Sunday, March 24, 2024
Homeحدیث شریفلا تشد الرحال کا صحیح مفہوم اور معترضین کے اشکالات کا جواب

لا تشد الرحال کا صحیح مفہوم اور معترضین کے اشکالات کا جواب

لا تشد الرحال کا صحیح مفہوم اور معترضین کے اشکالات کا جواب

لا تشد الرحال کا صحیح مفہوم اور معترضین کے اشکالات کا جواب

جیسا کہ اوپر تصریح ہو چکی ہے کہ جان نثارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دربارِ نبوی کی زیارت کا حد درجہ اشتیاق رکھتے ہیں اور خاکِ طیبہ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں، بقول اقبال

خاکِ طیبہ از دو عالم خوشتر است

آں خنک شہرے کہ آں جا دلبرست

لیکن بعض نادان لوگ سید العالمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں حاضری کی نیت سے جانے کو بھی (معاذ اللہ) شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔
ایسا عقیدہ بے دینی اور جہالت پر مبنی ہے۔ صحیح عقیدہ وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ باطل عقیدہ رکھنے والوں کا محلِ اِستدلال حدیث کی غلط تعبیر ہے۔

ذیل میں ہم اس روایت کی صحیح تشریح و تعبیر اَجل آئمہ حدیث کے اَقوال کی روشنی میں بیان کریں گے، جس سے حدیث مبارکہ کا صحیح مفہوم و مدعا واضح ہو جائے گا :۔

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلَّا إلَی ثَـلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صلی الله علیه وآله وسلم، وَمَسْجِدِ الْأَقْصٰی

بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، 1: 398، رقم: 1132مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب لاتشدّ الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد، 2: 1014، رقم: 1397نسائی، السنن، کتاب المساجد، باب ما تشدّ الرحال إلیہ من المساجد، 2: 29،30، رقم: 700

’’مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ کے سوا کسی (اور مسجد ) کی طرف (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘

2 ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے:لَا تُعْمَلُ الْمَطِیُّ إِلَّا إِلَی ثَـلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ

نسائی، السنن، کتاب الجمعۃ، باب ذکر الساعۃ التي یستجاب فیھا الدعاء یوم الجمعۃ، 3: 79، رقم: 1430نسائی، السنن الکبریٰ، 1: 540، رقم: 1754مالک، الموطأ، 1: 109، رقم: 241

’’ (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) تین مساجد کے سوا کسی مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے: مسجدِ حرام، میری مسجد اور مسجد بیت المقدس۔‘‘

بعض کتب میں مسجد بیت المقدس کی جگہ مسجد إیلیاء کے الفاظ بھی آئے ہیں۔

3۔ طبرانی نے ’’المعجم الأوسط (6: 51، 52، رقم: 5106)‘‘ میں یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَی ثَـلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الخَیْفِ، وَمَسْجِدِ الْحَرَامِ، مَسْجِدِي هَذَا

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین مسجدوں یعنی مسجدِ خیف، مسجدِ حرام اور میری اِس مسجد کے سوا کسی (اور مسجد ) کی طرف (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔ ‘‘امام طبرانی کہتے ہیں کہ کلثوم بن جبر سے یہ حدیث حماد بن سلمہ کے سوا کسی نے روایت نہیں کی اور اِس حدیث کے سوا کسی اور حدیثِ شَدُ الرِّحال میں مسجدِ خیف کا ذکر بھی نہیں ہے

4 ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:وَ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَی ثَـلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَی، وَمَسْجِدِي

بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب مسجد بیت المقدس، 1: 400، رقم: 1139مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، 2: 976، رقم: 1338ترمذی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی أی المساجد أفضل، 1: 358، رقم: 326

’’تین مسجدوں یعنی مسجدِ خیف، مسجدِ حرام اور میری مسجد کے سوا کسی (اور مسجد ) کی طرف (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا اِرشادات کو بنیاد بنا کر بعض لوگ انبیاء و صالحین کے قبور کی زیارت حتیٰ کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اَطہر کی بہ غرضِ زیارت حاضری کو بھی ناجائز اور (معاذ اللہ) شرک گردانتے ہیں۔ جب کہ اکابر علماے ربانیین اور محدّثین و مفسرینِ کرام نے اِس اِستدلال کو غلط اور کج فہمی قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی معتبر کتب میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ اس حدیث کا صحیح مطلب بیان کیا ہے۔ اِس کی روشنی میں دین کا معمولی سا فہم رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ جو لوگ اس حدیثِ مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے اَنبیاء و صالحین کے مزارات کی زیارت کے سفر سے منع کرتے ہیں اور اِسے سفرِ معصیت و گناہ کہتے ہیں وہ بلاشبہ صریح غلطی پر ہیں اور اُن کا اِستدلال کسی بھی طرح لائقِ التفات نہیں۔

مذکورہ احادیث کی تشریح و توضیح 

ان احادیثِ مبارکہ میں اِستثناء کے حوالے سے دو اَقوال ہیں:

ایک یہ کہ اِستثناء مطلق یعنی عمومیت پر مبنی ہو۔ جس سے ہر قسم کا سفر ناجائز قرار پائے گا اور یہ بات خلافِ عقل و خلافِ شرع ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اِستثناء مقید ہو یعنی محض مساجد سے مختص ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے سوائے اِن تین مساجد کے کسی اور مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے اور یہی قول صحیح ہے۔2۔ حدیثِ مبارکہ میں لا تُشَدُّ الرِّحال کے فوراً بعد إلا إلی ثلاثۃ مساجد مذکور ہے۔ اہلِ لغت کے معروف اُسلوب کے مطابق جس جملہ میں مستثنیٰ (جسے اِستثناء حاصل ہو) اور مستثنیٰ منہ (جس سے اِستثناء کیا گیا ہو) دونوں پائے جاتے ہوں تو نحوی قاعدہ یہ ہے کہ مستثنیٰ حرفِ اِستثناء کے بعد اور مستثنیٰ منہ حرفِ اِستثناء سے پہلے ہوگا اور وُجوداً یا تقدیراً مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ دونوں کا پایا جانا ضروری ہو گا۔مذکورہ حدیث میں ’إلا‘ حرفِ اِستثناء ہے، ’ثلاثۃ مساجد ‘ مستثنیٰ ہے۔ قاعدہ کی رُو سے ’إلاّ‘ کے بعد ثلاثۃ مساجد تو مذکور ہے لیکن مستثنیٰ منہ مذکور نہیں، جو ’إلّا‘ سے پہلے پایا جانا تھا لہٰذا جہاں ایسی صورت ہو کہ مستثنیٰ مذکور ہو مگر مستثنیٰ منہ کا لفظی ذکر نہ ہو تو وہاں مستثنیٰ منہ مقدّر مانا جائے گا۔ اِس صورت میں مقدّر مستثنیٰ منہ کے تعین کے تین اِحتمالات ہو سکتے ہیں:

پہلا اِحتمال … اگر مستثنیٰ منہ ’قبر‘ کو مانا جائےاِس حدیث سے سفرِ زیارت کی ممانعت کا اِستدلال کرنے والوں کے مسلک کے مطابق اگر مستثنیٰ منہ لفظ ’قبر‘ کو فرض کریں تو حدیث کی تقدیری عبارت اِس طرح ہوگی: لَا تُشَدُّ الرِّحال إلی قبر إلا إلی ثلاثۃ مساجد ’’سوائے تین مساجد کے کسی قبر کی طرف رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘ یہاں لفظ ’قبر‘ ایسی بے بنیاد تعبیر ہے جو نہ سیاقِ کلام کے مطابق ہے اور نہ ہی اُسلوبِ بیان و زباں کے لائق۔ عربی زبان سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ غیر معتبر اور غیر معقول اُسلوب قبول نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ اِس کی نسبت اَفصحُ العرب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے۔ لہٰذا ضابطہ کے خلاف لفظ ’قبر‘ کو مستثنیٰ منہ بنانا ہرگز درست نہیں۔ نیز صحابہ کرام ث، تابعین اور آئمہ کرام کے احوال سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضورں کی قبرِ انور اور اولیا و صالحین کی زیارت کے لیے سفر کیے، جو جواز پر صریح دلیل ہے۔

دوسرا اِحتمال … اگر مستثنیٰ منہ ’مکان‘ کو مانا جائےاگر ’مکان‘ کو مستثنیٰ منہ فرض کیا جائے تو حدیث کی عبارتِ تقدیری یوں ہوگی:لَا تُشَدُّ الرِّحال إلی مکان إلا إلی ثلاثۃ مساجد (سوائے تین مساجد کے کسی اور مقام کی طرف رَختِ سفر نہ باندھا جائے)۔ اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ تعلیم، تجارت اور کسی بھی کارِ خیر کے لیے سفر کرنا ممنوع ہے، حالاں کہ اِن اُمورِ خیر کے لیے سفر کی ممانعت باطل اور غیر معقول ہے۔ مطلق سفر کی کہیں بھی ممانعت نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی مفہوم حدیث مذکور کی طرف منسوب ہوسکتا ہے۔ یہ مفہوم نہ صرف غیر شرعی ہو گا بلکہ بے شمار احکامِ اسلامی اور مصالحِ دینی سے متصادم ہو گا۔

سو یہ صورت تقدیری بھی قبول نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تجارت کے لیے سفر کیا اور متعدد اسفار کے ذریعے غزوات میں شرکت فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے ہمیشہ محوِ سفر رہے اور اُنہوں نے دور دراز علاقوں تک دین پہنچایا۔آئمہ و بزرگانِ دین تحصیلِ علم اور بیعت و اِرادت کے لیے سفر کرتے رہے۔

آج بھی لوگ حصولِ علم، تجارت اور دیگر اُمور کی بجاآوری کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتے ہیں۔ز درج ذیل مقاصد کے لیے آج بھی سفر کیا جاتا ہے:دعوت و تبلیغِ دین کے لیے۔ جہاد میں شرکت کے لیے۔والدین، اساتذہ اور بزرگوں کی زیارت کے لیے۔اَعزاء و اَقارب اور اَحباب سے ملاقات کے لیے۔کانفرنسز، سیمینارز اور دیگر خصوصی پروگراموں میں شرکت کے لیے۔شادی و غمی میں شرکت کے لیے۔کاروباری مقاصد کے لئے۔سیر و تفریح کے لیے۔علاج معالجہ کے لیے۔کتنے ہی سفر ہماری روزمرہ زندگی کا معمول ہیں۔ اگر ہر سفر ممنوع قرار دیا جائے تو نظامِ زندگی معطل ہو کر رہ جائے گا، جو قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔

تیسرا اِحتمال … اگر مستثنیٰ منہ بھی ’مسجد‘ ہی کو مانا جائےیہ اِستثناء مفرغ ہے۔ اس میں مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ کا جنسِ واحد سے ہونا ضروری ہوتاہے، جیسا کہ کلامِ عرب میں ہے:ما جاء ني إلا زید (میرے پاس سوائے زید کے کوئی نہیں آیا)۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ میرے پاس سوائے زید کے کوئی شخص یا انسان نہیں آیا۔ اگر پرندہ یا کوئی جانور آیا ہو تو کلام غلط نہ ہوگا کیوں کہ مستثنیٰ منہ پرندہ یا جانور نہیں بلکہ انسان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زید بھی انسان ہے، اس لئے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے مفہوم واضح اور درست ہو جائے گا۔

لہٰذا درست بات یہی ہے کہ اِس حدیث میں بھی عربی کے اس اُسلوب اور قاعدہ کی رُو سے تقدیر لفظ ’مسجد‘ ہی ہو، یعنی جسے مستثنیٰ ٹھہرایا جا رہا ہے مستثنیٰ منہ بھی وہی جنس ہو۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرجواز کے لئے اِستثناء مساجد کا کیا جا رہا ہے تو ممانعت بھی بقیہ مساجد ہی کی طرف منسوب ہوگی، نہ کہ دیگراُمور اور مقاصد کی طرف۔

پس اب حدیث کی تقدیراً عبارت یوں ہوگی:لَا تُشَدُّ الرِّحال إلی مسجد إلّا إلی ثلاثۃ مساجد.’’سوائے تین مساجد کے کسی اور مسجد کی طرف (ثواب کی زیادتی کی نیت سے) رختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاد کا واضح مطلب یہ ہے کہ مسجدِ حرام، مسجدِ اقصیٰ اور مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کی فضلیت چوں کہ زیادہ ہے اور باقی مساجد نماز پڑھنے کی فضیلت اور ثواب میں برابر ہیں۔ اس لیے ان تینوں مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد میں ثواب کی زیادتی کی نیت سے سفر کی زحمت برداشت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ اس جگہ زیادتی ثواب پر کوئی شرعی دلیل مذکور نہیں۔

اجل آئمہ و شارحینِ حدیث کی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ حدیث میں لَا تُشَدُّ الرِّحَال صرف ثواب کی نیت سے دیگر مساجد کی طرف سفر کرنے کو مستلزم ہے۔ رہا دیگر مقاصد کے لیے سفر تووہ جائز ہے کیوں کہ اگر ممانعتِ سفر کے قائلین کا قول مان لیا جائے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دنیا میں کسی بھی جگہ حتی کہ اولیاے کرام کے مزارات اور دیگر نیک مقاصد کے لیے سفر حرام ہے تو اس صورت میں انسانی زندگی اجیرن ہو جائے گی اور انسان عضو معطل بن کر رہ جائے گا وہ اپنی آبادی سے باہر کبھی بھی نہ جا سکے گا نہ حصولِ علم، نہ تجارت، نہ عیادت و ملاقات اور نہ اشاعتِ دین کے لیے حتی کہ ان تین مساجد کی فضیلتِ عامہ کے تعین کے بغیر کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنا بھی اس قول کے مطابق ممنوع ٹھہر جائے گا۔

حالاں کہ محسن انسانیت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سفر فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اشاعت دین کے لیے دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حصولِ علم کے لئے دور دراز مقامات تک سفر کی ترغیب دی تو معلوم ہوا کہ حدیث کا مطلب ہر گز ہر گز یہ نہیں کہ دنیا میں کہیں بھی سفر نہ کیا جائے بلکہ اس حدیث کا صحیح معنی و مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جتنی مسجدیں ہیں ان میں سے صرف یہ تین مساجد ایسی ہیں جنہیں فضیلتِ تامہ حاصل ہے۔ ان میں نماز پڑھنے کی زیادہ فضیلت اور ثواب ہے۔

مسجدِ حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔مسجدِ نبوی میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔مسجدِ اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب پچیس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

دنیا کی دیگر مساجد کو یہ فضیلت حاصل نہیں تو حدیثِ مبارکہ کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک شخص کو اپنے محلہ اور آبادی کی مسجد میں وہی ثواب ملے گا جو دنیا کی دیگر مساجد میں ملتا ہے تو اس تصور کے ساتھ کہ شاید فلاں مسجد میں اس مسجد سے زیادہ ثواب ملے گا سفر کرنا بے فائدہ ہے۔ اگر ادائیگی نماز کا زیادہ ثواب حاصل کرنے کا ارادہ ہو تو پھر حدیث میں مذکورہ مقامات کی طرف ہی سفر کرے اور جہاں تک مطلقًا سفر کی بات ہے جائز ہے، عام سفر کی کہیں بھی ممانعت اور حرمت نہیں۔ آئمہ حدیث اور فقہاء کے صحیح اقوال اور تشریحات سے بھی یہی بات ثابت ہے۔

ذیل میں شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی کی تحقیق ملاحظہ کریں۔2۔ عام سفرکی ممانعت نہیں… امام ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کی تحقیق حافظ ابنِ حجر عسقلانی (م 852ھ) نے فتح الباری شرح صحیح البخاري میں درج بالا حدیث پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:أن المراد حکم المساجد فقط. وأنہ لا تشدّ الرحال إلی مسجد من المساجد فیه غیر ھذه الثلاثۃ، وأما قصد غیر المساجد لزیارۃ صالح أو قریب أو صاحب أو طلب علم أو تجارۃ أو نزھۃ فلا یدخل فی النهي، ویؤیده ماروی أحمد من طریق شھر بن حوشب قال سمعت أبا سعید وذکرت عنده الصلاۃ فی الطور فقال: قال رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم لا ینبغي للمصلي أن یشد رحاله إلی مسجد تبتغي فیه الصلاۃ غیر المسجد الحرام والمسجد الأقصی ومسجدي.عسقلانی، فتح الباری، 3: 65

’’لا تشد الرحال سے فقط مساجد مراد ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز (کا زیادہ ثواب حاصل کرنے) کے لیے ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف رختِ سفر نہ باندھا جائے۔ جہاں تک کسی صالح بزرگ یا عزیز رشتہ دار یا دوست کی زیارت و ملاقات کا تعلق ہے یا حصولِ علم، تجارت اور تفریح کے لیے سفر اختیار کرنا تو یہ حکمِ نہی میں داخل نہیں۔

اس بات کی تائید مسند احمد بن حنبل میں شہر بن حوشب کے طریق پر مروی حدیثِ مبارکہ سے ملتی ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے سامنے کوہِ طور پر نماز پڑھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی نمازی کو زیادہ حصولِ ثواب کی نیت سے کسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرنا نہ چاہیے سوائے مسجدِ حرام، مسجدِ اقصی اور میری مسجد (مسجد نبوی) کے۔‘‘

بعض لوگ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب قول کو ممانعتِ سفرِ زیارت پر بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس کی حاضری کے لیے زیارت کے لفظ کو ناپسند کیا۔ آئمہ حدیث فرماتے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حد درجہ ادب و احترام کرتے تھے، محبت اور تعظیم و توقیرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کا درجہ دیگر آئمہ کرام سے بڑھ کر ہے۔ آپ کو نسبتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا و مافیھا سے بڑھ کر عزیز تھی۔

آپ کو مدینہ طیبہ میں قربِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موت کی آرزو تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ نے ساری زندگی فرض حج کے علاوہ کبھی مدینہ طیبہ سے باہر سفر نہ کیا، اس اندیشہ کے تحت کہ کہیں مسکنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دورِ حیاتِ مستعار چھن نہ جائے جب کہ مدینہ طیبہ کے ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ آپ کبھی بھی شہرِ مدینہ میں سواری نہیں کرتے تھے۔

علامہ ابنِ ھمام حنفی لکھتے ہیں:کان مالک رحمہ الله و رضي عنه لا یرکب في طرق المدینة، وکان یقول: أستحي من الله تعالی أن أطأ تربة فیھا رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم.ابن همام، شرح فتح القدیر، 3: 180’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ کے راستوں پر سواری نہیں کرتے تھے اور (اس کی وجہ یہ بیان) فرماتے تھے: مجھے اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں اس مقدس مٹی پر سوار ہو کر چلوں جس کے اندر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسدِ اطہر ہے۔‘‘

پس آپ جیسے صاحبِ محبت امام سے اس بات کی توقع بعید ہے کہ انہوں نے زیارت کو ناپسند فرمایا ہو۔ دراصل ان کے نزدیک درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری پر لفظِ ’’زیارت‘‘ کا اطلاق خلافِ ادب ہے۔ کیوں کہ عام قبروں کے لیے لفظِ زیارت استعمال ہوتا ہے جس میں مسلمان مُردوں کو فائدہ ہوتا ہے اور اس میں زائر کو اختیار ہوتا ہے چاہے زیارت کرے چاہے نہ کرے جب کہ مالکیہ کے نزدیک درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری واجب ہے۔ اس لیے وہ اس کو عام زیارت کی طرح امرِ مباح نہیں گردانتے۔

لہٰذا امام مالک رحمہ اللہ کے قول میں ممانعتِ زیارت کا شائبہ نہیں کیوں کہ ان کا عقیدہ و عمل ہمارے سامنے ہے اور وہی قابلِ ترجیح ہے۔امام ابنِ حجر عسقلانیؒ ہی فرماتے ہیں:ما نقل عن مالک: أنه کره أن یقول زرت قبر النبي صلی الله علیه وآله وسلم ۔ وقد أجاب عنه المحققون من أصحابه: بأنه کره اللفظ أدبًا، لا أصل الزیارۃ۔ فإنھا من أفضل الأعمال، وأجل القربات الموصلۃ إلی ذي الجلال، وأن مشروعیتھا محل إجماع بلا نزاع. والله الھادي إلی الصواب.عسقلانی، فتح الباری، 3: 66

’’یہ جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ وہ اس بات کو نا پسند کرتے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کی۔ اس قول کا جواب امام مالک کے مقلدین محقق آئمہ کرام نے یہ دیا ہے کہ وہ ادبًا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضری کے لیے لفظِ ’’زیارت‘‘ کا اطلاق نا پسند فرماتے تھے نہ کہ سرے سے زیارت کا انکار کرتے تھے۔ کیون کہ زیارتِ روضۂ اطہر ان افضل اعمال اور بلند درجہ عبادات میں سے ہے جس کے ذریعہ رب ذوالجلال تک رسائی ہوتی ہے جب کہ زیارتِ روضۂ اقدس کی مشروعیت اجماع سے ثابت ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اللہ تعالیٰ صحیح بات کی طرف ہدایت فرمانے والا ہے۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں:قال بعض المحققین: قوله، إلا إلی ثلاثۃ مساجد، المستثنی منه محذوف۔ فأما أن یقدر عامًا، فیصیر لا تشد الرحال إلی مکان في أي أمر کان إلا إلی الثلاثۃ، أو أخص، من ذلک لا سبیل إلی الأوّل لإفضائه إلی سد باب السفر، للتجارۃ وصلۃ الرحم، وطلب العلم وغیرھا۔ فتعین الثاني۔ والأولی أن یقدر ما ھو أکثر مناسبۃ، وھو: لا تشد الرحال إلی مسجد للصّلاۃ فیه إلا إلی الثلاثۃ، فیبطل بذلک قول من منع شدّ الرحال إلی زیارۃ القبر الشریف وغیره من قبور الصّالحین۔ والله أعلم.عسقلانی، فتح الباری، 3: 66

’’بعض محققین نے کہا ہے: اِلَّا إلٰی ثَـلَاثَۃ مَسَاجِدَ میں ’مستثنیٰ منہ‘ محذوف ہے۔ پس یہاں یا تو مقدر عام مانیں گے اس صورت میں عبارت یوں ہو گی ’’لا تشد الرحال الی مکان فی أی امر کان إلا إلی ثلاثۃ‘‘ کسی بھی مقصد کے لیے ان تین مساجد کے علاوہ کہیں اور سفر کے لیے رختِ سفر نہ باندھا جائے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ یہاں ’مستثنیٰ منہ‘ مقدر خاص مانیں گے۔ پہلی صورت تو ہو ہی نہیں سکتی اس لیے کہ اس سے تجارت، صلہ رحمی اور طلبِ علم وغیرہ کے لیے تمام اسفار کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس لازماً دوسری صورت کا تعیّن کرنا پڑے گا۔ بہتر یہ ہے کہ اس ’مستثنیٰ منہ‘ کو مقدر مانا جائے جس کی ’مستثنیٰ‘ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مناسبت ہو اور وہ اس طرح ہے کہ ’’لا تشد الرحال إلی مسجد للصلاۃ فیہ إلا إلی الثلاثہ‘‘ (یعنی کسی بھی مسجد کی طرف نماز پڑھنے کی غرض سے رختِ سفر نہ باندھا جائے سوائے ان تینوں کے)۔ اس سے اس شخص کا قول باطل ہو گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور اور اس کے علاوہ صالحین کی قبور کی طرف سفر کرنے سے منع کرتا ہے۔‘‘

3۔ دیگر احادیثِ مبارکہ سے صحیح مؤقف کی تائیددرج بالا مؤقف کی تصریح و تائید خود اِرشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لَا یَنْبَغِي لِلْمَطِيِّ أَنْ تَشَدَّ رِحَالُہَ إِلَی مَسْجِدٍ یَنْبَغِي فِیْہِ الصَّلَاۃُ، غَیْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی، وَ مَسْجِدِي هَذَا.أحمد بن حنبل، المسند، 3: 64أبو یعلی، المسند، 2: 489، رقم: 1326طحاوی، مشکل ا لآثار، 1: 243امام ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد (4: 3)‘‘

میں اِس حدیث کے نفسِ مضمون کو حسن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’الصحیح‘ میں اِسی طرح ہے۔’’کسی مسجد میں (زیادہ ثواب کے حصول کے لئے) نماز ادا کرنے کی غرض سے سفر کے لئے سواری تیار نہ کی جائے، سوائے مسجدِ حرام، مسجدِ اَقصیٰ اور میری اِس مسجد کے۔‘‘

اوّلاً: اِس حدیث میں مستثنیٰ منہ صریحاً مذکور ہے جو کہ ’مسجد‘ ہے لہٰذا شرحُ الحدیث بالحدیث کے بعد اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ کوئی شخص خواہ مخواہ اپنی طرف سے کسی ایسے لفظ کو مستثنیٰ منہ قرار دے جو نہ تو عربی لغت کے اُسلوب کے مطابق درست ہے اور نہ فصاحت و بلاغتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائق، بلکہ خود توضیحِ نبوت کے بھی خلاف ہے ۔

ثانیاً: حدیثِ مذکور میں واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ نماز ادا کرنے کی غرض سے سفر نہ کیا جائے، جس کا مطلب لامحالہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی اور مقصد کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے۔2۔ اِس کی مزید وضاحت اِس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ہو جاتی ہے:لَا تُشَدُّ رِحَالُ الْمَطِيِّ إِلَی مَسْجِدٍ یُذْکَرُ اللہُ فِیْہِ إِلَّا إِلَی ثَـلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْمَدِیْنَۃِ، وَبَیْتِ الْمَقْدَسِ.أبویعلی، المسند، 2: 489،رقم: 1326’’اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی نیت سے کسی مسجد کی طرف رختِ سفر نہ باندھا جائے، سوائے اِن تین مساجد کے: مسجدِ حرام، مسجدِ مدینہ اور بیت المقدس۔‘‘

اِس حدیثِ مبارکہ میں واضح الفاظ میں تین مسجدوں کے علاوہ اس نیت سے کسی اور مسجد کی طرف اس نیت کے تحت سفر کرنے سے منع فرمایا گیا ہے کہ اُس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرکے زیادہ ثواب حاصل کیا جائے۔

3۔ اِس کی تصریح و تائید حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:إِنَّمَا یُسَافَرُ إِلَی ثَـلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْکَعْبَۃِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ إیْلِیَاءَ.مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب لا تشدّ الرحال إلا إلي ثلاثۃ مساجد، 2: 1015، رقم: 1397بیهقی، السنن الکبریٰ، 5: 244، رقم: 10044أیضاً، دلائل النبوۃ، 2: 545’’

(زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) صرف اِن تین مساجد کی طرف سفر کیا جائے: مسجدِ کعبہ، میری مسجد اور مسجدِ ایلیاء (بیت المقدس)۔‘‘اس حدیثِ مبارکہ میں اُسلوبِ اِستثناء بیان نہیں کیا گیا بلکہ اُسلوبِ حصر اِختیار کیا گیا ہے۔ پچھلی احادیث میں چوں کہ اُسلوبِ استثناء تھا اِس لئے یہ اَمر زیرِ بحث تھا کہ مستثنیٰ منہ کیا ہے، جب کہ اِس حدیثِ مبارکہ میں اِستثناء کا اُسلوب ہی نہیں۔

ان مضامین کو بھی پڑھیں

لہٰذا یہ بیانِ حصر ہماری مذکورہ بالا پوری بحث کی تصدیق کرتا ہے کیوں کہ اِس میں حصر صرف ان ہی مساجد کا ہے لہٰذا باقی مساجد کی طرف حصولِ ثواب کی نیت سے سفر کرنا منع ہے۔

4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے طریقِ حصر پر مشتمل ایک اور حدیث اِن الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے:إنما تُضْرَبُ أکبَادُ الْمَطِيّ إِلَی ثَـلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی.طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 276، 277، رقم: 2159طبرانی، المعجم الأوسط، 3: 378، رقم: 2811أبو یعلی، المسند، 11: 435، رقم: 6558طبرانی کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہے اور ابویعلٰی کی بیان کردہ روایت کے رِجال ثقہ ہیں۔’’صرف تین مساجد کی طرف سفر کے لیے سواری تیار کی جائے: مسجدِ حرام، میری یہ مسجد اور مسجدِ اقصیٰ۔‘‘

اِن احادیثِ مبارکہ سے صراحت ہو گئی کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد، مقام، شہر یا جگہ کی طرف اجر و ثواب کی نیت کے بغیر سفر کرنا ہر گز ممنوع نہیں اور نہ ہی شَدُّ الرِّحال والی حدیث کا موضوع ہے۔اِن مساجد میں ادا کی جانے والی نمازوں پر ملنے والے غیر معمولی اَجر و ثواب کے حوالے سے بھی متعدّد احادیث واردہیں۔

5۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:صَلَاۃٌ فِیْ مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاۃٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَۃِ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ.ابن ماجۃ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الحرام و المسجد النبوي صلی الله علیه وآله وسلم، 2: 186، رقم: 1406

’’میری مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازیں (ادا کرنے) سے افضل ہے سوائے مسجدِ حرام کے، اور مسجدِ حرام میں (ادا کی ہوئی) ایک نماز (دوسری مساجد میں ادا کردہ) ایک لاکھ نمازوں سے بہتر ہے۔‘‘یہ حدیث صحیح ہے، اس کی اِسناد صحیح اور رِجال ثقہ ہیں۔

6۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:صَلَاۃُ الرَّجُلِ… فِی الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ صَلَاۃٍ، وَصَلَاتُہُ فِی مَسْجِدِي بِخَمْسِیْنَ ألْفَ صَلَاۃٍ، وَصَلَاۃٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَۃِ أَلْفِ صَلَاۃٍ.ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الحرام و مسجد النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 2: 190، 191، رقم: 1413طبرانی، المعجم الأوسط، 7: 7، رقم: 7004

’’جو شخص مسجدِ اقصیٰ اور میری مسجد میں نماز پڑھے اُسے پچاس ہزار نمازوں کا اور جو مسجدِ حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘اس بحث کو خلاصتہً درج ذیل دو اہم نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجِ بالا تائیدی ارشاداتِ عالیہ سے ثابت ہوا کہ لَا تُشَدُّ الرِّحَال والی احادیث کا مطلب تضاعفِ ثواب ہے یعنی زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے سفر کرنا صرف اِن ہی تین مساجد کی طرف جائز ہے جب کہ اِس غرض سے اُن کے علاوہ روئے زمین کی کسی اور مسجد کی طرف اس نیت سے سفر کرنا جائز نہیں۔

2۔ اس حدیثِ مبارکہ کا صحیح معنی و مفہوم اُن اجل آئمۂِ حدیث نے بیان کیا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کر رکھی اور تحصیلِ حدیث میں اتنی محنت کی کہ درجۂ حفاظ میں شامل ہو گیے۔ ایسے تمام آئمۂ کرام کی رائے مفہوم حدیث کی وضاحت میں سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی مستند رائے کی موجودگی میں کسی اور کی ذاتی اور غیر مناسب رائے کی طرف التفات کی ہر گز ضرورت نہیں رہتی۔لہٰذا ثابت ہوا کہ لَا تُشَدُّ الرِّحال میں صرف اسی سفر کی ممانعت ہے جو اِن تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں نماز کے زیادہ ثواب کی نیت سے ہو، اگر کوئی شخص کسی اور جائز نیت سے یا فقط زیارت کے لیے کسی متبرک مقام یا ہستی کی زیارت کو جائے تو وہ ہرگز اس حدیث میں شامل نہیں۔

مساجد ثلاثہ کی فضیلت کا ایک سبب قبور انبیاء علیہم السلام بھی ہیںمتذکرہ بالا احادیثِ مبارکہ سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کی طرف سفر کرنا باعث فضیلت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں پر نماز کا ثواب زیادہ ملتا ہے اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو دنیا کی کسی اور مسجد کو حاصل نہیں۔ مساجد کی طرف سفر کے متعلق طبرانی کی وہ روایت بھی ضمناً بیان ہوئی جس میں مسجد خیف کا ذکر ہے۔ بعض لوگ انہی احادیث مبارکہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء اور صالحین کے مزارات مقدسہ کی طرف رختِ سفر باندھنا باعثِ معصیت و گناہ ہے۔ بسا اوقات یہ لوگ زائرین پر کفر و شرک کا فتویٰ بھی لگا دیتے ہیں۔ دراصل یہ ایک انتہائی خطرناک مؤقف ہے جو سراسر غلط اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے۔

آئمہ تفسیر و حدیث نے اپنی معتبر کتب میں ان احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی بیان کیا ہے جن سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ ان مساجد کی عظمت و فضیلت کا ایک سبب قبور انبیاء بھی ہیں۔

1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات گرامی کے مطابق اگر کوئی شخص نماز میں زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتا ہو تو اس مقصد کے لئے وہ تین مساجد (مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ) کی طرف سفر کرے۔ محض ثواب میں کثرت کے مخصوص ارادے سے کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا منع ہے۔

2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مساجد ثلاثہ کے علاوہ مسجد خیف کی طرف بھی سفر کرنے کا ارشاد فرمایا لیکن وہاں پر نماز کی فضیلت کا ذکر نہیں ملتا۔ تاہم مطالعہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کی طرف سفر کرنے کی ترغیب کی وجہ وہاں انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک قبور ہیں جو اس کی عظمت و فضیلت کا ایک سبب اور یہی سبب اس کی طرف سفر اختیار کرنے کی ترغیب کا محرک بھی ہے۔

اسی لیے قبور انبیاء و صالحین کی طرف سفر کرنا باعث سعادت عمل ہے۔طبرانی میں ثقہ رجال کی سند سے روایت ہے۔عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ قَبْرُ سَبْعِیْنَ نَبِیًّا.طبراني، المعجم الکبیر، 12: 413، رقم: 13525دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 2: 28، رقم: 2177فاکهی، أخبار مکۃ، 7: 102، رقم: 2525عسقلاني، المطالب العالیہ، 7: 175، رقم: 1232هیثمی، مجمع الزوائد، 3: 460مناوی، فیض القدیر، 4: 459

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد خیف میں 70 انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک قبریں ہیں۔‘‘ہیثمی نے لکھا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

دیگر فضیلت والی تینوں مساجد میں بھی انبیاء علیہم السلام کی قبور کا ثبوت کتب احادیث و تواریخ میں موجود ہے۔سب سے زیادہ فضیلت والی مسجد، مسجدِ حرام خود مسکن مزاراتِ انبیاء علیہم السلام ہے اس کے مطاف میں کثیر انبیاء کرام علیہم السلام کے مزارات کا ثبوت درج ذیل روایات سے ملتا ہے:عَنِ ابْنِ عَبَاسِ، قَالَ: وَ أوَّلُ مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ الْمَـلَائِکَۃُ، وَإِنَّ مَا بَیْنَ الْحَجَرِ إِلَی الرُّکْنِ الْیَمَانِي لَقُبُورًا مِنْ قُبُوْرِ الأنْبِیَاءِ.طبرانی، المعجم الکبیر، 11: 454، رقم: 12288

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ شریف کا طواف فرشتوں نے کیا اور حجرأسود سے رکن یمانی تک درمیانی حصہ میں ستر انبیاء علیہم السلام کی مبارک قبریں ہیں۔‘‘

صحن حرم اور قدس شریف میں انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک قبور کی موجودگی درجہ ذیل روایت سے بھی ثابت ہے۔عن مقاتل قال: في المسجد الحرام بین زمزم و الرکن قبر سبعین نبیا، منھم ھود، و صالح، و إسماعیل. و قبر آدم، و إبراهیم، و إسحاق، و یعقوب، و یوسف، في بیت المقدس.أزرقی، أخبار مکۃ، 111سیوطی، الدر المنثور، 1: 328

’’حضرت مقاتل سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: مسجد حرام میں زمزم اور رکن یمانی کے درمیان 70 انبیاء علیہم السلام کی مبارکہ قبور موجود ہیں جن میں حضرت ھود، حضرت صالح اور حضرت اسماعیل علیہم السلام بھی ہیں۔ اور حضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت إسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام کی مبارک قبریں بیت المقدس میں ہیں۔‘‘

مؤرخِ مکہ فاکہی نے 300 انبیاء کرام علیہم السلام کی قبور کی موجودگی کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:وسمعنا أن حول الکعبۃ قبور ثلاثمائۃ نبي. و أن قبر نوح، و ھود، و شعیب، و صالح علیهم السلام فیما بین الملتزم و المقام، و أن ما بین الرکن الأسود إلی الرکن الیمانی قبور سبعین نبیا.فاکهی، أخبار مکۃ، 4: 191’’ہم نے سنا ہے کہ کعبہ شریف کے اردگرد تین سو انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک قبریں موجود ہیں۔ حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام کی قبریں ملتزم اور مقام ابراہیم کے درمیان ہیں جبکہ رکن أسود سے رکن یمانی کے درمیان 70 انبیاء علیہم السلام کی مبارک قبریں ہیں۔‘‘

اسی طرح مسجد اقصی کے بابرکت ہونے کی بڑی وجہ بھی اس کے اردگرد انبیا علیہم السلامکی مبارک قبروں کی موجودگی ہے۔ جس کے بارے میں آئمہ تفسیر نے سورہ اسراء کی پہلی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے واضح طور پر لکھا ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر ہم نے باب چہارم ’’توحید اور تبرک‘‘ میں کر دیا ہے۔

پس اس تفصیلی بحث سے یہ امر مترشح ہوا کہ کسی مقام کا متبرک ہونا اور وہاں کی زیارت اور سفر کا باعث سعادت ہونا قبور أنبیا علیہم السلام کی بنا پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ارشادات گرامی میں جن مسجدوں کی فضیلت بیان فرمائی اور ان کی طرف سفر کی ترغیب دی یہ چاروں مسجدیں بھی وہی ہیں جہاں انبیاء علیہم السلام کے مقدس مزارات ہیں اور یہی ان کی اہمیت و فضیلت کا بنیادی سبب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قبرِ انور کی طرف زیارت کی خصوصی توجہ دلائی نیز اولیا و صالحین کی قبور پر جا کر امت کے لیے اپنی سنت مقرر فرما دی۔

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن