رمضان سے متعلق عوام میں پھیلی کچھ غلط فہمیاں اور اس کی اصلاح ، ازقلم : محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد لولیہ و الصلوۃ علی نبیہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین
یہ ایک حقیقت ہےکہ عوام الناس کے اندر بہت ساری باتیں ایسی مشہور ہوچکی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔اور اس کے مشہور ہونے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ عوام ان مسائل کی حقیقت کو جانتی نہیں یا پھر جانتی تو ہیں لیکن اس سے غفلت برت رہی ہیں ۔
وجہ چاہے جو بھی ہو پر ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم عوام الناس کو صحیح مسائل سے باخبر کریں اوران کی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں ۔
یوں تو ہماری عوام میں جتنی غلط باتیں رائج ہوچکی ہیں اگر ان سب کو یکجا کردی جائیں تو یقیناً ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائےگی، لیکن اس وقت ہم صرف انہی چند باتوں کو صفحۂ قرطاس کے حوالے کرنے جارہے ہیں جن کا تعلق ماہ رمضان المبارک سے ہے۔
یاد رہے کہ رمضان المبارک سے بھی جڑے غلط مسائل اتنے کثیر ہیں کہ جن کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں یقیناً مشکل ترین ہے۔ تاہم طوالت کے خوف کو مد نظر رکھتے ہوئے بطور اختصار سوال وجواب کے طرز پر کچھ اُن ضروری مسائل کو ہم سپرد تحریر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جن پر آج کل کچھ زیادہ ہی عمل ہونے لگا ہے ۔اس امید کے ساتھ کہ شعر :
برگ حنا پہ لکھتا ہوں درد دل کی بات
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ
سوال
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ٢٩ ویں شعبان کو آسمان کے ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند کی رویت نہیں ہوپاتی اور نہ ہی کوئی شہادت مل پاتی ہے، مگر جب دوسرے دن چاند دیکھا جاتا ہے تو چاند قدرے بڑا دکھتا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ چاند کل ہی تھا۔ کیا اس طرح کا خیال شرعاً جائز ہے؟
جواب
چاند کے بڑے ہونے کا اعتبار کرتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ چاند کل ہی کا تھا شرعاً ناجائز اور غیر معتبر ہے۔ جب تک کہ دو عادل گواہ خود اپنی آنکھ سے دیکھنا نہ بیان کریں۔حدیث شریف میں ہے”من اقتراب الساعۃ انتفاخ الاھلۃ“(طبرانی ) اورایک دوسری حدیث میں ہے ”من اقتراب الساعۃ ان یری الھلال قبلا فیقال ھولیلتین“(اوسط) ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہےکہ چاند پھولا ہوا(بڑا) دکھےگا تو لوگ کہیں گے کہ چاند کل ہی کا ہے۔ پس ثابت ہوگیا کہ چاند کے بڑے ہونےکا اصلاََ کوئی اعتبار نہیں ہے۔(ملخصََا از فتاوی رضویہ ،اعلی حضرت امام احمدرضا قادری بریلوی ،جلدچہارم ،کتاب الصوم ،مطبوعہ رضاآفسیٹ بمبئی ٣ سن طباعت ١٩٩٤) واللہ اعلم
سوال
بعض لوگ یوم الشک کو اس نیت سے روزہ رکھ لیتے ہیں کہ اگر چاند کا ثبوت ہوگیا تو رمضان کا روزہ ورنہ نفل ۔ تو کیا ایسی نیت سے یوم الشک کو روزہ رکھ سکتے ہیں؟
جواب
نہیں! ایسی نیت سے روزہ رکھنا گناہ ہے۔حدیث شریف میں ہے ”من صام یوم الشک فقد عصی ابا القاسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم“ یعنی جس نے شک کے دن روزہ رکھا اس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ہاں اگرکوئی شخص کسی خاص دن کے روزے کا عادی ہو اور یوم الشک ہی کو وہ دن آکرپڑے مثال کےطور پر ایک شخص ہرپیر کوروزہ رکھتا ہے اور یہ دن پیرکا ہو تودریں صورت وہ شخص اپنے اسی نفلی روزے کی نیت سےیوم الشک کو روزہ رکھ سکتاہے۔(مرجع سابق)واللہ اعلم
سوال
بعض عوام کا یہ خیال ہے کہ روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانا ضروری ہے۔ کیا یہ خیال صحیح ہے ؟
جواب
ہرگز نہیں! سحری کھائے بغیر بھی روزہ رکھ سکتے ہیں ۔سحری کھانا فقط ایک مستحب امر ہے۔(فتاوی امجدیہ ۔مصنف: صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی، جلداول ،کتاب الصوم ،ص:٣٩١،کتب خانہ امجدیہ مٹیامحل دہلی ٦) البتہ سحری کرلینا چاہیے اس لیے کہ اس میں برکت ہے، کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم تعالی علیہ وسلم ”تسحروا فان السحور برکۃ“ یعنی سحری کھاؤ کہ بےشک سحری میں برکت ہے۔ (جامع الترمذی ،للامام ابی عیسی محمدبن عیسی الترمذی،جلداول ،ابواب الصوم ،باب ماجاء فی فضل السحور،ص: ٨٩ ،مجلس برکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ یوپی ) واللہ اعلم
سوال
بعض عوام اپنے ذہن میں یہ بات بٹھاچکی ہیں کہ اذان فجر ہونے تک کھا پی سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس پر عمل بھی کررے ہیں۔ تو کیا اذان فجر تک کھانا پینا صحیح ہے ؟ اگر نہیں تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے روزے کا کیا حکم ہوگا؟
جواب
جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنی نادانی و جہالت کے سبب اپنے روزوں کو برباد کرتے ہیں کہ اس طرح کرنے سےان کا روزہ ہوگا ہی نہیں۔اس لیے کہ فجر کی اذان اسی وقت دی جاتی ہے جب سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔تو اب اگر کوئی شخص سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی کھانا پینا کرے تو اس کا روزہ کیسے ہوگا؟ لہذا سحری اسی وقت تک ہی کھائی جائے جب تک کہ سحری کا وقت رہتا ہے، ورنہ سحری کا وقت ختم ہونےکے ایک منٹ بعد بھی اگرکوئی شخص جان بوجھ کرکھائے پیےگا تو اس روزہ نہ ہوگا۔(ملخصا از بہار شریعت، مصنف صدرالشریعہ حضرت علامہ امجدعلی اعظمی ،جلداول ،حصہ پنجم،روزہ کابیان ،ص:٩٨٩ ،مکتبۃ المدینہ )واللہ اعلم
سوال
کچھ لوگ بالخصوص بعض عورتيں یہ فتوی دیتی ہیں کہ چوٹ وغیرہ کے لگنے کی وجہ سے اگر خون نکل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ کیا یہ صحیح ہے؟
جواب
بالکل غلط ہے۔ خون نکلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ روزہ معدے یا دماغ تک کسی چیز کے جانے سے ٹوٹتا ہے باہر آنے سے نہیں، ہاں اگر جان بوجھ کر منہ بھر قئ کردے اور وہ قئ کھانے پینے یا بہتے خون وغیرہ کی ہو تو روزہ ٹوٹ جائےگا۔(ردالمحتار،خاتم المحققین محمدامین الشھیر بابن عابدین شامی ،جلد ثالث ،کتاب الصوم ، باب مایفسدالصوم ومالایفسد ،دارالکتب العلیمیہ بیروت لبنان ۔عالمگیری،علامۃ الھمام مولانا الشیخ نظام وجماعۃ من علماء الھند الاعلام ،جلداول ،مکتبہ زکریا دیوبند سہارن پور ) واللہ اعلم
سوال
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ روزے کی حالت میں ناخن نہیں کاٹ سکتے ،بال نہیں کٹواسکتے، موئے زیر بغل یا زیر ناف نہیں مونڈاسکتے، سرمہ نہیں لگا سکتے، مسواک نہیں کرسکتے، اسی طرح عطر یا خوشبودار تیل، بام، ویسلین وغیرہ ہر وہ چیز جس میں خوشبو پائی جاتی ہے اس کا استعمال نہیں کرسکتے اگرکریں گے تو روزہ ٹوٹ جائے گا یا مکروہ ہوجائے گا۔تو کیا یہ صحیح ہے؟
جواب
سوال
میں جتنی باتیں مذکور ہیں وہ سب حالت روزہ میں بغیر کسی کراہت کے کرسکتے ہیں، ان میں سے کسی بھی چیز کے ارتکاب سے روزہ مکروہ بھی نہ ہوگا چہ جائیکہ ٹوٹ جائے۔ جولوگ کہتے ہیں کہ ٹوٹ جائے گا یا مکروہ ہوگا وہ نادان و جاہل ہیں۔(فتاوی رضویہ مرجع سابق ،فتاوی امجدیہ مرجع سابق، بہارشریعت مرجع سابق ) واللہ اعلم
سوال
ہمارے علاقہ سیمانچل بالخصوص گوال پوکھر علاقہ کی بہت ساری عورتيں آج بھی یہی سمجھتی ہیں کہ افطار نمک یا پھر ادرک سے کرناچاہیے کہ یہی بہتر ہےاور بعض جگہ اس پرعمل بھی ہورہاہے۔ کیا یہ درست ہے ؟
جواب
نمک اور ادرک سے بھی افطار کرسکتے ہیں۔البتہ اس کو ہی بہتر طریقہ سمجھنا ضرورغلط ہے اس لیےکہ افطار کرنے کا مسنون اوربہتر طریقہ یہ ہے کہ افطار کھجور یا چھوہارے سے کرے یہ نہ ہو تو پانی سے کرے۔ کماقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”اذا افطر احدکم فلیفطر علی تمر فان لم یجد فلیفطر علی ماء فانہ طھور“یعنی تم میں جب کوئی افطار کرے توکھجور یا چھوہارے سے کرے اور اگر یہ نہ ملے تو پانی سے کرے کہ وہ پاک کرنےوالا ہے۔ (ترمذی مرجع سابق باب ماجاء مایستحب علیہ الافطار ،٨٧)
اسی میں ہے ”عن انس بن مالک قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یفطرقبل ان یصلی علی رطبات فان لم تکن رطبات فتمیرات فان لم تکن تمیرات حساحسوات من ماء “ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے،ترکھجوریں نہ ہوتیں توچند خشک کھجوروں سے اور اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چلو پانی پیتے(ترمذی مرجع سابق )۔ واللہ اعلم
سوال
بہتوں جگہ آج بھی یہ رواج ہے کہ لوگ افطار کرنےسے قبل افطار کی دعا پڑھتے ہیں اور کچھ ہی جگہ ہیں جہاں افطار کی دعا افطار کرنے کےبعد پڑھی جاتی ہے، ان میں سے کون سا طریقہ بہتر ہے؟
جواب
افطار کی دعا بسم اللہ پڑھ کر کھجور یا چھوہارا یا پھر پانی وغیرہ کسی حلال چیز سے افطار کرلینے کے بعد پڑھنا چاہیے۔ جیسا کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ ”افطار کی دعا کب پڑھی جائے“ اس بارے فرماتے ہیں کہ ”فی الواقع اس کا محل بعد افطار ہے۔ ابوداؤد عن معاذ بن زھرہ انہ بلغہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا افطر قال اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت”یعنی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب افطار کرلیتے تو کہتے اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطاکردہ رزق سے روزہ افطار کیا ۔ (فتاوی رضویہ مرجع سابق ،سحروافطار کابیان ،ص:٦٥١)
اور لفظ ”افطرت“ کے معنی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ افطار کی دعا افطار کرنے کے بعد ہی پڑھنی چاہیے۔ فائدہ بعض حضرات اس حدیث کے لفظ “افطر” کو “اراد” کے معنی پر محمول کرتے ہوتے یہ کہتے ہیں کہ افطار کی دعا قبل افطا ہی پڑھنی چاہیے۔اعلی حضرت امام احمد رضاخاں علیہ الرحمہ اسی کی تردید کرتے ہوئےفرماتے ہیں ”فحمل افطر علی معنی اراد الافطار صرف عن الحقیقۃ من دون حاجۃ الیہ وذا لایجوز ھکذا فی افطرت ۔مولانا علی قاری علیہ الباری مرقات شرح مشکات میں فرماتے ہیں ”کان اذا افطر قال“ ای دعا وقال ابن ملک ای قراء بعد الافطار الخ“(مرجع سابق) واللہ اعلم
سوال
بعض حضرات کا یہ ماننا ہے کہ ناپاک رہنے یا احتلام وغیرہ کی وجہ سے ناپاک ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب
نہیں! سارا دن ناپاک رہنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔مگراتنی دیر تک ناپاک نہیں رہنا چاہیےاس لیے کہ اگرنمازکاوقت نکلاجارہا ہوتوبسبب نماز جنب پرنہانافرض ہوگا ۔نہ نہانے کی صورت میں وہ گنھگار ہوگا۔(بہارشریعت مرجع سابق ) نیز حدیث پاک میں ہے جس گھر میں ناپاک آدمی رہتا ہے اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ کما روی عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”قال لاتدخل الملائکۃ بیتا فیہ صورۃ ولا کلب ولاجنب“ یعنی اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر، کتا یا ناپاک آدمی رہتا ہے۔(سنن ابی داؤد للشیخ الحافظ سلیمان بن الاشعث ابی داؤد السجستانی، کتاب الطھارۃ ،باب فی الجنب یؤخرالغسل ص:٢٩،مکتبۃ بلال دیوبند)۔واللہ اعلم
سوال
روزے کی حالت میں منھ خشک ہونے کی وجہ سے اگر بار بار کلی کی جائے تو کیا اس سے روزہ مکروہ ہوجائے گا؟
جواب
نہیں منھ خشک ہونے کی وجہ سے روزے کی حالت میں اگر باربار کلیاں کی جائیں تو اس سے روزہ مکروہ نہ ہوگا ۔ہاں اگر یہ کلیاں پریشانی ظاہر کرنے کے لیے بار بار کی جائیں تو اس سے روزہ ضرور مکروہ ہوگا ۔ (فتاوی عالمگیری ، سابق ردالمحتارسابق) واللہ اعلم
سوال
روزے کی حالت میں اگر الٹی ہوجائے تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ؟
جواب
اگر الٹی خود سے آئی ہو تو چاہے وہ کیسی بھی الٹی ہو منھ بھر ہو یا کھانے وغیرہ کی ہو یابار بار آئی ہو اس سے روزہ نہ ٹوٹے گا۔ ہاں الٹی اگر قصداً منھ میں انگلی وغیرہ ڈال کر کی گئی ہو تو اس سے روزہ ٹوٹے گا بشرطیکہ وہ الٹی منھ بھر اور کھانے پینے یا بہتے خون وغیرہ کی ہو۔ (ردالمحتارسابق ) واللہ اعلم
دعا ہے کہ مولی تعالی ہمیں اور ہماری عوام کو ہمیشہ صحیح مسائل جاننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم۔
ازقلم : محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
آبائی وطن ساکن: مولانابستی(منابسی)
پوسٹ: بربلا تھانہ: گوال پوکھر ضلع: اتردیناج پور صوبہ: بنگال
7047076428