تحریر: غلام مصطفٰی رضوی نوری مشن مالیگاؤں لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو حجاز مقدس پر نجدی تسلط اور استعماری سازشیں
حجاز مقدس پر نجدی تسلط اور استعماری سازشیں
زندہ قومیں اپنے آثار و شواہد محفوظ رکھتی ہیں تاکہ مستقبل کے لیے تاب ناک شاہراہِ حیات مہیا ہو۔
ماضی کے ورثے کو ملحوظ رکھنے والے حال کے شامیانے میں مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔ شان دار ماضی کی کڑیاں حال سے استوار ہوں تو مستقبل تابندہ ہوتا ہے۔ ہمارا ماضی بے مثال رہا ہے۔
ہادیِ اعظم فخر کون و مکاں باعثِ تخلیقِ انس وجاں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جلوہ گری نے انسانیت کو ان اعلیٰ ترین اقدار سے روشناس کرایا؛ کہ آپ کے نقوشِ قدم راہبر و راہنما ٹھہرے۔
ہر شعبۂ حیات کو آپ کی ذاتِ بابرکت سے روشنی ملی اور انسانیت کو ظلم وستم کی زَد سے بچ کر اسلام کی ٹھنڈی گھنیری چھاؤں میں پناہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔ سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبینِ آدمیت کو اغیار کے در پر خم ہونے سے بچایا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بلدِ امیں مکہ معظمہ خطۂ حجاز میں جلوہ بار ہوئے اور ایمان کا سویرا ہوا ؎
رُخِ مصطفٰی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
عظیم و شان دار ماضی رکھنے والی قوم نے جب بھی اپنے ماضی سے انحراف کیا اور ہادیِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے جادۂ حق وصداقت سے رُوگردانی کی؛ تباہی وبربادی اور پستی و زوال سے دوچار ہوئی۔
بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اُلفت و محبت وعقیدت کا رشتہ استوار رکھنے والوں نے دُنیا کی قیادت کی۔ فکر وشعور کی ہر بلند چوٹی پر اسلامی عظمتوں کے پھریرے لہرائے اور دُنیا کو امن واخوت و سچائی کا درسِ تابندہ دے کر فکروں کو مہکاتے رہے، کردار کو چمکاتے رہے، خیالات کی بنجر وادیوں کوسیراب کرتے رہے۔ لیکن جہاں انحراف و بغاوت کا معاملہ ہوا؛ وہیں سے زوال کا آغاز ہوا۔ عقیدہ وعقیدت سے کھلواڑ نے گلشن کو بنجر بنا ڈالا۔
جہاں گل ولالہ کی کاشت کرنی تھی وہاں تھوہڑ و کیکر اُگائے گئے؛ نتیجہ یہ ہوا کہ دل کی دُنیا سُونی ہوتی گئی اور عقیدے تباہ۔ جب محبت رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نغمۂ جاں فزا سے تھکی تھکی روح کھل نہ اُٹھے اور دل مضمحل ہی رہے تو سمجھ لو کہ عقیدے کا گلشن بنجر ہوچکا ہے؛ اور ایمان کی فصل کاٹی جاچکی ہے۔
یہی کچھ یہود وانگریز کی ریشہ دوانیوں سے ہوا کہ دل بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ایسے دور کیے گئے کہ’’ تعظیم وتکریم‘‘ کو ’’شرک وبدعت‘‘ اور’’ توہین‘‘ کو ’’توحید‘‘ سمجھا جانے لگا۔
تُرک بڑے بہادر و غیور مسلمان تھے، حجازِمقدس جب اُن کے زیرِ خدمت آیا تو انھوں نے محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جذبات سے معمور ہو کر کتاب و سُنّت میں متعیّن کردہ مقاماتِ خصوصی [شعائراللہ] کو نشان زَد کرنے کا منصوبہ بنایا۔
تاکہ یہ نقوشِ زرّیں توحید کے متوالوں کو عہدِ رفتہ کی یاد دلاتے رہیں اور عزم ویقیں کے طاق پر ایمان وایقان کے وہ دیے جلاتے رہیں جن کی روشنی میں تھکے تھکے قافلے عزمِ جواں و حوصلۂ تازہ سے ہمکنار ہوتے ہیں۔اور تاریخ کے وہ محبت بھرے نقوش اُبھر کر سامنے آتے ہیں جن سے عزم ویقیں کے نامعلوم کتنے چراغ جل اُٹھتے ہیں۔
صدیوں سے یہود وانگریز نے اسلامی مملکتوں میں تخریب کے بیج بونے کے لیے کدوکاوش کی۔ اپنے جاسوسوں کے ذریعے برطانیہ نے ایسے افراد تیار کیے جن سے سامراجی خفیہ پالیسی کا نفاذ کروایا گیاجو اسلام کی بیخ کنی پر مشتمل تھی۔
عربوں میں نسلی وقومی عصبیت پروان چڑھانے کی غرض سے لارنس آف عربیہ نے تگ و دَو کی۔ترک اسلام کے سچے پاسبان تھے۔ عربوں کو کہا گیا کہ تم فضل وشرف والے ہو ترکی والوں کو تم پر حکومت کا کیا حق ہے؟ منافرت کی ہوا سازگار ہوئی۔
ادھر اپنے جاسوسوں کے ذریعے ذہنی وفکری تخریب کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ آلۂ کار تیار کیے گئے۔ محمد ابن عبدالوہاب برطانوی خفیہ پالیسی کا فکری طور پر تیار کردہ وہ شخص تھا جس نے اسلاف کی راہ سے انحراف کیا۔
توحید کی آڑ میں رسالت کے تقاضوں کو پامال کیا۔ تعظیم وتکریم کو شرک اور توہین کو توحید سمجھ بیٹھا۔ جو اس کا مذہب قبول نہیں کرتا۔ قتل و غارت سے کام لیتا۔ خوں ریزی اس کی طبیعت ثانیہ تھی۔ مولوی حسین احمد مدنی دیوبندی[صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند] لکھتے ہیں:۔
۔ ’’محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتداء ً تیرہویں صدی نجد عرب سے ظاہر ہوا۔ اور چوں کہ یہ خیالاتِ باطلہ اور عقائدِ فاسدہ رکھتا تھا اس لیے اس نے اہلِ سنت والجماعت سے قتل وقتال کیا……الحاصل وہ ایک ظالم وباغی خوں خوار فاسق شخص تھا ‘‘ ۔
[الشہاب الثاقب،مطبوعہ مکتبۂ رحیمیہ دیوبند ،ص۵۴]
اس کے عقائد ونظریات کو ’’وہابیت‘‘ سے جانا جاتا ہے۔ جس کی اشاعت کے لیے حجاز سے ترکوں کے انخلا کے بعد حکومتِ سعودیہ سرگرمِ عمل ہے۔ اسی کی دعوت کے لیے ان کے نیٹ ورک عرب سے ہند تک سرگرمِ عمل ہیں۔
بانیِ وہابیت نے اپنے عقائد وافکار منوانے کے لیے مسلمانوں کو قتل کیا، بے گناہوں کو تہ تیغ کیا، وہی پیٹرن نام نہاد جہادی وہابی دہشت گرد اپنائے بیٹھے ہیں۔ اسی وہابی فکر کے ابلاغ میں القاعدہ، لشکر طیبہ، جمعیۃالدعوۃ، جیش محمدی، سپاہِ صحابہ، داعش ،حزب المجاہدین، بوکو حرام اور ان جیسی وہابی عسکری تنظیمیں متحرک وسرگرمِ عمل ہیں۔
جو بموں،گولیوں، دھماکوں سے مزاروں، میلاد ونعت کی محفلوں اور بے گناہ مسلمانوں کو نشانہ بنا کر یہ سمجھتی ہیں کہ شرک وبدعت کو مٹا رہی ہیں۔اس طرح انسانیت کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ اور اپنی دہشت گردانہ فکروعمل سے اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ جب کہ ان کی سرگرمیاں یہود و نصاریٰ کی مخالفت میں زیرو ہیں-
دوسری طرف حجازِ مقدس میں اسلامی آثار کے انہدام کا سلسلہ ۱۹۲۵ء سے آج تک جاری ہے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ روضۂ مقدسہ کو منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ستمبر۲۰۱۴ء کے اوائل میں ڈیلی انڈیپنڈنٹ برطانیہ کے انٹرنیٹ ایڈیشن کے توسط سے یہ خبر مسلمانانِ عالم کے لیے بے چینی کا باعث بنی کہ سعودی حکومت کے ایک اسکالر نے گنبد خضرا کی شہادت اور روضۂ مبارکہ کی منتقلی کا منصوبہ ظاہر کیا ۔
اس کے فوراً بعد سعودی حکومت کی جانب سے یہ وضاحتی بیان سامنے آیا کہ:۔
’’قبر رسول کی منتقلی کے حوالے سے میڈیا پر آنے والی اطلاعات بے بنیاد ہیں۔ البتہ دوسال پیش تر جب روضۂ رسول اور مسجد نبوی کی توسیع کے حوالے سے منصوبے کا آغاز ہوا تو توسیعی کمیٹی کے ماہرین نے یہ تجویز دی تھی اور ساتھ ہی علما سے اس پر راے بھی طلب کی تھی۔
ماہرین کا خیال تھا کہ مسجد نبوی کی شمال کی سمت سے توسیع اور دوسری منزل کی تعمیر سے روضۂ رسول متاثر ہوسکتا ہے۔ علما نے قبر رسول کی منتقلی کی اجازت دی تھی مگر ساتھ ہی یہ واضح کردیا تھا کہ قبر مبارک کو کھولا نہیں جائے گا۔‘‘ [یہ خبر العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنی اردو سروس میں ۵؍ستمبر ۲۰۱۴ء کو اَپ لوڈ کی تھی؛]
سعودی حکومت کی وضاحت مسلمانانِ عالم کے غم و جذبات کی وقتی تسلی کے لیے ہے؛ ورنہ گزری نودہائیوں میں کیسے کیسے جلیل القدر صحابہ و اہلِ بیت اطہار واولیاے اسلام کے مزارات شہید کر دیے گئے۔ کتنی ہی عظیم نشانیاں مٹاڈالی گئیں اور اسلامی تاریخ کے مبارک نشانات کو اس بھونڈے انداز میں کھرچ ڈالا گیا کہ جس کی مثال ماضی کے کسی دور میں نہیں ملتی۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں:۔ ’’سعودی حکومت نے عہد رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آثار،صحابۂ کرام کے مظاہر اور اہلِ بیت کے شواہداس طرح مٹا دیے ہیں کہ جو چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر محفوظ کرنی چاہیے تھیں وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر محو کردی گئی ہیں۔کہیں کوئی کتبہ یا نشان نہیں۔‘‘ [شب جائے کہ من بودم، مطبوعات چٹان لاہور،ص۲۲]
یورپ اپنی تاریخی کڑیاں مربوط کرنے کی تگ و دَو میں ویرانے کھود رہا اور کھنڈر تلاش کررہا ہے۔ حرمین میں اسلامی آثار اپنے ہاتھوں سے مٹائے جارہے ہیں۔ اسلام کی زرّیں تاریخ کے نقوش کو اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کیا جارہا ہے۔ موجودہ سعودی حکومت قیصروکسریٰ کے طرز کی آمریت کا نمونہ ہے۔
دعویٰ کتاب وسُنّت کا ہے اور انگریز ویہود سے محبت واخوت ایسی کہ نگاہیں دنگ رہ جائیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر جو مظالم کے پہاڑ توڑے دُنیا چیخ اٹھی؛ لیکن حکمرانِ سعود نہیں جاگے۔ وہ جاگتے بھی کیسے؟ عبدالعزیز ابن سعود نے اپنی حکومت کے قیام سے قبل ۲؍اگست۱۹۱۵ء میں یہ معاہدہ برطانوی سامراج سے کیا تھا:۔
’’حکومتِ برطانیہ اعتراف کرتی ہے کہ علاقہ جات نجد [وغیرہ……]یہ سلطان ابن سعود کے علاقہ جات ہیں اور حکومتِ برطانیہ اِس اَمر کو تسلیم کرتی ہے کہ ان مقامات کا مستقل حاکم سلطان مذکورہ اور اس کی اولاد [یعنی آلِ سعود] ہیں اور اس کے بعد ان کے لڑکے ان کے صحیح وارث ہوں گے۔
لیکن ان ورثا میں سے کسی ایک کی سلطنت کے انتخاب و تقرر کے لیے یہ شرط ہو گی کہ وہ شخص سلطنتِ برطانیہ کا مخالف نہ ہو۔‘‘
اسی معاہدے میں فلسطین کا علاقہ یہودیوں کو دینے پر آلِ سعود کی رضا مندی کا اظہار بھی شامل ہے۔ [بحوالہ:نجدی تحریک پر ایک نظر،بہاء القاسمی دیوبندی، صفحہ۷؍تا۱۵]
یہود سے متعلق اپنے احساسات کو برطانوی جاسوسی ادارہ کے معتمد جان فلیپی کی ترغیب پر عبدالعزیز آلِ سعود نے جو تحریر عربی میں مع دستخط دی تھی اس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:۔ ’’میں سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمن آلِ فیصل آلِ سعود برطانیہ عظمیٰ کے مندوب سرپرسی کاکس کے لیے ایک ہزار مرتبہ اس بات کا اعتراف واقرار کرتا ہوں کہ فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں یا برطانیہ اس فلسطین کو جسے چاہے دیدے۔ میں برطانیہ کی رائے سے صبح قیامت تک اختلاف وانحراف نہیں کرسکتا۔‘‘ [ازافادات تاریخ آلِ سعود، مصنف ناصرالسعید، ناشر منشوراتِ مکہ مکرمہ، طبع ۱۴۰۴ھ]
خلافت تحریک ہندوستان کی رپورٹ میں شاہِ سعود کے حوالے سے ہے :۔ ’’اسے ۱۹۱۵ء کے معاہدہ کا اعتراف ہے۔‘‘ [مسئلۂ حجاز، مطبوعہ ۱۹۲۶ء ممبئی ،ص۱۳۰]
اسی طرح سعودی حکومت کے آغاز میں ہی ۱۹۲۵ء میں برطانوی مسٹر فلیپی کے آلِ سعود کے مشیرہونے میں بھی انگریز کے خفیہ اغراض ومقاصد تھے۔ [مسئلۂ حجاز، صفحہ۳۰]
ان شواہد کی روشنی میں دیکھیں کہ کس طرح حرمین میں یہود و انگریزکی مداخلت ہے، جن کے عزائم کیسے دل آزار ہیں۔ جن کے ہاتھوں کیسے عظیم وجلیل القدر صحابہ و مشاہیرِ اسلام کے مزارات شہید ہوئے۔ جن کی نگاہیں نبوی آثار کاخاتمہ چاہتی ہیں۔
جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم پسند نہیں؛ انھیں وجوہ سے دُنیا بھر کے مسلمان حرمین کے وہابی امام کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھتے۔ جن کا عقیدہ صحیح ہو گا انھیں کی امامت مقبول ہو گی، جو بد عقیدہ ہیں اُن کا کوئی عمل مقبول ومعتبر نہیں۔ عازمین حج و زائرینِ طیبہ سے گزارش ہے کہ اپنی نمازوں کو وہابی امامِ کے پیچھے پڑھ کر ضائع نہ کریں۔ وہابی امام کی اقتدا وپیروی سے بچنے ہی میں آخرت کی کامیابی و فوزو فلاح اور خوش نودیِ مولاہے۔
عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہ جذبۂ صادق ہے کہ جس کے ذریعے قوم کے بے جان جسم میں زندگی کی حرارت دوڑائی جاسکتی ہے۔ ترکوں نے مسجد نبوی کی تعمیر عشق ومحبت کے ساتھ کی تھی اِس لیے مدتوں بعد بھی اُمتِ مسلمہ اُن کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے۔
ترکوں نے نبوی آثار، صحابہ واہلِ بیتِ اطہار کے مزارات نشان زَد کیے، اُن پر کتبے نصب کیے، سعودی حکومت نے انھیں مٹایا۔ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظیم والدہ حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے مزارِ اقدس کو شہید کر دیا۔ ولادت گاہِ نبوی کی شہادت کا منصوبہ بنایا۔
کتنے ہی آثار مٹا ڈالے اور اپنے دہشت گردانہ عزائم سے اسلامی تاریخ کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کیا۔ ایک طرف شاہانِ سعود کا ظلم ہے، اُن کی انگریز نوازی کی داستان ہے تو دوسری طرف ترکوں کی اسلام کے تئیں خدمات اور جاں نثاری و عشق رسالت کا جذبۂ فروزاں ہے، بے شک
جان ہے عشق مصطفٰی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِ دوا اُٹھائے کیوں
اللہ کریم ! محبوب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طفیل حضور مفتی اعظم ہند علامہ محمد مصطفٰی رضا خان نوری علیہ الرحمہ کی اس دُعا کو شرفِ قبولیت سے نواز کر گستاخوں اور بے ادبوں کو نامُراد فرمائے اور حجازِ مقدس میں پھر سے خوش عقیدہ مسلمانوں کو خدمت کا شرف حاصل ہو
ترے حبیب کا پیارا چمن کیا برباد
الٰہی! نکلے یہ نجدی بلا مدینے سے
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن، مالیگاؤں
gmrazvi92@gmail.com
09325028586
ان مضامین کو بھی پڑھیں
ہیں مثل یہودی یہ سعودی بھی عذاب