از محمد محسن مصباحی کوشامبی زوجہ کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب
زوجہ کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب
اللہ سبحانہ وتعالی نے مردوں کوعورتوں پر حاکم بنایا ـ ارشاد ربانی ہے : اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ( النساء: ۳۴) مرد افسر ہیں عورتوں پر ـ
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وقت شان حاکمیت وافسریت جھاڑتے رہیں اور اس خیال میں رہیں کہ میں آقا ہوں اور یہ باندی ـ
کیوں کہ جس نبی آخر الزماں ﷺ پر یہ کلام نازل ہوا، انھوں نے خود ازواج مطہرات کے ساتھ حاکمانہ یا افسرانہ رویہ نہیں اختیار فرمایا ـ
اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس فرمان الہی میں عورتوں پر مردوں کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے جب کہ بیوی کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے اس کا بیان اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی سورہ میں اس آیت سے پندرہ آیات پہلے ہی فرمادیا ہے:
وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ (النساء: ۱۹) اور ان سے اچھا برتاؤ کرو ـ
یعنی مردوں کا مقام بتانے سے پیشتر انھیں اچھے برتاؤ کا حکم دیا اور خود رسول اللہ ﷺ نے اس کی عملی تصویر پیش فرماکر تمام شوہروں کو نمونہ عمل دے دیا ـ
اور یاد رہے کہ ازواج کے ساتھ بھلائی اور نیکی کے ساتھ پیش آنے کا حکم ہے ـ اور بھلائی و نیکی یہ نہیں ہوتی کہ ایک آزاد عورت کے ساتھ آپ آقا وباندی والا سلوک کریں یا پھر یہ سوچیں کہ بیوی اگر آپ کے ساتھ بھلائی کرے تو آپ بھی اس کے ساتھ بھلائی کریں گے اور اگر وہ بھلائی نہ کرے تو آپ بھی نہیں کریں گے ـ
ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے ـ بلکہ بھلائی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آپ کے ساتھ سختی اور ترش روئی کے ساتھ پیش آئے تب بھی آپ اس کے ساتھ بھلائی و نرمی اور عفو در گذر سے کام لیں، یہی بھلائی اور نیکی ہے ورنہ کسی کے حسن سلوک پر اچھے سے پیش آنا اور برائی پر برائی کے ساتھ پیش آنا تو برابری اور مساوات کا معاملہ ہے جیسا کہ عام لوگ کہتے ہیں ” ہم اچھے کے لیے اچھے اور برے کے لیے ” ـ
اس تعلق سے سورہ حٰم سجدہ میں یہ ارشاد ربانی دیکھیں: وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(34)
اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی ـ اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست۔
اس آیت کریمہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے برائی کے جواب میں بھلائی کرنے کے حکم کے وقت بھلائی کا لفظاً ذکر فرمایا اور برائی کے لیے ” التی ” کہہ کر صرف اشارہ فرمایا ، گویا یہ کہنا مقصود ہے کہ جب بھلائی کرو تو برائی کو بھول ہی جاؤ، اسے یاد بھی نہ کرو اور نہ ہی اسے دہراؤ، بس بھلائی کرو اور اس کا نتیجہ کیاہوگا یہ بھی بیان فرمادیا ـ
حسن سلوک کے لیے صبر لازم ہے
حسن سلوک کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے صبر
اسی لیے اگلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا یُلَقّٰهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْاۚ-وَمَا یُلَقّٰهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(35) اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا۔
میاں بیوی کے رشتے میں کئی بار ایسے مواقع آتے ہیں جب صبر اور عفو و درگذر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اگر اس موقع پر ثابت قدم رہا جائے اور اس قرآنی فارمولے پر عمل کیا جائے تو وہ وقت آتا ہے کہ زوجین میں ایسی محبت پیدا ہوتی ہے کہ آگے کی منزل خود بخود آسان ہو جاتی ہے ـ
اور اگر صبر اور عفو و درگذر کا دامن چھوٹا تو زندگی اجیرن اور بے لطف ہو جاتی ہے اور بسا اوقات نوبت جدائی تک پہنچ جاتی ہے ـ
رسول اللہ ﷺ ازواج مطہرات سے حسن سلوک
پیارے آقا ﷺ کی زندگی ہمارے لیے ہر اعتبار سے بہترین نمونہ ہے ـ بیوی سے حسن سلوک کے معاملے میں بھی حضور ﷺ کے اسوہ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:
(۱) خود رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِهِ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ (سنن الترمذی)
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہوں ـ
ازواج مطہرات نے اس کی گواہی بھی دی کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھے تھے اور گھر میں ایک عام انسان کی طرح رہتے، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، کوئی زوجہ ناراض ہو کر کوئی بات یا کام کر دیتیں تو صبر کرتے اور در گذر سے کام لیتے حتی کہ ایک مرتبہ حضرت عمر اپنی بہن حضرت حفصہ کو حضور ﷺ کے ساتھ کسی بات پر آکر ڈانٹنے لگے تو حضور نے منع فرما دیا کہ ہم نے تم کو یہاں اس لیے نہیں بلایا ـ
(۲) ازواج مطہرات کے ساتھ خوش مزاجی کا اظہار فرماتے اور ان کے ساتھ نہایت محبت سے پیش آتے ـ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، وأنا جارية لم أحمل اللحم ولم أبدن،(أي رشيقة) فقال للناس: تقدموا فتقدموا، ثم قال لي: تعالي حتى أسابقك فسبقته، فسكت عني حتى إذا حملت اللحم وبدنت خرجت معه في بعض أسفاره، فقال للناس: تقدموا فتقدموا، ثم قال لي: تعالي أسابقك فسبقني، فجعل يضحك وهو يقول هذا بتلك” (رواه أحمد)
ایک سفر پر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھی اور اس وقت میں نہایت ہلکی پھلکی تھی ـ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ آگے بڑھو، وہ آگے نکل گئے تو حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا، آؤ دوڑ کا مقابلہ کریں، میں نے دوڑ لگائی تو میں حضور ﷺ سے دوڑ میں آگے نکل گئی، حضور خاموش رہے ـ پھر ایک وقت آیا کہ میں بھاری بدن کی ہوگئی اور حضور ﷺ کے ساتھ سفر پر جانا ہوا، حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا، آگے بڑھو، وہ آگے بڑھ گئے، حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا، آؤ دوڑ کا مقابلہ کریں، اس بار حضور ﷺ مجھ سے آگے نکل گئے، تو مسکرانے لگے اور فرمانے لگے ” یہ اس پچھلی بار کا بدلہ ہے “ـ
(۳) شفقت و نرمی ایسی کہ :
أنه وضع ركبته لتضع عليها زوجه صفية رضي الله عنها رجلها حتى تركب على بعيرها (رواه البخاري)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنھا کو اونٹ پر سوار کرنے کے لیے اپنا گھٹنا حاضر فرمایا کہ وہ اس پر پیر رکھ کر اوپر چڑھ جائیں ـ
اب اندازہ لگائیں کہ بیوی کے ساتھ نرمی، محبت، شفقت اور خوش مزاجی کے ساتھ پیش آنا مردانگی کے خلاف یا شان شوہر کے منافی نہیں اور نہ اس کی افسریت وافضلیت پر کوئی دھبہ ہے بلکہ دونوں کی خوش گوار زندگی کے لیے یہ تمام اوصاف لازم و ضروری ہیں ـ ز
اللہ تعالی عمل کی توفیق بخشے
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
از : محمد محسن مصباحی کوشامبی