Tuesday, April 16, 2024
Homeمخزن معلوماتسخاوت کرنے والا رب کا پسندیدہ

سخاوت کرنے والا رب کا پسندیدہ

از: عبدالماجد قادری، حیدرآبادی سخاوت کرنے والا رب کا پسندیدہ سخاوت کرنے والا رب کا پسندیدہ

سخاوت [انگریزی: Generosity] ایک عظیم مالی عبادت ہے، یہ اللہ -عزوجل- کی عظیم سنت،  انبیاے کرام، رسولان عظام، صحابۂ کرام اور بزرگان دین کی خاص صفت ہے

سخاوت جہاں  مذہبِ اسلام کے اَخلاقی نظام میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہیں تقریباً دنیا کے سبھی مذاہب میں ایک نیکی اور کارِ ثواب کا درجہ رکھتی ہے۔

چوں کہ یہ اللہ ورسول کا محبوب عمل ہے؛ اس لیے جو بندہ سخاوت کرتا ہے، وہ محبوبِ بارگاہِ خدا و رسول تو ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی عوام الناس بھی اُسے اپنا محبوبِ نظر بناتی ہے اور جو شخص بخیلی کرتا ہے، وہ مردودِ بارگاہِ خدا ورسول ہوتا ہے، ساتھ ہی مخلوقِ خدا بھی اُس  سے نفرت کرتی ہے۔

آئیے! اِس محبوب ترین عمل کے وسیع میدان میں ایک دورہ لگاتے ہیں۔

سخاوت کی تعریف:

حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی -رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ- [۴۵۰-۵۰۵ھ] فرماتے ہیں: ”فالجود وسط بين الإسراف والإقتار، وبين الوسط والقبض. وهو أن يقدر بذله وإمساكه بقدر الواجب، ولا يكفي أن يفعل ذلك بجوارحه ما لم يكن قلبه طيبا به غير منازع له فيہ۔”[إحياء العلوم، جزء: ٣، ص: ٢٥٩، باب: بيان حد السخاء والبخل وحقيقتهما] [ترجمہ:]

’’فضول خرچی اور کنجوسی، نیز کشادگی اور تنگی کی درمیانی راہ کا نام جود و سخا ہے۔ یعنی خرچ کرنے اور خرچ کرنے سے رکنے میں واجب مقدار کو اختیار کرنا۔ جب تک دل صاف اور راضی نہ ہو محض ظاہری اَعضا سے خرچ کرنا کافی نہیں۔’’

سخاوت اور اِیثار میں فرق:

سخاوت کی ایک قسم اِیثار ہے، اِیثار کرنے والا اپنے عمل میں سخاوت کرنے والے سے آگے بڑھ جاتا ہے؛ کیوں کہ اِیثار اور اس کے  عامل کا درجہ سخی اور سخاوت سے بہت اعلیٰ ہے۔ امام غزالی -رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ- اِن دونوں کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”أرفع درجة السخاء الإيثار، وهو أن يجود بالمال مع الحاجة۔ وإنما السخاء عبارة عن بذل ما لا يحتاج إليه لمحتاج أو لغير محتاج۔” [إحياء العلوم، جزء: ٣، ص: ٢٥٧، باب: بيان الإيثار وفضله]   

       

   [ترجمہ:] ’’سخاوت میں سب سے اعلیٰ درجہ اِیثار کا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حاجت کے باوجود اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنا۔ جب کہ سخاوت کا مطلب ہے کہ ضرورت سے زائد مال کو محتاج یا غیر محتاج پر خرچ کرنا۔‘‘    

      

   سخاوت کا مختصر تعارف جاننے کے بعد، اب قرآن مجید واحادیثِ کریمہ میں مذکور، راہِ خدا میں خرچ کرنے  والوں کے متعلق بشارتوں اور بخیلی و فضول خرچی کرنے والوں کے متعلق وعیدوں کو اختصاراً بیان کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سخاوت جیسی عظیم صفت کا حامل بنائے۔ آمین!

راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کے لیے بشارت:

[۱] جو مخلص بندے اللہ -عزوجل- کے دیے سے اُس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں؛ وہ ایمان میں کامل، ہدایت یافتہ اور فلاح یافتہ ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ……..أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [البقرۃ:۲، الآیۃ:٣-۵]

[ترجمہ:] وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں……..یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کام یابی حاصل کرنے والے ہیں۔

راہِ خدا میں دکھاوے کے طور پر خرچ کرنے والوں کے لیے وعید:

        

    [۱] جو شخص اپنا مال اللہ عزوجل کی رضا کے لیے خرچ نہ کرے، بلکہ نام ونُمود کے لیے کرے؛ وہ ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ یوں ہی جو شخص اِحسان جتا کر اور تکلیف دے کر کچھ دے؛ وہ بھی اجر وثواب سے محروم ہو جاتا ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾ [البقرۃ:۲، الآیۃ:۲۶۴]

[ترجمہ:] اے ایمان والو! اِحسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کرو اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دِکھلاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا، تو اُس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی ہے، تو اس پر زور دار بارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے ہوئے اَعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔

راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کے لیے وعیدیں:       

      [۱] جو لوگ اللہ عزوجل کی راہ میں اپنا مال بہ صورتِ زکات خرچ کرنے سے بخیلی کرتے ہیں؛ اُن کے بارے میں شدید وعید کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلّہِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾ [اٰل عمران:۳، الآیۃ:۱۸۰]

[ترجمہ:] اور جو لوگ اُس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے اُنہیں اپنے فضل سے دی ہے؛ وہ ہرگز اُسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں، بلکہ یہ بخل اُن کے لیے بُرا ہے۔ عن قریب قیامت کے دن اُن کے گلوں میں اُسی مال کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا جس میں اُنھوں نے بخل کیا تھا اور اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا وارث ہے اور اللہ تمھارے تمام کاموں سے خبردار ہے۔

بخل کرنے کے بہت سے دینی اور دنیوی نقصانات ہیں، ہم یہاں اُس کے ۵؍ دینی اور ۶؍ دنیوی نقصانات ذکر کرتے ہیں؛ تاکہ لوگ بخل کرنے سے بچیں۔

            بخل کے دینی نقصانات یہ ہیں:       

      [۱] بخل کرنے والا کبھی کامل مومن نہیں بن سکتا، بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک دیتا ہے اور انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے، جیسے قارون کو اُس کے بخل نے کافر بنا دیا۔

[۲] بخل کرنے والا گویا کہ اُس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اُسے جہنم کی آگ میں داخل کرکے ہی چھوڑے گی۔

[۳] بخل کی وجہ سے جنت میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

[۴] بخل کرنے والا، مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

[۵] بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس پر مال جمع کرنے کی دُھن سوار ہو جاتی ہے اور اُس کے لیے وہ جائز اور ناجائز تک کی پروا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

       بخل کے دنیوی نقصانات یہ ہیں:

[۱] بخل، آدمی کی سب سے بدترین خامی ہے۔

[۲] بخل، ملامت اور رسوائی کا ذریعہ ہے۔

[۳] بخل، خون ریزی اور فساد کی جڑ اور ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔

[۴] بخل، ظلم کرنے پر ابھارتا ہے۔

[۵] بخل کرنے سے رشتہ داریاں ٹوٹتی ہیں۔

[۶] بخل کرنے کی وجہ سے آدمی ، مال کی برکت سے محروم ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی راہ میں  مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بد ترین باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے۔آمین! [تفسیر صراط الجنان، سورة محمد: ۴۷ ،الآیۃ: ۳۸]

مذکورہ بالا قرآنی آیات کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اُس کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں؛ وہ اُس کی بارگاہ میں محبوب اور مقبول ہوتے ہیں، جن کے متعلق ارشاد فرماتا ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ اورفلاح یافتہ ہیں اور جو لوگ  بخیلی کرتے ہوئے اُس کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، اُن کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ یہ جہنمیوں کی چال چلتے ہیں، اِن کے لیے  کوئی بھلائی نہیں، نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں۔

سخاوت، احادیثِ کریمہ کی روشنی میں:

سخاوت کی ترغیب اور اُس کی فضیلت، نیز سخاوت کرنے والوں کے متعلق بشارتیں احادیث کریمہ میں بکثرت وارد ہیں، جس کی ایک جھلک پیش ہے، ملاحظہ فرمائیں:

حدیث : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «دو صفات ایسی ہیں جنھیں اللہ عزوجل پسند فرماتا ہے اور دو صفات ایسی ہیں جنھیں اللہ عزوجل ناپسند فرماتا ہے ۔ جن صفات کو اللہ عزوجل پسند فرماتا ہے وہ سخاوت اور نرمی ہیں اور جن صفات کو اللہ عزوجل ناپسند فرماتا ہے وہ بداَخلاقی اور بخیلی ہیں ۔ جب اللہ عزوجل کسی کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اُس کو لوگوں کی حاجت روائی کے لیے استعمال فرماتا ہے»۔[شعب الإیمان للبیھقی، جلد: ۷، حدیث: ۱۰۸۳۹]

حدیث : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «سخاوت، جنت میں ایک درخت ہے ۔ جو شخص سخی ہوتا ہے؛ وہ اُس کی ایک شاخ کو پکڑ لیتا ہے، وہ شاخ اُس کو اُس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک اُس کو جنت میں داخل نہ کرا دے۔ اور بخل، جہنم کا درخت ہے۔ جو بخیل ہوتا ہے؛ وہ اُس کی ایک شاخ کو پکڑ لیتا ہے، وہ شاخ اُس کو اُس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک اُس کو جہنم میں نہ پہنچا دے»۔[شعب الإیمان للبیھقی، جلد: ۷، حدیث: ۱۰۸۷۷]

حدیث :حضرت حسن بصری -رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ- روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: افضل ایمان صبر اور سخاوت کرنا ہے ۔[شعب الإیمان للبیقھی، جلد: ۷، حدیث: ۱۰۸۳۸]

مذکورہ بالا احادیثِ کریمہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ سخاوت ہے سچے دین کی پہچان۔سخی ہے محبوبِ رحمٰن۔ جنتی ہونا ہر سخی کی ہے شان بغیر حساب کے، ساتھ انبیا کے وہ جائے گا سوے جنان سخاوت، سخی کو اس وقت تک نہیں چھوڑتی، جب تک وہ چلا نہ جائے در جنت۔ سب سے بڑا سخی اللہ، اس کےبعد  سب سے بڑا سخی میں ہوں در امت،یہ ہے رسول پاک کا فرمانِ عالی شان۔ سخی کے لیے استغفار کرتے ہیں، شب وروز، ملائکہ اور زمین وآسمان۔ قیامت کے دن وہ تنہا امیر یا تنہا ایک امت ہوگا، یہ ہوگی سخی کی شان۔ سخی وہ ہے ، جس کا تقدیرِالٰہی پر ہوگا سچا ایقاناور آخر میں یہی کہ سخاوت  ہے افضلِ ایمان۔

اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی راہ میں  مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بد ترین باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے۔ آمین!

از: عبدالماجد قادری، حیدرآبادی

دارالعلوم فیض رضا، شاہین نگر، حیدرآباد، تلنگانہ

رابطہ نمبر: 7093202438

زکوٰة احادیث کے آئینے میں
زکوٰة احادیث کے آئینے میں
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن