Wednesday, April 24, 2024
Homeاحکام شریعتمیت پر عورتوں کا زور زور سے اور چلا چلا کر رونا...

میت پر عورتوں کا زور زور سے اور چلا چلا کر رونا کتنا نقصان کا باعث ہے

میت پر عورتوں کا زور زور سے اور چلا چلا کر رونا کتنا نقصان کا باعث ہے ؟ چوتھی قسط (4) از قلم : محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

بعض جگہ بالخصوص علاقہ گوال پوکھر اتر دیناج پور میں پھیلے ہوئے خرافات اور غلط فہمیوں کی تزلیل و تردید بنام اٙحْسِنُ الٙکلامِ فِی اِصْلِاحِ الْعٙوامِ

سوال

١ ہمارے علاقہ گوال پوکھر میں جب کسی کے یہاں کوئی میت ہوجاتی ہے تو اس میت کی بیٹی، بیوی ، بہن وغیرہ دگر رشتے دار اس پر خوب روتے چلاتے اور سینہ کوبی وغیرہ کرتے ہیں ایسا کرنا شرعٙٙا کیسا ہے؟

جواب

میت پر میت کی بیٹی ، بیوی ، بہن وغیرہ دگر رشتے دار اس پر زور سے آواز کے ساتھ چلاکر رونا اور سینہ پیٹنا بالکل ناجائز وحرام اور گناہ ہے بلکہ یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے ایک تو یہ ہے کہ جب کوئی عورت چلاکر روتی ہے تو اس کی آواز عموما غیرمحرم تک پہونچتی ہے جوکہ حرام ہے ۔

دوسرا یہ ہے کہ بہت سی عورتیں روتے وقت اپنے پردے کا خیال نہیں کرتی اس کے سر اور بدن کے بعض حصے سے دوپٹہ یا ساڑی ہٹ جاتی ہے جس سے اس کا سٙتر کُھل جاتا ہے جب کہ یہ بھی حرام ہے ۔

تیسرا یہ کہ زور زور سے میت کے احوال بیان کرکے نوحہ خوانی کرتی ہے یہ بھی حرام ۔

چوتھا اور سب بڑا گناہ نقصان یہ ہے کہ جس میت پر اس کی بیٹی ، بہن ، بیوی وغیرہ دگر رشتے دار چلا کر روتی ہیں اگر اُس میت نے اپنی حیات میں یہ اپنے احباب و رشتے دار کو یہ وصیت نہ کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میری میت پر زور زور سے چلاکر نہ رونا تو اُن رونے والوں کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔ حدیث شریف میں ہے

“عن عبدِ اللّٰہِ اٙنّٙ حٙفصةٙ رضی اللہ عنھا بٙکٙتْ علی عمرٙ رضی اللہ عنہ فقال مٙھْلا یا بُنٙیةٙ اٙلٙمْ تٙعْلٙمِیْ اٙنّٙ رسولٙ ﷺ قال ان المیتٙ یُعٙذّٙبُ بِبُکاءِ اھلِہِ علیہِ”۔ یعنی حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے رونے لگی تو حضرت عمر نے فرمایا اے بیٹی! خاموش ہوجاؤ ۔ کیا تم نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میت پر اس کے بعض گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے

“عن ابن عمرٙ عن عمر عن النبی ﷺ قال المیتُ یُعٙذّٙبُ فِی قبرِہ بمانیحٙ علیہ” ۔ ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا “میت پر قبر میں نوحہ کئے جانے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ۔ (مسلم شریف ،جلد اول ، کتاب الجنائز)

جمہور علماے کرام نے حضرت عمر کی اِن روایت کردہ احدیث کی متعدد توجیہات بیان کی ہیں ۔ اُن توجیہات میں سے بعض یہ ہیں ۔

ایک توجیہ یہ ہے کہ اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ اس کے مرنے کے بعد نوحہ کیا جائے تو پھر زندہ کے نوحہ کرنے سے اس میت کو عذاب ہوتا ہے ۔ اور اگر اس کی وصیت کے بغیر لوگ ازخود نوحہ کریں تو پھر میت کو عذاب نہیں ہوتا ۔ قرآن شریف میں ہے

“وٙلٙا تٙزِرُ وٙازِرٙة وِّزْرٙاُخْرٙیٰ”۔ یعنی کسی کے کئے کی سزا کسی دوسرے کو نہیں دی جائے گی ۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ جس خاندان میں یا جس جگہ میت پر نوحہ کرنے کا رواج ہو وہاں مرنے والے پر لازم ہے کہ وہ مرنے سے پہلے یہ وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد نوحہ نہ کرنا اور اگر اس نے یہ وصیت نہیں کی اور اس کے مرنے کے بعد لوگوں نے اس پر نوحہ کیا تو اس کو عذاب ہوگا ۔

تیسری توجیہ یہ ہے کہ مرنے والا خدا نخواستہ ایسے غیر شرعی کاموں کے کرنے میں مشہور تھا جن کو فساق میں اچھا سمجھا جاتا ہے مثلا جوا کھیلنا ، شراب پینا ، موسیقی اور بعض رقص وغیرہ اور اس کے فن کے دلدادہ زندہ لوگ ان کے ان غیر شرعی کاموں کے محاسن بیان کررہے ہوں حالاں کہ قبر میں ان اِن کاموں پر عذاب ہورہا ہے ۔ العیاذ باللہ ۔

چوتھی توجیہ یہ ہے کہ جب مرنے والے کے احباب اور رشتہ دار اس کی موت پر رنج وغم میں مبتلا ہوتے ہیں ، روتے، پیٹتے اور نوحہ کناں ہوتے ہیں تو زندہ لوگوں کے رونے اور ان غیر شرعی چیزوں سے میت کو تکلیف اور اذیت ہوتی ہے جسے رسول ﷺ نے عذاب سے تعبیر فرمایا ہے ۔

قاضی عیاض مالکی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سب سے اچھی توجیہ ہے۔ (ماخوذ از شرح صحیح مسلم جلد دوم ، ص: ٧٨٣)

اور اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ” یہ عورتیں جمع ہوتی ہیں ، افعال منکرہ کرتی ہیں مثلا چلا کر رونا ، پیٹنا ، بناوٹ ، منھ ڈھانکنا الی غیر ذالک اور یہ سب نیاحت ہے اور نیاحت حرام ہے ۔

اعلی حضرت علیہ الرحمہ مزید فرماتے ہیں کہ

” ایسے مجمع کے لیے میت کے عزیزوں اور دوستوں کو بھی جائز نہیں کہ کھانا بھیجیں گناہ کی امداد ہوگی”۔ قال اللہ تعالیٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان”۔

اسی طرح فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ بھی لکھتے ہیں کہ “اس مجمع کے لیے قہوے وقلچے وغیرہ کا اہتمام کرنا جائز نہیں “۔ (فتاوی برکاتیہ)

حاصل جواب یہ ہے کہ میت پر عورتوں زور زور سے اور چلا چلا کر رونا ، سینہ پیٹنا یہ سب ناجائز وحرام اور نہایت ہی قبیح وشنیع فعل ہے ۔ اور اس طرح رونے سے مرنے والے کو عذاب بھی ہوگا اس لیے کہ ہمارے علاقہ گوال پوکھر شاید کوئی ہوگا جو اپنی ماں ، بہن ، بیٹی ، بیوی وغیرہ کو یہ اپنی حیات میں وصیت کرتے ہوں گے کہ میرے مرنے کے بعد میری میت زور زور سے نہ رونا مجھے تو لگتا ہے ایسا کوئی نہیں کرتا ہوگا ۔

لیکن بِحمدِہ تعالٰی یہ ناچیز فقیر اشرفی نے ابھی ہی سے اپنے گھر والوں کو یہ وصیت کردیا ہے کہ اس کی موت چاہے جب ، جہاں کہیں اس کی میت پر غیر شرعی طریقے سے نہ روئیں بڑی مہربانی ہوگی ۔

بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ آج ہمارے علاقہ کی عورتوں کی جہالت و نادانی کا حال یہ ہے کہ اگر کسی کے یہاں کسی کی میت ہوجائے اور اُس کی میت پر اس کے گھر کی عورتیں مثلا اُس کی بیوی دیر وقت تک بار بار چلاچلا کر نہ روئی تو بعض نادان عورتیں آپس میں اُس پر طعنہ کشی اور الزام تراشی کرنے لگ جاتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بنانے مصروف ہوجاتی ہیں کہ کیسی بیوی ہے شوہر مرگیا تو ٹھیک سے روئی بھی نہیں لگتا ہے شوہر کے مرنے کے انتظار میں تھی اس طرح باتیں کرتی دکھتی ہیں ۔

اسی طرح اگر سسر مرگیا اور بہو زیادہ نہ روئی تو یہ تو اور بھی برا اور عذاب شدید کی بات ہے ۔ خدا نخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر دیکھیے عورتیں جُھنڈدر جُھنڈ کس طرح اس بہو پر لعن طعن کرتی نظر آئیں گی اس بہو کا اس دنیا میں جینا دوبھر کردے گی آج ہمارے یہاں کا یہی ماحول ہے۔ العیاذ باللہ ۔

ہاں روئیں مگر آہستہ آواز اور چھلکتی آنکھوں کے ساتھ اس میں کوئی حرج اور ممانعت نہیں بلکہ اس طرح رونا تو حدیث رحمت قرار دیا گیا ہے جیساکہ خود سرکار اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا

“جو آنسو آنکھ سے ہو اور غم سے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور اس کی رحمت کا حصہ ہے وٙمٙا کٙانٙ مِنٙ الْیٙدِ وٙمِنٙ الِّسٙانِ فٙمِنٙ الشّٙیْطٙانِ۔ یعنی غم کا جو اظہار ہاتھ اور زبان سے ہو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ (مشکوة شریف ،ص: 151)

اللہ تعالی ہم سب کو اِن باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ

کہیں کوئی غلطی نظر آئیں تو اصلاح سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں۔

از قلم : محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

(منابستی ، پوسٹ بربلا ، تھانہ گوال پوکھر ، ضلع اتر دیناج پور بنگال۔)

7047076428

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن