از قلم : شیر محمد مصباحی۔ کربلا کی دردناک داستاں صحیح تاریخ کی روشنی میں
کربلا کی دردناک داستاں صحیح تاریخ کی روشنی میں
اللہ رب العزت نےاپنے بندوں کی رہنمائی کی خاطر اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺکو بھیجا۔ آپ نے قوم کو شرک وکفر سے باہر نکالا اوران کوایک کامل نظام حیات عطا فرمایا۔یہیں سے اسلام کا آغاز ہوتا ہے۔
آپ کی وفات کے بعدترتیب وار حضرت صدیق ، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین امت مسلمہ کے قائد بنے۔ انہوں نے نہایت جوش و جذبہ کے ساتھ اسلام کی خدمت کی اور اسلام کو تقریباً دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا۔
اب حضرت امام حسین کا زمانہ آتا ہے اورپیارے نبیﷺکی وفات کے تقریباً 50/ سال بعد کربلا کی داستان کا آغاز ہوتا ہے۔ قدرے تفصیل ملاحظہ فرمائیں:۔
امام حسن کے زمانے میں تمام مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہ کو اپنا بادشاہ اور حاکم تسلیم کر لیا۔ عالمِ اسلام میں امن و شانتی کی فضا قائم ہوئی۔حضرت امیر معاویہ کا انتقال ہوا۔
یزید چوں کہ بیٹا تھالہٰذا والد کی جگہ وہی بادشاہ بنا۔لیکن وہ اپنے والد کی روش سے ہٹا ہوا تھا۔ اس نے اپنے والد محترم کی بھی نہ مانی۔ شریعت اور اسلام کے خلاف بھی کام کرنے لگ گیا۔ امام جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفا میں لکھتے ہیں:۔
اہل مدینہ کے بیعت فسخ کرنے کا سبب ہوا کہ یزید نے گناہوں میں بہت ہی زیادتی شرو ع کر دی تھی۔ چنان چہ واقدی بسند عبد اللہ بن حنظلہ بن غسیل روایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس وقت تک یزید کی بیعت فسخ نہیں کی حتیٰ کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ آسمان سے پتھر برسیں گے۔
یہاں تک نوبت پہنچ چکی تھی کہ لوگ ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتے تھے اور شراب پیتے تھے اور نماز و غیرہ چھوڑبیٹھے تھے۔
اس نے مدینہ پر بھی حملے کیے۔ مدینے کا کوئی بھی فرد اس کی گزند سے نہ بچ سکا۔ یزیدی لشکر نے مدینے کی مقدس شہزادیوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔ قریب ایک ہزار لڑکیوں کا ازالۂ بکارت کیا گیا۔( تاریخ الخلفا، ص/251ترجمہ؛علامہ بشیر صدیقی، اعظم پبلیکیشن دہلی)
زمانہ نیک اور صالح لوگوں کا تھا۔جلیل القدر صحابہ موجود تھے۔لہذا وہ نفوس قدسیہ کسی طرح ایک فاسق و فاجر کی حاکمیت کو قبول نہ کرتے۔
اس وقت حضرت امام حسین، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے نواسے حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت عمر کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنھم جیسے عظیم صحابہ موجود تھے۔یزید کو انہی سے ڈر تھا کہ یہ لوگ خلاف شرع امور اور شریعت پر زیادتی ہر گز برداشت نہیں کر یں گے۔
کہیں امت مسلمہ ان میں سے کسی ایک کو اپنا خلیفہ نہ چن لے۔البدایہ والنہایہ میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد ہی یزید نے مدینے کے گورنر کو حکم نامہ لکھا کہ ان تینوں سے میری بیعت لے لو۔اگر مجھے بادشاہ یا خلیفہ ماننے سے انکار کرے تو ان کو ہر گز نہ چھوڑنا۔(البدایہ والنہایہ ۸:۶۴۱)۔
ان لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کیااور امام حسین اہل خانہ کے ساتھ مکہ روانہ ہو گئے۔
امام حسین کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کو اپنی دار الحکومت (راجدھانی)بنایا تھا۔ آپ کے سارے ماننے والے وہیں تھے۔
ان کو جب حضرت امیر معاویہ کی وفات کی خبر ہوئی تو انہوں نے با ہم مشورہ کر کے آپس میں وعدہ کیا کہ ہم امام حسین کے ہاتھ پر بیعت ہوں گے اور اپنی جان مال ہر طرح سے امام کی مدد کریں گے۔لہٰذا انہوں نے خطوط پر خطوط لکھے اورامام حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔(الطبری ۶:۲۵)
امام حسین نے خطوط پڑھے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی خاطر کوفہ کی روانگی کا عزم مصمم کر لیا۔ اس پر حضرت عبداللہ ابن عباس اور دگر اعزہ و اقارب نے درخواست کی اورآپ کو جانے سے روکا اور کہا کہ ان لوگوں نے آپ کے والد محترم کے ساتھ بے وفائی کی آپ کی بھی نا قدری کریں گے۔
امام عالی مقام نے فرمایا کہ دعوت حق کی خاطر میں بہر صورت عزیمت ہی کو ترجیح دوں گا۔مجھے ان کی وفا اور بے وفائی سے غرض نہیں۔ اگر کل قیامت میں مجھ سے پوچھ لیا گیا کہ دین اسلام میں بدعات و خرافات فروغ پا رہی تھیں تم نے اس کے خلاف علم جہاد کیوں بلند نہ کیا؟۔
تو میں کیا جواب دوں گا؟(ابن اثیر ۴:۲۱)لہٰذا آپ خانوادۂ نبوت کے عزت مآب ساتھیوں، بچوں اور خواتین کے ساتھ کوفہ روانہ ہوئے۔
روانگی سے قبل امام حسین نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجاکہ کوفہ پہنچ کر وہاں کے حالات سے آگاہ کریں۔ حضرت امام مسلم اپنے کچھ ساتھیوں اور دو بیٹوں محمد اور ابراہیم کو ساتھ لے کر کوفہ روانہ ہو گئے۔اہل کوفہ نے آپ کا شان دار استقبال کیااور وہ جوق در جوق داخل بیعت ہونے لگے ۔
یہاں تک کہ 40000 چالیس ہزار کوفی امام حسین کے نام پر آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔اہل کوفہ کا یہ جوش و جذبہ دیکھ کر امام مسلم نے امام حسین کو لکھ بھیجا کہ بھائی حسین!تشریف لے آئیے۔حالات دعوت حق اور امربالمعروف کے لیے بہت سازگار ہیں۔
راستے میں خط ملا آپ خط پڑھ کربہت خوش ہوئے۔ ادھر یزید کو اس عظیم الشان بیعت کی خبر لگ جاتی ہے۔ اس نے گورنر نعمان بن بشیر کو لکھا کہ امام حسین کے حق میں لوگ جوق در جوق مسلم بن عقیل کے ہاتھ میں بیعت کرتے جا رہے ہیں۔
اور تو خاموشی سے تماشا دیکھ رہا ہے! مسلم بن عقیل کو گرفتار کر اور قتل کر کے ان کا صفایا کر دے تاکہ مصیبت کا دروازہ بند ہو جائے۔ لیکن نعمان بن بشیر نے اس حکم کی کچھ پرواہ نہ کی اور کہا کہ جو مجھ سے جنگ نہ کرے گا میں اس کے خلاف جنگ نہیں کر سکتا۔
اس پر یزید نے نعمان بن بشیر کو معزول کر دیا اور ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔یزیدنے ابن زیاد کو حکم نامہ بھیجا کہ کوفہ پہنچ کرمسلم بن عقیل کو تلاش کرو اور جب وہ تمہارے ہاتھ آ جائے تو اسے قتل کر دو یا جلا وطن کر دو۔(البدایہ و النھایہ ۸:۶۵۱)۔
بالآخر کوفیوں نے دھوکا دیا اور امام مسلم کو تنہا چھوڑ دیا۔ابن زیاد نے امام مسلم کو تلاش کرکے انہیں شہید کر دیا۔ امام مسلم نے عمر بن سعد کو وصیت کی: کوفے میں میرے سات سو درہم قرض ہیں انہیں ادا کر دینا اور امام حسین تک یہ پیغام پہنچا دینا کہ وہ کوفہ کا قصد نہ کریں۔(البدایہ و النھایہ ۸:۷۵۱)
امام حسین کو راستے میں امام مسلم کی شہادت کی خبر ملی مگر آپ نے عزیمت پر عمل کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھایہاں تک کہ مقام کوہ ذی حشم پہنچے جہاں حر بن یزید سے ملاقات ہوئی۔
حر کو آپ کی گرفتاری کے لیے بھیجا گیا تھا۔امام حسین نے اہل کوفہ سے کہا کہ تمہیں نے مجھے بلایا ہے۔ تم نے مجھے خطوط پر خطوط لکھے۔اگر آج تمہاری نیت بدل گئی تو پھر مجھے واپس جانے دو۔امام نے واپسی کا قصد کیا تو حر کے لشکر نے آپ کو روک لیا۔اسی درمیان ابن زیاد کا بھی خط آ جاتا ہے۔
اس نے حر بن یزیدکو حکم دیا کہ جیسے ہی میرا خط تم تک پہنچے تم حسین پر سختی کرنا شروع کر دو اور انہیں ایسے میدان میں اتارو جہاں کوئی پناہ گاہ نہ ہو اور نہ آس پاس کہیں پانی ہو ۔جب تک تم میرے حکم پر عمل نہیں کر لیتے میرا یہ قاصد تمہارےساتھ ساتھ رہے گا۔(ابن اثیر۴: ۱۵،۲۵)
اس پر حر مجبور ہو گیا کہ اگر وہ حکم عدولی کرتا ہے تو ابن زیاد اسے سخت سزا دے گا۔لہذا وہ برابرحکم پر عمل کرتا رہا۔امام حسین چلتے ہوئے ایک بیابان تک پہنچے، وہاں کے مغموم فضا کو دیکھ کر پوچھا کہ اس مقام کا نام کیا ہے؟بتایا گیا اسے کربلا کہتے ہیں۔
آپ نے اپنے ہمراہیوں سے فرمایا کہ یہیں خیمے لگا لو،یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے۔ادھر ۳ محرم الحرام کو عمر بن سعد بھی چار ہزار لشکر کے ساتھ کوفہ سے کربلا پہنچا اور عمر وبن حجاج کی قیادت میں ابن سعد کے سپاہیوں نے حضرت امام حسین کے آدمیوں پر پانی بند کر دیا۔(البدایہ و النھایہ۸:۵۷۱)
ابتداءً عمرو بن سعد نے یہی کوشش کی کہ وہ امام حسین کے خلاف جنگ نہ کرے۔اس نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ابن زیادکو اس کا اندازہ ہو گیا اس نے ابن سعد کو لکھا کہ اگر تم نے میرے حکم کو نہ مانا تو تمہاری گورنری اور حکومت چھین لی جائے گی اور جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔
پس دنیا کی محبت اور جاہ و حشمت کی چاہ نے ابن سعد کو برباد کر ڈالااور وہ ۹ محرم الحرام 61ھ بروز جمعرات فوج لے کر قافلہ حسین کے سامنے جا کھڑاہوا۔(البدایہ و النھایہ۸:۵۷۱،۶۷۱)
ابن سعد نے اپنے لشکر کو پکارا کہ اے اللہ کے سپاہیو!سوار ہو جاؤ اور فتح و کامرانی کی خوشیاں مناؤ۔یزیدی لشکر کا شور سن کر آپ کی بہن حضرت زینب آپ کے پاس آئیں۔امام حسین تلوار کا سہارا لے کر سر جھکائے بیٹھے تھے۔آپ پر غنودگی طاری تھی۔
آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا: “انی رایت رسول اللہ ﷺ فی المنام فقال لی انک تروح الینا”میں نے خواب میں رسول ﷺ کی زیارت کی آپ نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارے پاس آنے والے ہو۔
یہ سن کر حضرت زینب رونے لگیں۔حضرت عباس نے ابن سعد سے پوچھا کہ کس ارادے سے آئے ہو؟ ابن سعد نے کہا کہ ابن زیاد کا حکم ہے کہ یا تو آپ یزید کی اطاعت قبول کریں ورنہ ہم آپ سے جنگ کریں گے۔
حضرت امام حسین نے کہا کہ اس سے کہہ دو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دے تاکہ آج کی رات ہم خوب نمازیں پڑھ لیں،دعائیں مانگ لیں۔حضرت امام حسین نے اپنے رفقا کو جمع کیا۔
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ میں بیمار تھا اسی حالت میں،مَیں بابا کے قریب جا بیٹھا۔امام حسین نے فرمایا: بے شک میں نے تم سب کو وفادار پایا۔ اللہ تم سب کو جزائے خیر عطا فرمائے! ۔
یہ طے ہے کہ کل دشمنوں سے مقابلہ ہوگا۔میں تمہیں بخوشی اجازت دیتا ہوں کہ تم لوگ رات کی تاریکی میں کہیں نکل جاؤ۔ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں۔ جب مجھے قتل کر دیں گے تو پھر کسی اور کی ان کو چاہ نہ ہوگی۔
آپ کے بھائیوں، بھتیجوں،بیٹوں اور ساتھیوں نے عرض کیا کہ آپ کے بعدہماری زندگی بے کار ہے۔خدا کی قسم ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ہم اپنی جان مال، اور اپنے اہل وعیال کو آپ پر قربان کر دیں گے۔ہم آپ کی ہمراہی میں جنگ کریں گے۔جو انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔
آپ کے بعد زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں۔لہٰذاآپ کے رفقا آپ کی معیت میں پوری رات سنن و نوافل پڑھتے رہے اوررو روکر رب کی بارگاہ میں دعا و مغفرت مانگتے رہے۔(ابن اثیر ۴:۹۵)
افسوس!اب دسویں محرم کا دن آ ہی گیا۔ہزاروں کا لشکر 72/ بے سر و سامان نفوس قدسیہ پر قیامت صغریٰ ڈھانے کے لیے تیار ہو گیا۔ حضرت امام حسین اتمام حجت کی خاطر یزیدی لشکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ میں تمہیں کچھ نصیحت کرنا چاہتاہوں۔
یہ سن کر سارے لوگ خاموش ہو گئے۔آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا: “اے لوگو!اگر تم میرے ساتھ انصاف کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو۔ کیا تمہارے لیے مجھ جیسے آدمی کا قتل کرنا درست ہے؟میں تمہارے نبی ﷺ کی بیٹی کا فرزند ہوں۔
تمام روئے زمین پر میرے سوا کوئی،نبی کا نواسہ موجود نہیں۔علی میرے باپ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا:ھٰذان سیدا شباب اھل الجنۃیہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔مجھے بتاؤ کیا تم مجھ سے کسی خون کا بدلا لینا چاہتے ہو، یا میں نے کسی کا مال دبایا ہے یا کسی کو زخمی کیا ہے جس کا تم مجھ سے بدلا لینا چاہتے ہو؟اے لوگو!میرا راستہ چھوڑ دو۔ میں کہیں کسی محفوظ مقام تک چلا جاتا ہوں”۔(ابن اثیر ۴:۱۶،۶۲)
حر کے سوا ان پتھر دلوں پر ان نصیحتوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ظالم ابن سعد علم ِجنگ لے کر آگے بڑھااور امام حسین کی جانب سب سے پہلا تیر چلایا۔ اسی کے ساتھ ا علان ِجنگ ہوا پھردیگر افراد نے بھی تیر چلانے شروع کر دیے۔یوں کربلا کی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ (الطبری ۶: ۱۳) ۔
بڑی گھماسان کی لڑائی ہوئی۔یہ انفرادی جنگ تھی۔شجاعت وبہادوری کے سبب امام حسین کا پلہ بھاری رہا۔ابن سعد نے انفرادی جنگ سے گھبرا کر عام جنگ کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی یزیدی لشکر امام حسین کے انصار پر ٹوٹ پڑا۔ امام حسین کے ساتھ کل 32/ بتیس سوار تھے۔
پھر بھی اپنی شجاعت کے سبب یزیدی لشکر میں اس نے بھگدڑ مچا دی۔ یزیدیوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ یہ دیکھتے ہوئے ابن سعدنے حصین بن نمیر تمیمی کے ساتھ تمام زرہ پوش سواروں اور پانچ سو تیر اندازوں کو بھیجا۔ ہزاروں یزیدیوں نے بیک وقت حسینی لشکر پر تیر اندازی شروع کر دی اور کچھ ہی دیر میں حسینی لشکر اور ان کے گھوڑوں کو لہولہان کر دیا۔ (الطبری ۶: ۲۳)
اہل بیت نبوت کے افراد کے علاوہ باقی جاں نثاران جام شہادت نوش کر چکے۔اہل بیت میں سے سب سے پہلے حضرت علی اکبر میدان میں آئے۔ اس وقت آپ کی عمر 18/ اٹھارہ سال تھی۔
حضرت قاسم بن حسن آئے۔ امام حسین کی بیٹی حضرت سکینہ سے آپ کی شادی طے ہو چکی تھی۔حضرت سکینہ کی زندگی آپ سے وابستہ تھی آپ نے امام حسین سے اجازت لی اور میدان جنگ میں آئے۔
ظالموں نے آپ دونوں کو شہید کر دیا۔ان کے بعد اہل بیت اطہار کے افراد یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کرتے گئے۔ادھرحضرت علی اصغر پیاس سے تڑپ رہے تھے۔ آپ نے اسے گود میں لیا اور پیار کرنے لگے۔ اسے چومتے اور بوسہ دیتے رہے۔
اسی درمیان ابن موقد النار نامی شخص نے ایک تیر چلایا اور حضرت علی اصغر امام حسین کی گود میں تڑپ کر رہ گئے۔حضرت امام حسین نے علی اصغر کے خون کا ایک چلو لیا اور آسمان کی طرف اچھال کر رب سے فریاد کی: اے میرے رب اگر تونے آسمان سے ہماری فتح وامداد روک دی ہے تو تو وہی کر جو تیری مصلحت ہو اور ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔(البدایہ و النھایہ۸: ۶۸۱)
روایتوں میں آتا ہے کہ اس وقت حضرت امام حسین کی عمر ۶۵ سال ۵ماہ ۵ دن کی تھی۔ آپ کے سر اور داڑھی مبارک کے بال بالکل سیاہ تھے۔
ایک بال بھی سفید نہ تھا۔ لیکن یزیدیوں نے بڑی مصیبت ڈھائی۔ جب حضرت علی اکبر کو ظالموں نے شہید کیا تو جوان بیٹے کی لاش دیکھ کر آپ کو اتنا غم لاحق ہوا کہ میدان جنگ سے خیموں تک لاش لانے کی مختصر مدت میں آپ کے سر کے اور داڑھی مبارک کے بال سفید ہو گئے۔
خانوادۂ نبوت کے افراد جب ایک ایک کر کے جام شہادت نوش کر چکے تو آخر میں امام حسین نے میدان جنگ کا قصد کیا۔آپ آئے اور دیر تک داد شجاعت دیتے رہے۔
آپ کو کوئی قتل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ہر شخص ایک دوسرے پر ٹالتا رہا اس لیے کہ قتل حسین کا گناہ کوئی بھی اپنے ذمہ نہیں لینا چاہتا تھا۔بالآخر شمر بن ذی الجوشن نے یزیدی لشکر کو ابھارا تو پھر یزیدیوں نے ہر طرف سے آپ کو نرغے میں لے لیا۔
زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کے بائیں کندھے پرتلوار ماری جس سے آپ لڑکھڑائے پھر سنان بن ابی عمر بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر نیزے سے وار کیا جس سے گھائل ہو کر آپ زمین پر تشریف لے آئے۔
اس کے بعد سنان یا شمر نے آپ پر تلوار چلائی اور آپ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب امام حسین شہید ہوئے تو آپ کے جسم مبارک پر ۳۳ تینتیس نیزے کے اور ۴۳ تلوا ر کے زخم تھے(البدایہ و النہایہ۸:۸۸۱)
از قلم : شیر محمد مصباحی
ڈائریکٹر البرکات ویلفیئر ٹرسٹ، ٹھاکر گنج، کشن گج، بہار
+91 9905084119
پیغام کربلا شہادت امام حسین اعلان حق کا استعارہ ہے
فضائل اہل بیت وپنجتن پاک حادثہ کرب وبلا
محرم کی بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم
ماہ محرم الحرام اور آج کا مسلمان