تحریر: محمد دانش رضا منظری پورن پور حضور ﷺ ہر عالم کی رحمت ہیں
حضور ﷺ ہر عالم کی رحمت ہیں
وہ ہر عالم کی رحمت ہیں کسی عالم میں رہ جاتے
یہ ان کی مہربانی ہے کہ یہ عالم پسند آیا
اللہ رب العزت کی تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور رحمت نبی کریم ﷺ ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مفہوم) اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے (پ، 17، سورۂ انبیاء:107)
یہ آیتِ مبارکہ تاجدارِ رسالت ﷺ کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیّد المرسَلین ﷺ مخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چناں چہ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب حضور انور ﷺ عالَمین کے لیے رحمت ہیں تو واجب ہو اکہ وہ ( اللہ تعالیٰ کے سوا) تمام سے افضل ہوں(صراط الجنان،سورۂ انبیاء:107)۔
حضور اکرمﷺ نبیوں ، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کے لیے رحمت ہیں، دین و دنیا میں رحمت ہیں، جِنّات اور انسانوں کے لیے رحمت ہیں، مومن و کافر کے لیے رحمت ہیں، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لیے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں، سیّدُ المرسَلینﷺ ان سب کے لیے رحمت ہیں ۔
صدر الافاضل حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ تحریر کرتے ہیں، کوئی ہو جن یا انس، مومن ہو یا کافر، حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ حضور کا رحمت ہونا عام ہے ایمان والے کے لیے بھی اور اس کے لیے بھی جو ایمان نہ لایا ہو۔ مومن کے لیے تو آپ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لیے آپ دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت تاخیر عذاب ہوئی اور خسف و مسخ اور استیصال کے عذاب اٹھا دیئے گیے۔ تفسیر روح البیان میں اس آیت کی (سورۃالانبیاء: 107)۔
تفسیر میں اکابر کا قول نقل کیا ہے کہ آیت ( 107) کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمت مطلقہ، تامہ، کاملہ، عامہ، شاملہ، جامعہ، محیطہ، بہ جمیع مقیدات، رحمت غیبیہ و شہادت علمیہ، و عینیہ وجودیہ و شہودیہ و سابقہ لاحقہ وغیر ذالک، تمام جہانوں کے لیے عالم ارواح ہوں یا عالم اجسام، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول اور جو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہوں۔ (حاشیہ بر کنزالایمان، ص 479) امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی ہمارے آقاﷺ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
ذات ہوئی اِنتِخاب وَصف ہوئے لاجواب
نام ہوا مُصطَفیٰ تم پہ کروروں درود
علامہ سید محمود آلوسی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں: اس آیت (سورۃالانبیاء:107) کا معنی یہ ہے کہ ہم نے آپ کو صرف اس سبب سے بھیجا کہ آپ تمام جہانوں پر رحم کریں یا ہم نے آپ کو صرف اس حال میں بھیجا کہ آپ تمام جہانوں پر رحم کرنے والے ہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ تمام جہانوں میں کفار بھی شامل ہیں کیوں کہ آپ کو جو دین دے کر بھیجا ہے اس میں دنیا و آخرت کی سعادت اور مصلحت ہے۔
یہ اور بات ہے کہ کافروں میں آپ سے استفادہ کی صلاحیت نہ تھی تو انہوں نے اپنے حصہ کی رحمت کو ضائع کردیا، جیسے کوئی پیاسا شخص دریا کے کنارے کھڑا ہوا اور پانی کی جانب ہاتھ نہ بڑھائے یا کوئی شخص دھوپ میں آنکھیں بند کرکے کھڑا ہو تو اس سے دریا کی فیاضی اور سورج کے روشنی پہنچانے میں کوئی قصور نہیں ہے۔قصور ان کا ہے جنہوں نے پانی کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا یا روشنی کے باوجود آنکھیں بند کر رکھیں تھیں۔ (تبیان القرآن، ج 7، ص683تا684)
حضور پُر نور ﷺ دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دنیا میں آپ ﷺ پر ایمان لائے گا اور آپ کی اطاعت و پیروی کرے گا اسے دونوں جہاں میں آپ کی رحمت سے حصہ ملے گا اور وہ دنیاوآخرت میں کام یابی حاصل کرے گا اور جو آپ پر ایمان نہ لایا تو وہ دنیا میں آپ کی رحمت کے صدقے عذاب سے بچ جائے گا لیکن آخرت میں آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہ پا سکے گا۔
امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں: نبی ﷺ دین میں بھی رحمت ہیں اور دنیا میں بھی رحمت ہیں۔ دین میں اس لیے رحمت ہیں کہ جس وقت آپ کو بھیجا گیا لوگ جہالت اور گمراہی میں تھے،اور اہل کتاب میں سے یہود و نصاریٰ اپنے دین کے معاملہ میں زحمت میں تھے
ان کا اپنی کتابوں میں بہت اختلاف تھا، اللّٰہ تعالیٰ نے اس وقت ہمارے نبی ﷺ کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا جب طالب حق کے سامنے نجات کا کوئی راستہ نہ تھا، اس وقت آپ نے لوگوں کو حق کی دعوت دی اور نجات کا راستہ دکھایا اور ان کے لیے احکام شرعیہ بیان کیے اور حلال و حرام میں تمیز دی (تبیان القرآن، ج7، ص683) امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی ہمارے آقاﷺ کی مدحت میں فرماتے ہیں:۔
تم سے جہاں کی حیات تم سے جہاں کا ثَبات
اصل سے ہے ظِلّ بندھاتم پہ کروروں درود
حضور ﷺ کی حیات مبارکہ بھی رحمت ہے ایسے ہی آپ کا دنیا سے پردہ بدلنا بھی رحمت ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: میری حیات و ممات دونوں تمہارے لئے رحمت ہیں،صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم نے عرض کی ہم نے مانا کہ آپ کی حیات مبارکہ ہمارے لیے رحمت ہے
لیکن ممات رحمت کیسے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر پیر و خمیس (جمعرات) کی شام کو تمہارے اعمال میری خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تمہاری نیکیوں سے میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں تمہاری برائیوں سے تمہارے لیے مغفرت کرتا ہوں۔ ( تفسیر روح البیان مترجم بنام فیوض الرحمٰن از علامہ فیض احمد اویسی ، ص 1076، پارہ 17) سرکار اعلیٰ حضرت ہمارے آقا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:۔
گرچہ ہیں بے حد قصور تم ہو عَفُوّ و غَفور
بخش دو جُرم و خطا تم پہ کروروں درود
حضور اقدس ﷺ رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پربالخصوص کمال مہربان ہیں، رؤف رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں، جیسا کہ قرآن عظیم قائل ہے: (مفہوم) بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسولﷺ جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان- (ترجمہ کنزالایمان، سورۂ توبہ:128)۔
امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی ہمارے آقاﷺ کی بارگاہ عالیہ عرض مدعا کرتے ہیں:۔
تم ہو جَواد و کریم تم ہو رَؤف و رَحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروروں درود
شفقت مہربانی کو کہتے ہیں اور حضور ﷺ شفیق یعنی مہربانی فرمانے والے ہیں۔ اشفاق کے لغوی معنیٰ ڈرانے کے ہیں اور شفقت میں بھی یہ معنیٰ پائے جاتے ہیں۔کیوں کہ مشفق اس بات سے ڈرتا ہے کہ اسے کوئی گزند یا ضرر نہ پہنچے۔ لہٰذا حضور ﷺ کی تعریف حرص سے فرمائی گئی کہ آپ اصلاح و درستگی کی نصیحت فرمانے والے ہیں۔ نصوح درافت اشد رحمت ہے۔ صراح میں ہے رحمت کے معنی بخشش کرنا اور مہربانی کرنا ہے اور رافت کے معنی بہت زیادہ بخشنا اور مہربان ہونا ہے (مدارج النبوہ مترجم، ج 1، ص79)۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ (سورۂ انبیاء آیت 107)کے لفظ عالم کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، عالم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں۔
تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیاے کاملین وعلماے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں،دین ودنیا میں،روح وجسم میں،چھوٹی یا بڑی،بہت یا تھوڑی، جو نعمت و دولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔(فتاوی رضویہ، رسالہ:تجلی الیقین) امام احمد رضا خان حضورﷺ کی شان میں فرماتے ہیں ۔
لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو مِلا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
تاویلات نجمیہ میں سورۂ مریم تحت آیت(سورۂ مریم 21) ورحمة منا کے بارے میں ہے کہ یہ آیت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہے اور سورۃ الانبیاء کی (107) ہمارے حضور ﷺ کے لیے ہے۔ ان دونوں رحمتوں کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے اس لیے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی رحمت کو من کے ساتھ مقید کیا گیا ہے اور وہ تبعیضیہ ہے اسی لیے ان کی رحمت صرف ان کے متبعین اور ان کے بعد والے لوگوں کے لیے ہے
جب تک حضور ﷺ مبعوث نہیں ہوئے پھر ان کی رحمت ان کی امت کے لئے منقطع ہوگئی اس لیے کہ حضور ﷺ کی تشریف آوری سے ان کی شریعت منسوخ ہوگئی اور حضور ﷺ کی رحمت جملہ عالم کے ذرہ ذرہ کے لیے ہے اور اس کے انقطاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کے آپ کی شریعت کو کوئی منسوخ کرنے والا نہیں اسی لئے آپ کا مطلقاً رحمۃ للعالمین ہونا ثابت ہوا۔
دنیا میں رحمت ہونے کا مطلب ظاہر ہے کہ آپ کا دین غیر منسوخ ہے اور آخرت میں بایں معنی کہ آپ کی شفاعت کا ہر بندہ محتاج ہوگا یہاں تک کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام بھی آپ کی رحمت کے طالب ہوں گے۔( تفسیر روح البیان مترجم بنام فیوض الرحمٰن ، ص 1073تا1074، پارہ 17)امام اہلسنت امام احمد رضا خان ہمارے آقا و مولیٰ کی مدحت میں یوں رقم طراز ہیں:۔
وہ جہنم میں گیا جو ان سے مستغنی ہوا
ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول ﷺ نے جہاد کے سوا کبھی کسی کو نہیں مارا نہ کبھی کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا اور نہ کبھی کسی خادم کو مارا۔ (بخاری شریف: 2328) ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ سے عرض کیا گیا! مشرکین کے خلاف دعا کیجئے آپ نے فرمایا مجھے لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا۔(مسلم شریف: 2599)۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن ایک درخت یا کجھور کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے،انصار کی کسی عورت یا مرد نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم آپ کے لئے منبر نہ بنا دیں؟۔
آپ نے فرمایا اگر تم چاہو انہوں نے منبر بنادیا جب جمعہ کا دن آیا تو آپ منبر کی طرف گئے تو وہ کھجور کا تنا بچے کی طرح زور زور سے رونے لگا۔ نبیﷺ نے منبر سے اتر کر اس کو اپنے ساتھ لپٹایا تو وہ سسکیاں لینے لگا پھر پرسکون ہوگیا۔ (بخاری شریف:3584) ۔
حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ہمارا ایک درخت کے پاس سے گزر ہوا، اس میں سرخ پرندہ کے دو چوزے تھے، ہم نے وہ اٹھا لیے وہ سرخ پرندہ آکر نبی ﷺ سے عرض کرنے لگا، آپ نے فرمایا: ان کو واپس رکھ دو، تو ہم نے ان کو واپس رکھ دیا (سنن ابوداؤد:2675) امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی ہمارے آقاﷺ کے تعریف و توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
بے ہنر و بے تمیز کس کو ہوئے ہیں عزیز
ایک تمہارے سوا تم پہ کروروں درود
جب اللّٰہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ مخلوق کو ظاہر فرمائے تو سب سے پہلے حضرۃ الٰہیہ کے مخفی خزانہ سے حقیقت احمدیہ کو ظاہر فرمایا اور آپ کو امکان کے میم سے ممتاز رکھا اسی لیے آپ کو رحمۃ للعالمین کے مرتبہ سے نوازا اور آپ کی ذات پاک کی وجہ سے نوع انسانی کو شرف نصیب ہوا، آپ کے نور سے ہی جملہ ارواح کے چشمے پھوٹے، اس کے بعد جملہ عالم کی نمود اسی نور محمدی سے ہوئی۔
جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا: میں اللّٰہ سے ہوں اور جملہ مومن میرے نور کے فیض سے ہیں۔ خلاصۂ یہ کہ مبادئی کائنات اصلی غرض و غایت حضور اکرم ﷺ کی ذات پاک ہے۔ جیسا کہ اللہﷻ نے فرمایا: اگر آپ نہ ہوتے تو میں افلاک پیدا نہ کرتا۔(تفسیر فیوض الرحمٰن،پارہ 17، ص 1075) امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔
وہ جونہ تھےتوکچھ نہ تھاوہ جو نہ ہوں توکچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
زمین و زماں تمہارے لیے مَکِین و مکاں تمہارے لیے
چُنین و چُناں تمہارے لیے بنے دو جہاں تمہارے لیے
تحریر: محمد دانش رضا منظری پورن پور پیلی بھیت، یوپی۔
استاذ: جامعہ احسن البرکات للولی، فتح پور ،یوپی۔
رابطہ: نمبر 8887506175
ان مضامین کو بھی پڑھیں
رسول کریم ﷺ کی آمد اور محفل میلاد کی برکتیں
عید میلاد النبی ﷺ دلائل کی روشنی میں
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی شاعری میں میلاد مصطفیٰ
جشن عید میلاد النبی ﷺ کے انوار اور دلائل و برکات
امام احمد رضا قدس سرہ اور فقہ و فتاویٰ