Wednesday, November 20, 2024
Homeاحکام شریعتضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے

ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے

تحریر: طارق انور مصباحی ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے (قسط اول)

ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کون حضرات مراد ہیں؟

ضروریات دین کی متعدد تعریفات ہیں۔ضروریات دین کی پانچ تعریفات کی تفصیلی بحث ہمارے رسالہ:”ضروریات دین کی تعریفات“میں مرقوم ہیں۔

ضروریات دین سے متعلق دیگر امورکی تفصیل ”البرکات النبویہ:رسالہ یازدہم،باب اول میں مرقوم ہے۔

ضروریات دین کی دو تعریفوں میں عوام وخواص کا ذکر آیا ہے۔ اس تحریر میں عوام وخواص کا مفہوم، صحبت خواص کا معنی اور ضروری دینی کے علم کا معنی مراد بیان کیا گیا ہے۔

قسط اول میں پہلی تعریف کا تجزیہ مرقوم ہے۔قسط دوم میں دوسری تعریف پر تبصرہ مرسوم ہے۔

تعریف اول:ضروری دینی ایسا متواتر وقطعی امردینی ہے جو عوام وخواص میں مشہور ہو۔

قال الہیتمی الشافعی:(وقولہ فما القدر المعلوم من الدین بالضرورۃ؟

جوابہ:أنہ قد سبق ضابطہ وہو أن یکون قطعیاً مشہورًا بحیث لا یخفی علی العامۃ المخالطین للعلماء بأن یعرفوہ بداہۃ من غیر إفتقار إلی نظر واستدلال)(فتاویٰ حدیثیہ ص141-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ:علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی مکی (909-974ھ)نے رقم فرمایا:سائل کا قول کہ ضروریات دین کی متعینہ مقدا ر کیا ہے؟

اس کا جواب ہے کہ اس کا ضابطہ گزر چکا۔وہ یہ کہ ضروری دینی ایسا قطعی مشہور امر دینی ہوتا ہے جو علما کی صحبت میں رہنے والے عوام سے پوشیدہ نہیں ہوتا،اس طرح کہ وہ عوام نظر واستدلال کے بغیر بداہۃً اسے جان لیتے ہیں۔

قال العلامۃ البدایونی:(فَمَا کَانَ ثبوتُہ ضَرُورَۃً عَن نَقلٍ اِشتَہَرَ وَتَوَاتَرَ فَاستَوٰی مَعرفۃُ الخاص والعام)(المعتقد المنتقد: ص210-المجمع الاسلامی مبارک پور)

ترجمہ: پس وہ دینی منقول امر کہ مشہور ومتواتر نقل کے ذریعہ جس کا بدیہی طورپرثبوت ہو، جس میں خاص وعام کی معرفت برابر ہو۔(ایسا منقول امردینی ضروری دینی ہے)

منقولہ بالا تعریف میں خواص اور عوام سے کون حضرات مراد ہیں۔اس کی متعدد توضیحات ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ خواص سے حضرات ائمہ مجتہدین مرادہیں اور صحبت یافتہ عوام سے حضرات ائمہ مجتہدین کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ مراد ہیں۔

عوام وخواص کے متعدد معانی ہیں، مثلاً حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے بالمقابل تمام غیر انبیا عوام ہیں۔حضرات اولیائے کرام علیہم الرحمۃوالرضوان کے بالمقابل تمام غیر اولیا عوام ہیں۔ حضرات ائمہ مجتہدین علیہم الرحمۃوالرضوان کے بالمقابل تمام غیر مجتہدین عوام ہیں۔

ضروریات دین کی تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین مراد ہیں اور صحبت یافتہ عوام سے غیر مجتہد فقہا وعلمامراد ہیں۔

علامہ عبد العزیز ملتانی (1206-1239ھ)نے ایمان کی مشہو ر تعریف کی تشریح میں رقم فرمایا
((ہو التصدیق بما جاء بہ الرسول من عند اللّٰہ تعالٰی)
(ای تصدیق النبی علیہ الصلوۃ والسلا م بالقلب)قید بہ،لان العامۃ قد یسمون الاقرار تصدیقًا(فی جمیع ما علم بالضرورۃ)

قیل:اراد بالضرورۃ مایقابل الاستدلال-فالضروری کالمسموع من فم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم-او المنقول عنہ بالتواتر- کالقرآن والصلوات الخمس وصوم رمضان وحرمۃ الخمر والزنا۔
والاستدلالی……

وقیل:اراد بالضرورۃ الاشتہار بین الخاصۃ والعامۃ-ضروریا کان الحکم او استدلالیا-واورد علیہ انہ یلزم عدم تکفیر من ینکر الحکم القطعی الغیر المشتہر بین العامۃ-کحد القذف-وقد یجاب بتفسیر الخاصۃ بالمجتہدین والعامۃ بسائر العلماء۔
وکتب الشارح علی ہوامش الکتاب:ان المراد بالضرورۃ الیقین- فلا یکفر بانکار الظنی کالثابت بالاجتہاد او خبر الواحد)
(النبراس شرح شر ح العقائدص531-مکتبہ یاسین استنبول ترکی)

منقولہ بالا عبارت کا درج ذیل اقتباس محل استدلال ہے

(وقیل:اراد بالضرورۃ الاشتہار بین الخاصۃ والعامۃ-ضروریا کان الحکم او استدلالیا-واورد علیہ انہ یلزم عدم تکفیر من ینکر الحکم القطعی الغیر المشتہر بین العامۃ-کحد القذف-وقد یجاب بتفسیر الخاصۃ بالمجتہدین والعامۃ بسائر العلماء)۔

ترجمہ:کہا گیا کہ”ضرورت“ سے خواص وعوام کے درمیان مشہور ہونا مراد ہے۔وہ حکم بدیہی ہو یا استدلالی۔اس پراعتراض کیا گیا کہ اس سے اس کی عدم تکفیر لازم آتی ہے جو عوام کے درمیان غیر مشہور،قطعی حکم کاانکار کرے، جیسے حد قذف۔ اس اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے،خواص کی تفسیر مجتہدین کے ذریعہ اور عوم کی تفسیر جملہ علماکے ذریعہ بیان کرکے۔

توضیح:منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہو گیا کہ ضروریات دین کی تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین مراد ہیں،اور عوام سے غیر مجتہد علما مراد ہیں۔

در اصل حضرات ائمہ مجتہدین نے ہی امت مسلمہ کو شرعی مسائل کی تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ان نفوس عالیہ نے اپنی حیات مستعار کو دین خداوندی کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔امت مسلمہ کو جن مسائل کی ضرورت درپیش ہوسکتی تھی،ان مسائل کو قرآن وحدیث اور قیاس واستنباط کے ذریعہ حل فرمایا۔

ان حضرات عالیہ نے مسائل بھی بتائے اور مسائل کے مراتب ودرجات بھی بیان فرمائے کہ یہ فرض ہے،یہ واجب۔یہ سنت ہے،یہ مستحب۔یہ حرام ہے،یہ مکروہ تحریمی، یہ مکروہ تنزیہی وغیرہ۔ جو احکام ومسائل ضروریات دین میں سے تھے، ان کو بھی انہوں نے واضح فرمایا۔فرض قطعی اور حرام قطعی ضروریات دین میں سے ہیں۔

قرون اولیٰ میں علم کلام اور علم فقہ دومستقل اور جداگانہ علم نہ تھے،بلکہ علم فقہ میں علم کلام اورعلم تصوف شامل تھے۔علم فقہ سے علم فقہ وکلام وتصوف تینوں مراد ہوتے تھے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم عقائدمیں جورسالہ رقم فرمایا،اس کا نام ”الفقہ الاکبر“ہے۔اس زمانے میں علم کلام بھی علم فقہ کا ایک حصہ تھا۔

حضرت امام ابومنصور ماتریدی (238-333ھ)نے اعتقادی مسائل کی تحقیق وتنقیح میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق کار کو اپنایا۔

حضرت امام ابوالحسن اشعری (260-324ھ)نے امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرز تحقیق کو اختیار فرمایا۔یہ دونوں ائمہ کرام، علم کلام کے امام ہیں۔امام ابومنصورماترید ی باب فقہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃوالرضوان کے مقلد تھے اور امام ابوالحسن اشعری باب فقہ میں حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ والرضوان کے مقلد تھے۔

صحبت یافتہ عوام سے کون حضرات مرادہیں؟

ضروریات دین کی مذکورہ تعریف میں صحبت یافتہ عوام سے وہ علمائے اسلام مراد ہیں جوحضرات ائمہ مجتہدین کے صحبت یافتہ ہوں۔خواہ براہ راست ان کے صحبت یافتہ ہوں،یا ان کے صحبت یافتگان کے صحبت یافتہ ہوں۔ صحبت وتربیت کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔

عرف عام میں صحبت سے یہی مرادہے کہ کسی کے ساتھ نشست وبرخاست کی جائے۔اپنا کچھ وقت کسی کی معیت میں گزاراجائے۔خواہ اس صحبت ومعیت کا مقصد کچھ بھی ہو۔
ضروریات دین کی منقولہ بالا تعریف میں خواص کی صحبت ومعیت سے مرادعلمی تربیت اورتحقیقی مشق ومزاولت ہے۔یہ بات روشن بدیہیات میں سے ہے کہ ضروریات دین کی معرفت اور غیر ضروریات سے ضروریات دین کی تمیز اسی وقت حاصل ہوگی،جب اس امر کی تربیت اوراس کی مشق ومزاولت ہو۔علمی صحبت کا مفہوم مندرجہ ذیل ہے۔

مسئلہ: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس باب میں کہ اگرکوئی شخص جس نے سوائے کتب فارسی اور اردو کے جوکہ معمولی درس میں پڑھی ہوں،اور اس نے کسی مدرسہ اسلامیہ یاعلمائے گرامی سے کوئی سند تحصیل علم نہ حاصل کی ہو۔ اگر وہ شخص مفتی بنے،یا بننے کا دعویٰ کرے،اور آیات قرآنی اور احادیث کو پڑھ کر اس کاترجمہ بیان کرے،اور لوگوں کو باور کرائے کہ وہ مولوی ہے تو ایسے شخص کاحکم یافتویٰ اور اقوال قابل تعمیل ہیں یانہیں،اور ایسے شخص کاکوئی دوسرا شخص حکم نہ مانے توا س کے لئے شریعت میں کیاحکم ہے؟

الجواب: سندکوئی چیز نہیں۔ بہتیرے سندیافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی،اُن کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سندیافتوں میں نہیں ہوتی۔ علم ہوناچاہئے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا، جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیاہو۔

مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس وتدریس میں پورے نہ تھے، مگر خدمت علمائے کرام میں اکثر حاضررہتے اور تحقیق مسائل کا شغل ان کا وظیفہ تھا۔ فقیر نے دیکھاہے کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیلوں، بلکہ مدرسوں، بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے، پس اگر شخص مذکور فی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علمائے کاملین علم کافی رکھتاہے۔جو بیان کرتاہے، غالباً صحیح ہوتاہے۔اس کی خطا سے اس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں،اور اگردونوں وجوہِ علم سے عاری ہے۔ صرف بطور خوداردو،فارسی کتابیں دیکھ کر مسائل بتائے اور قرآن وحدیث کا مطلب بیان کرنے پر جرأت کرتاہے تو یہ سخت اشدکبیر ہ ہے،اور اس کے فتویٰ پرعمل جائزنہیں،اور نہ اس کا بیان حدیث وقرآن سننے کی اجازت۔

حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اجرأکم علی الفتیا اجرأکم علی النار۔تم میں جو شخص فتویٰ دینے پر زیادہ جرأت رکھتا ہے، وہ آتش دوزخ پر زیادہ دلیر ہے۔

اور ارشاد فرمایا:صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے:من قال فی القراٰن برایہ فاصاب فقد اخطاء۔جس نے قرآن کے معنی اپنی رائے سے بیان کئے، اس نے اگرٹھیک کہے تو غلط کہے۔

اور فرماتے ہیں:صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:من قال فی القراٰن بغیرعلم فلیتبؤ مقعدہ من النار۔جو بغیر علم کے قرآن کے معنی کہے،وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ، واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جز اول:ص 231-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:منقولہ بالا فتویٰ میں مرقوم ہے کہ علم فتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا،بلکہ جس طرح طبابت اسی وقت آتی ہے،جب طبیب حاذق کے پاس مشق وممارست کیا ہو۔اسی طرح علمائے کرام کی صحبت میں رہنے والے کا مشغلہ تحقیق مسائل ہو،تب ان کوفتویٰ نویسی آئے گی۔اگر لوگ علما ئے کرام وفقہائے عظام کی خدمت میں بیٹھے رہیں اور تحقیق مسائل ان کا شغل نہ ہو تو ان کو فتویٰ نویسی نہیں آسکتی۔فتویٰ مذکورہ کا درج ذیل اقتباس بغور پڑھیں۔

”مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس وتدریس میں پورے نہ تھے، مگر خدمت علمائے کرام میں اکثر حاضررہتے اور تحقیق مسائل کا شغل ان کا وظیفہ تھا۔ فقیر نے دیکھاہے کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیلوں، بلکہ مدرسوں، بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے“۔(فتویٰ سابق)

امام الائمہ اپنے استاذفقہ کی صحبت میں

حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ دس سال تک حضرت امام حماد بن ابی سلیمان رضی اللہ عنہ کے پاس فقہ اسلامی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوفہ سے بصرہ چلے گئے-پھرواپس آکر آٹھ سال تک حضرت حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس فقہ کی تعلیم میں مشغول رہے۔

اس طرح آپ کل اٹھارہ سال تک اپنے استاذ فقہ امام حماد بن ابی سلیمان رضی اللہ عنہ (م ۰۲۱؁ھ) کی خدمت میں رہے۔حضرت حمادبن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعدآپ ان کے جانشین بنائے گئے۔

حافظ ذہبی وخطیب بغدادی نے تحریرفرمایا:(قال احمد بن عبد اللّٰہ العجلی حدثنی اَبِی قال:قال ابوحنیفۃ:قدمتُ البصرۃ فظننت انی لا اُسأَلُ عن شیء الا اَجَبتُ فیہ-فَسَأَلُونی عن اشیاء،لم یکن عندی فیہا جواب-فجعلت علٰی نفسی انی لا اُفَارِقُ حمادًا حتّٰی یموت-فَصَحِبتُہٗ ثمانی عشرۃَ سَنَۃً)
(سیر اعلام النبلاء:ج6 ص398-تاریخ بغداد ج13ص333)

ترجمہ: حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں بصرہ آیاتو میں نے خیال کیا کہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا،میں اس کا جواب دوں گا،پس لوگوں نے مجھ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کیا،جن کے بارے میں کوئی جواب میرے پاس نہیں تھاتو میں نے اپنے اوپر لازم کرلیا کہ میں حضرت حماد بن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جدا نہیں ہوں گا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوجائے،پس میں اٹھارہ سال ان کی صحبت میں رہا۔

امام حماد بن ابی سلیمان کی جا نشینی

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس سال تک حضرت امام حمادرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس علم فقہ حاصل کرتے رہے۔دس سال بعدحضرت امام حمادبن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی حیات مبارکہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ قدس سر ہ العزیزکو اپنا جانشین مقررفرماکرکسی ضرورت کے سبب دوماہ کے لیے بصرہ تشریف لے گئے۔

خطیب بغدادی نے رقم فرمایا:(فجاۂ فی تلک اللیلۃ نعی قرابۃ لہ قد مات بالبصرۃ وترک مالًا و لیس لہ وارثًا غیرہ فامرنی ان اجلس مکانہ فما ہو الا ان خرج حتّٰی وردت عَلَیَّ مسائل لم اسمعہا منہ-فکنت اجیب واکتب جوابی فغاب شہرین ثم قدم فعرضت علیہ المسائل و کانت نحوًا من ستین مسألۃ فوافقنی فی اربعین وخالفنی فی عشرین واٰلیت علٰی نفسی ان لا افارقہ حتی یموت فلم افارقہ حتّٰی مات)
(تا ریخ بغداد ج13ص333-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ:پس اسی رات کوان کے پاس ان کے ایک رشتہ دار کی موت کی خبر آئی،وہ بصرہ میں انتقال کئے تھے اورانہوں نے مال چھوڑاتھا اورامام حماد کے علاوہ ان کا کوئی وارث نہیں تھا،پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کی جگہ بیٹھوں،پھروہ بصرہ چلے گئے،یہاں تک کہ مجھ سے کچھ مسائل دریافت کئے گئے جنہیں میں نے ان سے نہ سنا تھاتو میں جواب دیتا اور اپنا جواب لکھ لیتا،پس وہ دوماہ غیر حاضر رہے،پھرکوفہ آئے تومیں نے ان کے پاس وہ مسائل پیش کئے اور وہ قریبا ً ساٹھ مسائل تھے۔ انہوں نے چالیس مسائل میں میری موافقت فرمائی اور بیس مسائل میں میری مخالفت کی،پس میں نے اپنے اوپر قسم کھایا کہ میں ان سے جدا نہ ہوں گا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوجائے،پس میں ان سے جدا نہ ہوا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔

توضیح:حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھارہ سال تک اپنے استاذ فقہ حضرت شیخ فقیہ حمادبن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں علم فقہ کی مشق وممارست فرماتے رہے۔صحبت ومعیت سے علمی تربیت اور مشق ومزاولت مراد ہے۔

الحاصل مذکورہ بالا تشریحات سے واضح ہوگیا کہ ضروریات دین کی مذکورہ تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہد ین اور عوام سے ان کے صحبت یافتہ علمائے کرام مراد ہیں۔ عہد حاضر کے علما ئے کرام گرچہ حضرات ائمہ مجتہدین کے براہ راست صحبت یافتہ نہیں،لیکن سلسلہ درسلسلہ حضرات ائمہ مجتہدین کے صحبت یافتگان کے صحبت یافتہ اورتربیت یافتہ ہیں۔

ضروریات دین کی منقولہ بالا تعریف میں صحبت سے علمی صحبت مرادہے۔ ضروریات دین کا ملکہ اسی وقت حاصل ہوگا، جب ضروریات دین کے بارے میں مشق ومزاولت ہو۔

جس طرح فن حدیث کی مشق وممارست سے علم فقہ میں کمال حاصل نہیں ہوسکتا۔فن فقہ کی مشق ومزاولت سے علم عقائدمیں مہارت حاصل نہیں ہوسکتی۔اسی طرح دیگر امور کی مشق وممارست سے ضروریات دین کی معرفت اور اس کی تمیز حاصل نہیں ہوسکتی۔

منقولہ بالا تعریف میں مذکور لفظ خواص وعوام کے دیگر معانی بھی علمائے اسلام نے بیان فرمائے ہیں،لیکن کسی نے بھی بالکل جاہل عوام کو مذکورہ ”عوام“میں شامل نہیں فرمایا۔
عہد حاضر میں بھی عوام مسلمین کا ایک طبقہ علمائے کرام ومشائخ عظام کی صحبت ومعیت میں رہتا ہے، لیکن ان میں سے بہت کم لوگ حصول علم دین کی نیت سے علما ومشائخ کی صحبت وخدمت میں رہتے ہیں۔اکثر عوام محض اس مقصد سے علماوصالحین سے ربط وتعلق اور ان کی خدمت وصحبت میں رہتے ہیں کہ انہیں دین ودنیا کی برکتیں حاصل ہوں۔یہ بھی مقصدخیر ہے، لیکن ایسے صحبت یافتہ عوام کو مذکورہ بالا تعریف میں وارد شدہ لفظ ”عوام“کے ضمن میں شا مل نہیں کیا جا سکتا۔ایسے عوام فیض یافتہ ضرور ہیں،لیکن یہ لوگ علمی تربیت حاصل نہ کرسکے۔

عہد ماضی میں حضرات اولیاے کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی خدمت وصحبت میں بھی دوقسم کے مریدین وطالبین حاضر رہتے۔بعض نفوس عالیہ ان مشائخ عظام کی تربیت ورہنمائی میں راہ سلوک کی منز لیں طے کرتے اور بعض مریدین محض حصول برکت کے واسطے حضرات اولیائے کرام قدست اسرارہم کی خدمتوں میں حاضر رہتے۔ اس اعتبارسے بیعت کی بھی دوقسم ہوگئی۔بیعت سلوک اور بیعت برکت۔جو جس قصد سے حاضر ہوا،وہی پایا۔

ضروریات دین کی دوسری تعریف
ضروریات دین وہ دینی امور ہیں جن کوخواص اور خواص کے صحبت یافتہ عوام جانتے ہوں۔

۔(1)قال الہیتمی الشافعی:(المراد بالضروری ما یشترک فی معرفتہ الخاص والعام)(تحفۃ المحتاج جلدنہم: ص104-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:امام ابن حجرہیتمی شافعی مکی (909-974ھ)نے رقم فرمایا:ضروری دینی سے مراد وہ امر دینی ہے جس کی معرفت میں عوام وخواص مشترک ہوں۔

توضیح:مشترک ہونے سے مراد یہ ہے کہ عوام وخواص دونوں کو ضروری دینی کا علم بدیہی طورپرحاصل ہوتا ہے۔ نظروکسب اور استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس امر دینی کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے عوام وخواص سماعت کریں تو بھی بلااستدلال اس کا یقین بدیہی حاصل ہوگا۔اگر خبر متواتر کے ذریعہ کسی ضروری دینی کاعلم حاصل ہوتو بھی بلا استدلال اس کا یقین بدیہی حاصل ہوگا۔ عوام وخواص کے ضروری دینی کے علم میں مشترک ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ وونوں طبقہ کو بلا استدلال اس کا علم حاصل ہوتا ہے۔

۔(2)قال جلا ل الدین المحلی الشافعی:((جاحد المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ)وہوما یَعرِفُہ مِنہُ الخواص والعوام من غیر قبولٍ لِلتَّشکِیکِ فالتحق بالضروریات کوجوب الصلٰوۃ والصوم وحرمۃِ الزنا والخمر(کَافِرٌ قَطعًا)لان جَحدَہ یستلزم تکذیب النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہ)(شرح جمع الجوامع:جلددوم:ص201-مکتبہ شاملہ)

تر جمہ:امام جلال الدین محلی شافعی نے رقم فرمایا:(جس اجماعی امرکا دین سے ہونابداہۃً معلوم ہو)،یہ ایسا امردینی ہے جس کو خواص وعوام کسی شک وشبہہ کو قبول کیے بغیر جا نتے ہوں،پس ضروریات دین میں نمازوروزہ کی فرضیت،زنا وشراب کی حرمت شامل ہے۔ (اس اجماعی امر کا منکریقینی طورپرکافرہے)اس لیے کہ اس کا انکاراس امر کے بارے میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تکذیب کو مستلزم ہے۔

۔(3) اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
(فسرت الضروریات بما یشترک فی علمہ الخواص والعوام)
(فتاویٰ رضویہ جلداول:ص6-رضااکیڈمی ممبئ)

ترجمہ:ضروریات دین کی تفسیر یہ کی گئی کہ وہ دینی مسائل جن کے علم میں عوام وخواص مشترک ہوں۔

تعریف میں علم سے مرادملکہ
قسط اول میں بیان کیا جا چکاہے کہ ضروریات دین کی تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہد ین مراد ہیں اورعوام سے مجتہدین کرام کے صحبت یافتہ علمائے اسلام۔
ضروریات دین کی مذکورہ بالا تعریف میں ضروری دینی کے علم سے ملکہ مراد ہے،علم بالفعل مراد نہیں،یعنی خواص اور ان کے صحبت یافتہ علمائے کرام کو ایسا ملکہ حاصل ہوجاتا ہے، جس سے انہیں ضروریات دین کا ادراک حاصل ہو جاتا ہے۔
خواص کے صحبت یافتگان کو یہ معلوم رہتا ہے کہ قطعی الدلالت آیا ت مقدسہ،قطعی الد لالت احادیث متواترہ اور اجماع متصل سے جوامردینی ثابت ہو، وہ امر ضروری دینی ہے۔

مشق ومزاولت کے سبب خواص کے صحبت یافتگان کوبھی ملکہ حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ غیرصحبت یافتگان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ قطعی الدلالت کیا ہے،حدیث متواتر کیا ہے اور امر اجماعی کیا ہے۔ غیر صحبت یافتگان کوبھی بہت سی ضروریات دین کا علم بالفعل ہوتا ہے،لیکن ان کو ملکہ حاصل نہیں ہوتا، نہ ہی وہ ضروریات دین وغیر ضروریات دین میں فرق وتمیز کی قوت رکھتے ہیں۔


علوم وفنون کی تعریفات میں لفظ علم سے ملکہ مراد

حضرت صدرالشریعہ بخاری نے علم فقہ کی ایک تعریف اس طرح نقل فرمائی: (وقیل:العلم بالاحکام الشرعیۃ العملیۃ من ادلتہا التفصیلیۃ) (التنقیح مع التوضیح والتلویح:جلد اول ص 18:درالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:شرعی عملی احکام کو اس کے تفصیلی دلائل سے جاننا علم فقہ ہے۔

توضیح:علم فقہ کی منقولہ بالا تعریف فقہائے شوافع نے بیان فرمائی ہے۔توضیح کے حاشیہ:تلویح میں علامہ تفتازانی نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(قولہ:(وقیل:العلم)عرف اصحاب الشافعی رحمہ اللّٰہ تعالی الفقہ بانہ:العلم بالاحکام الشرعیۃ العملیۃ من ادلتہا التفصیلیۃ)(التلویح مع التوضیح:جلد اول:ص21-دارالکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:منقولہ بالا تعریف میں لفظ علم سے حضرت علامہ ابن حاجب مالکی قدس سرہ القوی نے ”خاص استعداد“ یعنی ملکہ مراد لیا ہے۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:
(اجاب ابن الحاجب بان المراد بالاحکام المجموع-ومعنی العلم بہا التہیؤ لذلک)(التلویح مع التوضیح:جلد اول:ص21-دارالکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:حضرت علامہ ابن حاجب مالکی نے فرمایا کہ علم سے علم کی استعداد اور ملکہ مراد ہے۔حضرت صدر الشریعہ بخاری علیہ الر حمۃ والرضوان نے علامہ ابن حاجب مالکی قدس سرہ القوی کی توضیح پر یہ اعتراض کیا کہ لفظ علم بول کر ”تہیو مخصوص“مرادنہیں لیا جاسکتا۔

قال صدر الشریعۃ:(لا یلیق فی الحدود ان یذکر العلم ویراد بہ تہیؤ مخصوص-اذ لا دلالۃ للفظ علیہ اصلا)
(التوضیح والتلویح مع التنقیح:جلد اول ص 31:درالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:حدودوتعریفات میں یہ مناسب نہیں کہ لفظ علم کا ذکر کیا جائے اوراس سے خاص استعداد مراد لیا جائے، اس لیے کہ لفظ علم کی اس (استعدادخاص)پربالکل کوئی دلالت نہیں۔

علامہ تفتازانی نے صاحب توضیح کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ لفظ علم سے استعداد اور ملکہ مراد ہوتا ہے اور علوم وفنون کی تعریفات وحدود میں لفظ علم سے ملکہ ہی مرادہے۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(لا نسلم ان لا دلالۃ للفظ العلم علی التہیؤ المخصوص-فان معناہ:ملکۃ یقتدر بہا علی ادراک جزئیات الاحکام- واطلاق العلم علیہا شائع ذائع فی العرف-کقولہم فی تعریف العلوم: ”علم کذا وکذا“-فان المحققین علی ان المراد بہ ہذہ الملکۃ-ویقال لہا ایضا الصناعۃ،لا نفس الادراک-وکقولہم:وجہ الشبہ بین العلم والحیاۃ کونہما جہتی الادراک)
(التوضیح والتلویح مع التنقیح:جلد اول ص 31:درالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ لفظ علم کی دلالت خاص استعداد پر نہیں،اس لیے کہ خاص استعدادکا معنی ہے:ایسا ملکہ جس کے ذریعہ احکام کے جزئیات کے ادراک پر قدرت حاصل ہو،اورعرف میں اس (ملکہ)پر لفظ علم کا اطلاق شائع وذائع ہے،جیسے اہل علم کا علوم کی تعریفات میں کہنا:(یہ)علم ایساایسا ہے،پس محققین اس پر ہیں کہ اس سے مراد ملکہ ہے،اور علوم کو صناعت بھی کہا جاتا ہے، نہ کہ نفس ادراک،اورجیسے اہل علم کا قول کہ:علم اور حیات کے در میان وجہ شبہ ان دنوں کا جہت ادراک ہونا ہے۔

توضیح:جس طرح علم اورحیات میں وجہ شبہ یہ ہے کہ دونوں سبب ادراک ہیں،اسی طرح علم اور ملکہ میں وجہ شبہ یہ ہے کہ دونوں سبب ادراک ہیں،پس اسی مشابہت کے سبب علم کا اطلاق ملکہ پرہوتا ہے اور علم سے ملکہ مراد لیا جاتا ہے اور علوم وفنون کی تعریفات میں کہا جاتا ہے کہ یہ علم ایسا ہے،مثلاً علم منطق ایسے قوانین کا جاننا ہے جس کی رعایت ذہن کوخطا فی الفکر سے بچاتی ہے تو یہاں علم سے مراد ملکہ ہے۔ یہی محققین کا مذہب ہے۔

اسی طرح ضروریات دین کی تعریف مشہورمیں علم سے ملکہ مراد ہے۔علم بالفعل مراد نہیں۔بہت سی ضروریات دین کا علم غیر صحبت یافتہ عوام کوبھی ہوتا ہے،مثلاً جاہل مسلمان بھی جانتے ہیں کہ اسلام میں پانچ فرائض ہیں:ایمان، نماز،روزہ،حج،زکات۔

اسی طرح بہت سے دینی مسائل کا بھی ان کو علم ہوتا ہے۔ جاہل مسلمان بھی جانتے ہیں کہ نماز میں بات چیت کرنے سے نما ز ٹوٹ جاتی ہے۔ قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھنا ہے۔ روزہ کی حالت میں کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

ہاں، جاہل مسلمانوں کو یہ ملکہ حاصل نہیں ہوتا کہ وہ ضروریات دین اور غیرضروریات دین میں فرق کرسکیں اور صحبت یافتہ عوام کو یہ ملکہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ ضروریات دین وغیر ضروریات دین میں فرق کر سکیں۔ان کو یہ اصول وقانون معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیات مقدسہ، قطعی الدلالت احادیث متواتر ہ، اجماع متصل اور عقل صحیح سے ثابت ہونے والے دینی امور ضروریات دین ہیں۔یہ چاروں ضروریات دین کے دلائل ہیں۔

سوال: جس طرح ائمہ مجتہدین کو اجتہاد واستنباط کا کامل ملکہ ہونے کے باوجود کسی سبب سے ان سے اجتہادی خطا کا صدور ہوتا ہے،اسی طر ح خواص اور خواص کے صحبت یافتگان کو ضروریات دین کی فہم وتمیزمیں تحقیقی خطا کاصدور عقلی طورپر ممکن ہے یانہیں؟

جواب:ضروریات دین کے دلائل قطعی بالمعنی الاخص ہوتے ہیں،یعنی قطعی الثبوت بھی اور قطعی الدلالت بھی،اس لیے ضروریات دین میں خطا قبول نہیں،اورغلط راہ اختیارکرنے والا کافر ومرتدہے،اور دین اسلام سے خارج ہے۔قطعیات میں اجتہاد کی اجازت نہیں۔خطاکا سبب یہی ہوگا کہ اس نے اجتہادکیا ہو،اوراپنی عقل کو دخل دیا ہو۔ بدیہیات میں بھی سوفسطائیہ کا اختلاف ہے۔ایسا اختلاف قبول نہیں ہوتا۔

ظنیات میں اجتہاد کی اجازت ہے،اور اجتہاد میں خطا ممکن ہے،پس محل اجتہاد میں اجتہادی خطا کے سبب مجتہد معذور ہے،بلکہ اپنی محنت ومشقت صرف کرنے کے سبب ماجورہے،یعنی ایک ثواب کامستحق ہے۔اصابت حق پر دوثواب کا مستحق۔قطعیات میں نہ اجتہاد کی اجازت ہے،نہ اجتہاد کی ضرورت،اس لیے ضروریات دین میں اجتہادی خطا کا تصو رنہیں۔

ضرورت سے کیا مراد ہے؟

ضرورت سے بداہت مراد ہے۔ ضروریات دین سے بدیہیات دین مراد ہیں۔

اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:(فسرت الضروریات بما یشترک فی علمہ الخواص والعوام-اقول: المراد العوام الذین لہم شغل بالدین واختلاط بعلماۂ-والا فکثیرمن جہلۃ الاعراب لاسیما فی الہند والشرق لایعرفون کثیرًا من الضروریات-لابمعنٰی اَنَّہُم لَہَا منکرون بل ہم عنہا غافلون- فشتان ما عدم المعرفۃ ومعرفۃ العدم-وان کان جہلًا مرکبًا فلا تجہل۔

والتحقیق عندی ان الضرورۃ ہٰہنا بمعنی البداہۃ-وقد تقرران البداہۃ والنظریۃ تختلف باختلاف الناس-فرب مسألۃ نظریۃ مبنیۃ علٰی نظریۃ اُخرٰی-اذا تَبَیَّنَ المَبنٰی عند قوم حَتّٰی صَارَ اَصلًا مُقَرَّرًا وَعِلمًا ظَاہِرًا-فَالاُخرٰی التی لم تکن تحتاج فی ظہورہا الا اِلٰی ظُہُورِ الاُولٰی-تلتحق عندہم بالضروریا ت وان کانت نظریۃً فی نفسہا۔

ا لا تری ان کل قوس لم تبلغ ربعًا تاما من اربعۃ ارباع الدور وجود کل من القاطع والظل الاول لہا بدیہی عند المہندس لا یحتاج اصلا الی اعمال نظر وتحریک فکر بعد ملاحظۃ المصادرۃ المشہورۃ المسلمۃ المقررۃ-وان کان ہو والمصادرۃ کلاہما نظریین فی انفسہما-ہکذا حال ضروریات الدین)(فتاویٰ رضویہ جلداول:ص6-رضااکیڈمی ممبئ)

ترجمہ:ضروریات دین کی تفسیر یہ کی گئی کہ وہ دینی مسائل جن کے علم میں عوام وخواص مشترک ہوں۔اقول:عوام سے مراد وہ لوگ ہیں جودینی مسائل سے ذوق وشغل رکھتے ہوں اور علما کی صحبت سے فیض یاب ہوں،ورنہ بہت سے اعرابی جاہل خصوصاً ہندوستان اور مشرق میں ایسے ہیں جوبہت سی ضروریات دین سے آشنا نہیں۔اس معنی میں نہیں کہ ضروریات دین کے منکر ہیں،بلکہ وہ ان سے غافل ہیں۔بڑا فرق ہے عدم علم اورعلم عدم میں۔خواہ یہ جہل مرکب ہی ہوتو اس فرق سے بے خبری نہ رہے۔

اور میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ ضرورت یہاں بداہت کے معنی میں ہے اوریہ بات طے شدہ ہے کہ مختلف لوگوں کے اعتبارسے بداہت ونظریت بھی مختلف ہوتی ہے۔ بہت سے نظری مسائل کی بنیاد کسی اور نظری پر ہوتی ہے۔اگر وہ بنیاد کسی طبقہ کے نزدیک روشن وواضح ہوکر ایک مقررہ قاعدہ اورواضح علم کی حیثیت اختیار کرلے تو دوسرا مسئلہ جس کے واضح ہونے کے لیے بس اسی پہلے مسئلہ کے واضح ہونے کی ضرورت تھی، اس طبقہ کے نزدیک ضروریات کی صف میں آجاتا ہے،اگرچہ وہ بذات خود نظری تھا۔ دیکھو!ہندسہ داں (جیومیٹری والے) کے نزدیک یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ہروہ قوس جو دور کے چار ربع میں سے ایک کامل ربع کے برابر نہ پہنچے،اس کے لیے قاطع اور ظل اول ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی نظر کے استعمال اورفکر کو حرکت دینے کی ضرورت نہیں، جب کہ مشہور مسلم مقرر مصادر ہ ملحوظ ہو، اگرچہ یہ کلیہ اوروہ مصادرہ بذات خود دونوں نظری ہیں۔یہی حال ضروریات دین کاہے۔

توضیح:ضروریات دین اپنی اصل کے اعتبار سے نظری ہیں، لیکن مومنین کے لیے بد یہی ہوگئیں اور غیر مومنین کے لیے نظری باقی رہیں۔ ضروریات کے بدیہی ہونے کی بنیاد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کو تسلیم کرلینا ہے۔

جب مومنین نے رسالت ونبوت کوتسلیم کرلیا تو ضروریات دین تمام مومنین کے لیے بدیہی ہوگئیں اور غیر مومنین کے لیے نظری باقی رہیں۔ضروریات دین کا بدیہی ہونا اور عوام وخواص کا ان سے واقف ہونا،یہ دونوں ضروریات دین کے لیے دو وصف ہیں۔وصف کے ختم ہونے سے اصل شئ کا ختم ہونا لازم نہیں آتا، مثلاً انسان کا وصف بولنا،سننا،دیکھنا ہے۔ پتھر میں یہ اوصاف نہیں ہیں،لیکن اندھا انسان دیکھتا نہیں، بہرا آدمی سنتا نہیں،گونگا آدمی بولتا نہیں تو اگر کوئی نہ دیکھ سکے،نہ سن سکے،نہ بول سکے،یعنی اندھا،بہرا،گونگاہوتو وہ پتھر نہیں ہوجائے گا، کیوں کہ وصف کے معدوم ہونے سے شئ کی حقیقت معدوم نہیں ہوتی ہے۔عوام وخواص اگر کسی ضروری دینی سے نا آشنا ہوں تو اس کا ضروری دینی ہونا ختم نہیں ہوجاتا ہے۔

متکلمین کے یہاں کسی ضروری دینی کا منکر اسی وقت کافرقرار دیا جائے گا، جب وہ اس ضروری دینی سے واقف ہو۔لاعلمی کی صورت میں ضروری دینی کے انکار کے سبب کافر نہیں ہوگا،لیکن جب اسے بتا دیا جائے اور وہ ضروری دینی اس کے نزدیک متواتر ہوجائے،پس اب اس ضروری کا انکار کفر ہوگا۔اب اسے اس ضروری کوتسلیم کرنافرض ہوگا۔

تحریر: طارق انور مصباحی

مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی

اعزازی مدیر : افکار رضا 

رافضی نصیرالدین طوسی اور فرقہ بجنوریہ کی مایوسی

فروغ سنیت میں خانقاہوں کا کردار

اپنے دلوں میں عشق مصطفوی سے روشن کریں

تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کا اولین فریضہ 

 تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में आर्टिकल्स पढ़ने के लिए क्लिक करें 

قسط وار مضمون ضرور پڑھیں: ضروریات دین سوالات وجوابات

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن