طور پر ثابت شدہ روایت سے بھی ہوتی ہے کہ احادیث اسی تعداد میں محدود و منحصر نہیں، اس کے متعلق بعض اقوال ملاحظہ فرمائیں:۔

            ’’امام یحی بن سعید قطان رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: مسند احادیث کتنی ہیں؛ تو آپ نے فرمایا: ہمارے اصحاب نے مسند کا شمار کیا ہے وہ مکرر کے ساتھ آٹھ ہزار احادیث ہیں۔۔۔اہل بصرہ کے محدثین فرماتے ہیں: کل مسند احادیث سات ہزار سے زائد ہیں۔۔۔امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کل مسند احادیث چار ہزار سے زائد ہیں۔۔۔۔۔۔امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کل احادیث چھ یا سات ہزار ہیں‘‘۔ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح، زرکشی رحمہ اللہ، النوع الأول من أنواع علوم الحدیث، ص۶۴)

            امام زرکشی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:۔

            ’’یہ تعداد اس کی بنسبت بہت کم ہے جسے امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے کتاب الحث علی الحفظ میں روایت کیا ہے‘‘۔ ان میں سے بھی بعض اقوال ملاحظہ فرمائیں:۔

            امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مجھے اپنی کتاب کے ذریعہ ایک لاکھ (۱۰۰۰۰۰) حدیث کا علم ہے گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں، ان میں سے مجھے زبانی ستر ہزار (۷۰۰۰۰) صحیح احادیث یاد ہیں اور اسی طرح چار ہزار (۴۰۰۰) ضعیف احادیث بھی یاد ہیں۔۔۔امام ابوزرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جیسے ایک انسان قل ھو اللہ أحد یاد رکھتا ہے اسی طرح مجھے دو لاکھ (۲۰۰۰۰۰)احادیث یاد ہیں اور مذاکرہ کے اعتبار سے تین لاکھ (۳۰۰۰۰۰) احادیث یاد ہیں۔۔۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے: صحیح احادیث سات لاکھ (۷۰۰۰۰۰) سے زائدہیں۔۔۔نیز امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہی سے مروی ہے: آپ نے دس لاکھ (۱۰۰۰۰۰۰) احادیث لکھی، ان میں سے تین لاکھ (۳۰۰۰۰۰) احادیث کو آپ نے ساقط کردیا اور سات لاکھ (۷۰۰۰۰۰) احادیث سے منتخب کرکے اپنی کتاب مسند تحریر فرمائی‘‘۔ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح، زرکشی رحمہ اللہ، النوع الأول من أنواع علوم الحدیث، ص۶۵)۔

            آٹھ ہزار وغیرہ اور ایک لاکھ وغیرہ اقوال کے درمیان بہت تفاوت اور تعارض نظر آتا ہے؛ اس لیے امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ائمہ کرام رحمہم اللہ کے ان اقوال کے درمیان جمع و تطبیق یوں ممکن ہے کہ جن سے کم احادیث کے وجود کا قول منقول ہے اسے اصول احکام پر محمول کیا جائے جیسا کہ ابوبکر بن عقال رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح، زرکشی رحمہ اللہ، النوع الأول من أنواع علوم الحدیث، ص۶۵)۔

            امام مزی رحمہ اللہ فرماتےہیں امام ابن ماجہ رحمہ اللہ جس حدیث کی روایت کرنے میں اصول خمسہ سے منفرد ہیں، وہ ضعیف ہے‘‘۔ امام حسینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام مزی رحمہ اللہ کے اس قول سے مراد احادیث ہیں‘‘۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ان کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کثیر احادیث روایت کرنے میں منفرد ہیں اور وہ صحیح ہیں؛ اس لیے اولی یہ ہے کہ اس انفرادیت کے ضعف کو رجال پر محمول کیا جائے‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، ص۷۶)۔

            اس تفصیلی بیان اور تطبیق سے واضح ہوگیا کہ اصول خمسہ سے جو کم مقدار میں احادیث صحیحہ فوت ہوئیں ہیں، وہ احکام کی احادیث ہیں ورنہ احکام کی احادیث کے علاوہ فضائل و مناقب اور دیگر ابواب سے متعلق کتب متون میں صحیح احادیث بہت کثرت سے موجود ہیں۔

صحیحین یا کتب ستہ کے علاوہ کن کتابوں سے صحیح احادیث حاصل کی جائے؟

            نیز اگر ان وہابیوں کے مطابق صحیح احادیث صرف صحیحین یا کتب ستہ میں منحصر ہوتی یا صرف ان کی احادیث سے ہی احتجاج درست ہوتا؛ تو ائمہ کرام رضی اللہ عنہم کیوں اس بات کا حکم دیتے کہ صحیحین یا کتب ستہ کے علاوہ فلاں فلاں کتابوں سے بھی صحیح احادیث حاصل کی جاسکتی ہیں، امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔

            ’’پھر صحیحین کے علاوہ صحیح احادیث ائمہ حدیث کی مشہور کتابوں سے حاصل کی جائے‘جیسے سنن أبی داؤد، سنن الترمذی، سنن النسائی، صحیح ابن خزیمہ، سنن الدارقطنی وغیرہ جس کی صحت پر صراحت موجود ہو، سنن أبی داؤد، سنن الترمذی اور سنن النسائی وغیرہ کتابوں میں جس میں صحیح و غیرصحیح دونوں جمع کی گئی ہیں، ان میں صرف حدیث موجود ہونا کافی نہیں، البتہ جنہوں نے صحت کا التزام کیا ہے جیسے صحیح ابن خزیمہ، اسی طرح جو صحیح البخاری یا صحیح مسلم پر مخرج کتب ہیں، ان میں احادیث کا موجود ہونا، ان کے صحیح ہونے کے لیے کافی ہے، جیسے کتاب أبی عوانہ اَسفرائینی، کتاب ابی بکر اسماعیلی اور کتاب ابی عبد اللہ حمیدی وغیرہ‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الأول: معرفۃ الصحیح، ص۱۱)۔

            امام ابن صلاح رحمة اللہ علیہ نے یہاں یہ فکر دینے کی کوشش کی ہے کہ مشہور کتابیں جن کے مصنفین نے صحت کی صراحت کی ہے، صرف انہیں کی احادیث کو صحیح مانا جائے اور اگر ان کی مصنفات کے علاوہ میں تصحیح موجود ہو یا ایسے امام کی تصحیح جن کی کوئی تصنیف مشہور نہ ہو، ان کی احادیث کو صحیح تسلیم کرنا محل نظر ہے؛ کیوں کہ آپ کی رائے یہ ہے کہ اس زمانہ میں کسی کو تصحیح احادیث کی اجازت نہیں، امام عراقی رحمہ اللہ امام ابن صلاح رحمہ اللہ کے اس قول پر استدراک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

            ’’اسی طرح ابن صلاح رحمہ اللہ نے مقید رکھا ہے، مگر میں اس قید کا قائل نہیںبلکہ اگر صحیح طریق سے ثابت ہوجائے کہ ان ائمہ کرام نے اپنی مصنفات کے علاوہ میں اس حدیث کی تصحیح کی ہے یا ائمہ کرام میں سے کسی ایسے امام نے تصحیح کی ہے جن کی کوئی کتاب مشہور نہیں؛ تو ان کی بھی تصحیح قبول کی جائے گی، جیسے امام یحی بن سعید قطان اور امام ابن معین رحمہما اللہ وغیرہ‘‘۔ (الأجوبۃ الفاضلۃ للأسئلۃالعشرۃ الکاملۃ، عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ، ص۱۵۱)

            اسی طرح علوم حدیث کی از ابتدا تا انتہا سب نہیں تو اکثر کتابیں مطالعہ کی جاسکتی ہیں اور ہر کتاب میں یہی ملے گا کہ صحیحین کے علاوہ یا اصول خمسہ یا کتب ستہ کے علاوہ صحیح احادیث حاصل کرنے کے لیے فلاں فلاں کتاب کی طرف رجوع کیا جائے، اس بیان سے بھی روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ صحیح احادیث صرف صحیحین یا کتب ستہ میں محدود و منحصر نہیں۔

کیا صحیح احادیث کو محدود کیا جاسکتا ہے؟!

            بعض محدثین کرام نے اگرچہ صحیح احادیث کو محدود و متعین کرنے کی کوشش کی ہے، مگر صحیح یہی ہے کہ ان کی حد بندی کرنا یا ان کو متعین کرنا ناممکن ہے اور اگر ناممکن نہیں تو کم از کم بہت بعید ضرور ہے:

            امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’احادیث کا کسی متعین تعداد میں محصور و محدود کرنا امکان سے باہر ہے مگر پھر بھی ایک جماعت نے احادیث کے تتبع اور ان کی تعداد متعین کرنے میں مبالغہ سے کام لیا ہے‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، ص۷۴، ط: دار الحدیث، قاہرہ)

            امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’کون ہے جو صحیح احادیث کا احاطہ کرے یہاں تک کہ انہیں محصور و محدود کردیا جائے؟!)) (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح، زرکشی رحمہ اللہ، النوع الأول من أنواع علوم الحدیث، ص۶۵)

            خلاصہ کلام:۔

 بہر کیف اس پورے بیان سے مندرجہ ذیل چیزیں واضح ہوکر سامنے آئیں:

۔.(۱)مطلقا صحیح احادیث صحیح البخاری یا صحیحین یا اصول خمسہ یا کتب ستہ میں منحصر نہیں

۔(۲) اسی طرح احکام کی صحیح احادیث صحیح البخاری یا صحیحین یا اصول خمسہ میں منحصر نہیں

۔(۳) حدیث کے غیر صحیح ہونے سے اس کا ضعیف یا موضوع ہونا لازم نہیں؛ کیوں کہ غیر صحیح ہونے کی صورت میں جہاں ضعیف یا موضوع ہونے کا احتمال ہے، وہیں حدیث کے حسن ہونے کا بھی احتمال ہے

۔(4)صحیحین میں ذکر کرنے سے جو کم مقدار میں صحیح احادیث رہ گئیں ہیں، وہ کم مقدار میں صحیح احادیث وہی ہیں جو صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں ۔

۔(5) اگر صحت میں صحیحین کی شرط کا لحاظ نہ کیا جائے؛ تو صحیحین کے علاوہ کتب متون میں کثرت سے صحیح احادیث موجود ہیں

۔(6) صاحب صحیح کا کسی راوی سے حدیث روایت نہ کرنے سے اس راوی کا ضعیف ہونا یا اس کا قابل احتجاج نہ ہونا لازم نہیں آتا۔

۔(7)اصول خمسہ سے احکام کی احادیث کم ہی مقدار میں فوت ہوئی ہیں

۔(۸) البتہ مطلقا دوسرے ابواب سے متعلق صحیح احادیث؛ تو وہ اصول خمسہ کے علاوہ کتب متون میں بہت زیادہ موجود ہیں

۔(۹) کتب ستہ کے علاوہ جیسے مسند احمد اور صحیح ابن حبان وغیرہ کتب متون میں صحیح احادیث وافر مقدار میں موجود ہیں

۔(۱۰) اگرچہ بعض لوگوں نے صحیح احادیث کی حد بندی کرنے کی کوشش کی ہے مگر صحیح یہ ہے کہ ان کی حد بندی کرنا ناممکن نہیں تو بعید الوقوع ضرور ہے؛ ۔

لہذا وہابی وغیرہ کسی بھی فرد کا یہ حق نہیں کہ وہ صحیح احادیث کو صحیح البخاری یا صحیحین یا اصول خمسہ یا کتب ستہ میں منحصر و محدود کرنے کی کوشش کرے یا بطور احتجاج صرف صحیح البخاری یا صحیحین یا اصول خمسہ یا کتب ستہ کی ہی کی صحیح احادیث کا مطالبہ کرے؛ کیوں کہ یہ تحدید اور اس طرح کا مطالبہ دونوں باطل و مردود ہے، اللہ تعالی ایسے لوگوں کو ہدایت دے اور ہم سب کو اہل سنت و جماعت پر قائم و دائم رکھے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

تمت بالخیر

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے

بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن