از : قطب الحسن نظامی مرحوم مومن بھائی کی خیر خواہی
فرامین مصطفیٰ ﷺ
”أَلدِّینُ النَّصیحة “ دین خیرخواہی کانام ہے
” إِرحَمُوا تُرحَمُوا “ رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جاۓ
” إِرحَمُوا مَن فِی الأرضِ یَرحَمُکُم مَن فِی السَّمَا۶ِ “ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرےگا۔
اللہ تعالی نے اپنی حکمت غامضہ سے ہم تمام مومنین کے درمیان اپنے فرمان عالی شان ” إنَّمَا المُٶمِنُونَ إخوَةُٗ “ کے ذریعہ جورشتہ أخُوّت قاٸم فرمایا ہے اس سے ہمارے اوپر اپنے مومن بھاٸی کے کچھ اخلاقی حقوق بھی عاٸد ہوتے ہیں ۔
جنہیں اوّلاً توہمیں اس کی حیات ہی میں اپنی جان و مال اور اخلاق و کردار کے ذریعہ مثلا اچھے کام پر حوصلہ افزاٸی کرکے غلطی سرزد ہونے پر رہ نماٸی کرکے حتی المقدور ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
لیکن خدانہ خواستہ اگرکسی وجہ سے اس کی حیات میں اللہ تعالی کے قاٸم کردہ أخوت کو نبھانے سے محروم رہ گیے تو افسوس کا ہاتھ ملنے سے بہتر ہے کہ ہم اس وقتِ آخر کو غنیمت جان کر حضور ﷺ کے اپنے غلاموں کو بشکلِ دعا کے عطا کردہ یہ تحائف اپنے مومن بھاٸی کو پیش کرکے کچھ حد تک اپنی أخوت کی ذمہ داری کو ضرور ادا کرلیں۔
تاکہ اداۓ أخوت کے ساتھ ساتھ فرمان رسولﷺ ” وَاللّہُ فِی عَونِ العَبدِ مَا کَانَ العَبدُ فِی عَونِ أخِیہ “ یعنی اللہ تعالی بندے کی مدد فرماتا ہے جب تک بندہ اپنے بھاٸی کی مدد کرتارہتاہے۔ کی برکت بھی حاصل ہو جاۓ۔
اگر یہ دعا لکھ کر میت کے کفن میں رکھ دیاجاۓ تو اللہ تعالی قیامت تک اس سے عذاب اٹھا لے۔
وہ دعا یہ ہے:
اللھم إنِّی أسٸَلُکَ یَاعَالِمَ السِّرِّ یَا عَظِیمَ الخَطَرِ یَا خَالِقَ البَشَرِ یَا مَو قِعَ الظَّفَرِِ یَا مَعرُوفَ الأَثَرِ یَا ذَا الطَّولِ وَالمَنِّ یَا کَاشِفَ الضَّرِّ وَ المحَنِ یَا إلٰہَ الأوَّ لِینَ وَ الأٰ خِرِینَ فَّرِّج عَنِّی ھَمُومِی وَ اکشِف عَنِّی غَمُومِی وَ صَلِّ أللھم علی سیدنا محمّدٍ وَ سَلِّم
حدیث شریف میں ہے کہ جویہ دعا کسی پرچہ پر لکھ کر میت کے سینہ پر کفن کے نیچے رکھدے اسے عذاب قبر نہ ہو نہ منکر نکیر نظر آئیں وہ
دعا یہ ہے:
لَاإلٰہَ إلّا اللہُ واللہُ أکبر لَا إلٰہَ إلّا اللہُ وحدہ لاشَریکَ لَہ لَاإلٰہَ إلّا اللہُ لہُ المُلکُ وَلہُ الحَمدُ لَاإلٰہَ إلّا اللہُ وَلَا حَولَ وَلَا قُوَّة إلّا بِاللہِ العَلِیِّ العَظِیمِ۔
عہد نامہ
اللھم فاطرَ السّمٰوٰتِ وَ الأرضِ عالمَ الغَیبِ والشَّھادَةِ الرّحمٰنِ الرحیم إنّی أعھدُ إلَیکَ فی ھٰذہِ الحَیَاةِ الدُّنیا بِأَنّکَ أنتَ أللہُ لَا إلٰہَ إِلّا أنت وَحدَکَ لاشَرِکَ لَک وَ أنَّ محمّداً عبدُکَ وَ رَسُولُک فَلا تُکِلنی إلَی نَفسِی فَإنَّکَ إن تُکِلنِی إلَی نَفسِی تُقَرِّبنِی مِنَ السُّو۶ِ وَ تُبَا عِدنِی مِنَ الخَیرِ وَإنّی لَاعَلِقُ إلّا بِرَحمَتکَ فاجعَل رَحمَتَکَ لِی عَھداً عِندَکَ تُٶَدِّیہِ إلَی یَومِ القِیَامَةِ إنَّکَ لَا تُخلِفُ المِیعاد۔
مسئلہ :- شجرة مبارکہ یاعہد نامہ ، بہتر ہے کہ میت کے سراہانے رکھے جائیں کہ نکیرین پائنتی جانب سے آتے ہیں۔ ان کے پیش نظر ہو یا جانب قبلہ رکھیں کہ میت کے پیش رو رہے اور اس کے لیے سکون و إطمینان و إعانت جواب کا باعث ہو۔
حدیث رسول ﷺ
إذا مات احدُکم فلا تَحبسُوہ و أسرِعوا بہ إلی قبرِہ ، وَ لیُقرأ عند رأسِہ بفاتحة البقرہ و عند رجلیہ بخاتمةالبقرہ۔
ترجمہ :- جب تم میں سے کوئی انتقال کرجاۓ تو اسے روک کر نہ رکھو بلکہ اسے قبر کے سپرد کرنے میں جلدی کرو اور چاہیے کہ اس کے سر کے پاس سورة بقرہ کا ابتدائی حصہ تلاوت کیاجاۓ ( الم سے مُفلِحُون تک) اور اس کے پائنتی جانب سورة بقرة کا آخری حصہ تلاوت کیاجاۓ ۔ ( آمَنَ الرسولُ سے آخر تک)
ماخوذ از فتاوی رضویہ
الحرف الحسن فی الکتابة علی الکفن
از : قطب الحسن نظامی