از قلم : محمد مجیب احمد فیضی ازدواجی زندگی میں اظہار محبت کی اہمیت و ضرورت
ازدواجی زندگی میں اظہار محبت کی اہمیت و ضرورت
اللہ رب العزت نے مردوں کے چین وسکون اور ان کی تسکین کے لیے ان کی بیویاں پیدا فرمایی شادی کے بعد کی زندگی یعنی ازدواجی زندگی ہمیشہ محبت, اعتماد پر قائم ہوتی ہے۔
بذریعۂ مناکحت زوجین میں جو الفت ومحبت کا قیام ہوتا ہے وہ اپنے آپ میں بڑا بے مثال وبے نظیر ہوتا ہے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ ایک مقام پر یوں ارشاد فرماتے ہیں “دو محبت کرنے والوں کے لئے ہم نکاح سے بڑھ کر (دوسری( کوئ چیز نہیں دیکھتے” (مشکوۃ المصابیح کتاب النکاح)
اور خالق کائنات نے بھی قرآن مجید فرقان حمید میں اس کی طرف اشارہ فرمایا: “اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے اس نے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم آرام پاؤ۔ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی۔بیشک غوروفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں”
بلاشبہ نکاح سے محبت بڑھتی ہے اس میں کوئ شک نہیں لیکن اس محبت کی دن بہ دن حفاظت اور اس میں مضبوطی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔بسا اوقات جب اس پر لوگوں کی نظر نہیں ہوتی ہے تو دھیرے دھیرے محبتوں میں دراریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔پھر ایک دوسرے میں دوریاں بڑھنے لگتی ہیں۔جستہ جستہ وہ اسباب بھی اکٹھا ہونے لگتے ہیں جن سے دوریاں گھٹتی نہیں بلکہ مزید بڑھنے لگتی ہیں۔
جب انسان ساتھ جیتا ہے اور اتنا قریب ہو کر جیتا ہے کہ اس سے زیادہ قرب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔تو کبھی کبھی ایک دوسرے سے شکایت بھی ہوتی ہے, محبت بھی ہوتی ہے۔جس طرح نکاح سے پیدا شدہ محبت والفت فطری شی ہے اسی طرح ساتھ میں رہنے سے اس طرح کی کیفیات یعنی شکوک وشبہات کا پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔ہزارہاں کوششوں کے بعد بھی اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔
چناں چہ دین متین کے سب سے بڑے داعی پیغمبر اسلام روحی فداہ جناب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں ارشاد فرمایا: “کوئ مومن کسی مومنہ کو کسی ایک خصلت کی وجہ سے نہ چھوڑے کیوں کہ اگر وہ اس کی ایک خصلت سے ناراض ہوگا تو اس کی دوسری خصلت سے خوش بھی ہوگا”(مسلم شریف)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا: ہر وہ عورت جو اپنے شوہر سے بغیر کسی سبب کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے (ابی داؤد)
توجہ طلب بات یہ ہے کہ نبئ پاک صاحب لولاک کی پوری حیات مبارک ہم امت مسلمہ کے اسوۂ حسنہ ہے خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی حیات میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے جو ہمیں ہماری زندگی کو سمجھنے اور صحیح معنوں میں انہیں سدھارنے کے واسطے ایک موقع پراہم کرتے ہیں۔
ذرا سا آپ تاریخ کے ان صفحات کی طرف بھی کوچ کریں کہ نبی کی پاکباز بیویاں امہات المؤمنین, باالخصوص طیبہ طاہرہ ملت کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ودیگر ازواج مطہرات اپنے شوہر نامدار یعنی نبئ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے خرچ کا مطالبہ فرمارہی ہیں۔
حضرت عائشہ تھوڑی بہت ,ھلکی پھلکی, ناراض بھی ہو رہی ہیں,اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جان بھی رہے ہیں کہ عائشہ ہم سے ناراض ہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بستر نبوت سے اٹھ کر تشریف لے جاتے حضرت عائشہ چھپ چھپا کر تعاقب کرتیں کہ کہیں دوسری امہات المؤمنین کے پاس تو نہیں جارہے ہیں۔
حیات نبوی میں ان واقعات کی بڑی اہمیت ہے۔اس سے ہمیں ایک درس ملتا ہے کہ جب سیدالانبیاء کی زندگی میں اس طرح کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں تو ہمارے اور أپ کے زندگی میں بھی اس طرح کے واقعات رو نما ہوں گے۔ہمیں کریم مصطفی کی عملی وقولی تعلیمات وہدایات کی ضو بار کرن میں اس طرح کے مسائل کا حل کرنا چاہیے۔
حدیثوں کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر وباہر ہے کہ عورتیں پسلی کی ہڈی سے پیدا کی گیئں ہیں۔اور سب سے ٹیڑھی یہی ہڈی ہے۔ لہذا تم اسے سیدھا کرنے جاؤگے تو توڑ دوگے یعنی طلاق دے دوگے اس لئے اس کے ٹیڑھے پن کو رہنے دو اور اس سے استفادہ کرو۔
اس میں بڑی ہی حکمت مخفی ہے اس لیے بڑی ہی سمجھداری سے کام لینا چاہئیے۔کیوں کہ صالح عورت دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے۔اور اگر یہ قیمتی نہ ہوتی یا یہ قابل توجہ نہ ہوتی تو مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرض الوفاۃ میں اس پر زور کیوں فرماتے کہ” خواتین کے ساتھ بھلائ سے پیش آؤ ” بسا اوقات ہم اور آپ محبت کرنے کے باوجود بھی اظہار محبت نہیں کر پاتے ۔
نوجوانو!!!ہوش کے ناخن لو!! اپنے اہل وعیال باالخصوص بیوی سے محبت کرنا یہ کتاب وسنت کے برخلاف نہیں بلکہ عین سنت کے مطابق ہے۔چناں چہ اس تناظر میں حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یارخاں نعیمی کی کہی ہوئ بات جو انہوں نے مرآۃ المناجیح اردو شرح مشکوۃ المصابیح میں فرمایا تحریر کردینا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں کہ “اپنی بیوی سے محبت کرنا یہ کمال تقوی کی دلیل ہے, کیوں کہ بیوی سے وہ ہی محبت کرے گا جو دوسری عورتوں کی طرف مائل نہیں ہوگا” (مرآۃ المناجیح)
ازدواجی زندگی میں باہمی اعتماد کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے,کیوں اس کے بغیر محبت کی گاڑی الفت کی پٹری پر زیادہ دیر چل ہی نہیں سکتی۔رہ گئی میاں بیوی میں “تو” تو “میں “میں” کی بات تو وہ تو ہر گھر کی بات ہے یہ کوئ نئ بات نہیں بلکہ اس پر منور رانا صاحب کا ایک شعر یاد آتا ہے:
گلے شکوے ضروری ہیں اگر سچی محبت ہے
جہاں پانی بہت گہرا ہو تھوڑی کائ بھی رہتی ہے۔
اس لئے ہر جوڑے کو چاہئیے کہ اظہار محبت جیسی نازک اور اہم پہلو پر بھی توجہ دیں, تاکہ سامنے والے کو اس تناظر میں کبھی بھی احساس کمتری کا شکار نہ ہونا پڑے۔اللہ کے نبی حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والے واقعات پر توجہ دیں جس میں امہات المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کا پیچھا کرتی ہوئیں بقیع تک پہونچ جاتی ہیں۔
اور جلد دوڑی دوڑی بستر پر دراز ہو جاتی ہیں۔ایسا لگتا رہا ہوگا کہ جیسے ام المؤمنین ان تمام باتوں سے بے خبر سورہی ہوں اور جان ایمان کے استفسار پر حقیقت حال بیان کررہی ہوں۔مگر قربان جائیے مصطفی کریم پر کن حکمتوں سے أپ ملت کی ماں طیبہ, طاہرہ ,حضرت عائشہ صدیقہ کو سمجھاتے ہیں۔
اے عائشہ!! تم کیا سوچتی ہو کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے? اے عائشہ مجھے پتہ ہوتا ہے جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو اور مجھے یہ بھی پتہ ہوتا جب آپ مجھ سے خوش ہوتی ہو,استفسار کرنے پر مصطفی بتاتے ہیں کہ عائشہ!! جب ناراض ہوتی ہو تو ابراہیم کے رب کی قسم کہتی ہو اور جب خوش رہتی ہو تو محمد کے رب کی قسم کہتی ہو۔
ملت کی ماں کہتی ہیں اے اللہ کے رسول!!! میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں!! غورکیجیے!!ام المؤمنین کے اس جواب میں اظہار محبت کا کتنہ سلیقہ مند رویہ موجود ہے اور جب کیفیت ایسی ہوگی تو محبت مضبوط کیوں نہیں ہوگی۔
ہمارا رویہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ ہم اور آپ غصہ نفرت کا اظہار تو خوب خوب کرتے ہیں۔ لیکن محبت کا اظہاراس کے باالمقابل پتہ نہیں کیوں بہت کم کرتے ہیں اس لیے زندگیاں خراب ہوجاتی ہیں۔ ہم وہ تمام اقدامات اٹھاتے ہیں جن سے دراروں کو بڑھنے کا مزید موقع ملتا ہے۔ہم یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ ازدواجی زندگی میں اظہار محبت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
اے کاش !!اس پر بھی لوگوں کی نظر ہو۔جس رشتے میں اللہ نے چین وسکون رکھا ہے ہم انسان اپنی نادانیوں اور اپنی نازیبا حرکات وسکنات سے اپنی ہی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔رب کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مولی!! امت مسلمہ کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر صحیح معنوں میں چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے
محمد مجیب احمد فیضی
استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور۔
رابطہ نمبر :۸۱۱۵۷۷۵۹۳۲