از قلم : ساجد علی مصباحی امام احمدرضا اور اتباع شریعت
امام احمدرضا اور اتباع شریعت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم
صرف اربابِ نظر ہی کے وہ رہبر تو نہیں
مرجع ا ہل طریقت بھی ہیں اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ کی حیات مبارکہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہی یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہےکہ آپ نے پوری زندگی شریعت پر سختی سے عمل کیا ، ہرفرض وواجب کی محافظت اور اتباع سنت وشریعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونے دیا جس کے نتیجے میں آپ کا قلب مبارک ایسا پاکیزہ اور مزکّیٰ ومصفیٰ ہوچکاتھا کہ نور معرفت کی تابندگی اوائل زندگی ہی میں نظر آنے لگی تھی۔بائیس سال کی عمر میں جب آپ تاج الفحول حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی (متوفیٰ:1319ھ/1901ء)اور اپنے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خان بریلوی کے ہمراہ1294ھ/1877ء میں مارہرہ مطہرہ پہنچے توخاتم الاکابر حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قادری برکاتی نے بیعت کے ساتھ ہی آپ کو اجازت و خلافت سے بھی سرفراز فرمادیا جب کہ دوسرے مریدین ومعتقدین کوکافی ریاضت ومجاہدہ اور تطہیر وتزکیہ کے بعد اگر قسمت یاوری کرتی تو یہ سعادت میسر آتی تھی
خلافِ معمول یہ دل کش منظر دیکھ کر سید شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی نے عرض کیا : حضور ! آپ نےانھیں بلا ریاضت ومجاہدہ خلافت عطافرمادی ، اس کی کیا وجہ ہے ؟حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قادری مارہروی نے ارشاد فرمایا:،
” اور لوگ میلاکچیلا ، زنگ آلود دل لے کر آتے ہیں جس کے تزکیہ کے لیے ریاضت ومجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے،یہ مصفیٰ ومزکیٰ قلب لے کر آئے ہیں ، انھیں ریاضت ومجاہدہ کی کیا ضرورت تھی ؟صرف اتصال نسبت کی ضرورت تھی جو بیعت کے ساتھ ہی حاصل ہوگیا۔
مزید فرمایا: مجھے بڑی فکر تھی کہ بروز محشر اگر احکم الحاکمین نےسوال فرمایاکہ آل رسول تو میرے لیے کیا لایا ہے؟تو میں کیا پیش کروں گا ؟مگر اللہ کا شکر ہے کہ آج وہ فکر دور ہوگئی ، اس وقت میں احمد رضا کو پیش کردوں گا“۔(امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں ،ص:۳۵،دارالقلم، ذاکر نگر ، نئی دہلی،بحوالۂ ترجمان اہل سنت ،پیلی بھیت)
حضرت مولانا حسنین رضا خاں بریلوی، اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا قدس سرہ ٗکے بچپن کا ایک واقعہ اس طرح قلم بند کرتے ہیں:۔
”اعلیٰ حضرت کی روزہ کشائی بڑی دھوم دھام سے ہوئی ،سارے خاندان اور حلقۂ احباب کو مدعو کیا گیا، کھانے دانے پکے ، افطاریاں بنیں،اس میں فیرنی بھی تھی جس کے پیالے ایک کمرے میں جمانے کے لیے رکھے تھے ،رمضان المبارک گرمی میں تھا اور اعلیٰ حضرت خورد سال تھے
مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا،ٹھیک دوپہر میں چہرۂ مبارک پر ہوائیاں اڑنے لگیں،آپ کے والد ماجد نے دیکھا تو اس کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کرکے اعلیٰ حضرت کو فیرنی کا ایک ٹھنڈا پیالہ اٹھاکر دیا اور فرمایا کہ کھالو۔
آپ نے فرمایا: میرا تو روزہ ہے۔انھوں نے فرمایا کہ بچوں کے روزے یوں ہی ہواکرتے ہیں،کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتاہے ، نہ دیکھ سکتاہے ،تو اعلیٰ حضرت نےعرض کیا : جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہاہے،اس پر باپ آب دیدہ ہوگئے اور خدا کا شکر اداکیاکہ خداکے عہد کویہ بچہ کبھی فراموش نہ کرے گا ،جس کو بھوک پیاس کی شدت میں ،کمزوری اور کم سنی میں ،ہرفرض کی فرضیت سے پہلے وفاے عہد کی فرضیت کا اتنا لحاظ وپاس ہے“۔(سیرت اعلیٰ حضرت،مصنفہ مولانا حسنین رضا خان بریلوی،ص:۸۷،مکتبہ قاسمیہ برکاتیہ ،حیدرآباد)
تحریر: ساجد علی مصباحی
جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور
ان مضامین کو بھی پڑھیں اوراپنے احباب کو شئیر کریں
تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اغیار کی نظروں میں
امام احمد رضا اور اصلاح معاشرہ
جس سمت آگیے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
جی