Friday, October 18, 2024
Homeاحکام شریعتامام احمد رضا اور فقہ وفتاوی

امام احمد رضا اور فقہ وفتاوی

از قلم : مفتی قاضی فضل احمد مصباحی امام احمد رضا اور فقہ و فتاویٰ

امام احمد رضا اور فقہ و فتاویٰ

فقہ اسلامی ایک تعارف
فقہ علوم اسلامیہ میں سب سے زیادہ وسیع اور دقیق علم ہے۔ یہ جہاں ایک طرف قرآن، حدیث، اقوال صحابہ، اجتہادات فقہا، جزئیات و فروع، راجح و مرجوح اور امت کی واقعی ضروریات کے ادراک کے ساتھ زمانے کے بدلتے حالات کے تناظر میں دین کی روح کو ملحوظ رکھ کر تطبیق دینے کا نام ہے۔

وہیں دوسری طرف طہارت و نظافت کے مسائل سے لے کر عبادات، معاملات، معاشرت، آداب و اخلاق اور ان تمام چیزوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جن کا تعلق حلت و حرمت اور اباحت و علوم اباحت سے ہے۔

فتاویٰ کا میدان فقہ سے وسیع تر ہے، اس لیے کہ فتاویٰ میں ایمانیات، فرق و ملل، تاریخ و سیرت، تصوف و سلوک، اخلاق و آداب، عبادات و معاملات، معاشرت و سیاسیات کے ساتھ قدیم و جدید مسائل کا حل، اصولی و فروعی مسائل کی تشریح و تطبیق جیسے امور بھی شامل ہوتے ہیں۔

فتویٰ کا لغوی معنی ہے کسی سوال کا جواب دینا۔ وہ سوال شرعی ہو یا غیر شرعی۔ لیکن بعد میں یہ لفظ شرعی حکم معلوم کرنے کے معنی میں خاص ہو گیا۔

قرآن مجید میں بھی یہ لفظ کئی مواقع میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’قالت یایہا الملاء افتونی فی امری۔‘‘ (النمل) ترجمہ: بولی اے سردار میرے اس معاملہ میں مجھے رائے دو‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ویستفتونک فی النسآء قل اللہ یفتیکم فیہن۔‘‘ (النساء) ترجمہ: اور تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ اللہ تمہیں ان کا فتویٰ دیتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے: ’’الاثم ماحاک فی صدرک وان افتاک الناس عنہ۔‘‘ (مسند احمد، حدیث:۱۷۵۳۸) یعنی تمہارے دل میں جس چیز کے کرنے میں تردد ہو اس کا کرنا گناہ ہے اگرچہ لوگ اس کے تعلق سے تمہیں فتویٰ دیں۔
مسند دارمی میں ہے: ’’اجرؤکم علی الفتیاء اجرؤ کم علی النار۔‘‘ (مسند دارمی، ج۱ ص۱۳۲) تم میں فتویٰ دینے میں سب سے زیارہ جری وہ ہے جو آگ میں داخل ہونے میں زیادہ جری ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق پیش آمدہ مسائل میں دینی رہنمائی کا نام فتویٰ ہے۔ شرعی فتویٰ کسی مفتی یا عالم کی ذاتی رائے کا نام نہیں ہے۔ جس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو بلکہ فتویٰ قرآن و سنت کے مطابق اظہار حکم کا نام ہے جو ایک مسلمان کے لیے واجب العمل ہے۔

فقہ کے معنی :۔ دین کی گہری سمجھ ہے اور اصطلاح شرع میں احکام عملیہ شرعیہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے کا نام فقہ ہے۔
عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات و اخلاق، معاملات، اور حدود و فرائض سب شامل تھے، یہی وجہ ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقہ کی تعریف ان الفاظ کے ذریعہ فرمائی: ’’ہو معرفۃ النفس مالہا وما علیہا۔‘‘ یعنی جس سے انسان نفع و نقصان اور حقوق و فرائض کو جان لے وہ فقہ ہے۔

مگر بعد میں جب علاحدہ طور پر ہر فن کی تدوین و تقسیم ہوئی تو فقہ عبادات و معاملات اور معاشرت کے ظاہری احکام کے لیے خاص ہو گیا۔

فقہ کا موضوع : فعل مکلف ہے جس کے احکام سے اس عمل میں بحث ہوتی ہے۔
فقہ کی غرض و غایت : سعادت الدارین سے سرفراز ہونا۔
علم فقہ کی عظمت:۔
فقہ کی عظمت و اہمیت کا اندازہ درجہ ذیل قول سے ہوتا ہے:۔ الفقہ اشرف العلوم قدراً و اعظمہا اجراً و اتمہا عائدۃ واعمہا فائدۃ و اعلاہا رتبۃ یملاء العیون نوراً والقلوب سروراً و الصدور انشراحاً (الاشباہ والنظائر)۔

علم فقہ تمام علوم میں قدر و منزلت کے اعتبار سے بڑھاہوا ہے اور اجر کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ اونچا ہے۔ علم فقہ اپنے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بہت بلند ہے اور وہ آنکھوں کو نور اور جلا بخشتا ہے، دل کو سکون اور فرحت بخشتا ہے اور اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔

علامہ علاء الدین حصکفی نے فقہ کی عظمت کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے: ’’و خیر العلوم علم فقہ لانہ یکون الی العلوم توسلاً فان فقیہا واحداً متورعاً علی الف ذی زہد تفضل واعتلی، تفقہ فان الفقہ افضل قائد الی البر والتقویٰ، واسبح فی بحور الفوائد۔ (در مختار، ج۱، ص۲۸)

تمام علوم میں قدر و منزلت اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر علم ’’فقہ‘‘ ہے۔ اس لیے کہ علم فقہ تمام علوم تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، اسی وجہ سے ایک متقی فقیہ ہزار عابدوں سے بھاری ہوتا ہے۔ علم فقہ حاصل کرو کہ نیکی اور تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہر دن علم فقہ سے مستفید ہوتے رہو، اور اس کے سمندر میں غوطہ زنی کرتے رہو۔

دار قطنی اور بیہقی کی روایت بھی اس معنی میں ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ولفقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد، ولکل شیء عماد و عماد الدین الفقہ۔‘‘ (دارقطنی، ج۳ ص۷۹) ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے اور ہر چیز کا ایک ستون ہے اور دین کا ستون فقہ ہے۔

لفظ فقہ قرآن مجید میں ہے
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ’’فلو لا نفر من کل فرقۃ منہم طآئفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذا رجعوآ الیہم لعلہم یحذرون۔ (سورہ توبۃ) ترجمہ: تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں۔

لفظ فقہ حدیث نبوی میں
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’من یرد اللہ بہ خیراً یفقہہ فی الدین۔‘‘ (بخاری و مسلم کتاب العلم رقم حدیث ۷۱) اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔

فقہ اور فتاویٰ کی اہمیت
علوم اسلامیہ میں فقہ و فتاویٰ کو جو حیثیت و اہمیت حاصل ہے وہ سورج سے بھی زیادہ روشن اور واضح ہے اس لیے کہ یہ علم زندگی سے مربوط اور انسانی شب و روز سے متعلق و ہم آہنگ ہے بلفظ دیگر اسلام کا نظام قانون بنیادی طور پر جن پاکیزہ عناصر سے مرکب ہے وہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ہیں جو اسلامی شریعت کے مرکزی مصادر و مآخذ ہیں۔

فقہ و فتاویٰ میں اسلامی نظام قانون، عدل و انصاف، توازن و اعتدال، جامعیت و افادیت، جیسی امتیازی صفات کے لیے بے پناہ گنجائش ہے۔ ان کی وسعت و گہرائی، سہولت پسندی، حیرت انگیز بے ساختگی، لچک اور انسانی فطرت سے ہم آہنگی تمام حقیقت پسندوں کے یہاں مسلم ہے جن کا دائرۂ عمل پیدائش سے میراث تک اور عقائد سے لے کر معاملات وغیرہ امور تک محیط ہے۔

فقہ و فتاویٰ سب سے مشکل اور اہم علم ہے، ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ علما فرماتے ہیں چند سال درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے یا دو چار زوردار تقریر کر لینے کی وجہ سے آدمی فقیہ تو کیا فقہ کے دروازے میں بھی داخل نہیں ہوتا۔

چناں چہ امام احمد رضا قدس سرہٗ رقم طراز ہیں؛ ’’حاکم شرعی، سلطانِ اسلام، یا ’’قاضی مولی من قبلہ‘‘ ہے، یا امورِ فقہ میں فقیہ بصیر، افقہ بلد، نہ آج کل کے عام مولوی، آج کل کے درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے آدمی فقہ کے دروازہ میں بھی داخل نہیں ہوتا، نہ کہ واعظ جسے سوائے طلاقت لسانی کوئی لیاقت جہاں درکار نہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۱۰، ص۹۹)۔

مفتی دو طرح کا ہوتا ہے: (۱) مفتی مجتہد (۲)مفتی ناقل۔ اس زمانہ میں کوئی مفتی مجتہد نہیں ہاں البتہ مفتی ناقل ضرور پائے جاتے ہیں۔

لیکن مفتی ناقل بھی ہرکس و ناکس کا منصب نہیں اس کے لیے کم از کم اتنا علم تو ضرور چاہیے کہ وہ جان سکے کہ فقہا کے کتنے طبقے ہیں اور ان میں سے کون کس طبقہ پر فائز ہے قول راجح و مرجوح، ضعیف و صحیح واصح میں کامل امتیاز کر سکے، اور ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ کسی ماہر مفتی کی درسگاہ میں زانوئے ادب تہہ کر کے خاص افتا کی مشق کی ہو۔

علما فرماتے ہیں اگر کوئی شخص مذہب کی تمام کتابیں حفظ کر لے مگر کسی ماہر استاذ سے خاص اس باب میں شرف تلمذ حاصل نہ کیا تو اس کے لیے فتویٰ دینا جائز نہ ہوگا۔

خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ان المتقدمین شرطوافی المفتی الاجتہاد و ہذا مفقود فی زماننا فلا اقل من ان یشترط فیہ معرفۃ المسائل بشروطہا و قیودہا التی کثیراً ما یسقطونہا ولا یصرحون بہا اعتماداً علی فہم المتفقۃ وکذا لابد لہ من معرفۃ عرف زمانہ و احوال اہلہ والتخرج فی ذالک علی استاذ ماہر ولذا قال فی آخر المفتی لو ان الرجل حفظ جمیع کتب اصحابنا لابد ان یتلمذ للفتویٰ حتی یہتدی الیہ‘‘ (شرح عقود رسم المفتی، ص۱۷۹)

ترجمہ: بلا شبہ متقدمین نے مفتی کے لیے اجتہاد کی شرط لگائی ہے اور یہ ہمارے زمانہ میں مفقود ہے تو کم از کم مفتی کے لیے اتنی شرط تو ہونی چاہیے کہ اس کو مسائل کی معرفت ان شرائط و قیود کے ساتھ ہو جنہیں فقہا اکثر حذف کر دیتے ہیں اور سمجھ والوں کی سمجھ پر اعتماد کرتے ہوئے ان قیود کو صراحۃً ذکر نہیں کرتے۔

یوں ہی مفتی کو اپنے زمانہ کے عرف و حالات سے بھی باخبر ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ کسی ماہر استاذ کی نگرانی میں مشق و ممارست بھی ہونی چاہیے یہی وجہ ہے کہ منیۃ کے آخر میں فرمایا ’’اگر کوئی شخص اصحاب مذہب کی تمام کتابیں یاد کر لے جب بھی فتویٰ دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی ماہر استاذ سے شرف تلمذ حاصل کرے تاکہ اس کام کو صحیح طریقہ سے انجام دے سکے‘‘۔

خود امام احمد رضا قدس سرہٗ نے بھی ماہر استاذ کی نگرانی میں برسوں تربیت افتا کی مشق حاصل کی ہے۔ اس حقیقت کا اظہار انہوں نے ان الفاظ کے ذریعہ کیا ہے۔

’’رد وہابیہ‘‘ اور ’’افتا‘‘ یہ دونوں ایسے فن ہیں کہ طب کی طرح یہ بھی صرف پڑھنے سے نہیں آتے ان میں بھی طبیب حاذق کی مطب میں بیٹھنے کی ضرورت ہے، میں بھی ایک طبیب حاذق کے مطب میں سات برس بیٹھا مجھے وہ دن، وہ جگہ، وہ مسائل اور جہاں سے وہ آئے تھے اچھی طرح یاد ہیں۔

میں نے ایک بار ایک نہایت پیچیدہ حکم کو بڑی کوشش و جانفشانی سے نکالا اور اس کی تائیدات مع تنقیح آٹھ ورق میں جمع کیں مگر جب حضرت والد ماجد قدس سرہٗ کے حضور پیش کیا تو انہوں نے ایک جملہ ایسا فرمایا کہ اس سے یہ سب ورق رد ہوگئے وہی جملے اب تک دل میں پڑے ہوئے ہیں اور قلب میں اب تک ان کا اثر باقی ہے۔ (الملفوظ حصہ اول، ص۱۴۱)۔

فتاویٰ رضویہ میں امام احمد رضا قدس سرہٗ نے تفصیل کے ساتھ یہ بیان فرمایا کہ سات سال تک فتویٰ لکھ کر میں والد گرامی کی خدمت میں پیش کرتا رہا اور جہاں ضرورت ہوتی وہ اصلاح فرما دیتے اس کے بعد مجھے اجازت دی کہ بغیر سنائے فتوے لکھ کر سائلوں کو دے دوں، آپ کے الفاظ یہ ہیں:۔

’’مجھے چار دہم شعبان خیر و بشارت کو فتوے لکھنے پر مامور فرمایا جب کہ سید عالم ﷺ کی ہجرت سے ۱۲۸۶ھ؁ سال تھے اور اس وقت میری عمر کے چودہ برس پورے نہ ہوئے تھے حتیٰ کہ میری پیدائش ہجرت کے برسوں سے دہم شوال ۱۲۷۲ھ؁ میں ہے تو میں نے فتویٰ دینا شروع کیا اور جہاں میں غلطی کرتا حضرت قدس سرہٗ اصلاح فرماتے سات برس کے بعد مجھے اذن فرما دیا کہ اب فتوے لکھوں اور بغیر حضور کو سنائے سائلوں کو بھیج دیا کروں مگر میں نے اس پر جرأت نہ کی یہاں تک رحمن عزوجل نے حضرت والا کو سلخ ذی القعدہ ۱۲۹۷ھ؁ میں اپنے پاس بلایا۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۱ ص۸۷،۸۸)

سطور بالا سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ فقہ و فتویٰ بالفظ دیگر افتاء کا کام کتنا مشکل اور کس قدر اہم ہے۔ اس کے لیے وفور عالم کے ساتھ ماہر شیخ و استاذ کی نگرانی میں ایک لمبے عرصہ تک مشق و ممارست بھی ضرورت ہے۔ بغیر اس کے اس میدان میں قدم رکھنا بہت بڑی جرأت و جسارت کا کام ہے۔

فقہ و فتویٰ کی تاریخ
فقہ و فتویٰ کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:۔
پہلا دور: فقہ زمانہ رسالت میں
دوسرا دور: فقہ زمانہ کبار صحابہ و خلفائے راشدین میں۔
تیسرا دور: فقہ صغار صحابہ و تابعین کے دور میں۔
چوتھا دور: فقہ کا وہ زمانہ جس میں اس نے باقاعدہ ایک مستقل علم کی حیثیت اختیار کرلی۔

زمانہ رسالت میں رسول اکرم ﷺ خود ہی مفتی الثقلین اور من جانب اللہ منصب افتا پر فائز تھے۔ آپ نے فتویٰ کے ذریعہ ہر باب میں رہنمائی کی ہے۔ عبادات و معاملات، معاشرت و اخلاقیات وغیرہ میں آپ کے فتویٰ مشعل راہ ہیں۔ آپ کے مبارک عہد میں کوئی دوسرا فتویٰ دینے والا نہ تھا۔

البتہ آپ کبھی کبھی کسی صحابی کو دور دراز علاقہ میں قاضی و مفتی بنا کر بھیجتے تو وہ منصب قضاء و افتاء سنبھالتے اور لوگوں کی شرعی رہنمائی کرتے جیسے حضرت معاذ بن جبل کو آپ ﷺ نے یمن بھیجا اور انہیں قرآن و سنت اور قیاس و اجتہاد کے ذریعہ حکم شرعی بیان کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

آپ کے بعد یہ ذمہ داری صحابہ کرام نے نبھائی اور احسن طریقے سے اس کو انجام دیا۔ صحابہ کرام میں اصحاب فتاویٰ تقریباً ایک سو تیس حضرات تھے جن میں مرد اور عورتیں شامل ہیں۔ ان میں فتویٰ کے اعتبار سے سات صحابہ کرام ایسے ہیں جن کے فتاویٰ کثرت سے ہیں۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔

۔(۱) حضرت عمر بن خطاب (۲) حضرت علی بن ابی طالب (۳)حضرت عبداللہ بن مسعود (۴)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (۵)حضرت زید بن ثابت (۶) حضرت عبداللہ بن عباس (۷) حضرت عبداللہ بن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ان حضرات کے فتاوے اس کثرت سے ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ہر صحابی کے مسائل و فتاویٰ کی کئی ضخیم جلدیں تیار ہوجائیں۔

پھر تابعین کا زمانہ آیا اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ دراز ہونے کی وجہ سے اسلام دور دراز علاقوں تک پھیل گیا اور تابعین فقہا کی ایک جماعت نے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ اور کوفہ و بصرہ میں فقہ و فتاویٰ کی عظیم خدمات انجام دی۔

فقہائے مدینہ:۔ 

فقہائے سبعہ یا فقہائے مدینہ طبقہ تابعین میں سے تھے، یہ ہم عصر تھے اور ان ہی کے ذریعہ فقہ و فتویٰ کا علم مدینہ میں پھیلا۔ فقہا کے نزدیک تابعین میں فقہائے سبعہ سب سے افضل ہیں ان کے اسماء حسب ذیل ہیں:۔
۔(۱)سعید بن مسیب (۲)عروہ بن زبیر (۳)قاسم بن محمد بن ابی بکر (۴)خارجہ بن زید (۵)عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (۶) سلیمان بن یسار (۷) ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام۔

فقہائے مکہ
مکہ مکرمہ کے مشہور فقہا درج ذیل ہیں:
۔(۱) مجاہد بن جبیر (۲) عکرمہ مولیٰ ابن عباس (۳) عطا بن ابی رباح (۴) حکیم بن حزام۔

فقہائے کوفہ
کوفہ کے مشہور فقہا درج ذیل ہیں:۔
۔(۱) علقمہ بن قیس نخعی (۲)مسروق بن اجدع ہمدانی (۳)عبیدہ بن عمرو سلیمان (۴)اسود بن یزید نخعی (۵) شریح بن حارث کندی (۶) ابراہیم بن یزید نخعی (۷) سعید بن جبیر (۸) عامر بن شراحیل شعی۔

فقہائے بصرہ
بصرہ کے مشہور فقہا کے اسما درج ذیل ہیں:۔
۔(۱) انس بن مالک (۲) ابو العالیہ رفیع بن مہران (۳) حسن بن ابوالحسن سیار (۴) ابوالشعثاء جابر بن زید (۵) محمد بن سیرین (۶)قتادہ بن دعامہ سدوسی۔

فقہ و فتاویٰ کی تدوین اور طریقۂ کار
فقہ و فتاویٰ کی تدوین ترتیب کا باضابطہ سلسلہ اموی دور سے شروع ہوا اور عہد عباسی کی ابتدا سے مختلف علوم و فنون کی طرف زیادہ توجہ ہوئی۔ چنانچہ اسی زمانہ میں فقہ کو فن کی حیثیت حاصل ہوئی۔

فقہ کا پہلا دور
اس کے نشو و نما اور ابتدا کا ہے، جس کا سلسلہ دس ہجری تک جاری رہا۔

دوسرا دور
اس کی وسعت کا ہے، جس کی مدت عہد صحابہ سے اکیاون ہجری تک رہی ہے۔
تیسرا دور
اس کی پختگی و کمال اور تدوین کا ہے، جو عہد صغار صحابہ کے دور سے دوسری صدی ہجری کے تقریباً نصف تک رہا۔ یہ وہ دور ہے جس کے بعد فقہ اسلامی کا دور تقلید شروع ہو جاتا ہے اور عہد نبوی سے بعد کی بنا پر لوگوں میں اسلاف جیسی فقاہت اور فقہ اسلامی میں درک و کمال باقی نہیں رہا، اس لیے عام طور پر لوگ ائمہ اربعہ کے فقہ و فتاویٰ کے پیروکار ہوگئے۔

تابعین میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ استنباط مسائل میں حد درجہ احتیاط سے کام لیتے ہیں آپ کے پاس علما و فقہا کی ایک جماعت جمع ہوتی۔ خود امام اعظم اس جماعت کے صدر کی حیثیت سے شریک مجلس رہتے کوئی مسئلہ پیش آتا تو سب مل کر بحث و مباحثہ اور غور و خوض کرتے۔ جب سب کسی ایک بات پر متفق ہو جاتے تو امام اعظم اپنے تلمیذ خاص امام ابو یوسف کو حکم دیتے کہ اس کو فلاں باب میں لکھ لو۔

اللہ عزوجل نے آپ کو ایسا لائق و فائق شاگرد عطا فرمایا کہ ان کی کوئی مثال نہیں اور انہوں نے فقہ و فتاویٰ کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچا دیا۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک ہے۔ خلفائے عباسیہ کے دور سے لے کر گذشتہ صدی کے اوائل تک بیشتر اسلامی ممالک میں فقہ حنفی قانونی شکل میں نافذ و رائج رہا۔

طبقات فقہا
فقہا کے سات طبقات ہیں:۔

۔(۱) مجتہدین فی الشرع
یہ وہ حضرات ہیں جو شرائط اجتہاد کا جامع ہونے کی وجہ سے تمام اجتہادی احکام کے استخراج کا ملکہ راسخہ رکھتے ہیں اور استنباط مسائل کے لیے قواعد و اصول وضع کرتے ہیں۔
یہ اصول و فروع کسی میں دوسرے کی تقلید نہیں کرتے۔ جیسے ائمہ اربعہ امام اعظم، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔

۔(۲) مجتہدین فی المذہب
یہ وہ مجتہدین فی المذہب ہیں جو اصول و قواعد میں مجتہدین فی الشرع کی تقلید کرتے ہیں اور فروعی مسائل میں اپنے استاذ کے مقرر کردہ قواعد کی روشنی میں احکام کا استخراج فرماتے ہیں۔ جیسے حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ تلامذہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

۔(۳) مجتہدین فی المسائل
یہ وہ حضرات ہیں جو اصول و فروع دونوں میں اپنے امام کے مقلد ہوتے ہیں اور اصول و فروع کسی میں اپنے کام کی مخالفت کی قدرت نہیں رکھتے اور وہ مسائل جن میں امام سے کوئی صریح روایت نہیں ان کا استنباط اپنے امام کے اصول موضوعہ اور مسائل مستخرجہ کی روشنی میں کرتے ہیں۔ جیسے امام ابوبکر احمد خفاف، امام ابو جعفر طحاوی، ابوالحسن کرخی، شمس الائمہ حلوائی، شمس الائمہ سرخسی، فخر الاسلام بزدوی، فخر الدین قاضی خاں وغیرہم۔

۔(۴) اصحاب تخریج
جو اجتہاد و استنباط کی اصلاً طاقت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ امام کی جانب سے غیر مصرح مسائل کو بھی اصول موضوعہ اور مسائل مستخرجہ سے معلوم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ البتہ امام کے قول مجمل کی تفصیل اور قول محتمل کی تعیین اپنی فہم ورائے سے کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ جیسے ابوبکر رازی جصاص اور ان کے ہم رتبہ فقہا۔

۔(۵) اصحاب ترجیح
یہ وہ حضرات ہیں جو فقاہت میں اصحاب تخریج سے بھی کم درجہ کے حامل ہیں۔ یہ حضرات اپنے امام کے منقول چند روایات میں سے بعض کو ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ یہ کہتے ہیں: ہذا اولیٰ، ہذا اصح روایۃ، ہذا اوضح، ہذا اوفق للقیاس، ہذا ارفق للناس۔ جیسے امام ابوالحسن قدروی، علامہ برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ اور ان کے ہم رتبہ فقہا۔

۔(۶) اصحاب تمیز
یہ وہ حضرات ہیں جو ظاہر الروایہ، ظاہر مذہب اور روایت نادرہ میں فرق و امتیاز کی قدرت رکھتے ہیں۔ یوں ہی قول ضعیف اور قول قوی اور اقویٰ میں امتیاز کر سکتے ہیں۔ جیسے اصحاب متون معتبرہ صاحب کنز عبداللہ بن احمد نفسی، صاحب مختار عبداللہ ابن محمود موصلی، اور صاحب وقایہ محمود بن احمد بن عبیداللہ بن ابراہیم محبوبی اور صاحب مجمع احمد بن علی بن ثعلب مظفر الدین۔ یہ حضرات اپنی کتابوں میں مردود اور ضعیف روایتیں ذکر نہیں کرتے۔

۔(۷) مقلدین محض
یہ وہ حضرات ہیں جو نہ اصول میں اجتہاد کی طاقت رکھتے ہیں نہ فروع میں، نہ استنباط مسائل کی طاقت رکھتے ہیں نہ استخراج مسائل کی، نہ ترجیح کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ تمیز کی۔ بلکہ ہر قسم کی روایتیں اور ہر طرح کے اقوال اپنی کتابوں میں جمع کر دیتے ہیں۔ (ماخوذ از شرع العقود للعلامۃ الشامی، ص۴۹ تا ۵۸)۔

طبقات مسائل
مسائل تین طرح کے ہیں:۔
۔(۱) مسائل اصول
اور انہی کو مسائل ظاہر الروایہ بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو اصحاب مذہب یعنی امام ابو حنیفہ ابو یوسف اور امام محمد رحہم اللہ اجمعین سے مروی ہیں اور کبھی کبھی ان مسائل پر بھی ظاہر الروایہ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے جو امام زفر اور امام حسن یا امام اعظم کے دوسرے تلامذہ سے مروی ہوں۔

لیکن عموماً ظاہر الروایہ انہیں مسائل کو کہتے ہیں جو ائمہ ثلاثہ یعنی امام اعظم اور صاحبین سے مروی ہوں۔ مسائل ظاہر الروایہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں مبسوط، زیادات، جامع صغیر، سیر صغیر، جامع کبیر، سیر کبیر میں درج ہیں اور صرف وہی مسائل ظاہرالروایہ کہلاتے ہیں۔

۔(۲) مسائل نوادر
وہ ہیں جو مذکورہ اصحاب سے مروی تو ہیں مگر وہ مسائل چھ کتابوں میں نہیں بلکہ امام محمد علیہ الرحمہ کی دوسری کتابوں مثلاً کسیانیات، ہارونیات، جرجانیات، رقیات وغیرہ میں مذکور ہیں یا پھر امام حسن بن زیاد کی کتاب مجرد میں یا امام ابو یوسف کی کتاب امالی وغیرہ میں مذکور ہیں۔
۔(۳) فتاویٰ اور واقعات
یہ وہ مسائل ہیں جنہیں متاخرین مجتہدین نے اس وقت استنباط کر کے نکالا جب ان سے ان مسائل کے بارے میں سوال ہوا اور انہیں متقدمین اہل مذہب مثلاً امام ابو یوسف اور امام محمد کے اصحاب اور ان کے اصحاب کے اصحاب سے اس مسئلہ میں کوئی روایت نہیں ملی۔

فتاویٰ کے سلسلہ میں سب سے پہلی کتاب جس کی جمع و تدوین ہوئی وہ فقہہ ابواللیث سمر قندی کی کتاب ’’النوازل‘‘ ہے پھر مشائخ نے اس کے بعد دوسری کتابیں بھی ترتیب دیں مثلاً ناطفی کی ’’مجموع النوازل والواقعات‘‘ اور شہید کی ’’الواقعات‘‘ وغیرہ۔

متاخرین نے ان مسائل کو مخلوط طور پر ذکر کر دیا اور یہ امتیاز برقرار نہ رکھا کہ ظاہر الروایہ، نادر الروایہ اور فتاویٰ ایک دوسرے سے الگ ہوں جیسا فتاویٰ قاضی خان اور ’’خلاصۃ‘‘ وغیرہ میں ہے البتہ بعض متاخرین نے ان مسائل کو ممتاز کر کے بیان کیا ہے جیسا کہ رضی الدین سرخی کی کتاب محیط کہ انہوں نے اولاً مسائل اصول ذکر کیے پھر مسائل نوادر پھر فتاویٰ۔

درجات کتب فقہ و فتاویٰ
کتب فقہ و فتاویٰ تین طرح کے ہیں:۔

۔(۱) متون: وہ کتابیں جو نقل مذہب کے لیے وضع کی گئی ہیں۔ متون کی معتبر کتابیں یہ ہیں: ہدایہ، مختصر القدوری، المختار، النقایہ، الوقایہ، الکنز، الملتقیٰ۔ یہ کتابیں نقل مذہب ہی کے لیے موضوع ہیں۔ یعنی ان میں ظاہر الروایہ ہی درج ہیں۔

۔(۲) شروح: وہ کتابیں ہیں جن میں متون کو ان کے تفصیلی دلائل کے ساتھ درج کیے گئے ہیں جیسے ہدایہ اور اس کے شروحات، شروح کنز، کافی نسفی، بدائع وغیرہ۔

۔(۳) فتاویٰ: جو نہ متون کی کتابیں ہیں نہ شروح کی بلکہ وہ کسی حادثہ کے موقع پر دئیے گئے فتاویٰ کا مجموعہ ہیں۔
ان میں متون شروح پر اور شروح فتاویٰ پر مقدم ہیں۔

فقہ و فتاویٰ میں امام احمد رضا کی مہارت
ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے زوال اور سامراجی طاقتوں کے تسلط کے بعد فقہ و فتاویٰ کا کام دینی مدارس اور ان سے متعلق علما انجام دیتے رہے۔

ماضی قریب میں فقہ و فتاویٰ کے سلسلہ میں مدراس کے علما و مفتیان کرام خصوصاً علامہ مفتی نقی علی خاں، علامہ فضل رسول بدایونی، علامہ عبدالقادر بدایونی، امام احمد رضا فاضل بریلوی، صدرالشریعہ علامہ امجد علی، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا بریلوی، مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا بریلوی، ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری وغیرہم نے عظیم خدمات انجام دیں

اور ان حضرات کے فقہ و فتاویٰ نے مسلمانان عالم برصغیر بلکہ عالم اسلام تک کو فائدہ پہنچایا۔ خصوصیت کے ساتھ امام احمد رضا قدس سرہٗ کے فتاویٰ عالمگیر شہرت کے حامل ہیں۔ گزشتہ دو صدی سے عالم اسلام میں ایسا کوئی فقیہ نظر نہیں آتا جو امام احمد رضا قدس سرہٗ کے فقہ و فتاویٰ کی نظیر بن سکے۔

فقہ و فتاویٰ میں امام احمد رضا کی خدمات
فقہ و فتاویٰ میں امام احمد رضا قدس سرہٗ کی خدمات اس قدر وسیع ہیں کہ ان کے صحیح تجزیہ کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ فتاویٰ رضویہ ہی کو لے لیجیے، یہ درحقیقت فقہ حنفی کے مطابق جاری کردہ ہزاروں فتاویٰ جات کا مجموعہ ہے اس علمی ذخیرہ کو فقہ حنفی کا انسائیکلو پیڈیا کہا جاتا ہے اس کا پورا نام ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ ہے۔ یہ غواص بحر فقہ کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے۔

جدید ترتیب کے حساب سے ۳۰ جلدیں ہیں اور یہ غالباً اردو زبان میں دنیا کے ضخیم ترین فتاویٰ ہیں جو تقریباً بائیس ہزار صفحات پر، چھ ہزار آٹھ سو سینتالیس سوالات کے جوابات اور دو سو چھ رسائل پر مشتمل ہیں۔ جبکہ ہزارہا مسائل ضمناً زیر بحث آئی ہیں ہر فتاویٰ میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ قرآن و حدیث و فقہ و اصول فقہ، منطق و کلام میں آپ کی وسعت نظری کا اندازہ آپ کے فتاویٰ کے مطالعہ سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

حاشیہ جدالممتار، جو علامہ ابن عابدین شامی کی کتاب رد المحتار پر ہے یہ بھی امام احمد رضا قدس سرہٗ کا ایک عظیم علمی شاہکار ہے۔

امام احمد رضا کی فقہی بصیرت اور علمی جولانیت اور فنی مہارت کا اعتراف اپنوں کے ساتھ غیروں نے بھی کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے وقت میں فقہ و فتاویٰ کے امام اور مرجع خواص و عوام تھے، محمد ادریس کاندھلوی امین اصلاحی کے شاگرد اور ابو العلیٰ مودودی کے معتمد ہفت روزہ شہاب لاہور کے چیف ایڈیٹر نے امام احمد رضا کانفرنس اسلام آباد منعقدہ ۱۹۳۶ء؁ میں کہا تھا:۔

’’قرطاس و قلم سے میرا تعلق دو چار سال کی ہی بات نہیں نصف صدی کی بات ہے اس دوران میں وقت کے بڑے بڑے اہل علم و قلم علما و مشائخ کی صحبت میں بیٹھ کر استفادہ کرنے کا موقع ملا اور ان کے درس میں شریک رہا اور اپنی بساط کے مطابق فیض حاصل کرتا رہا زندگی میں میں نے اتنی روٹیاں نہیں کھائی ہوں گی جتنی کتابیں پڑھیں ہیں

میری ذاتی لائبریری میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں وہ سب مطالعہ سے گزری ہیں ان کے مطالعہ کے دوران میں امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی کتب نظر سے نہیں گزری تھی اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ علم کا خزانہ پا لیا ہے اور علم کا سمندر پار کر لیا اور علم کی ہر جہت تک رسائی حاصل کر لی مگر جب امام اہل سنّت (مولانا احمد رضا بریلوی) کی کتابیں مطالعہ کیں اور ان کے علم کے دروازہ پر دستک دی اور فیض یاب ہوا تو اپنے جہل کا احساس اور اعتراف ہوا یوں لگا کہ ابھی تو علم کے سمندر کے کنارے کھڑا سیپیاں چن رہا تھا۔

علم کا سمندر تو امام کی ذات ہے امام (احمد رضا بریلوی) کی تصانیف کا جتنا مطالعہ کرتا جاتا ہوں عقل اتنی ہی حیران ہوتی چلی جاتی اور یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ امام احمد رضا حضور نبی کریم ﷺ کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اتنا وسیع علم دے کر دنیا میں بھیجا ہے کہ علم کی کوئی جہت ایسی نہیں جس پر امام کو دسترس حاصل نہ ہو اور اس پر کوئی تصنیف نہ کی ہو۔

یقینا آپ سرکار دو عالم ﷺ کے علوم کے صحیح جانشین تھے جس سے ایک عالم فیض یاب ہوا۔‘  (مجلہ امام احمد رضا کانفرنس ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی، ص۴۹، ۱۴۱۵ھ؁؍ ۱۹۴۴ء؁)

برصغیر کے ممتاز حنفی مذہبی اسکالر اور مؤرخ مولانا کوثر نیازی امام احمد رضا قدس سرہٗ کو امام ابوحنیفہ ثانی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’فقہ حنفی میں دو کتابیں مستند ترین ہیں ان میں سے ایک فتاویٰ عالمگیریہ ہے جو دراصل چالیس علما کی مشترکہ خدمت ہے جنہوں نے فقہ حنفی کا ایک جامع مجموعہ ترتیب دیا دوسرا ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ہے جس کی انفرادیت یہ ہے کہ جو کام چالیس علما نے مل کر انجام دیا وہ اس مرد مجاہد نے تن تنہا کر کے دکھایا

اور یہ مجموعہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ فتاویٰ عالمگیریہ سے زیادہ جامع ہے اور میںنے آپ کو امام ابو حنیفہ ثانی کہا ہے تو وہ صرف محبت یا عقیدت میں نہیں بلکہ فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ اس دور کے امام ابوحنیفہ ہیں۔‘‘ (امام احمد رضا کانفرنس ۱۹۹۳ء؁ منعقد اسلام آباد میں خطاب)۔

امام احمد رضا قدس سرہٗ کی شخصیت عالم اسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، فقہ حنفی اور عالم اسلام کے لیے ان کی علمی خدمات آسمان علم و فن کی فضائوں میں بادل بن کر چھائی ہوئی ہیں۔ امام ممدوح نے اپنی پوری زندگی عقائد اسلام اور ناموس رسالت کی پہرہ داری میں گذاری۔

ان کا قلم تمام اعتقادی فتنوں کا تعاقب کرتا رہا۔ اسلام کی عزت و حرمت کے مقابل وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے ان کے لاگ فتاویٰ اور علمی تنقید و گرفت ان کی غیرت ایمانی اور عشق رسول ﷺ کا مظہر ہے جس کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا ہے۔

قادیانیت موجودہ صدی میں اسلام کے خلاف سب سے زیادہ خوفناک سازش ہے جو مسلمان کے لیے کینسر کی طرح مہلک ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہٗ نے اس فتنہ کے خلاف علمی و قلمی جہاد کیا۔ آپ کے فتاویٰ نہ صرف قادیانیت بلکہ مرزائیت نوازوں، وہابیہ، دیابنہ کے خلاف بھی شمشیر بے نیام ثابت ہوئے۔

فتنہ قادیانیت کی بیخ کنی میں آپ کے دیگر فتاویٰ کے علاوہ درجہ ذیل رسائل نے اہم کردار ادا کیا (۱)السوء العقاب علی المسیح الکذاب ۱۳۲۰ھ؁ (۲)قہر الدیان علی مرتد قادیان ۱۳۲۳ھ؁ (۳) الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی ۱۳۴۰ھ؁ (۴) المبین ختم النبیین ۱۳۲۶ھ؁۔
سچے خدا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے والوں کے رد میں رسالہ ’’سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح‘‘ تحریر فرمایا جس نے مخالفین کے دم توڑ دئیے اور قلم نچوڑ دئیے۔

رسالہ ’’نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان‘‘ میںآپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے اور سائنس دانوں کے اس نظریہ کا کہ زمین گردش کرتی ہے رد بلیغ فرمایا۔ ان کے علاوہ درج ذیل کتب و رسائل بھی اہم ہیں:
(۱) الدولۃ المکیہ (۲) المستند المعتمد (۳)تجلی الیقین (۴)الکوکبۃ الشہابیہ (۵)سل السیوف الہندیہ (۶) حیات الاموات وغیرہ۔

سطور بالا سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ امام احمد رضا قدس سرہٗ کی فقہی خدمات کا زمانہ شاہد ہے اور آپ کے فقہ و فتاویٰ میں غیر معمولی مہارت کا اعتراف اپنے اور غیروں نے بیک زبان کیا ہے اب ہم باب عبادات سے کچھ منتخب فتاویٰ ذیل میں بیان کریں گے جن سے امام ممدوح کی
اس فن میں غیر معمولی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔

حوض اور تالاب کے لیے پانی کی قلت و کثرت میں اقوال مختلفہ

بڑا حوض اور تالاب جس کا پانی مثل ماء جاری ہے کہ نجاست کے گرنے سے نجس نہ ہو اس میں کتنا عمق (گہرائی) چاہیے۔ اس تعلق سے جب امام احمد رضا قدس سرہٗ کی خدمت میں سوال آیا تو آپ نے مبسوط اور مدلل جواب کے تحت اس سلسلہ میں کل گیارہ اقوال بیان فرمائے: (۱) صرف اتنا ضروری ہے کہ مساحت دہ دردہ میں زمین کہیں کھلی نہ ہو۔ (۲)بڑا درہم کہ چار ماشے ہوتا ہے اس کے عرض سے کچھ زیادہ گہرا ہو

۔(۳)پانی ہاتھ سے اٹھائیں تو زمین نہ کھل جائے (۴) پانی لینے میں ہاتھ زمین کو نہ لگے (۵) پانی ٹخنوں تک ہو (۶) چار انگلی کشادہ ہو (۷) ایک بالشت پانی ہو (۸) ایک ہاتھ پانی ہو (۹) نو ہاتھ پانی ہو (۱۰) سفید سکہ اس میں ڈال کر کھڑے ہوکر دیکھے تو روپیہ نظر نہ آئے (۱۱) اپنی طرف سے کوئی تعیین نہیں ناظر کی رائے پر موقوف ہے۔
ان گیارہ اقوال میں صرف قول اول اور قول سوم ہی مصحح ہیں، باقی نہیں۔ پہلا قول ظاہر الروایہ ہے جس کی تصحیح امام زیلعی نے فرمائی ہے اور قول سوم کی ترجیح عامہ کتب میں مذکور ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہٗ راقم ہیں:۔

ان میں صرف دو قول مصحح ہیں اول و سوم بس، قول اول کی تصحیح امام زیلعی نے فرمائی قول سوم کی ترجیح عامہ کتب میں ہے: (۱) وقایہ (۲)نقایہ (۳)اصلاح (۴)غرر و ملتقی (۵)متون (۶) وجیز کردری وغیرہا میں اسی پر جزم فرمایا امام اجل (۷) قاضی خان نے اسی کو مقدم رکھا اور امام اعظم سے امام ابویوسف کی روایت بتایا (۸) ہدایہ (۹) درر (۱۰) مجمع الانہر (۱۱) مکسین (۱۲)مراقی الفلاح (۱۳) ہندیہ میں اسی کو صحیح اور (۱۴) ذخیرۃ العقبیٰ میں اصح اور (۱۵) غیاثیہ (۱۶) غنیّۃ (۱۷) خزانۃ المفیتین میں مختار کہا (۱۸) معراج الدرایہ (۱۹) فتاویٰ ظہیریہ (۲۰) فتاویٰ خلاصہ (۲۱) جوہرہ نیرہ (۲۲) شلبیہ وغیرہا میں علیہ الفتویٰ فرمایا اور ملخصاً۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۱، ص۳۷۵،۳۷۶)

پھر اس قول کے مطابق کہ ہاتھ سے پانی لینے میں زمین نہ کھل جائے ایک ہاتھ سے پانی لینا مراد ہے یا دونوں ہاتھ سے اس سلسلہ میں کلام علما تین طرح کے ہیں: (۱) مطلقاً اغتراف یعنی ہاتھ سے پانی لینا خواہ ایک ہاتھ سے پانی ہو یا دونوں ہاتھ سے اس میں دونوں شامل ہیں (۲) ایک ہاتھ سے پانی لینا مراد ہے (۳) دونوں ہاتھ سے پانی لینا مراد ہے۔

امام اہل سنّت امام احمد رضا قدس سرہٗ نے اس پر فقہی بحث فرماتے ہوئے دونوں ہاتھ سے پانی لینے والے قول کی ترجیح بیان فرمائی۔ اور درج ذیل وجوہ ترجیح ارشاد فرمائے:۔

’’تو راجح یہی ہے کہ دونوں ہاتھ سے پانی لینا مراد ہے اولاً یہی متون کا مفاد (ثانیاً) یہی عامہ کتب سے مستفاد (ثالثاً) کتب متعددہ میں کسی پر تنصیص اور کف واحد پر کوئی نص نہیں (رابعاً) کف سے کفین مراد لے سکتے ہیں نہ کہ بالعکس تو اس میں توفیق ہے اور وہ نصب خلاف سے اولیٰ (خامساً) زمین نہ کھلنے سے مقصود یہ ہے کہ مساحت برقرار رہے ورنہ دو پانی جدا ہو جائیں گے

اور اس کی ضرورت وضوء اور غسل دونوں کے لیے ہے بلکہ غسل کے لیے زائد اور شک نہیں کہ حوض یا تالاب میں نہاتے ہوئے پانی لپوں سے لیتے ہیں نہ چلوئوں سے تو ضرور ہوا کہ دونوں ہی ہاتھ سے لینا مراد ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالحق والسداد الخ ملخصاً۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۱ ص۳۷۷،۳۷۸)

پھر آخر میں امام احمد رضا قدس سرہٗ نے اپنی خدا داد فقاہت کی بناء پر فرمایا کہ ان دونوں اقوال میں اختلاف ظاہراً ہے ورنہ حقیقت میں دونوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ ظاہر الروایہ میں پانی کا اتصال ضروری ہے کہ کہیں سے زمین کھلی نہ ہو ورنہ اتصال نہ رہے گا اور پانی کا اس کثرت سے ہونا کہ زمین کھلی نہ رہ جائے یہ وقت استعمال ضروری ہے نہ کہ پہلے اور وہ اغتراف ہی سے ظاہر ہوگا۔

چناں چہ آپ رقم طراز ہیں: ’’یہ سب تنقید و تنقیح و تصحیح و ترجیح اس ظاہر خلاف پر تھی جو عبارت کتب سے مفہوم اور بعونہ عز جلالہ و عم نوالہ قلب فقیر پر القا ہوتا ہے کہ ان اقوال میں اصلا خلاف نہیں قول اول کی نسبت ہم بیان کر آئے کہ وہی ظاہر الروایۃ اور وہی اقوی من حیث الدرایۃ ہے

اور مذیل بطراز تصحیح بھی اور ظاہر الروایہ اوجہ و مصحح سے عدول کی کوئی وجہ نہیں قول دیگر کہ عامۂ کتب میں مختار و مرجح و مفتیٰ بہ ہے اسی ظاہر الروایہ پر متفرع اور اسی کے حکم کے تحفظ کو ہے وقت اغتراف حفظ کثرت کے لیے یہ شرط لگائی کہ اغتراف آب کثیر سے ہو اس وقت بھی ظاہر الروایہ کا ارشاد ’’یا خذا الماء وجہ الارض‘‘ صادق ہو کہ زمین کہیں سے کھلی نہ ہو تو یہ عمق شرط کثرت نہیں بلکہ وقت اغتراف شرط بقائے کثرت الخ مخلصاً۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۱ ص۳۷۸)

جاری 

قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک کریں

از قلم : مفتی قاضی فضل احمد مصباحی

مفتی ضیاء العلوم بنارس و قاضی شرع ضلع کٹیہار 

ان مضامین کو بھی پڑھیں اوراپنے احباب کو شئیر کریں

اعلیٰ حضرت بحیثیت سائنس دان

اعلی حضرت مسلم سائنس دان

  امام احمد رضا اور حفاظت اعمال

اعلیٰ حضرت اور خدمت خلق

اجمیر معلیٰ میں اعلیٰ حضرت

 تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اغیار کی نظروں میں

اعلیٰ حضرت کا لطف سخن

امام احمد رضا اور اصلاح معاشرہ

جس سمت آگیے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں

تذکرۂ اعلیٰ حضرت قدس سرہ

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن