Thursday, November 14, 2024
Homeحالات حاضرہمفتی اعظم راجستھان کی یادوں کے تابندہ نقوش

مفتی اعظم راجستھان کی یادوں کے تابندہ نقوش

 تحریر: نازش المدنی مراد آبادی مفتی اعظم راجستھان کی یادوں کے تابندہ نقوش

مفتی اعظم راجستھان کی یادوں کے تابندہ نقوش

بابائے قوم و ملت اشفاق العلما،مفتی اعظم راجستھان حضرت علامہ الشاہ مفتی اشفاق حسین نعیمی اجملی قدس سرہ العزیز اس جلیل القدر، کثیر الصفات اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے جس کے دم سے آج راجستھان کی سنگلاخ زمین علم کے نور سے منور وتاباں نظر آ رہی ہے ۔آپ علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کے جس گوشہ پر کلام کیا جائے اس کا احاطہ مشکل تر ہے۔

یوں تو سرکار مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات پر بہت کچھ لکھا جا چکا۔ مگر اس تحریر میں مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے ان محاسن و کمالات کو ذکر کیا جائے گا ۔جن کو خود سرکار مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے تلمیذ رشید، صوفی باصفا عالم باکردار،یاد گار اسلاف حضرت علامہ مولانا نثار احمد باسنوی زید، عزہ نے ایک علمی وروحانی مجلس میں بندہ ناچیز کو بیان۔

کیا آپ علیہ الرحمہ نے فاروقیہ بک ڈیو کا قیام کیوں کیا ؟
اس کے بابت علامہ نثار احمد باسنوی دام ظلہ بیان کرتے ہیں : سرکار مفتی اعظم راجستھان سے ایک مرتبہ میں نے سوال کیا کہ حضور آپ نے اپنے صاحب زادے حاجی معین اشرفی صاحب کو عالم کیوں نہیں بنایا ؟۔

تو حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا اس لیے کہ کوئی میرے بعد یہ نہ سمجھ لے کہ میں نے اپنی گدی سنبھالنے کے لیے ان کواپنا جانشین بنا لیا بلکہ ان کو کچھ جماعت کا درس دینے کے بعد کاروبار (فاروقیہ بک ڈپو) کی طرف بڑھا دیا تاکہ خود اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائیں اور لوگ بد گمان ہونے سے بچے رہیں۔

فاروقیہ ڈپو کا نام فاروقیہ بک ڈپو کیوں نامزد فرمایا ؟
اس حوالہ سے مولانا موصوف بیان کرتے ہیں میں اور حاجی معین دونوں مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر تھے مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ مکتبہ کا نام کیا رکھا جائے؟۔

تو حاجی معین صاحب نے فرمایا کہ حضور اس کا نام فاروقیہ بک ڈپو رکھ دیا جائے تو کیسا رہے گا۔ اس لیے دور صحابہ کرام میں جب اسلام پر حملہ ہوا تھا تو اسی نام فاروقی نے اسلام کو جلا بخشی لہذا اس کا نام یہ ہو تاکہ بدمذہب کے مکاتب جو ہیں ان کی تردید ہو اور عقائد حقہ کی ترویج و اشاعت ہو۔

اور تھا بھی ایسا ہی کہ جب کوئی دہلی میں غیروں کے مکتب پر جاکر کنز الایمان شریف کو طلب کرتا تو یہ لوگ دیوبندیوں کے ترجمے تھما دیتے اس طرح سے یہ لوگوں کے عقائد پر ڈاکہ ڈال رہے تھے۔ مگر جب فاروقیہ بک ڈپو وجود میں آیا تو پھر الحمد للہ دین و سنیت کا ایسا کام ہوا کہ آج مٹیا محل دہلی میں اہل سنت وجماعت کے درجنوں مکاتب موجود ہیں ۔

دین کے کاموں میں خلوص و للہیت

مولانا موصوف بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ باسنی کے جلسہ میں تشریف لائے تو جلسہ کے اختتام پر ہم نے حضرت کو مصافحہ میں لفافہ پیش کیا ۔حضرت اس کو لے کر چلے گیے جب ہم بقیہ ماندہ لفافوں کو دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کو غلطی سے پیسوں کی بجائے دعوت والا لفافہ پہنچ گیا ہے۔

ہم بہت پریشان خاطر ہوئے پھر جب حضرت باسنی تشریف لائے تو ہم نے حضرت کی بارگاہ میں معذرت پیش کی کہ حضرت ہم سے بڑی غلطی ہو گئی ہے کہ غلطی سے پیسوں کی جگہ دعوت والا لفافہ آپ کو دے دیا اس پر آپ علیہ الرحمہ بالکل غصہ نہ ہوئے اور نہ ہی کسی طرح نارضگی کا اظہار کہا بلکہ فرمایا میں نے تو وہ لفافہ ابھی تک کھول کر ہی نہیں دیکھا ۔اللہ اکبر کیسی وسعت ظرفی تھی اس مرد قلندر کی ۔

اگر ہوتاآج کا کوئی خطیب تو سیخ پا تو ہوتا ہی ساتھ میں اس علاقہ میں آنے کی کبھی تاریخ بھی نہ لیتا مگر قربان جاؤں سیدی مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کی تحمل مزاجی اور اخلاص پرکہ آپ نے کس طرح ان لوگوں کو کسی قسم کی کوئی خلش محسوس نہ ہونے دیا۔

لوگوں کے چندوں کا کس قدر خیال فرمایا
مولانا موصوف ہی بیان فرماتے ہیں: کہ ایک مرتبہ میں حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے ساتھ ادےپور راجستھان کے سفر میں کسی جلسہ میں گیا ہوا تھا جب حضرت قیام گاہ سے جلسہ میں جانے لگے تو مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ نثار میاں! یہاں ہی رہنا جلسہ میں مت جانا مولانا کہتے ہیں مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ حضرت نے مجھے جلسہ میں جانے سے کیوں روکا خیر میں حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قیام گاہ ہی پر رہا ۔

اور کرسی پر بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آ گئی جب جلسہ ختم ہوا تو حضرت کمرہ میں تشریف لائے اور مجھے بیدار کیا اور لفافہ آگے بڑھاتے ارشاد فرمایا لو! نثار میاں یہ تمہارے لیے نذرانہ کا لفافہ ہے اور فرمایا کہ جلسہ میں، میں تمہیں اس لیے نہیں لے کرگیا کہ لوگوں نے بس مجھے بلایا تھا اور ہمیں عوام پر بوجھ نہیں بننا چاہیے۔

مگر انہوں نے آپ کا نذرانہ یہیں پہنچا دیا ہے۔ اللہ غنی کیسی دور اندیشی تھی اس روشن ضمیر کی کہ پہلے ہی اس بات کو پرکھ لیا کہ اگر یہ بھی جائیں گے تو لوگ ان کےلیے بھی انتظام کریں گے اور اس طرح عوام بیچاری پریشان ہوگی اور ان کوپریشان کرنا اچھی بات نہیں اس لیے مولانا کو قیام گاہ پر ہی رہنے دیا۔

اصلاح کا د ل نشین انداز

حضرت مولانا نثار صاحب قبلہ بیان فرماتے ہیں: حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کا جب کبھی کسی فریقین کی اصلاح کرنی ہوتی تو آپ علیہ الرحمہ اصلاح کا بڑا اچھوتا انداز اختیار فرماتے جو واقعی لائق تقلید ہوتا وہ اس طرح کہ آپ علیہ الرحمہ کسی تیسرے شخص کے یہاں پہلے فریقین کو آمنے سامنے بلائے بغیر فرداً فرداً دونوں سے بات چیت کر لیتے اور پھر دونوں کو ایک ساتھ بلاتے اور فرماتے کہ تم بھی میرے ہو اور تم بھی میرے ہو۔

مجھے راضی کرنا چاہتے ہوتو فوراَ ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کر لو اس سے فریقین کی ٹھنی ہوئی جنگ منٹوں میں ختم ہو جاتی اور بھائی چارگی کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ اس واقعہ سے جہاں اصلاح کرنے کا احسن طریقہ سیکھنے کو ملا۔ وہیں یہ بات بھی سیکھنے کو ملی کہ جب بھی فریقین کی اصلاح مقصود ہو تو فریقین میں کسی کے گھر کے علاوہ کسی تیسرے شخص کے گھر کا تعین کیا جائے تاکہ فریقین میں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ فلاں کے گھر ٹھہرنے کی وجہ سے اسکے ساتھ رعایت کی گئی۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ موصوف بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ راجستھان کے کسی صاحب نے حضرت کے سامنے چندہ کے بابت یہ کہہ دیا کہ راجستھان کا چندہ ہمارے راجستھان ہی میں رہنا چاہیے کہیں باہر نہیں جانا چاہیے اس پر حضرت بہت برہم ہوئے اور فرمایا ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اہل سنت وجماعت کا ادارہ ہے وہ ہمارا ادارہ ہے اس لیے جس ادارے کو بھی ضرورت پیش ہو اس کی مالی امداد کی جائے پھر فرمایا اگر یہ بات ہوتی میں سنبھل سے راجستھان میں دین کے خاظر نہ آتا ۔

مصلی امامت پر پیش قدمی سے احتیاط
مولانا موصوف مزید بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ مصلی امامت پر آگے بڑھنے سے بہت زیادہ احتیاط کرتے اور ارشاد فرماتے مولانا! امامت ایک انتہائی ذمہ داری کا کام ہے ہم کو اپنی نمازوں کا خوف رہتا ہے تو دوسروں کا بوچھ کہاں سے اٹھا پائیں گے اس طرح آپ خود آگے نہیں بڑھتے بلکہ دوسروں کو آگے بڑھا دیتے۔

سفر کے چند معمولا ت
مولانا نثار احمد باسنوی دام ظلہ بیان کرتے ہیں کہ فقیر کے 10 سے 15 سال حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے ساتھ سفر میں گزرے میں نے آپ کو حقیقت میں یادگار اسلاف پایا گاڑی میں بیٹھ کر آپ داہنے جانب دیکھتے رہتے کبھی آگے کی سمت نہ دیکھتے اور سفر میں کبھی پان نہیں کھاتے وجہ یہ ہوتی کہ کہیں پان تھوکنے میں کہیں کسی راہ گیر کے اوپرنہ پڑ جائے

اسی طرح سفر میں بہت کم کھاتے پیتے اور فرماتے کہ زیادہ اس لیے نہیں کھاتا ہوں کہ پھر استنجا کی حاجت پیش آئے گی اور اس طرح بے وضوئی ہو جائے گی اس واسطہ بہت کم کھاتے پیتے تاکہ اکثر اوقات آپ باوضو رہیں مولانا موصوف بیان کرتے ہیں ان 10 ،15 سال میں، میں نے کبھی حضرت کو کسی کی غیبت و بدگوئی کرتے ہوئے نہیں دیکھا

بلکہ کئی بار تو میں نے کئی کے تذکرے بھی چھیڑے مگر حضرت اس بات کارخ پھیر دیتے اور اس پر توجہ نہ فرماتے اور مشربی اختلافات سے آپ دورو نفور تھے۔ آپ کی شخصیت بڑی پاکیزہ شخصیت تھی کسی خانوادہ سے آپ کا کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ فر ماتے کہ نثار میاں! میں جتنا پکا اشرفی اتنا پکا رضوی بھی ہوں یعنی آپ علیہ الرحمہ بیک وقت اشرفی رضوی سنگم تھے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

تحریر: نازش المدنی مراد آبادی

صدر الافاضل کا مناظرانہ مقام

 فیضان نعیمی جاری ہے   

حضرت صدر الافاضل اور آریہ کا مناظرہ

 ہمارے لیے آئیڈیل کون 

 ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ لازم ہے

تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کا اولین فریضہ 

 تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے

http://afkareraza.com/%d9%85%d9%81%d8%aa%db%8c-%d8%a7%d8%b9%d8%b8%d9%85-%d8%b1%d8%a7%d8%ac%d8%b3%d8%aa%da%be%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%8c-%db%8c%d8%a7%d8%af%d9%88%da%ba-%da%a9%db%92-%d8%aa%d8%a7%d8%a8%d9%86%d8%af%db%81-%d9%86/

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में आर्टिकल्स पढ़ने के लिए क्लिक करें 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن