Wednesday, July 24, 2024
Homeمخزن معلوماتانصاف سب کی ضرورت سب کی ذمہ داری

انصاف سب کی ضرورت سب کی ذمہ داری

آج کا مضمون بہت ہی اہم ہے جس کا عنوان ہے انصاف سب کی ضرورت سب کی ذمہ داری جس کو مرتب کیا حضرت الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی پروردگار عالم موصوف کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔

انصاف سب کی ضرورت سب کی ذمہ داری


اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا پیدا فر مانے والا ہے اور اپنے بندوں کی تمام ضرو رتوں کو پو ری کرنے والاہے۔اس دنیا میں جس طرح انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے کی ضرورت ہے اسی طرح تسماج(society) .۔ میں امن وچین سے رہنے کے لیے نیائے(انصاف) بھی ضروری ہے، رب العالمین نے تمام انسانوں کوحضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے پیدا فر مایا اور اسی دن ہی سماج ( معاشرہ) میں انصاف کی بنیاد رکھ دی۔قرآن کریم جو ساری دنیائے انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل ہوا اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر انسانوں کو عزت کا مقام عطا فرمایا:وَلَقَدْکَرّّ مْنَابَنِیْ آدَمَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ۔ (القرآن،سورہ بنی اسرائیل:17،آیت70) ۔

تر جمہ: اور بیشک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی ۔ یعنی انسانوں کو علم، عقل ،قو ت گویائی دی اور دنیا وآخرت سنوار نے کی تد بیریں سکھائیں تمام چیزوں پر غلبہ عطا فر مایا وغیرہ وغیرہ،دوسری جگہ ارشاد فر مایا: تر جمہ اے لو گو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت پھیلادیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں ( کو توڑ نے سے بچو۔) بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔( القر آن، سورہ نساء:4،آیت1،) رشتے توڑنے اوراللہ سے ڈرنے او ر نگہبان کی بات کہہ کر اللہ نے انصاف کی اہمیت کو بتایا، اور اسی سماجی نیائے(انصاف) کو محسن کا ئنات ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں اس طرح بیان فر مایا:’’ تم سب ایک آدم ( علیہ ا لسلام) کی اولاد ہو اور آدم(علیہ السلام) مٹی سے بنے تھے پس کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ، اسی طرح کسی گورے کو کو کالے پر یا کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے اس کے جو متقی ہو۔۔ وہی اللہ کے نزدیک معزز و مکرم ہے جو تم میں سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے۔ (صحیح التر غیب:حدیث 2964) ۔

اسلام مساوات کا درس دیتا ہے قرآن و احادیث میں اس با ت پر بہت زور دیا گیا ہے،انبیائے کرام نے جو تعلیمات دنیا کو دیں ان میں سماجی عدل وانصاف کو مر کزی حیثیت حاصل ہے۔نبی رحمت ﷺ نے فر مایاکہ: تم سے پہلے قو میں اس لیے تباہ وبرباد ہوئیں کہ جب ان کے چھو ٹے(طبقے کے لوگ) جرم کرتے تو انھیں سزا دی جاتی اور جب ان کے بڑے(طبقے کے لوگ) جرم(craim) کرتے تو انھیں چھوڑ دیا جاتا۔نبی ﷺ سے پو چھا گیا اللہ کا محبوب بندہ کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا: وہ شخص جو دوسروں کے حق میں بہتر ہو۔(التر غیب: حدیث906) ۔

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر خلافت راشدہ کے صحابہ کرام نے پوری طرح سے عمل کیا،خلافت راشدہ کا زمانہ اس لحاظ سے سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلامی تعلیمات پر عمل ہوا اور حکومت کے ا صول وضوابط اسلام کے مطابق رہے۔اور خلافت راشدہ کی یہ خصوصیت بھی قابل ذکر ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لیکر حضرت علی کر م اللہ وجہہ تک خلافت کے لیے نامزد گی میں جمہوری ،democracy) )نظام قائم تھا اس میں کو ئی بھی خلیفہ ایسا نہ تھا جس کو امیر المومنین( مومنوں کا سردار، خلیفہ، مسلمان بادشاہ وقت) مقرر کرنے میں مسلما نوں کی عام رائے اور مرضی شامل نہ ہو۔ یا جسے خلیفہ بنایا گیا ہو اسے لو گوں پر زبر دستی مسلط کر دیا گیا ہو خلا فت راشدہ میں ایک شو رائی نظام قائم تھا مجلس شوریٰ کی بنیاد پر عمل کیا جاتا ۔

ہر مسلمان کو مشورہ اور رائے دینے کا حق تھا اور حکومت پر نقطہ چینی کر نے کا بھی حق تھا۔ عوام کو بنیادی حقوق حاصل تھے، سب کے ساتھ برابر کا انصاف ہو تا تھا، کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ ظلم وزیا دتی نہیں کر سکتا تھا۔ غیر مسلموں اور دوسرے مذاہب کے لو گوں کو پوری طرح سے مذ ہبی آزادی دینے کے ساتھ ، ساتھ ان کی جان، مال، عزت آبرو کی حفاظت بھی کی جاتی تھی۔غرض سلطنت اسلامیہ میں اسوقت کوئی ایک فرد بھی اپنے حقوق سے محروم نہ تھا۔

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایک با عظمت ،انصاف پسند اور عادل حکمران تھے،آپ کی حکومت میں مسلم وغیر مسلم دو نوں کو یکساں انصاف ملا کر تا تھا اسی وجہ کر آپ کا لقب فاروق بھی مشہور ہوا اگر سماجی انصاف کا جائزہ لیا جائے تقا بلی مطالعہ کمپیرنگ اسٹڈی کر نے پر معلوم ہو گا کہ پوری دنیا میں مذہب اسلام ہی سماجی نیائے انصاف کی فرا ہمی کا سب سے بڑا علم بر دار ہے جس نے معاشرے میں موجودہ تمام انسانوں کو ایک جیسے مقام سے نوازا ہے اسلام میں رنگ ونسل،قوم وقبیلہ، ذات پات، دولت وثروت،ا ختیار واقتدار، غریب وامیر ہونے پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا ۔سیکڑوں برس بعد 26؍ نومبر 2007ء اقوام متحدہ(UNO)کی جنرل اسمبلی نے 20؍ فروری کو سماجی انصاف کا دن ’’World Day of Social Justic) ورلڈ ڈے آف سوشل جسٹس کو قائم کیا گیا جب سے 20؍ فروری کو سماجی انصاف کا عالم دن منایا جا رہا ہے سرکاری و نیم سرکاری اداروں، NGOs(این ۔جی۔اوس) کے زیر اہتمام سیمینارز ،کانفرنس، مذاکروں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور طرح طرح کی تقریبات کی جاتی ہیں جن میں اہم سیاسی شخصیات، صحافتی مذہبی رہنما، ماہرین قا نون، دانشوران اور جوڈیشیل افسران اپنے خطاب میں نیائے(انصاف) کی حصول یابی اور اس میں بہتری کے لیے تجاویز پیش کرتے ہیں۔کمزور،غریب لوگوںکے ساتھ ہونے والے ظلم وستم کے خلاف آواز بھی اٹھائی جاتی ہے سماجی انصاف کا مطلب ہے کہ ہرطرح کے لوگوں کے درمیان روز مرہ معاملات زندگی میں اس طرح عدل و مساوات برابری کا فیصلہ کہ کسی کے بھی حق کی تلفی نہ ہووغیرہ وغیرہ۔

اعلیٰ حضرت اور خدمت خلق اس خوبصورت مضمون کا مطالعہ کریں

سماجی انصاف کی اہمیت: سماج کا مطلب ہے معاشرہ عدل کو نیائے (انصاف) کہتے ہیں ۔عدل و انصاف ہمارے پیارے ملک ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، جدھر بھی نظر اٹھا کر دیکھیں نیائے انصاف نظر نہیں آئے گا اگر نظر بھی آئے گا تو بہت دھندلا بہت کمزور، انصاف کے نہ ملنے سے کرپشن ،دہشت گردی ، پورے ملک میں طرح طرح کے مسائل ،بحران ہے۔لاکھوں کروڑوں لوگوں کو عدالتوں کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے اور برسہابرس انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کا چکر کاٹنا پڑتا ہے اس کے بعد بھی وہ انصاف سے محروم رہتے ہیں کیوں کہ وہ انصاف کو خریدنے کے لیے دولت نہیں رکھتے ،کوئی خوش قسمت ہی ہوتا ہے جس کو انصاف ملتا ہے اور وہی امید کی کرن ہے جو آج بھی عدالتوں پر لوگوں کا بھروسہ ہے کہ ہمیں انصاف وہیں سے ملے گا۔غریب ،کمزور تو انصاف لینے پانے کی طاقت ہی نہیں رکھتا اسی لیے عدالتوں کے چکر کاٹنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں اور اپنا دل مسوس کر صبر کرلیتا ہے جسے آج کل عام کہاوت میں یوں کہہ لیں مجبوری کا نام گاندھی جی۔

فرضی مزارات کا بڑھتا دائرہ اہل سنت کے لیے لمحہ فکریہ مکمل مضمون ضرور پڑھیں

آج تو یہ حال ہے جو جتنا قانون توڑنے والا ہے اسی کی عزت زیادہ ہوتی ہے جو اقتدارمیں رہتا ہے خواہ کسی بھی پارٹی سے منسلک ہو اس کی عزت ڈر کی وجہ سے کی جاتی ہے اور وہی ہیرو ہوتاہے ،تھانے سے لے کر اوپر تک لوگ اس کی جی حضوری کرتے ہیں اور وہ طاقت کے نشے میں لفظ انصاف (Justice)کو جانتا ہی نہیں اور اگر جانتا ہے تو مانتا ہی نہیں لیکن اپنے بھاشنوں میں لفظ انصاف کی مالا جپتا ہے ،چینی فلاسفر کنفوسس کا کہنا ہے ’’سیاست ملک یا معاشرے کی بنیاد دوستونوں پر قائم ہے ،،۔

عہدے اس کی علمی لیاقت وہنر کی لیاقت پر دیئے جائیں اور فیصلے انصاف پر ہی ہوں‘‘ دنیا کے بہترین حاکم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ (جن کو تاریخ میں بہترین حاکم قرار دیا گیا ہے )آپ کا فرمان ہے ’’انصاف پر ہی دین اور دنیا قائم ہے،انصاف پر ہی معاشرے کی فلاح کا دارومدار ہے ،بنا عدل کے کسی بھی معاشرے کی ترقی ،فلاح،کامیابی ناممکن ہے، *انصاف کا قیام ایک  حکمراں کے لیے ضروری ہے*‘‘۔اللہ انصاف کا حکم دیتا ہے:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرواور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے،بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔(القرآن: سورہ نساء۔4، آیت:58)(کنزالایمان)۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے دو حکم دیئے پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔یہ دونوںتعلیمات اسلامی شاہکار ہیں۔امانت کی ادائیگی: امن وامان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی کے لیے یہ دونوں باتیں بہت اہم حیثیت رکھتی ہیں،امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حق دار کا اس کا حق دے دینا ہے۔البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہے ۔

جیسے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللی عنہما سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاخم مقرر کیا جس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔(معجم الکبیر،عمربن دینار عن ابن عباس11/94الحدیث 6216)۔ ۔

دینی جلسوں کی روش بدلنے کی ضرورت

انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا نظام عدالت کی روح ہی ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔امیر غریب کی رعایت نہ کی جائے سب کے ساتھ برابر کا انصاف کیا جائے،فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دلایا جائے۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قرب الٰہی میں نورکے منبر عطاکیے جائیں گے(مسلم باب فضیلۃ الامام العادل۔۔۔۔۔الخ ص: 1015حدیث 1827, 1828)۔۔

آج ہمارے معاشرے میں سماجی انصاف نا کے برابر ہے حکومت کی طرف سے بھی تساہلی ہے اور سوسائٹی میں بھی طاقت ور کمزور کے ساتھ ناانصافی کو اپنائے ہوئے ہے اسی وجہ سے معاشرے میں محبت و الفت ناپید ہوگئی ہے اور ہر طرف بد امنی و انتشار بڑھتا جارہا ہے۔حکومتوں کے لیے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کررہا ہے۔صرف انصاف کے دن کو منانے سے انصاف حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس پر عمل کرکے دکھانا ہوگا ۔

خلافت راشدہ اور بعد میں بھی ایسے حکمراں رہے ہیں جن سے لوگوں کو سکون اور امن وامان کی نعمت حاصل تھی تاریخ میں بہت سے واقعات موجود ہیں ایک عبرت ناک واقعہ ملاحظہ فرمائیں ۔

قاضی شریح کا عادلانہ فیصلہ اور اس کا اثر*: مسلمان حاکموں اور قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوںکی ایسی عظیم الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی ، جنگ صفین کے موقعے پر حضرت علی المرتضیٰ کی ایک زرہ(Shoulder Guard) گم ہوگئی ،بعد میں جب آپ کوفہ تشریف لائے تو وہ زرہ ایک یہودی کے پاس پائی، اس سے فرمایا :یہ زرہ میری ہے کیوں کہ میرے قبضے میں ہے ،آپ نے فرمایا ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ،چنانچہ قاضی شریح رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچے، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے۔قاضی شریح نے کہا :اے امیر المومنین! ارشاد فرمائیے،فرمایا اس یہودی کے قبضے میں جو زرہ ہے وہ میری ہے میں نے نہ اسے بیچی ہے اور نہ تحفے میں دی ہے۔

قاضی شریح نے یہودی سے فرمایا اے یہودی تم کیا کہتے ہو؟یہودی بولا یہ زرہ میری ہے کیوں کہ میرے پاس میرے قبضے میں ہے،قاضی صاحب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا :اے امیر المومنین! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟ فرمایا ہاں!قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں قاضی صاحب نے کہا حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں۔جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا یہ عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہوکر کہنے لگا ۔

اے امیر المومنین! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کردیا!!میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق اور سچ ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کہ سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں،یہ زرہ آپ ہی کی ہے،حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے اور زرہ اور ایک گھوڑا مع سازوسامان اسے تحفے میں دے دیا (تاریخ الخلفاء علی ابن ابی طالب۔۔۔۔۔۔الخ،ص: 184,185)۔

جہاں حکومتوںکی ذمہ داری ہے کہ اپنے رعایا کے ساتھ انصاف کرے وہیں عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے بھائی اور دوسروں کے لیے پسند کرے اور سماجی انصاف کو قائم رکھنے میں مددگار ہو۔اللہ ہم سب کو انصاف کی اہمیت کو سمجھنے اور قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ثم آمین)۔


الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہاسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو، جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن 831020

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن