Wednesday, December 11, 2024
Homeحالات حاضرہہجومی دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور ہمارا رد عمل

ہجومی دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور ہمارا رد عمل

تحریر: بلال احمدنظامی مندسوری ہجومی دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور ہمارا رد عمل 

ہجومی دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور ہمارا رد عمل         

 کہنے کو تو ہمارا ملک سب سےبڑاجمہوری اور دستوری ملک ہےلیکن سب سےزیادہ اسی ملک میں جمہوریت اور دستور کی پامالی ہوتی ہے۔دستور ہند ہر بھارتی کو رہنے سہنے،کھانے پینے،گھومنے پھرنے کی اجازت دیتا ہے

لیکن ایک طبقہ ایساہےجوآزادبھارت کی آزاد فضامیں سانس لینےوالوں پرعرصہٕ حیات تنگ کرناچاہتاہےاورجہاں کسی مظلوم نہتے بھارتی مسلمان کوپاتےہیں اسےزودوکوب کرناشروع کردیتےہیں جس کےنتیجےمیں اکثر ایسا ہوتا ہے وہ غریب مظلوم اپنی جان کی بازی ہارجاتا ہےاور پیچھےروتے بلکتے پریوارکوچھوڑ اپنےسفرپرروانہ ہوجاتا ہے۔

پھر انصاف کےنام پر مظلوم کےاہل خانہ کو دھمکیاں اور خوف وہراس ملتاہے ۔ پہلے کی حکومتیں ایسے واقعات پرکم از کم گھڑیالی  اورمگرمچھ کےآنسوہی بہا کرہم دردی کا اظہارکردیا کرتی تھیں

لیکن موجودہ حکومت ان سب واقعات کاکوئی اثرنہیں لیتی بل کہ ہم دردی کےدولفظ بولنےکےلیے بھی ہزاربار سوچناپڑتاہے۔یہ کوئی تعجب خیزبات بھی نہیں اس لیےکہ ہجومی دہشت گردی کےواقعات کےپس پردہ حکومتی سازشیں کار فرماہیں۔

یہ بات کہنےمیں اس لیےبھی حق بہ جانب ہوں کہ سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد(ماب لنچنگ) پرقانون بنانےکےلیےحکومت سےکہالیکن حکومت نےکوئی توجہ نہیں دی

۔17 جولائی 2018 کی ریپورٹ میں بی بی سی نیوز اردو نےلکھاہے کہ”انڈیا کی سپریم کورٹ نے ملک کی پارلیمنٹ سے سفارش کی ہے کہ وہ ہجومی تشدد کے قصوروار افراد کو سزائیں دینے کے لیے ایک علیحدہ قانون بنائے “سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا  کہ ” ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا اور اسے معمول کا واقعہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی”۔

جب حکومت عدالت عظمی کی سفارش پرکان نہیں دھرتی ہےتوعوام کی سفارشات واحتجاجات پرکب سنجیدہ ہوگی۔ابھی تک ہجومی تشدد کےواقعات 250 سےمتجاوزہوچکےہیں

لیکن نہ اس پرکوئی قانون بناہےاور نہ مرکزی حکومت نےکوئی سخت ایکشن لیاہے۔البتہ کچھ ریاستوں میں اس کےتعلق سےقانون سازی ہوئی ہےلیکن اس پربھی عمل درآمدنہیں ہے۔

حالات کے پیش نظرکہا جاسکتاہےکہ ریاستوں میں یہ قانون بھی صرف ایک فارمیلٹی پوری کرنےکےلیےبنایاگیا تھا اسی لیےاس کااثرنظرنہیں آتاہے۔کبھی گائے،کبھی لوجہاد کبھی بچے اغواکرنےجیسےایشوز پربےدھڑک ایک انسانی جان کاخون بہا دیا جاتا ہے۔

اور حکومت سےلے کرعوام تک کسی کوذرہ بھربھی ملال وافسوس نہیں ہوتا۔ ایسا لگتاہےکہ اس دورگرانی میں خون مسلم کچھ زیادہ ہی سستاہوگیاہے۔یہ بات بھی بڑی تعجب خیزہےکہ بھارت کی سب سےبڑی اقلیت کےافراد یکے بعد دیگر ہجومی تشدد کےشکارہورہے ہیں

اور اسی اقلیت کےقائدین ہاتھ پرہاتھ دھرےبیٹھےہیں نہ قانون سازی کامطالبہ نہ مجرموں کوسزادلانے کی جدوجہد اور نہ اس کےتدارک کےلیےمستقل لائحہ عمل،البتہ وقتی اورجذباتی بیانات سےسوشل میڈیاپُرہے۔جب قائدین ہی مسلمانوں کےمسائل سےچشم پوشی کیےہوئےہیں توپھرمسلمانوں کوخودکفیل آتم نربھر

(आत्म निर्भर ) 

بنناہوگا اوراپنےمسائل خودہی حل کرناہوں گے۔ابھی تک ہجومی تشدداورمآب لنچنگ کےردعمل میں ہم نےصرف احتجاج اور جذباتی بیانات سےکام لیا ہے

لیکن اب عملا اس کےتدارک کےلیےکوشاں ہوناہوگا۔مسلمان اس لیےبھی بہ آسانی شکارہوجاتاہےکہ وہ اپنی روایات سےبغاوت کرکےدوسروں کی روایات میں کھوگیاہے۔اپنی فکرکو فنا کے گھاٹ اتارکرکام یابی سےہم کنارہوناسمجھ بیٹھےہیں

ہجومی دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور ہمارا رد عمل

یہ ایک اصولی بات ہےکہ قومیں تلوار،ظلم وجبراورتشددد کےسبب زوال پذیرنہیں ہوتیں بلکہ اپنی فکر اور روایات کو پس پشت ڈالنے سے زوال پذیر ہوتی ہیں، اور جوقومیں فکری طورپر زندہ ہوتی ہیں وہ آج نہیں تو کل ضرورکام یاب  ہوکرعروج پاتی ہیں۔تاریخ انسانی کامطالعہ کرنےپربہ خوبی اس فلسفے کو سمجھا جاسکتا ہے۔

مسلمانوں کو فکری اورعملی طورپربیدارہوکرہجومی تشدد کےخلاف عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے

۔ 1 ۔ اپنےاپنےعلاقےمیں نہایت خاموشی کےساتھ سیلف ڈیفینس سیکھنےاور سیکھانےکااہتمام کیاجائے

۔2۔مارشل آرٹ اور اکھاڑا سیکھنےکےلیےحکومتی سطح پرباقاعدہ رجسٹریشن ہوتاہےجس کےذریعہ کوئی بھی آپ پرہاتھ نہیں رکھ سکتاہے،مناسب ہوتورجسٹریشن کروائیں

۔3۔جو تنظیمیں دیگرفلاحی ورفاہی کاموں میں سرگرم ہیں وہ اس جانب بھی توجہ دیں

۔4۔ہجومی تشددکےخلاف قانون بنانےکےلیےمسلسل حکومت پردباؤ بنائیں اور مسلم قائدین کی اس جانب توجہ مبذول کروائیں

۔5۔علاقائی نوجوان باہم مربوط ہوکراس جانب پیش قدمی کریں اور جہاں اس قسم کاکوئی واقعہ رونماہو وہاں قانونی دائرےمیں رہتےہوئےسخت ایکشن لیں تاکہ انتظامیہ مجرموں کو قرارواقعی سزادینےپرسنجیدہ ہو

۔6۔ائمہ وعلماےکرام معاشرےسےڈراورخوف کاماحول ختم کرکےانھیں ہمارےاسلاف اوربہادروں کی بہادری کےواقعات ازبرکرائیں تاکہ بزدلی ختم کرکےبہادربننےکی کوشش کرے

۔7۔آئین ہندہمیں رائٹ آف سیلف ڈیفینس یعنی اپنےدفاع کاحق دیتاہے اس لیےاپنےدفاع کی مکمل کوشش کی جائے

۔8۔ملکی سطح،ریاستی سطح یا ضلعی سطح پر ایک ایسی تحریک وتنظیم ہوجوصرف ہجومی تشدد(مآب لنچنگ) کےمعاملات پرنظر رکھیں،ان کےپاس وکلاء کی ٹیم ہو،اس تعلق سےتمام کیسیز وہ خودلڑیں اور مظلوموں کوانصاف دلائیں

نیز یہ یقینی بنائیں کہ آئندہ کسی کی لنچنگ نہ ہو۔مذکورہ تجاویزات پرعمل کر کےکسی حدتک اس سیلاب کو روکا جا سکتا ہے۔

تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری

رتلام ، مدھیہ پردیش

ان مضاممین کو بھی پڑھیں

ماب لنچنگ کے خلاف ماحول سازی

طبقہ بندی مفاسد و نقصانات اور شرعی احکام

 ہمارے لیے آئیڈیل کون 

اقوام متحدہ میں اسرائیلی ذلت کے شکار

امریکا انگلینڈ کی افغانستان سے گھر واپسی

دیش بھکت آخر جاسوس کیوں

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में आर्टिकल्स पढ़ने के लिए क्लिक करें 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن