Friday, October 18, 2024
Homeشخصیاتحضرت خواجہ غریب نواز اور درس ایمان و عمل

حضرت خواجہ غریب نواز اور درس ایمان و عمل

تحریر: عبد المبین نعمانی حضرت خواجہ غریب نواز اور درس ایمان و عمل

حضرت خواجہ غریب نواز اور درس ایمان و عمل

خواجہ خواجگاں ، سلطان الہند عطاے رسول سید نا معین الدین حسن اجمیری علیہ الرحمة والرضوان (متوفی ۶/ رجب ۲۳۳ھ) کی شان بڑی نرالی اور عظیم ہے۔ ہندوستان میں ان کی تشریف آوری سے اسلام کو بہت فروغ ملا ۔

سر کار خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ کی کرامتوں نے یہاں کے جادوگروں اور ہندو جوگیوں کو مات دے کر اسلام کا غلغلہ بلند کیا۔ دوسرے یہ کہ آپ کے اعمال صالحہ نے ان کے دلوں میں وہ اثر ڈالا کہ جوق در جوق کفار ہند حلقہ بگوش اسلام ہو گیے ۔ حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ مقامات سلوک کیسے حاصل کیے، کیسے کیسے بزرگوں سے ملے اور خود پیر ومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالی عنہ کی کیسی خدمت کی ، یہ باتیں قابل غور اور لائق توجہ ہیں ۔

حضرت خواجہ نے میں سال تو اپنے مرشد کی خدمت میں رہ کر سیر و سیاحت کرتے رہے ۔مرشد سے جدا ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک سیاحت کی اور اولیاء اللہ کے ارشادات و فرمودات سے متمتع ( فیض یاب ہوتے رہے۔ کشف و کرامات کے واقعات تو بہت سی کتابوں میں ملیں گے جن سے خواجہ خواجگاں کی عظمت ولایت کا ضرور پتہ چلتا ہے مگر یہاں حضرت خواجہ کی زندگی اور سیاحت کے وہ واقعات بیان کرنا چاہتا ہوں جن سے خود حضرت خواجہ نے بڑا سبق حاصل کیا اور جن سے متاثر ہو کر آپ نے اپنی زندگی میں نکھار پیدا کیا تا کہ ہم بھی اپنی زندگی میں انقلاب لائیں اور ان واقعات سے سبق لیں ۔ کرامات بلاشبہ برحق ہیں لیکن بزرگوں کی زندگی میں عمل وتقوی کی جو مثالیں پائی جاتی ہیں ان کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اس سے عمل کا جذ بہ اور عبادت کا شوق بیدار ہوتا ہے ۔

والد کے انتقال کے بعد حضرت خواجہ نے وراثت میں ملے باغ کی رکھوالی شروع کر دی۔ ایک روز ایک مجذوب بزرگ ابراہیم قندوری نامی تشریف لاۓ ۔ حضرت خواجہ نے انگور کے خوشے پیش کیے ۔ آپ نے انگور نہ کھائے ، اور کھلی کے ایک ٹکڑے کو دانتوں سے چبا کر خواجہ کے منہ میں ڈال دیا۔ اس کھلی کا کھانا تھا کہ حضرت خواجہ کا دل انوار الہی سے روشن ہو گیا۔ دنیاوی علائق کو چھوڑ کر مطلب مولا میں لگ گئے ۔ بخارا اور سمر قند جا کر سب سے پہلے علوم ظاہری سے اپنے کو آراستہ کیا ۔ پھر سمرقند سے روانہ ہو کر عراق پہنچے اور قصبہ باز فون میں شیخ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات کی ، آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے ۔ بیعت کے وقت مرشد نے وضو کرا یا ، دورکعت نماز پڑھوائی ، پھر قبلہ رخ ہوکر سورہ بقرہ پڑھنے کو کہا، اس کے بعد اکیس بار درودشریف پڑھوایا اور ساٹھ بارسبحان اللہ ، پھر آسمان کی طرف چہرہ مبارک اٹھا کر اور خواجہ غریب نواز کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میں نے تجھ کو خدا تک پہنچایا اور اس کی بارگاہ کا مقبول کیا۔ ذیل میں وہ واقعات نقل کیے جاتے ہیں جو حضرت خواجہ بزرگ کی زندگی پر اثر انداز ہوئے اور باطن کو سنوارنے میں مدد کی ۔

جس کو موت آنے والی ہو:

اکثر تذکرہ نویسوں کا کہنا ہے کہ حضرت خواجہ نے بیسں سال تک اپنے مرشد کی خدمت کی ،حتی کہ سفر میں بستر اور دیگر ضروری سامان سر پر رکھ کر چلتے ۔ دوران سفر مرشد نے عجیب عجیب بزرگوں سے ملاقات کرائی ۔ چناں چہ مرشد کی معیت میں سیوستان پہنچے، شیخ صدرالدین محد سیوستانی سے ملنے ان کے عبادت خانے میں گئے اور کئی روز وہاں گزارے، ان کے استغراق کا عجیب عالم تھا۔ موت اور قبر کا حال سنتے ہی بید کی طرح کا نپتے اور روتے ، یہاں تک کہ ان کی آنکھوں سے خون بہنے لگتا، جیسے کسی چشمے سے پانی بہتا ہو ، سات سات روز روتے ہی رہتے ، ایسا روتے کہ دیکھ کر دوسروں کو رونا آ جا تا۔

ایک موقع پر حضرت خواجہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے عزیز ! جس کو موت آنے والی ہو، اور اس کا حریف ملک الموت ہو، اس کو سونے ، بننے اور خوش رہنے سے کیا کام ۔ اس کے بعد فرمایا : اے عزیز ! اگر تمہیں ان لوگوں کا ذرا بھی حال معلوم ہو جاۓ ، جو زمین کے نیچے ایسی کوٹھری میں سوتے ہیں ، جس میں سانپ بچھو بھرے ہوئے ہیں تو اس کو معلوم کرتے ہی تم اس طرح پکھل جاؤ گے جیسے پانی میں نمک پکھل جا تا ہے ۔ پھر انھوں نے فرمایا:

ایک دن میں ایک بزرگ کامل کے ساتھ بصرہ کے ایک قبرستان میں بیٹھا تھا اور پاس ہی ایک قبر میں مردے پر عذاب ہو رہا تھا۔ ان بزرگ کو جب یہ حال معلوم ہوا تو زور سے نعرہ مارا اور زمین پر گر پڑے، میں نے ان کو اٹھانا چاہا مگر ان کی روح قالب سے پرواز کر چکی تھی ، اور پھر تھوڑی ہی دیر میں ان کا سارا جسم پانی بن کر بہہ گیا۔ اس دن سے مجھ پر بھی قبر کی بڑی ہیبت طاری ہے ۔اس لیے اے عزیزو! دنیا میں مشغول نہ ہونا ، کہ حق سے غافل ہو جاؤ ۔ (دلیل العارفین )

یہ واقعہ جب سرکارغریب نواز نے سنا ہوگا ضروران کی بھی روح کانپ اٹھی ہو گی ۔ آج لوگ موت سے گھبراتے ہیں لیکن حساب کی فکر نہیں کرتے ، گناہوں سے لت پت رہنے میں مزا ملتا ہے لیکن قبر کے عذاب سے نہیں ڈرتے ، جب کہ سر کا راقدس آقاے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کثرت سے موت کو یاد کر نے کا حکم دیا ہے اور فر مایا: قبروں کی زیارت کرو، اس سے دنیا میں بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور آخرت یاد آتی ہے ۔ (مشکوۃ المصالح :۱۵۴، زيارة القبور )

افسوس آج ہم آخرت کی یاد سے تو بھاگتے ہیں لیکن کل آخرت سے بھاگ کر کہیں نہجاسکیں گے!۔پاؤں کاٹ کر پھینک دیا: اب بدخشاں کا ایک عبرت آموز واقعہ ملاحظہ کر میں ۔ حضرت خواجہ جب بدخشاں پہنچے تو وہاں کی خانقاہ میں ایک بزرگ کو دیکھا جن کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔ ان سے باتیں ہوئیں تو فرمایا کہ اس خانقاہ میں میں عبادت کرتا تھا کہ ایک روز نفسانی خواہش میں مبتلا ہو کر باہر نکلنا چاہا ، جیسے ہی ایک پاؤں باہر نکالا ، ندا آئی : اے پابند عہد! اتنے ہی میں بھول گیا ؟ بین کر اس پاؤں کو چھری سے کاٹ کر پھینک دیا ، اور چالیس سال سے عالم تحیر میں ہوں کہ قیامت کے دن درویشوں کے ساتھ خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا ۔ (انیس الارواح )

اللہ اکبر! کیسا خوف خدا ہے کہ جس کی مثال ملنی مشکل ہے!۔ بارگاہ رسالت کی مقبولیت: اپنے مرشد گرامی کے ساتھ خواجہ غریب نواز نے حرمین طیبین کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا۔ مرشد نے خدا اور اس کے رسول کی بارگاہ میں اپنے محبوب مرید کے لیے دعائیں کیں ، پھر مرشد نے خود سنا کہ قبر اطہر سے آواز آئی : معین الدین دوست ماست او را قبول کردم و برگزیدم ۔‘‘ ( معین الدین ہمارا دوست ہے ، اس کو قبول کیا اور برگزیدگی عطا کی ) پچر مد ینہ منور وہیں سے حضرت خواجہ کو ہندوستان جانے کی بشارت کی ۔ ( سیدالاقطاب و مونس الارواح )

بارگاہ رسالت میں میں مقبولیت بلا وجہ تو نہیں یہ خواجہ پاک کے ایمان کی پختگی اور زہد وتقوی نیز اتباع شریعت ہی کا تو ثمرہ ہے۔ بارگاہ مرشد میں مقبولیت: حضرت خواجہ غریب نواز کو اپنے مرشد سے بے پناہ عقیدت تھی ، جس کا صلہ ان کو یہ ملا کہ مرشد نے ان کو بھی اپنا بنا لیا۔ چناں چہ آپ کے مرشد گرامی فرماتے ہیں:

معین الدین محبوب خدا است مرافتخر است برمریدی او” یعنی معین الدین خدا کا محبوب ہے اور مجھ کو اس کی مریدی پر فخر ہے ۔(سلی الاولیاء ،مونس الارواح )

سبحان اللہ ! مرشد نے خدا کی محبوبیت کی گواہی دی اور ان کی مریدی پر ناز کیا ہے ۔ بھلا جسے مرشد چا ہیں اور فخر کر میں ، اس کے مقام ومرتبے کا کون اندازہ لگا سکتا ہے!۔

 

ان مضامین کو بھی پڑھیں

خوف خدا کی کارفرمائی:

قیام بغداد کے دوران دجلہ کے کنارے ایک خانقاہ میں گئے جہاں ایک بزرگ مقیم تھے۔ حضرت خواجہ نے ان کو سلام کیا ، اشارے سے انھوں نے جواب دیا اور بیٹھ جانے کو کہا۔ جب حضرت خواجہ بیٹھے تو بزرگ گو یا ہوۓ ، مجھے پچاس سال ہوۓ کہ مخلوق خدا سے جدا ہو کر یہاں بیٹھا ہوں ، جیسے تم سفر کرتے ہو، میں بھی ویسے ہی سفر کیا کرتا تھا ، سفر کے دوران میرا گز ر ایک شہر میں ہوا، جہاں ایک مال دار شخص لوگوں سے معاملات میں سختی کیا کرتا تھا اور گا ہکوں کوستا تا تھا ۔ بس میں خاموشی سے گزر گیا ، اس کو تنبیہ نہ کی ۔ نداے غیبی آئی ۔اگر تو خدا کے لیے اس مر دار دنیا سے باز رہنے کی تلقین کرتا اور اس کو سختی کرنے سے منع کرتا تو وہ تیری بات مان جا تا اور ظلم سے باز آ تا۔ جس روز سے میں نے یہ آوازسنی ہے، میں بہت شرمندہ ہوں اور اسی وقت سے اس خانقاہ میں مقیم ہوں۔ کبھی اس سے باہر قدم نہیں نکالا ۔ مجھے اس بات کا بڑا خوف ہے کہ قیامت کے دن اگر اس معاملے میں مجھ سے سوال ہوا تو کیا جواب دوں گا۔ میں نے اس تاریخ سے قسم کھالی ہے کہ کہیں نہیں جاؤں گا کہ میری نظر کسی ایسی چیز پر نہ پڑے کہ میں اس سے متعلق پوچھا جاؤں ۔ (دلیل العارفین )

قیامت میں کیا منہ دکھاؤں گا !:

کرمان میں ایک بزرگ سے ملے جن کے بدن پر گوشت نہ تھا ، باتیں بہت کم کرتے ، سوچا ان کا حال پوچھوں ، تو خود ہی بزرگ نے روشن ضمیری سے جان لیا اور فرمایا: ایک روز میں اپنے دوست کے ساتھ قبرستان گیا ۔ اتفاقا اسی دوست سے لہولعب کی کوئی بات نکلی جس پر میں نے ہنس دیا۔فوراً میرے کان میں آواز آئی ، جس کا حریف ملک الموت ہو اور زیر زمین سانپ بچھو کے درمیان جس کا گھر ہو، اس کونسی سے کیا سروکار۔ جب اس کو سنا فوراً دوست سے جدا ہوا، گھر آیا اور پھر اس غار میں گوشہ نشین ہو گیا ۔ اس دن سے میرے اوپر بڑی ہیبت ہے کہ آج چالیس سال ہوئے نہ میں ہنسا ، نہ ہی آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھا۔ شرمندہ ہوں کہ کل قیامت دن اگر سوال ہوا تو کیا منہ دکھاؤں گا اور کیا جواب دوں گا ۔ ( فوائد السالکین )

آج ہم لوگ عام طور سے قبرستانوں کے آداب سے ناواقف ہیں ۔ قبرستانوں میں ہنسنا کھیلنا تو عام بات ہوگئی ہے، یہ واقعہ اپنے اندر بڑادرس عبرت رکھتا ہے نماز گئی تو سب کچھ گیا: حضرت خواجہ قدس سرہ فرماتے ہیں:

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں شام کے قریب ایک شہر میں تھا، اس کے باہر ایک غار تھا ، جس میں ایک بزرگ شیخ محمد الواحد غزنوی علیہ الرحمہ رہتے تھے۔ جن کے جسم پر چمڑا ہی پڑا تھا، گوشت کا نام بھی نہ تھا۔ سجادے پر بیٹھے ہوئے تھے اور دوشیران کے پاس کھڑے تھے ۔ جب ان کی نگاہ مجھ پر پڑی ، فرمایا: آجاؤ ڈرونہیں ، جب میں پاس گیا تو آداب بجالا کر بیٹھ گیا۔ فرمایا: اگر تو کسی کا ارادہ نہ کرے گا تو وہ بھی تیرا ارادہ نہ کرے گا، یعنی شیر کی کیا ہستی ہے کہ تو اس سے ڈرتا ہے۔ پھر فرمایا: جب تیرے دل میں خوف خدا ہوگا تو سب تجھ سے ڈریں گے، شیر کی کیا حقیقت ہے۔ پھر پوچھا، کہاں سے آنا ہوا۔ عرض کیا ، بغداد سے ۔فرمایا: آنا مبارک ہو، لیکن لازم ہے کہ تو درویشوں کی خدمت کرے تا کہ بزرگ بن جائے ۔ سنو! مجھے اس غار میں رہتے کئی سال گزر گئے۔ یہاں میں تنہا گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہوں اور مخلوق سے دور ہوں اور میں سال سے ایک چیز کے لیے رورہا ہوں اور رات دن خوف زدہ رہتا ہوں ۔

خواجہ صاحب فرماتے ہیں، میں نے پوچھا، وہ کیا ہے؟ فرمایا : جب میں نماز ادا کرتا ہوں تو اپنے آپ کو دیکھ کر روتا ہوں کہ اگر شرائط نماز میں ذرا بھی کوتاہی ہوئی تو نماز گئی اور جب نماز گئی تو سب کچھ گیا۔ پھر کہیں یہ نماز قیامت کے دن میرے منہ پر نہ مار دی جاۓ تو اے درویش! اگر تو نماز کے حقوق سے عہدہ برآ ہو جاۓ تو واقعی تو نے بڑا کام کیا، ورنہ تیری عمر ضائع ہی ہوگی۔

پھر یہ حدیث بیان فرمائی کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک کوئی گناہ دنیا میں اور کوئی دشمن قیامت میں اس سے بڑھ کر نہیں کہ آدمی نماز کو شرائط کی پابندی کے ساتھ ادا نہ کرے۔ پھر فرمایا : میرے بدن پر جو ہڈیاں اور چمڑا دکھائی دیتا ہے ، میراسی سبب اور خوف سے ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آیا مجھ سے نماز کا حق ادا ہوا یا نہیں ۔ اس کو بیان کر کے حضرت خواجہ قدس سرہ نے فرمایا: ان بزرگ کی ساری گفتگو کالب لباب یہ تھا کہ نماز کا معاملہ بڑا اہم ہے ۔ اگر سلامتی کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہو سکے تو نجات پا جاۓ گا ورنہ شرمندگی ہاتھ آۓ گی اور منہ دکھانے کے لائق نہ ہوگا ۔ (دیل العارفین مجلس دوم )

اس کے بعد حضرت خواجہ نے آبدیدہ ہو کر نماز کی مزید اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: نماز دین کا رکن ہے اور رکن ستون کو کہتے ہیں، جب ستون قائم رہے گا گھر بھی برقرار رہے گا اور اگر ستون ہی نکل جائے گا تو گھر بھی گر پڑے گا۔ جب نماز کے اندر فرض ، سنت اور رکوع و سجود میں خلل پڑے گا تو حقیقت اسلام میں خلال آ جاۓ گا کیونکہ نماز ہی دین کا ستون ہے ۔ اور فرمایا: اللہ تعالی نے کسی عبادت میں ایسی تا کید نہ کی جیسی تا کید و تشدید ( سختی ) نماز کے بارے میں کی ہے ۔

پھر تفسیر کے حوالے سے ارشادفر مایا: قیامت کے روز پچاس مختلف مقامات پر مختلف سوالات ہر آدمی سے ہوں گے۔ پہلے مقام پر ایمان کے بارے میں سوال ہوگا، اگر اس کا صحیح جواب نہ دے سکا تو وہیں سے سید ھے جہنم میں بھیج دیا جاۓ گا پھر دوسرے مقام پر نماز اور دیگر فرائض کا سوال ہوگا۔ اگر صحیح جواب دے سکا تو بہتر ورنہ و ہیں سے سید ھے دوزخ بھیج دیا جاۓ گا۔ پھر تیسرے مقام پر سنت نبوی کی بابت سوال ہوگا ،اگر ان سے عہدہ برآ ہوسکا لینی صیح ادا کیا تھا اور ٹھیک ٹھیک جواب دے دیا تو رہائی ملے گی ورنہ موکلوں کے ہاتھوں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مجرم بنا کر بھیجا جائے گا کہ یہ ں آپ کی امت سے ہے ،مگر اس نے سنت کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے۔ حضرت خواجہ رضی اللہ تعالی عنہ جب اس بیان کوختم کر چکے تو زارزار رونے لگے اور فرمایا کہ افسوس اس شخص پر جو قیامت کے روز پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ ہوگا اور جوان کی بارگاہ میں شرمندہ ہوگا ، کہاں جاۓ گا ؟ ( دلیل العارفین )

اس مسلمانی پر ہمیں ہزارافسوس :

ایک بار نماز قضا کر دینے کی گفتگو چل رہی تھی تو حضرت خواجہ بزرگ نے اپنی زبان فیض تر جمان سے فرمایا ، وہ کیسے مسلمان ہیں جو نماز وقت پر نہیں ادا کرتے اور اس قدر دیر کر دیتے ہیں کہ وقت ہی گزر جاۓ ، یعنی قضا کر دیتے ہیں اور فرمایا: ان کی مسلمانی پر میں ہزار افسوس جو اللہ رب العالمین کی بندگی میں کوتا ہی کرتے ہیں ۔

وقت سے پہلے نماز کی تیاری :

حضرت خواجہ نے فرمایا: میرا گز رایک ایسے شہر سے ہوا جہاں یہ رسم تھی کہ وقت سے پہلے ہی لوگ نماز کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ میں نے پوچھا اس میں کیا حکمت ہے؟ کہا: وجہ یہ ہے کہ جب وقت ہوجلد نماز ادا کر لیں ، جب پہلے سے تیار نہ ہوں گے تو شاید وقت گز ر جاۓ اور نمازفوت ہو جاۓ ۔ پھر کس منہ سے سرکار دو عالم شفیع امم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جائیں گے کیونکہ حدیث میں آیا ہے : عجلوا بالتوبة قبل الموت وعجلوا بالصّلوة قبل الفوت. یعنی مرنے سے پہلے تو بہ کے لیے جلدی کرو، اورفوت ( یعنی قضا ) ہونے سے پہلے نماز میں جلدی کرو ۔ دونماز میں جمع کرنا گناہ ہے: پھر فرمایا کہ امام کی زندوی رحمۃ اللہ علیہ کے روضے میں لکھا دیکھا ہے کہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : من أكبر الكبائر الجمع بين الصلوتین یعنی سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ فرض نماز میں اس قدر تاخیر کی جاۓ کہ وقت گز رجاۓ اور پھر دونما ز میں اکٹھا ادا کر نی پڑیں ۔ (دلیل العارفین )

نماز قضا ہونے پر آہ وزاری :

اس کے بعد چند احادیث نماز کی فضیلت میں بیان کر کے فرمایا: ایک مرتبہ حضرت خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے صبح کی نماز قضا ہو گئی تو اس قدر روۓ اور آہ وزاری کی کہ بیان نہیں کی جاسکتی ۔ آواز آئی کہ اے بایزید ! ایک نماز فجر کے فوت ہونے پر تو نے اس قد رآہ وزاری کی ، جا میں نے تیرے اعمال میں ہزار نمازوں کا ثواب لکھ دیا ہے۔ یہ اللہ والے ہیں جو صرف ایک نماز قضا ہونے پر آہ وزاری کرتے ہیں اور ہم ایسے قسی القلب واقع ہوئے ہیں کہ نمازوں پر نماز میں قضا ہورہی ہیں مگر ذرا بھی فکر نہیں کرتے!۔

تاخیر نماز پر کفارہ :

پھر فرمایا: ایک مرتبہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کی (یعنی مغرب کی نماز ادا کی ، جب آسمان کی طرف دیکھا تو ستارہ دکھائی دینے لگا۔ نہایت غمزدہ ہوۓ ، اندر گئے اور اس کے کفارے میں ایک غلام آزاد کیا ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حکم ہے کہ جب سورج غروب ہو جاۓ تو فورا نماز ادا کرو،ایسا کرنا سنت ہے ۔ می صرف تاخیر پر کفارہ ہے اور ہم نماز قضا بھی کر دیتے ہیں تو کسی کفارے کا خیال تک نہیں لاتے !۔

جھوٹی قسم اور نماز چھوڑ نے والوں پر عذاب :

اس کے بعد ایک واقعہ یہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ بغداد کی جامع مسجد میں ایک ڈاکر مولا نا عمادالدین بخاری رہتے تھے جو نہایت صالح اور نیک مرد تھے۔ یہ حکایت میں نے ان سے سنی کہ ایک مرتبہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے دوزخ کے بارے میں فرمایا کہ اے موسی! میں نے دوزخ میں ایک وادی ہاویہ پیدا کی ہے جو ساتواں دوزخ ہے اور سب سے زیادہ خوف ناک و سیاہ ہے۔ اس کی آگ بھی سیاہ اور نہایت سخت ہے اس میں سانپ بچھو بہ کثرت ہیں ۔ وہ ایسے گندھک کے پتھروں سے ہر روز تپایا جا تا ہے کہ اس گندھک کا ایک قطرہ دنیا میں آجاۓ تو تمام پانی ہی خشک ہو جائے اور تمام پہاڑ اس کی تیزی سے گل جائیں اور اس کی گرمی سے زمین پھٹ جاۓ ۔اے موسی ! ایسا عذاب دو شخصوں کے لیے بنایا ہے ۔ ایک وہ جو نمازادانہیں کرتا ، دوسرے وہ جو میرے نام کی جھوٹی قسم کھا تا ہے۔

قسم کا کفارہ :

پھر فرمایا: ایک بزرگ خواجہ محمد اسلم طوی نے ایک مرتبہ کسی کام کی خاطر کی قسم کھائی ۔ اس وقت وہ حالت سکر ( مد ہوشی ) میں تھے ، جب حالت صحو ( ہوش ) میں آۓ ، پوچھا، کیا آج میں نے قسم کھائی ہے؟ کہا گیا ، ہاں ۔ فرمایا چوں کہ آج پچی قسم کھانے پر میرے نفس نے جرات کی ہے ۔ کل جھوٹی قسم کی جرات کرے گا ۔ اس لیے بہتر ہے کہ جب تک زندہ رہوں بات ہی نہ کروں ۔اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے ، لیکن کسی سے کلام نہ کیا کہ میداس بچی قسم کا کفارہ تھا جو انہوں نے ایک مرتبہ کھائی ۔ اس کے بعد کسی نے پوچھا کہ اگر ان کو ضرورت پڑتی تو کیا کر تے تھے ۔فرمایا: اشاروں سے کام اس کے علاوہ اور بھی واقعات ہیں جنہیں اختصار کے پیش نظر ترک کیا جا رہا ہے۔ان کے علاوہ حضور سید نا خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ زیرزمین آرام فرما بزرگوں کی زیارت سے بھی مشرف ہوتے رہے ۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری (مصنف کشف انجوب) کے آستانے پر لا ہور شریف حاضری دی ۔

شیخ ابو یوسف ہمدانی (م: ۵۳۵ھ ) حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی م: ۴۲۵ھ ) اور حضرت شیخ عبداللہ انصاری (م: ۴۸۱ھ) کے مزارات پر حاضری دی، مراقبہ کیا ، فیوض و برکات حاصل کیے۔سیر العارفین میں لکھا ہے جب حضرت شیخ عبداللہ انصاری کے مزار پر شب بیداری کرتے تو عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرماتے ۔

یہ واقعات اور ارشادات ان عقیدت مندان خواجہ غریب نواز کے لیے درس عبرت ہیں جو صرف خواجہ کا دم بھرتے ہیں مگر عمل کے میدان میں کورے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے محبوبوں اور مقبولوں کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے احوال و اقوال سے عبرت لینے کی توفیق دے، آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن