Friday, April 26, 2024
Homeشخصیاتتذکرہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ

تذکرہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ

از:ابوضیاءغلام رسول سعدی کٹیہاری تذکرہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ (خلیفہ اعلیٰ حضرت)

تذکرہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ

اسم : سید محمد

لقب : محدث اعظم ہند

(17 سال کی عمرمیں 1328ھ کو1911ءکو دیا گیا) والد گرامی :

حکیم مولانا سید نذر اشرف

والدہ ماجدہ : محترمہ مکرمہ سیدہ محمدی خاتون

نانا جان : شیخ المشائخ مخدوم سیدعلی حسین اعلی حضرت اشرفی میاں

تاریخ ولادت : چہار شنبہ

وقت ولادت : قبل نماز فجر

جائے ولادت : قصبہ جائس ضلع بریلی (یوپی) انڈیا

تقریب بسم اللہ خوانی :چارسال چارماہ چار دن کی عمر کے موقع پر رسم بسم اللہ خوانی منعقد کی گئی

ختم ناظرہ قرآن : حضور محدث اعظم ہند کی والدہ محترمہ نے چھ ماہ میں پارہ عم ختم کرایا. پھر صرف انتیس دن میں انتیس پارے پوری روانی کے ساتھ ختم کروائے

ابتدائی تعلیم اور مدارس : والدگرامی نے ابتدائی تعلیم اپنے ذمے لی اور مروجہ فارسی کی جملہ معروف کتب متداولہ پڑھائیں

اعلیٰ تعلیم :

(الف) مدرسہ نظامیہ فرنگی محل لکھنو سے سند فضیلت حاصل فرمائی

(ب) علامہ لطف اللہ علی گڑھی کے مدرسے سے منطق وفلسفہ کی سند فراغت حاصل فرمائی اور ” علامہ،،کاخطاب پایا

(ج) پیلی بھیت میں علامہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ کی درسگاہ سے صحاح ستہ، موطا، معانی الآثارودیگرکتب احادیث کادرس لیااور اعلی سند حدیث حاصل کی

(د) اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ وعنا سے فتاوی نویسی کا فن حاصل کیا

(ہ) مدرسہ عالیہ قادریہ بدایوں سے سندحدیث اورخطاب ” محدث اعظم ،،سے مشرف ہوئے

مدت تعلیم :

آپ نے ان تمام علمی اور تحقیقی منازل کو صرف 17سال.کی عمر میں عبور کر لیا

سرکار اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہونے کی صورت اس طرح ہوئی، کہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کے حقیقی ماموں سلطان الواعظین مناظر اہل سنت حضرت علامہ سیدشاہ احمد اشرف اشرفی جیلانی شہزادہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رضی اللہ عنہ نے اپنے حقیقی بھانجے اور مرید صادق (حضور محدث اعظم ہندسیدمحمداشرفی کچھوچھوی ) پرروحانی وعلمی نوازشات کھول دیں. پھر آپ کو بریلی شریف سرکار اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے سپرد فرمایا

اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :

یہاں فتاوی لکھیں اور مدرسہ میں درس دیں  رد وہابیہ اور آفتاب کی طرح ہیں، صرف کتاب پڑھنے سے نہیں آتا جب تک کسی ماہر فن کی صحبت میں نہ بیٹھی

بفضل ورحمت الہی پھر برون وعنایت رسالت پناہی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم افتا اور ردوہابیہ کے دونوں کامل فن اور دونوں نہایت اعلیٰ فن انہیں یہاں سے اچھا ان شاءاللہ تعالیٰ ہندوستان میں کہیں نہیں ملےگا. میں تو ہرشخص کو بہ طیب وخاطر سکھانے کو تیاریوں سیداحمد اشرف صاحب تو میرے شہزادے ہیں اور میرے پاس جو کچھ ہے وہ انہیں کے جد امجد کا صدقہ وعطیہ ہے

بالآخر آپ اپنے مرشد برحق کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پیلی بھیت سے بریلی شریف پہونچے اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دوسال رہ کرفقہ وافتا میں پر مہارت تامہ حاصل فرمائی  جب تک آپ کا وہاں قیام رہا فتاوی نویسی کا مشغلہ جاری رہا. (ماہنامہ جام نور اپریل 2011ءص34)

بریلی شریف کی اس معروف درسگاہ میں جہاں علوم ومعارف کے لولوومرجان اعلیٰ حضرت کی زبان فیض ترجمان سے لٹائے جارہےہیں، وہاں ان سید زادوں کی تعلیم وتربیت کے لیے اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ نے کیسا اہتمام فرمایا. لکھنو میں آٹھ سال قیام کے سبب وہاں کی خوبو حضور محدث اعظم ہند میں اچھی خاصی تھی. عمربھی بہت زیادہ نہ تھی

جمعہ درس گاہ کے معمول میں فرصت کا دن ہوتا تھا، اس دن کے لئے بہت سے ہی ذہنی طور پر منصوبہ بندی ہوچکی تھی. بریلی شریف کاجغرافیہ بھی لوگوں سے معلوم کررکھا تھا اس مقصد کی تکمیل کے لئے نماز جمعہ کی ادا کے لیے پچھلی صف کا انتخاب کیا نماز ودعا مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے حضور محدث اعظم ہند کانام لےکر لوگوں سے دریافت فرمایا. چونکہ بریلی میں حضور محدث اعظم ہند نووارد تھے

اس لیے لوگ آپ سے ناواقف تھے، لاعلمی کی بنا پر ایک دوسرے کامنہ دیکھنے لگے. آخرش اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے خود کھڑے ہو گئے اور مسجد کے دروازے پر حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کو دیکھ لیا تو مصلیٰ سے اٹھ کرصف آخر میں آکر مصافحہ کیا اور اس سے زیادہ کاارادہ فرمایا توحضور محدث اعظم ہند فرماتے ہیں کہ “میں تھراکرگرپڑا،،. ،،اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ پھر مصلی پر تشریف لے گیے اور سنن ونوافل ادافرمانے لگے. مسجد کے ایک ایک شخص نے اسے دیکھا اور بڑی حیرت سے دیکھا

تربیت کا یہ انوکھا اور نرالا طریقہ کیارنگ لاتا ہےذرا اسے بھی ملاحظہ فرماتے چلیں؛ حضرت محدث اعظم ہند فرماتے ہیں کہ “میں نے بازاروکتب خانے کی سیر کو طےکررکھا تھا، شام کو جب چلا تو شہادت گنج کے موڑ پر پہلے پان کھانے کی خواہش ہوئی ابھی پان والے سے کہا بھی نہ تھا السلام علیکم آئیےاور مجھ کو جواب دینا پڑا، اب پان والے کی دکان کےسامنے کھڑا ہونا بھی میرادشوار ہوگیا

سلام ومصافحہ کی برکت نے میراسارا پروگرام ختم کر دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ بریلی کاذکر نہیں، کلکتہ، بمبئی ،مدراس میں بھی پاپیادہ نہیں بلکہ موٹر میں بیٹھ کر بھی سید بازار کے لیے نہیں نکلا تربیت کا کیسا انوکھا اور پیارا انداز تھا کہ ایک سلام ومصافحہ نے لکھنوکی ساری خوبو ہواہوگئی

محدث اعظم ہند تربیت افتا کے لئے اس فقیہ اعظم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے لیکن اعلیٰ حضرت کی تعلیم وتربیت نے کچھ ایسا رنگ جمایا کہ پھر سارے رنگ پھیکے پڑتے نظر آئے اور کہنے والے کہنے پر مجبور ہو گئے. “زندگی کی یہی گھڑیاں میرے لئے سرمایہ حیات ہوگئیں اور میں محسوس کر نے لگا کہ آج تک جوکچھ پڑھا تھا وہ کچھ نہ تھا اور اب ایک دریائے علم کے ساحل کو پالیا ہے

علم کو راسخ فرمانااور ایمان کورگ وپے میں اتار دینا اور صحیح علم دےکر نفس کاتزکیہ فرمادینایہ وہ کرامت تھی جو ہرمنٹ پر صادر ہوتی رہتی تھی.،، کارافتا کی تربیت حاصل کر نے کے دوران حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے تبحر علمی، وسعت فکری اور خدا داد صلاحیتوں کا جو کھلی آنکھوں سے مشاہدہ فرمایا، اس نے حضور محدث اعظم ہند کو اعلیٰ حضرت کا گرویدہ بنایا.(بحوالہ ماہنامہ جام نور اپریل 2011ءص59تا61

حضور محدث اعظم ہند اچھے مفسر، محدث، مفکر، خطیب، مناظر، مبلغ، مرشد، مصنف، مدرس، شاعر اور قائد اعظم تھے۔ آپ کے نانا مجدد سلسلہ اشرفیہ ہم شبیہ غوث اعظم مخدوم الاولیاء ابواحمد سید شاہ علی حسین اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی اور ماموں سلطان الواعظین مناظر اہل سنت علامہ سید احمد اشرف اشرفی جیلانی دونوں نے حضور محدث اعظم ہند کی تربیت فرمائی۔ اور ایسا لائق وباکمال بنایا کہ اپنے بزرگوں کے لیے دین ودنیا کی میں باعث افتخار ہوگیے

آپ کے نانا اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ عنہ آپ کو بہت زیادہ چاہتے تھے، اور صلاحیتوں پر اعتماد بھی کرتےتھے، پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس مرادآباد منعقدہ 1343ھ/1925ءکے خطبہ صدارت میں آپ نے صاحب زادے اور نواسے کو جماعت اہل سنت کی خدمتِ قیادت کے لیے پیش کر تے ہوئے محدث اعظم ہند کو اپنا جگرپارہ اور زندگی کی کمائی قرار دیاہے، فرماتے ہیں :

” میری اَسِّی برس کی کمائی میں صرف دو چیزیں ہیں، جن کی قیمت کااندازہ اگر آپ میری نگاہ سے کریں گے تو ہفت اقلیم کی تاجداری ہیچ نظر آئے گی، یہ میری بڑی کمائی ہے جس پر ملک دنیا میں ناز ہے، اور آخرت میں فخر ہے، جس کو میں کبھی اپنے سے جدا نہیں کرسکتا تھا لیکن آج اعلان حق کے لیے میں اپنی ساری کمائی نذرکررہاہوں، میرا اشارہ پہلے اپنے لختِ جگر ونورالعین الحاج ابوالمحمود سید احمد اشرف اشرفی جیلانی پھر اپنے نواسہ جگر پارہ مولانا الحاج ابوالمحامد سید محمد محدث اشرفی جیلانی کی طرف ہے، جن دونوں کی ذات میری ضعیفی کاسرمایہ ہے، میں آج ان جگر کے ٹکڑوں کو نذرپیش کرتا ہوں کہ اعلان حق میں حیات کی آخری ساعت تک سنت اور اہلسنت کی خدمت جوسپردکی جائےاس میں میری تربیت کا حق اداکریں،،. (الخطبۃ الاشرفیہ مشمولہ حیات مخدوم الاولیاء ص326)

 

حضور محدث اعظم ہند اعلیٰ حضرت کی نظر میں :

محدث اعظم ہند ایک اچھے مصنف اور صاحب قلم بھی تھے، علم پختہ ہو ہی چکا تھا، زبان وبیان پرزبردست قدرت بھی حاصل تھی، اعلی حضرت فاضل بریلوی کی حیات ہی میں حضور محدث اعظم ہند نے ” معارف القرآن،، کے نام سے قرآن کے اردو ترجمےکی شروعات کی، جب اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے ترجمہ معارف القرآن،، کے ابتدائی حصے کو دیکھا تو اس کے زبان وبیان سے اتنا متاثر اور خوش ہوئے کہ محدث اعظم ہند کو مخاطب کر کے تحسین فرمائی، فرماتے ہیں:” شہزادے! اردو میں قرآن لکھ رہے ہو،،. 57

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے یہ جملہ کہ کر محدث اعظم ہند کی قرآن فہمی، تفہیمی صلاحیت اور زبان پر قدرت کو سراہاہے، جو معارف القرآن اور صاحب معارف القرآن کی اہمیت وعظمت اور افادیت پر مُہرہے مقدمہ تفسیر اشرفی ج1ص15)

“حضور محدث اعظم ہند مشاہیراہل سنت کی نظر میں،، مفسر قرآن علامہ محمد ابراہیم رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :محدث اعظم ہند کارخصت ہوجانا نہ صرف عالم اسلام کا خسارہ بلکہ ہمارے خاندان رضویہ کا بھی ذاتی خسارہ ہے جب بھی ہمارے مسائل پیچیدگی اختیار کر تےتو حضور اعظم ہند ہی اسے حل فرمایاکرتےتھے

حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز اشرفی مرادآبادی محدث مبارک پوری فرماتے ہیں :

حضور اعظم ہند ہرکمال وخوبی کے جامع تھے صوری وباطنی تمام خوبیوں کے حامل تھے افہام وتفہیم میں آپ کا پایہ انتہائی بلند تھا باریک سے باریک پیچیدہ بات نہایت واضح اور روشن طریقہ سے سمجھاناآپ کا معمول تھا. صاحب قلم وصاحب لسان تھے قلم برداشتہ موقر وجامع تحریر فرماتےتھے. ہرموضوع پر برجستہ بڑے بڑے شاندار خطبے دیتےتھے. آپ کو شہنشاہِ خطابت تسلیم کیا جاتا تھا، بڑے بڑے آپ کی تقریر سے استفادہ کر تے تھے

خطیب مشرق پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

اگروہ(حضور محدث اعظم ہند) ایک طرف خطیب، مقرر، مناظر، مدرس، شیخ طریقت تھے تودوسری طرف ملک کی سیاسی لہروں پر بھی اپنی گہری نگاہ رکھتے تھے. وہ حالات سے منہ موڑ نے کے عادی نہیں تھے بلکہ بگڑے ہوئے حالات کا رخ بدلنے میں ایک خاص وصف کے مالک تھے. اس دنیا میں ایسے لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے

حضرت بسا اوقات خود بھی فرماتے

” میں رات کا مقرر اور دن کا پیر ہوں،،. (بحوالہ ماہنامہ جام نور اپریل 2011ءص29) حضور محدث اعظم ہند کا وصال مبارک 16رجب 1381ھ بمطابق 25 دسمبر1961ءکو ہے۔

مرقد انور کچھوچھہ مقدسہ امبیڈکرنگریوپی ہند میں ہے۔

اب حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں یہ کہ کر اپنی تحریر ختم کر تا ہوں

مدت کے بعد ہوتے ہیں، پیداکہیں وہ لوگ

مٹتے نہیں ہیں دہرسےجن کے نشاں کبھی

اللہ پاک بطفیل حبیب پاک عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کے فیضان سےامت مسلمہ کومالامال فرمائے آمین بجاہ اشرف الانبیاء والمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

اسیرشیخ اعظم گدائے اشرف ورضا ابوضیاغلام رسول مِہ٘رسعدی رضوی اشرفی کٹیہاری

خطیب وامام فیضان مدینہ مسجد علی، بلگام کرناٹک

(1)خلیفہ حضور شیخ الاسلام

(2) حضور قائد ملت حضرت علامہ سید محمود اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی

(3)حضور مفتی انوار الحق خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند بریلی شریف

مقام، بوہر، پوسٹ تیلتا، وایابارسوئی گھاٹ، ضلع کٹیہار بہار

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن