پیش کش: مفتی محمد رضوان احمد مصباحی شیخ سدو کے نام سے ذبح کیے ہوئے جانور کا شرعی حکم
سوال :
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مکان میں چچا اور بھائی اور بھتیجا رہتے ہیں، اور حقہ پانی ان سب کاایک ہے، اور بھتیجے نے شیخ سدو کے نام سے جانور ذبحہ کیا اور کوئی مولوی صاحب اس کے چچا یا بھائی کے یہاں آکر ٹھہرے، اور مولوی صاحب کو معلوم ہوگیا کہ ان کا بھتیجا غیر اللہ کے نام کا جانور ذبح کرواتاہے اور چچا اور بھائی کوکھلاتاہے، تو جو مولوی صاحب اس کے چچا کے یہاں مقیم ہیں ان مولوی صاحب کو ان کے گھر کا کھانا درست ہے یا نہیں اور مولوی صاحب سے کہا گیا کہ اس کے گھر کا کھانا نہ کھاؤ، تو درجواب مولوی صاحب نے کہا کہ تم کون ہو ہم کسی کا کہنے کو نہیں مان سکتے ہیں مولوی صاحب کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب :
جانور جو اللہ عزوجل کے نام پر ذبح کیا جائے اور اس سے اللہ عزوجل ہی کی طرف تقرب مقصود ہو اگر چہ اس پر باعث مسلمان کا اکرام، یا اولیاء کرام کا، خواہ اموات مسلمین کو ایصال ثواب یا اپنے کوئی جائز مثل تقریب شادی ونکاح وغیرہ یا جائز انتفاع مثل گوشت فروشی قصاباں ہو تو اس کے جائز وحلال ہونے میں شک نہیں،
اللہ تعالی فرماتاہے:”وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ” ترجمہ : تمھیں کیا ہوا کہ اس چیز سے نہ کھاؤ جس پر اللہ سبحانہ کانام پاک لیا گیا۔ (۱؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۲۱)
مگر خبیث روحوں کو منانا تقرب الی اللہ نہیں ہوسکتا، ” شیخ سدو بھی ارواح خبیثہ سے شمار کیا گیا ہے، تو ذبح کرنے والے کی نیت اگر شیخ سدو کی طرف تقرب کی ہو جانور بلا شبہ مردار ہوجائے گا،” اگر چہ بظاہر تکبیر ہی کہہ کر ذبح کیا گیا ہو، یہاں ذابح کی ہی نیت کا اعتبار ہے اگر چہ مالک کی نیت کچھ ہو، مثلامالک نے خالص اللہ عزوجل کے لئے ذبح کرنے کو جانوردیا ہے، ذابح نے اسے کسی بت کی بھینٹ چڑھادیا جانور بیشک حرام ہوگیا مالک کی نیت کچھ نفع نہ دے گی
یوہیں مالک نے اگر کسی بت یا شیطان ہی کے لیے ذبح کرنے کو کہا اور ذابح نے معبود برحق جل جلالہ کے لئے ذبح کیا جانور بیشک حلال ہے، مالک کی نیت کچھ نقصان نہ دے گی، پس صورت مذکورہ میں اگر ذابح نے سدو کی طرف تقرب کی نیت سے ذبح کیا اور ان مولوی کو اس کا یہ حال معلوم تھا، پھر اس سے گوشت کھایا، تویہ شخص مردار خور ہوا، اور اس کے پیچھے نماز منع ہے، اور اگراسے ذابح کی نیت معلوم ہوگئی تھی کہ اس نے وہ نیت فاسدہ نہ کی بلکہ خالص اللہ عزوجل کے لئے ذبح کیا ، تو اگر چہ جانور حلال ہوگیا مگر بہتر اس سے بچنا تھا جبکہ مالک نے غیر خدا کے تقرب کے لئے دیا تھا، خصوصا اس شخص کو جو مولوی کہلاتاہو اور لوگ اس کے فعل کو حجت جانتے ہوں ،
عالمگیری میں ہے:”مُسْلِمٌ ذَبَحَ شَاۃَ الْمَجُوْسِیِّ لِبَیْتِ نَارِھِمْ اَوِالْکَافِرِ لِآٰلِہَتِھِمْ تُوْکَلُ لِاَنَّہٗ سَمَّیﷲَ تَعَالیٰ وَیُکْرَہُ لِلْمُسْلِمِ”
ترجمہ :_ مسلمان نے مجوسی کی بکری اس کے معبود کے آتشکدہ کے لئے یا کسی کافر کی بکری اس کے معبود کے لئے ذبح کی تو کھائی جائے کیونکہ مسلمان نے اللہ تعالی کے نام سے ذبح کی ہے اور مسلمان کو یہ عمل مکروہ ہے۔ (۱؎ فتاوی ہندیۃ کتاب الذبائح الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاوار ۵/ ۲۸۶)
اور اگرنیت معلوم نہ تھی اور یہ جان چکا تھا کہ یہ لوگ شیخ سدو کے منانے والے ہیں، اور بچنا اور اہم تھا کہ ارواح خبیثہ کے منانے والوں اور اس سےاستعانت کرنے والوں کا ظاہر حال سخت مخدوش ہے، اور ایسی جگہ شہادت سے احتراز لازم اور اگر گوشت نہ کھایا بلکہ اور کھانا کھایا تو جب مولوی کہلاکر ایسے لوگوں کے یہاں اکل طعام کہ قلوب المسلمین میں شبہہ ڈالے ہر گز مناسب نہ تھا، واللہ تعالی اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 20، ص :258، مترجم )
ان مضامین کو بھی پڑھیں