راقم : محمدبرھان الحق جلالی مسکراہٹ سنت نبوی ﷺ
مسکراہٹ سنت نبوی ﷺ
آج ہر کوئی غمگین ہے ہر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے اگر ہم اپنے روز مرہ زندگی اور معاملات ومعمولات میں ہم اگر صرف ایک مسکراہٹ کااضافہ کرلیں تو’’سنت، تجارت، سہولت اور برکت‘‘ کا ایک امتزاج سامنے آجائے گا۔
ایک اور تحقیق کے مطابق مسکراہٹ دل کی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے، جس کی وجہ پرتناو واقعات کے دوران مسکرانے سے دل کی دھڑکن معمول پر آجاتی ہے خادم رسول اللہ ﷺحضرت انس ب رضی اللہ عنہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں: ’’ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف دنیاوی مفاد کی خاطر آتا تھا، مگر شام ہونے سے پہلے پہلے اسے دین اسلام دنیا وما فیہا سے بڑھ کر محبوب اور عزیز از جان ہوجاتاتھا۔ وجہ کیا تھی آقا نامدار مدنی تاجدار تاجدار ختم نبوت ﷺ کا برتاو آپ کا حسن سلوک آپ کا لب و لہجہ تھا۔‘‘۔
”حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی ﷺسے زیادہ مسکرانے والا کسی کو نہیں دیکھا۔” أخرجہ الترمذی فی السنن، کتاب المناقب، باب فی بشاشۃ النبیﷺ، 5 / 601، الرقم: 3641، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 191، الرقم: 17750، والبیھقی فی شعب الإیمان، 6 / 251، الرقم: 8047،۔
فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اسلام مضبوط ہوچکا تھا۔ تمام قبائل عرب فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ انہی ایام میں قبیلہ عبدالقیس کا ایک وفد بھی رسول اللہ ﷺ سے ملنے آیا۔
ابھی یہ لوگ سواریوں سے اترے نہیں تھے کہ رسول اللہﷺ ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے۔ انہیں خوش آمدید کہا:’’بہت خوب ہے آپ لوگوں کا آنا! عزت وسرخروئی کے ساتھ آئے ہو!‘‘۔ آپ کا یہ خیر مقدمی سلوک دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ وہ اپنی سواریوں سے کود کر اُترے۔ رسول اللہﷺکو سلام کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے لگے۔
اللہ تعالی نے سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا وانہ ھو اضحک و ابکی ترجمہ: اور بے شک وہ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔
ہم اگر سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کریں تو ہزار ہا مسائل اور مشکلات کے باوجود ہمیں پیارے آقا ﷺ کے چہرہ انور پر مسکراہٹ اور تبسم کا دیدار ہوتا ہے۔
حضور ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فطری انداز میں رہتے، ہنسی و مزاح میں بھی شریک ہواکرتے اور غم پریشانی میں بھی شریک ہواکرتے۔ کیوں کہ خوشی پر مسکراہٹ اور ہنسنا اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نعمت ہے اور پریشانی پر غم اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اُس وقت کی روایت ہے جب وہ غزوہِ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اُنہوں نے بیان فرمایا: (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا
اور آپﷺجب بھی مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرئہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہِ انور ہی سے آپ کی خوشی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔” یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 3 / 1305، الرقم: 3363، وأیضًا فی کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک ص، 4 / 1607، الرقم: 4156، ومسلم فی الصحیح، کتاب التوبۃ، باب حدیث توبۃ کعب بن مالک وصاحبیہ، 4 / 2127، الرقم: 2769
حضرت علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی سواری کے لیے گھوڑا لایا گیاآپ نے جب اس کی رکاب میں پاوں رکھا تو بسم اللّٰہ کہا،پھر اس کی پیٹھ پر سوار ہوئے تو الحمد للّٰہ فرمایا،پھر سواری کی دعا پڑھی،پھر تین بار الحمد للّٰہ اور اللّٰہ اکبر کہا .
اور پھر یہ دعا پڑھی:۔ سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا انت۔ ’’یارب تو پاک ہے بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا،تو مجھے بخش دے تیرے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے۔‘‘یہ کہہ کر آپ ہنس پڑے۔
میں نے پوچھا!یاامیر المومنین! آپ کس بات پر ہنسے؟فرمایا!میرے سامنے ایک بار حضور انورﷺنے ایسا ہی کیا تھا اور پھر آپ ہنسے تھے وجہ پوچھنے پر آقا ﷺنے فرمایا تھا:’’جب بندہ کہتا ہے’یارب میرے گناہ بخش دے‘اور بزعمِ خویش یہ سمجھتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میرے گنا ہ معاف کرے گا اور کوئی بخشنے والانہیں تو اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے۔‘‘ .
اس بات پر حضور ﷺبھی مسکراے تھے اور اس سنت کی پیروی میں سیدنا علیِ مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بھی مسکراے۔ اس سے یہ واضح ہو اکہ مسکرانا پیارے نبی ﷺکی سنت مبارک ہے اور شمع رسالت کے پروانے کس طرح سے آپ کی محبت و الفت میں اآپ کی ایک ایک ادا کو ادا کرنے میں مخلص تھے۔
: أخرجہ البخاری فی الصحیح،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، 5 / 2402، الرقم: 6202، ومسلم فی الصحیح، کتاب الإیمان، باب أخر أہل النار خروجًا، 1 / 174، الرقم: 186، والترمذی فی السنن، کتاب صفۃ جھنم، باب منہ، 4 / 712، الرقم: 2595 .
”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہو گا۔
یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے، چناں چہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا: اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا، جنت میں چلا جا۔ لہٰذا وہ جنت میں داخل ہو گا۔
جنت میں جا کر اُسے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا: اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا اور جنت میں داخل ہو کیوں کہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اُس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے، یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیاؤں کے برابر حصہ ہے۔
وہ عرض کرے گا: (اے اللہ!) کیا مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالاں کہ تو حقیقی مالک ہے۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:) میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور نبی اکرم ﷺہنس پڑے یہاں تک کہ آپﷺکے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ آپﷺفرماتے تھے: یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال ہے۔” یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام عسقلانی نے فرمایا: یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺصرف آخرت کے اُمور میں ہنسا کرتے تھے اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اُس پر آپﷺ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے۔
آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا فرما دیجئے کہ حق تعالیٰ شانہ مجھے جنت میں داخل فرمادے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہو سکتی!! وہ عورت رونے لگی۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ حق تعالیٰ جل شانہ سب اہل جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے۔
آقا کریم ﷺکے مزاح بھی ایسا ہوتا تھا کہ جس میں ذرا برابر جھوٹ کی آمیزش نہ ہوتی تھی حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوا اُس وقت سے حضورنبی اکرم ﷺنے مجھے کبھی ملنے سے نہیں روکا، آپ ﷺجب بھی مجھے دیکھتے تو چہرہِ انور تبسم ریز ہو جاتا۔
میں نے آپﷺسے گذارش کی کہ میں جم کر گھوڑے پر سواری نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سینے پر مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اِسے جما دے اور اِسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے”۔
أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب الجھاد، باب مَن لا یَثْبُتُ علی الخَیْلِ، 3 / 1104، الرقم: 2871، وأیضًا فی کتاب الأدب، باب التبسم والضحک، 5 / 2260، الرقم: 5739، ومسلم فی الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم ﷺہم سے اتنے مل جل جاتے تھے کہ ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائی کو کہا: اے عمیر کے باپ! تمہارا نغیر کیسا ہے۔ امام ابوعیسیٰ (ترمذی) فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺمزاح بھی فرما لیا کرتے تھے۔
اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرﷺنے ایک بچے کی کنیت ابوعمیر رکھی، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ بچے کو پرندہ دیا جائے کہ وہ اس سے کھیلے
کیوں کہ نبی اکرم ﷺنے اسے فرمایا: «یا ابا عمیر ما فعل النغیر» اس سے مراد یہ ہے کہ اس بچے کے پاس ایک نغیر تھی جس سے وہ کھیلتا تھا وہ نغیر مر گئی تو اس بچے کو افسوس ہوا، چنانچہ نبی اکرمﷺنے اس سے دل لگی اور خوش طبعی کرتے ہوئے فرمایا: «یا ابا عمیر ما فعل النغیر»۔
(حضرت انسِ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسولﷺسے سواری طلب کی تو آپﷺنے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا تو رسولﷺنے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟) «(سنن ترمذی 333، 1989، وقال: حسن صحیح)، صحیح بخاری (6129»)
ملاحظہ فرمائیے
آپ ﷺنے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔
الغرض مزاح ایک سنتِ مستحبہ ہے جولوگ اسے اپنی وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں اگر ہم اپنی زندگی میں مسکراہٹ والے پہلو کو لازم کر لیں تو ہم س کی زندگی آرام و سکون والی ڈپریشن سے آزاد ہو جائے گی۔
راقم : محمدبرھان الحق جلالی
اخلاق حسنہ کے متعلق چالیس حدیثیں
اپنے دلوں کو عشق مصطفوی سے روشن کریں
تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کی اولین ذمہ داری
تحفظ ناموس رسالت ﷺ میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے
شان رسالت ﷺ میں گستاخی ناقابل معافی