از قلم: محمد عامر حسین مصباحی نئی نسلوں میں جذبۂ عشقِ رسول پیدا کریں
نئی نسلوں میں جذبۂ عشقِ رسول پیدا کریں
کسی بھی قوم کی بقا اور اس کی تعمیرو ترقی کا انحصار نئی نسل کا درست سمت میں پروان چڑھنا ہے ۔ زندہ دل اور بیدار قومیں نئی نسل کی علمی ، فکری اور اخلاقی معیار کو بلند کرنے میں اپنی زیادہ تر توانائیاں خرچ کرتی ہیں
کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی بہترین تعلیم و تربیت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی تو بھلے ہی قوم کا وجود برقرار رہ جائے مگر اس کی حیثیت صرف اور صرف زندہ لاش کی طرح ہوگی جس کی دنیا میں نہ کوئی حیثیت ہوگی اور نہ اپنا کوئی تشخص ہوگا
پھر دنیا والے جب چائیں گے اپنا ذہنی و فکری غلام بناکر ان پر اپنا مشن اور اپنی فکر مسلط کردیں گےاور اس طرح سے ایک آزاد قوم فکری اعتبار سے غلام بن کر رہ جائے گی۔ اسی لیے قومی انحطاط کے بچاؤ کے لیے نئی نسل پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
لیکن ماضی میں سب سے زیادہ زندہ دل اور بیدار رہنے والی قوم’’قومِ مسلم ‘‘کی نسلِ نو کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو بڑی مایوسی ہاتھ آتی ہے ۔
قومِ مسلم میں نئی نسل کے نوجوان نشاطِ عیش و طرب میں اس قد ر ڈوبے ہیں کہ انہیں دین اسلام اور خدا و رسول کی محبت بھی صرف سننے میں اچھی لگنے والی بات نظر آتی ہے۔حالانکہ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کی وہ بنیاد ہوتے ہیں جس پر اس ملک و قوم کے بہترین اور شان دار مستقبل کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
اگر بنیاد مضبوط ہوگی جبھی عمارت بھی مضبوط و مستحکم ہوگی مگرآج ہماری بنیاد ہی کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔ اگر اس پر جلدہی توجہ نہیں دی گئی تو نقصان کا اندازہ کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہوگا۔
ہماری قوم میں پروان چڑھنے والے نوجوانوں میں جہاں علمی،اخلاقی، تہذیبی اورتمدنی کَمیاں نظر آتی ہیں وہیں سب سے بڑی کمی جو نظر آتی ہے وہ تعلیم وتعلم ،خوفِ خدا ، محبت رسول علیہ السلام اور دینی جذبہ سے نوجوانوں کی دوری و لاتعلقی ہے
اور یقیناً یہ ہمارے لیے بڑا المیہ ہے کہ مذکورہ چیزوں سے دوری کی بنا پر آج اسکول و کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مسلک بیزاری قول و فعل کو آزاد خیالی و روشن خیالی تصور کر کے گمراہیت و بدمذہبیت کے دَل دَل میں پھنستے چلے جارہے ہیں ۔
اسی لیے ضرورت ہے کہ جہاں ہم ان کی فکری اور اخلاقی اقدار کی کڑی نگرانی کریں وہیں ان کے قلوب و اذہان میں خشیت ِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ کا جذبہ بھی اس انداز میں ابھاریں کہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوجائیں
ان کے دلوں میں عشقِ رسول ﷺجانگزیں ہوجائے اور ناموسِ رسالت ﷺ پر حملہ ہونے کی صورت میں اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کریں یا کم ازکم ملکی قوانین کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے احتجاج درج کرائیں اور اپنی سخت ناراضی کا اظہار کریں یہ نہیں کہ وقت اور حالات کا رونا رو کر بزدلی کا مظاہرہ کریں اور گستاخوں کو کھلی چھوٹ فراہم کردیں کہ جو بدبخت جب چاہےحضور کی ناموس پر حملہ آور ہوجایا کرے ۔
آپ جنگِ بدر کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو ان میں وہ ننھے مجاہدین بھی ملیں گے جنھیں کم عمری کی بنا پر جنگ سے واپسی کا حکم ہوا مگر انھوں نے جذبۂ عشقِ رسول میں سرشار ہوکر اپنی ایڑیاں اٹھا اٹھا کر تو کچھ آنسو گرا کر رحمتِ دوعالم ﷺ سے اپنی شرکت یقینی بنانے کی پُرزور کوشش کی
اور انھیں کام یابی بھی ملی اورپھر میدانِ جنگ میں ہمت و جرأت اور شجاعت کا ایسا بے مثال مظاہر ہ کیا کہ تاریخ میں اُن ننھے مجاہدین کےکارنامے سنہرے حروف میں منقوش ہوگئے۔
جنگِ بدر کی تاریخ جاننے والوں پر یہ بات مخفی نہیں کہ عفرا کے دو ننھے مجاہدین نے اُس گستاخِ رسول کا خاتمہ کیا جسے حضور علیہ السلام نے اپنے زمانے کا’’فرعون‘‘ بتایا ۔
مقامِ غور ہے کہ وہ کون سا جذبہ تھا جو ان ننھے مجاہدین کو گلیوں میں ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائےآتشِ جنگ میں کود نےپر ابھاردیا، ان کی تعلیم و تربیت کیسی تھی جس نے بچپن میں ہی انہیں یہ شعور عطا کردیا کہ ناموسِ رسول پر اپنی جانیں قربان کردینا سعادتِ دارین کا سبب ہے۔
آج جب کہ ہر طرف سے دین و ایمان اور ناموسِ رسالت پر حملے ہورہے ہیں تو ضرورت ہے کہ ہم اپنی نئی نسلوں میں وہ جذبہ پیدا کردیں کہ گستاخانِ رسول ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور ہوجائیں
کہ آج بھی قومِ مسلم میں سلمان تاثیر اور نرسنگھا نند سرسوتی جیسےخبیث کے لیے ایک ممتاز قادری ،خادم حسین رضوی اور سلمان ازہری نہیں بلکہ ہزاروں ان صفات سے متصف جیالے موجود ہیں جو ناموس رسالت کے لیے اپنی جان دینے سے دریغ نہیں کریں گے اور نہ لینے سے۔
جب ہماری نسل کے ہر فرد میں یہ جذبہ آجائے گا تو ان کے ایمان و عقیدے پر کوئی ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی آزاد خیالی و روشن خیالی یا حقِ آزادیٔ رائے کی آڑ میں کوئی ان کے محبوب نبی ﷺ کے متعلق انہیں بدگمان کرے گا۔اسی لیے ہر والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ناموسِ رسالت پر پہرا دینے والاسپاہی بنادیں ـ ان کی دھڑکنوں میں نبی نبی ہو، ان کی خلوتوں اور جلوتوں میں نبی نبی ہو،
گانوں باجوں کی دُھن پر ناچنے اور مست ہوجانے کی بجائے انہیں رب کی حمد و ثنا اور حضور کی نعتیں سننا زیادہ پسند ہوں اور اسی سے ان کے دلوں کو سکون حاصل ہو ـ بزرگوں کے نعتیہ دیوان اور بالخصوص اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کے نعتیہ دیوان حدائقِ بخش کے یہ اشعار جذبۂ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معاون ہوں گے ـ
جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِ دوا اٹھائے کیوں؟
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کے
ٹکڑوں سے تو یہاں کے پلے رخ کدھر کریں
لحد میں عشقِ رخِ شہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے
اس طرح کے اشعار بزرگوں کے سنائیں خود بھی سنیں اور اس کی توضیح و تشریح کریں، محبتِ رسولﷺ کے واقعات سنائیں تو ہمیں کام یابی ملے گی ان شاء اللہ!۔ اللہ رب العزت ہمیں حضور علیہ السلام کی سچی غلامی کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین
محمد عامر حسین مصباحی رسول گنج عرف کوئلی
مدیر : سہ ماہی پیامِ بصیرت