Monday, September 9, 2024
Homeشخصیاتملِکُ العلما بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں

ملِکُ العلما بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں

ملِکُ العلما بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں

تحریر: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی – رام گڑھ

[ ڈائریکٹر: مجلس علماے جھارکھنڈ ]

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ علیہ کے فیض یافتہ، ان کے شاگرد و خلیفہ، ملِکُ العلماء حضرت علامہ محمدظفر الدین بہاری علیہ رحمہ – ١٠/محرم الحرام١٣٠٣ھ کو صوبۂ بہار ضلع پٹنہ[ موجودہ نالندہ ] میں پیدا ہوئے ۔ ظفرالدین نام اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کی بارگاہ سے ملا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ [حیاتِ ملک العلماء،ص:٩]

ملک العلما حضرت علامہ محمد ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ کا مقام و مرتبہ کیا تھا اس حوالے سے
خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ فرماتے ہیں

میرے ظفر کو اپنی ظفر دے

اس شکستیں کھاتے یہ ہیں

ملک العلما اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں محدث سورتی علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے علم حدیث پڑھنے کے بعد ملک العلما، اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں آئے. چوں کہ اس وقت اعلیٰ حضرت کے علم کا شہرا دور دور تک پھیلا ہوا تھا. چنانچہ ملک العماء اپنے ہم وطن مولانا سید عبدالستار عظیم آبادی کے ہمراہ اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔

اعلیٰ حضرت نے ملک العلما کے ذوق تحصیل علم کی سرگرمی کو دیکھ کر “منظر اسلام” کی بنیاد ڈالی اور اس کا افتتاح آپ ہی دونوں طالب علم سے ہوا ۔یہاں رہ کر آپ نے اعلیٰ حضرت سے علم حدیث ،فقہ اور علم تصوف میں مہارت حاصل کی۔
فتوی نویسی کے آداب سیکھے اور علم ہئیت،تکثیر ،توقیف اور ریاضی جیسے نادر و نایاب فنون میں کمال حاصل کیا

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے علومِ نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل ہوئی۔ اور آپ اپنی پوری زندگی دین متین کی خدمت اور فکر رضا کی ترجمانی میں گزار دی

منظر اسلام سے فراغت کے بعد اعلیٰ حضرت کے حکم سے آپ نے منظر اسلام ہی سے درس و تدریس کا آغاز فرمایا ۔تقریباً چار سال تک خدمت انجام دی، اعلیٰ حضرت کی ہدایت پر فتویٰ نویسی کی خدمات بھی انجام دیتے رہے. چار سال کے بعد آپ لاہور تشریف لے گئے
١٣٢٩ھ میں معززین شملہ کے اصرار پر اعلیٰ حضرت نے آپ کو خطیب و مفتی کی حیثیت سے شملہ بھیجا ۔

 

شب قدر عنایات الٰہی کی مقدس رات

بیعت و خلافت:

ملک العلما کو یہ اعجاز حاصل ہے کہ انہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے معتمد اور خاص الخاص شاگرد و خلیفہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے
محرم الحرام ۱۳۲۱ھ میں اعلیٰ حضرت سے مرید ہوئے اور تمام سلاسل میں اجازت و خلافت بھی ملی۔

القابات:

ملک العلما جب اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں پہنچے تو اعلیٰ حضرت نے آپ کو” ملک العلما “اور” فاضل بہار” جیسے معزز القاب سے ملقب فرمایا ۔

علم تو قیت:

اعلیٰ حضرت نے خلیفہ تاج الدین احمد ،ناظم انجمن نعمانیہ لاہور کو اپنی رحلت سے بارہ سال پہلے ۵؍شعبان المکرّم ۱۳۲۸ھ کو آپ کی ذات کے بارے میں ایک مکتوب تحریر کیا تھا: اس مکتوب کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں!

“مولانا مولوی محمد ظفر الدین صاحب قادری سلمہ فقیر کے یہاں کے اعز طلبہ سے ہیں اور میرے بجان عزیز۔ ابتدائی کتب کے بعد یہیں تحصیل علوم کی اور اب کئی سال سے میرے مدرسہ میں مدرس اور اس کے علاوہ کار افتا میں میرے معین ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جتنی درخواستیں آئی ہوں سب سے یہ زائد ہیں مگر اتنا ضرور کہوں گا! سنی خالص مخلص نہایت صحیح العقیدہ ہادی مہدی ہیں۔ عام درسیات میں بفضلہٖ تعالیٰ عاجز نہیں، مفتی ہیں، مصنف ہیں، واعظ ہیں، مناظرہ بعونہ تعالیٰ کر سکتے ہیں۔ علمائے زمانہ میں علم توقیت سے تنہا آگاہ ہیں۔

امام ابن حجر مکی نے زواجر میں اس علم کو فرض کفایہ لکھا ہے اور اب ہند بلکہ عام بلاد میں یہ علم علما، بلکہ عام مسلمین سے اٹھ گیا۔ فقیر نے بتوفیق قدیر اس کا احیاء کیا اور سات صاحب بنانا چاہے جن میں بعض نے انتقال کیا، اکثر اس کی صعوبت سے چھوڑ کر بیٹھے۔ انھوں نے بقدر کفایت اخذ کیا اور اب میرے یہاں کے اوقات طلوع و غروب و نصف النہار ہر روز و تاریخ کے لیے اور جملہ اوقات ماہ مبارک رمضان شریف کے بھی بناتے ہیں۔ فقیر آپ کے مدرسے کو اپنے نفس پر ایثار کر کے انھیں آپ کے لیے پیش کرتا ہے۔

علمِ توقیت میں مہارت:

کئی علوم و فنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ کو علمِ توقیت میں بھی مہارتِ تامّہ اور معاصرین میں امتیازی خصوصیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت نے آپ کے بارے میں فرمایا:[مولانا محمد ظفر الدین قادری] علماے زمانہ میں علمِ توقیت سے تنہا آگاہ ہیں۔ [ملک العلماء، ص:٢٠٤]

علّامہ محمد ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ کی توقیت دانی انہیں کی زبانیں پڑھیں!
آپ فرماتے ہیں: تقریباً گیارہ سال سے خاکسار برادرانِ دینی کی خدمت اور ان کے روزوں کی درستی و صحت کے لیے ہر سال رمضان شریف کے نقشۂ اوقات ِصوم و صلاۃ زیچ و توقیت کے قواعدِ خاصہ سے ترتیب دیتا ہے اور مخلصِ قدیم حاجی محمد لعل خاں صاحب مدراسی شائع کرتے ہیں

باقی گیارہ مہینوں میں نمازوں کی اَبْتَری دیکھ دیکھ کر دل پریشان ہوتا تھا کہ اوقات ِ نماز صحیح طور پر معلوم نہ ہونے کے سبب بعض لوگ تاخیر کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور اکثر لوگ جلدی کرتے ہیں کہ قبل از وقت نماز پڑھ لیتے ہیں، خصوصاًعصر وعشاء میں تو قبل از وقت حنفی نماز پڑھنا ہندوستان میں عام طور پر رائج ہوگیا ہے۔ ان ہی ضَرورتوں کے پیشِ نظر میں نے ایک رسالہ مُسَمّٰی بنامِ تاریخی ”بَدْرُالْاِسْلَامِ لِمِیْقَاتِ کُلِّ الصَّلوٰۃِ وَالصِّیَامِ“ تصنیف کیا۔؛[حیاتِ ملک العلماء ص:١٨]

حیات اعلیٰ حضرت :

اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد سترہ سال تک کسی نے آپ کی حیات و خدمات پر کوئی خاص توجہ نہ کی، بالآخر ایک وفا شعار شاگرد ہونے کی حیثیت سے آپ نے اس طرف توجہ کی اور نہایت ہی عرق ریزی کے ساتھ “حیات اعلیٰ حضرت” مرتب کرنے میں مصروف ہوگئے اور اور بارہ سال میں ایک ضخیم کتاب چار جلدوں پر مشتمل آپ نے “حیات اعلیٰ حضرت” لکھ ڈالی.
ملک العلما نے اعلیٰ حضرت کی حیات و خدمات کو بڑے اچھے انداز اور اہتمام کے ساتھ لکھا ہے، جو اعلیٰ حضرت پر بڑی تحقیقی تفصیلی حیات پر مشتمل ہے، اس کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے کہ آپ نے اعلیٰ حضرت کی حیات پر بڑی ضخیم چار جلدوں پر مشتمل اہل سنت کو علمی تحفہ پیش کیا ہے

رضویات کے معمار اول :

ملک العلما امام احمد رضا فاضل بریلوی کے خاص فیض یافتہ تلمیذ اور خلیفہ ہیں، جن کی حیات و زیست کا ایک ایک لمحہ دین و سنیت اور خصوصاً تصنیفات و تالیفات اعلیٰ حضرت کی ترتیب و تزئین اور نشر و اشاعت کےلیے وقف تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی
لحات سے اکثر حصہ محقق بریلوی کی تحریرات و نگارشات کی اشاعت و طباعت کےلیے چھوڑ رکھا تھا۔ ملک العلما کے فکر رساں ذہن میں اگر کسی چیز کی پہلے فکر دامن گیر ہوئی تو وہ تصانیف رضا کی نشر و اشاعت تھی ۔ اس سے اس بات کا انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک العلماء کو اپنے مشفق استاذ و مرشد کے علمی و تحقیقی ذخیرہ کے شائع کرنے کی کتنی فکر رہتی تھی اور وہ اس علمی ذخیرہ کو ار باب علم و دانش کے سامنے لا کر کیا بتانا چاہتے تھے۔ اس کا اندازہ ذیل کے مکتوب سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حضرت مولانا امجد رضاخاں نوری کو لکھتے ہیں :
اس وقت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی جملہ تصنیفات و تالیفات و تحریرات چھپ جائیں، تو سنیوں کو کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہ ہوگی۔ تفسیر ، حدیث ، فقہ، تصوف ، عقائد، اخلاق کے علاوہ تاریخ، جغرافیہ، ہیئت ، توقیت، حساب ، جبرو مقابلہ، تکسیر، جفر، زائچہ کون سے علوم ہیں، جن میں اعلیٰ حضرت کی تصنیف نہیں جس وقت یہ کتابیں جناب کی ہمت و محنت و توجہ سے چھپ جائے گی ، اس وقت لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی کہ اعلی حضرت کیا تھے ۔”[ حیات ملک العلماء ص: ۲٦]

ملک العلما بے پناہ فضل و کمال، استعداد و صلاحیت، ذہانت و فطانت اور فکری و دینی مہارت ، تدریسی کمال کے مالک تھے ۔ آج موصوف ہی کے فکر رسا ذہن کا صدقہ ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی دنیا کی عظیم یو نیورسٹیوں میں علم وتحقیق کا موضوع بنے ہوئے ہیں اور اصحاب فکر و نظر فاضل بریلوی کی علمی و تصنیفی خدمات اور تجدیدی واصلاحی کارناموں پر تحقیقی وادبی مقالے سپرد قرطاس کر کے Ph.D کی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں. [جہان ملک العلماء – ص:٣٣٨]

حیات اعلیٰ حضرت کے لیے رضویات پر ملک العلما کی مندرجہ ذیل کتابیں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

(١) الافادات الرضویہ

(٢) النور والضياء في سلاسل الأولياء

(۳) الجمل المعد دلتالیفات المجد د

(٤) چودہویں صدی کے مجدد

اعلیٰ حضرت کا وصال اور ملک العلما :
جب حضرت محدث سورتی علیہ الرحمہ کا وصال ہوا تو اعلیٰ حضرت نے اس آیت قرآنی سے ماده تاریخ وفات نکالا ’’يطاف عليهم بانية من فضة واكواب ‘‘ خدا کی شان دیکھیے کہ محدث سورتی کے وصال کے ٦/ سال بعد جب اعلیٰ حضرت کا انتقال ہوا تو آیت مذکورہ میں صرف واؤ کے اضافے سے اعلیٰ حضرت کا سن وفات ١٣٤٠/ھ نکل آیا۔

اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ملک العلماعلامہ ظفر الدين بہاری علیہ الرحمہ یوں رقم طراز ہیں: فقیر قادری جب استاذی محدث سورتی کے وصال شریف کے بعد بنظرِ تعزیت پیلی بھیت حاضر ہوا اس کے بعد اعلیٰ حضرت بریلی شریف کی قدم بوسی کے لیے حاضری دی، ایک دن حضور نے اثنائے تذکرہ فرمایا :”کہ میں نے حضرت محدث صاحب کی تاریخ وفات آیت کریمہ سے پائی جس سے ان کا مرتبہ بھی معلوم ہوتا ہے اور یہ آیت کریمہ حضور نے تلاوت فرمائی” يطاف عليهم بانية من فضة من واکواب”اسی وقت میں نے آیت کریمہ کے اعداد جوڑے تو١٣٣٤ھ نکلے، لیکن میرے دل میں ایک کھٹک تھی جس کو کہنے کی ہمت نہ ہوئی، لیکن اعلیٰ حضرت نے اس پر مطلع ہوکر فرمایا: کیا کچھ کہناچاہتے ہیں؟

اتنا اشارہ پا کر میں نے عرض کیا آیت کریمہ ” ويطاف“ ہے اس پر تبسم فرمایا اور ارشاد ہوا کہ پوری آیت اس بندہء خدا کی تاریخ ہوگی جس کا انتقال چھ(٦) سال بعد میں ہوگا، اس وقت میراذہن حضور کی طرف نہ گیا لیکن جب حضور کا انتقال١٣٤٠ھ میں ہوا تو معا خیال آیا کہ اعلٰی حضرت نے اس دن کو اپنی ہی طرف اشارہ فرمایا تھامگر میں سمجھ نہ سکا۔( حیات اعلیٰ حضرت جلد سوم،ص:٢٨٣)

چناں چہ سرکار اعلیٰ حضرت کا وصال ٢٥صفر١٣٤٠ھ. ٢٨ اکتوبر ١٩٢١ء کو بروز جمعہ دوبج کر ٣٨منٹ پر ہوا.
انا للہ وانا الیہ راجعون

وصال ملک العلما :
شب دو شنبہ ۱۹؍جمادی الثانی ۱۳۸۲ھ؍ ۱۸؍نومبر ۱۹٦٢ء کو ذکرِ جہر کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔

تحریر: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی – رام گڑھ

[ڈائریکٹر: مجلس علماے جھارکھنڈ]

7007591756

زکوٰة احادیث کے آئینے میں
زکوٰة احادیث کے آئینے میں
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن