Friday, March 29, 2024
Homeمخزن معلوماتآوارہ کتوں اور گائیوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا

آوارہ کتوں اور گائیوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور

شہر ہو یا دیہات،ریلوے اسٹیشن ہو یا پلیٹ فارم،اسپتال ہو یا اسکول وکالج ہر جگہ سڑکوں، گلیوں ،بستیوں میں ہر جگہ آوارہ کتوں کا جھنڈ موجود ہے۔ کتوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پورے بھارت میں تین کروڑ آوارہ کتے موجود ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہورہاہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کتیا سال میں تین سے چار بار بچے پیدا کرتی ہے،کتیا کی مدت حمل کی مدت48 سے58 دن ہوتی ہے،ہر بار 5سے8بچے جنتی ہے،اس سے ہر سال ایک کروڑسے زیادہ ان آوارہ کتوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہورہاہے۔اور پیدائشی اوسط،تناسب میں بندروں کی پیداوار کا بھی یہی حال ہے انکی بھی آبادی میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے ۔صحت کے عالمی ادارے(WHO) کے مطابق ہر سال لگ بھگ ایک کروڑ ستر لاکھ کتے کسی نہ کسی کو کاٹ لیتے ہیں۔2014(WHO)ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں ہرسال کتے ،بلی ، لومڑی کے کاٹنے سے تقریباً 20ہزارافراد بائولے پن کے مرض میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کے ملتے جلتے اعداد وشمار بندروں کے بارے میں بھی پائے جاتے ہیں۔*ریبیز کیا ہے اور اس سے بچائو کیسے ممکن ہے؟:* ہندوستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دو کروڑ90لاکھ سے زائد افراد ریبیز جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں،اسی لیے 28ستمبر کو ربیز ڈے منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ہوشیار خبردار کیا جائے۔یہ وائرل بیماری انتہائی خطرناک ہوتی ہے،اس بیماری سے ہندوستان میں بہت موتیں ہورہی ہیں، یہ بیماری اعصاب(دماغ کی موٹی نسیں جو جسم کے تمام حصوں میں پھیلی ہیں) پر خاص قسم کے جراثیم کے حملہ آور ہونے سے دیوا نگی کا باعث بنتی ہے ،ربیز(rabis)اعصابی نظام کی بہت خطرناک بیماری ہے، اس مرض میں مبتلا مریض سو فیصد مر جا تا ہے۔ یہ مرض موسم بہار میں زیادہ پھیلتا ہے۔ ربیز کا مریض پانی سے س بہت ڈرتا ہے اس لیے اس کا نام ہائیڈرو فوبیا(پانی سے ڈرنا) بھی رکھا گیا ہے اور یہ علامت صرف انسان میں ہوتی ہے۔ ایسے مریض کے آنسو،قے،اور پیشاب میں بیماری کے وائرس پائے جاتے ہیں اس لیے ایسے مریض کا علاج کر نے کرانے والوں کو چاہیے کہ وہ مریض کے پاس جاتے وقت دستانے اور ماسک پہن کر اپنا بچائو کریں،جن لوگوں کو کسی طرح کا زخم ہے وہ تو ایسے مریض کے پاس ایکدم ہی نہ جائیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ جانوروں کی پیدائش کو کنٹرول کر نے پر کا م کرے تاکہ گلیوں ،سڑکوں،جگہ جگہ گھومنے والے آوارہ کتوں کی آبادی میں کمی ہو۔بی بی سی کے رپورٹ کے مطابق’’گلوبل الائنس فا رر یبیز کنٹرول‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال لاکھوں لوگ کتے کے کاٹنے والی بیماری rabisسے ہندوستان میں ہلاک ہو جا تے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہمارے ملک نے کتوں کو مارنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔  *کتوں کو مار نے پر پا بندی:* عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ کی جانب سے کتوں کو مار نے پابندی لگی ہوئی ہے کیا طر فہ تماشاہے(عجیب وغریب تماشا)2001 میں ہندوستان میں جانوروں کی فلاح وبہبود سے متعلق منظور کیے جانے والے قانون کے تحت آوارہ کتوں کومار نا جرم قرار دیا گیا ہے۔ کتوں کو مار نے کے خلاف قانون بننے کے بعد آوارہ کتوں کے مارنے کے جوادارے قائم تھے وہ سب بند کردیے گئے، جمشید پور جھارکھنڈ ٹاٹا اسٹیل کمپنیTISCOمیں کتوں کی نسبندی کر نے اور پاگل کتوں کو مار نے کا جو محکمہ تھا وہ بند کردیا گیا اور اس سے بہت لوگ بے روز گار ہوگئے۔کتوں کو نہ مارنے کے قانون بننے کے بعد سے کتوں کی آبادی میں بے تحاشا اضا فہ ہوگیا ہے ہمارے ملک کے پرائم منسٹر مودی کو انسانوں کی بڑھتی آبادی پر تشویش ہے،ہونی بھی چاہیے پر کیا ان کی توجہ انسانوں کے قاتل آوارہ کتوں،بندروں کی طرف بھی جائے گی؟ جائے توبہتر ہو گا۔ کتا انتہائی خطر ناک اور جراشیم سے بھرا جانور ہے اس کے کاٹے ہوئے کو جان کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ اسلام میں موذی جانور کو مار نے حکم ہے،البتہ موذی کتے کو مارنے کے لیے ایساطریقہ اختیار کیا جائے جس میں کم سے کم تکلیف ہو،( مسلم ،حدیث:1955 ) جانور کو تڑپاکر مار نے سے شریعت میں منع ہے۔آوارہ کتوں کے کاٹنے کے بڑھتے واقعات نے لوگوں کی پریشانی میں اضا فہ کردیا ہے،اس سے بڑی بات یہ ہے کہ کتوں کے کاٹنے والی ویکسین کا نہ ملنا اور پر یشانی کا باعث بنا ہوا ہے ربیز کے انجکشن اسپتالوں میں اکثر نہیں ملتے اورملتے ہیں تو کسی کو صرف ایک انجکشن ہی دیتے ہیں اور کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ اور نہیں ہے، کسی کو دو لگا کر ٹال دیتے ہیں کی2ہی کافی ہے اور سب سے بڑی پریشانی تو یہ ہے کہ کبھی کبھی تو یہ مار کیٹ میں ناپید رہتی ہے، جب کہ آج کل کتے کے کاٹنے کے بہت سے واقعات روزہورہے ہیں،ذمہ داران حکو مت کو اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔*سڑک حادثوں میں مرنے میں اضافے کا سبب:* ترقی یا فتہ دور میں سڑک پر فراٹے سے چلتے ہوئی طرح طرح کی گاڑیوں کی وجہ سے ایکسیڈنٹ میں اضافہ ہو تاجا رہاہے اور پھر آجکل ہر جگہ گندے جانور(pig) اور گایوں اور سانڈوںکی بھر مار بھی بہت بڑی وجہ ہے۔ گائے کو ہمارے ملک کی ہندو اکثریت مقدس مانتی اور ماں کا درجہ دیتی ہے،مسلمان بھی گائے کو ایک پیارا ،سیدھا جانور مانتے ہیں۔ جدید اردو ادب کے بہت بڑے شاعر اسماعیل میر ٹھی کا شمار جدید نظم کاری میں ہوتا ہے،آپ کی پیدائش12نومبر1844ء میں اور موت1917ء، میرٹھ میں ہوئی1857ء کی جنگ آزادی کی تحریک میں آپ کی عمر14سال تھی،آپ کی نظمیں،غزلیں، انقلابی اشعار نے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی لہر دوڑادی تھی۔ آپ کی مشہور نظم:      *ہماری گائے*۔ بہت مقبول ہوئی ،آپ کی نظم کو مدرسوں،اسکولوں، میں پڑھایا جاتا تھا اور گائے سے محبت وانسیت کا سبق دیا جاتا تھا اور آج بھی گائے کو ایک پیارا ،سیدھا جانور ماناجاتا اور اسے اللہ کی نعمت سمجھا جاتا ہے، گائے کے پیدا ہونے پر اللہ کی حمد اور شکرانہ ادا کیا جاتا ہے گائے سے محبت کا اس سے بڑااور کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ آپ کی نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے


               *ہماری گائے*: ؎ *رب کا شکراداکر بھا ئی ٭ جس نے ہماری گائے بنائی**اُس مالک کو کیوں نہ پکاریں ٭ جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں**خاک کو اس نے سبزہ بنایا ٭ سبزے کو پھر گائے نے کھایا**کل جوگھاس چری تھی بن میں ٭ دودھ بنی اب گائے کے تھن میں**سبحا ن اللہ دودھ ہے کیسا ٭ تازہ گرم سفید اور میٹھا**گائے کو دی کیا اچھی صورت ٭ خوبی کی ہے گویا مورت**دونہ دُنکا،بھوسی، چوکر ٭ کھالیتی ہے سب خوش ہوکر**کیا ہی غریب اور کیسی پیاری ٭ صبح ہوئے جنگل کو سدھاری**سبزے سے میدان بھرا ہے ٭ جھیل میں پانی صاف بھرا ہے**پانی پی کر چارہ چر کر ٭ شام کو آئی اپنے گھر پر**دوری میں جو دن ہے کاٹا ٭ بچے کو کس پیار سے چاٹا**بچھڑے اس کے بیل بنائے ٭ جو کھیتی کے کام میں آئے**رب کی حمد وثنا کر بھائی ٭ جس نے ایسی گائے بنائی*۔


افسوس صد افسوس اب اس معصوم اور پیارے جا نور کے نام پر خونی ہولی کھیلی جارہی ہے۔اتر پر دیس میں گریٹر نوئیڈا سے متصل دادری میں اخلاق نامی55سالہ شخص کے گھر گائے کے گوشت کھانے کے شبہ میں دھاوا بول کر پوری فیملی کو بری طرح سے مارا جس میں ان کے لڑکے اور خواتین شدید زخمی ہوئیں اور زخموں کی تاب نہ سہکرا خلاق صاحب کی موت واقع ہو گئی، 2017 راجستھان کے الور میں گائے کے نام پر پہلو خان نامی55سالہ اور ان کے دو جوان بیٹوں کو مارا جس میں پہلو خان کی موت ہوگئی،اخلاق احمد،پہلو خان سے لیکر تبریز انصاری تک 300 زیادہ لوگ اب تک موب لنچینگ میں مارے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد گائے کی موب لنچینگ سے متعلق ہیں،گائے کا بہانہ بناکر لوگوں کو مارا گیا بے چاری سیدھی سادھی گائے کو بدنام کیا جا رہا ہے گائے بھی شرم شار ہورہی ہوگی کہ اندھے بھگت میرے نام پر سیاست کررہے ہیں اور مجھے بدنام کر رہے ہیں۔ابھی حال ہی مویشی محکمہ کے وزیر گری راج سنگھ کا بیان اخباروں میں آیا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں گائیوں کی تعداد 15,40,300ہے اور اب صرف گائیوں(مادہ) کی پیدائش پر زور دیا جائے گا۔ یوپی میں محکمہ پولیس لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ داری کیا نبھائے گی گائیوں کے ایکسیڈینٹ سے بچنے کے لیے جو گائیں سڑکوں پر رات میں بیٹھی رہتی ہیں ان کی سینگوں میں الیکٹرانک لائٹ لگاتے پھررہی ہے تاکہ ایکسیڈنٹ سے بچا جا سکے۔گائے کی حالت اور اس کا آتنک: گائے کے چاہنے ،ماننے والے اندھ بھگت گائے کو بھی بھوکا مار ڈال رہے ہیں،آئے دن سوشل میڈیا میں خبریں اور درد ناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔بکائو میڈیا ان گئوشالوں کی خراب حالت کو نہیں دکھاتا۔جوبھوکی گائیں آزاد گھوم رہی ہیں انکے آتنک سے کسان سے لے کر عام آد می تک پریشان ہے باپ، باپ کررہا ہے،رات رات بھر کسان جاگ کر اپنی فصل بچارہا ہے،ذرہ سے چوک ہوئی آنکھ لگی ساری فصل بھو کی گایوں سانڈوں نے کھاکر صاف کر دیا،بیچارہ کسان کف افسوس مل رہاہے۔ گائوں، شہروں، گلیوں،سڑکوں پر ،سانڈوں کی لین گایوں پر دوڑ رہی ہے،انکے حملوں سے اسکول کے بچوں سے لیکر بڑے،بوڑھے سبھی لوگ پریشان ہیں جگہ جگہ لاء اینڈرڈر نے اس طرح کے بورڈ لگا رکھے ہیں’’آگے سڑک پر جانور بیٹھے ہوسکتے ہیں کرپیا دھیرے چلیں(پولیس ادھیک چھک انّاؤ، باندہ، کانپور وغیرہ وغیرہ‘‘ آئے دن خبریں آرہی ہیں کہ سانڈنے سینگ ماردی گائے نے دوڑا دیا، کسی کی جان چلی گئی کسی کو سخت چوٹیں آئیں کسی کی کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی وغیرہ وغیرہ،ہمارے بڑے ساڑھو صاحب کی بیٹی کانپور سے انائو اپنے شوہر کے ساتھ موٹر سائیکل سے جارہی تھی سانڈ نے دوڑ لگائی کئی لوگ زخمی ہوگئے یہ لوگ بھی سخت زخمی ہوئے بیٹی زیبا کی کمر کی ہڈی کھسک گئی اب بیٹھ نہیں پاتی ابھی عمر 22 سال ہے زندگی اجیرن ہو گئی اس طرح کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ کیا ارباب حکومت اس طرف توجہ دے کر کتوں،بندروں، گائیوں کے آتنک سے بچانے کی کی کوشش کرے گی، یا سخت گیر عناصر کے آتنک کے ساتھ ساتھ ان جانوروں کے آتنک کو بھی سہنا پڑے گا-۔


hhmhashim786@gmail.com
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو، جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن ۸۳۱۰۲۰ رابطہ: 09431332338

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن