از قلم : ابوضیاءغلام رسول سعدی کٹیہاری رمضان المبارک کے اہم فضائل و مسائل
رمضان المبارک کے اہم فضائل و مسائل
ایک مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی رسالت کا اقرار کر نے اور تمام ضروریات دین پر ایمان لانے بعد جس طرح نماز فرض اور ضروری ہے اسی طرح رمضان المبارک کے روزےہر مسلمان (مردو عورت) عاقل و بالغ پر فرض ہیں
رمضان کے روزے کب فرض ہوئے ؟
اس تعلق سے درمختار میں ہے کہ “روزے 10شعبان المعظم 2ھ میں فرض ہوئے. (درمختار مع ردالمحتار ج3ص330)۔
روزہ فرض ہونے کی وجہ
اسلام میں اکثر اعمال کسی نہ کسی روح پرور واقعہ کی یاد تازہ کر نے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں مثلاً صفا اور مروہ کے درمیان حاجیوں کی سعی حضرت سیدہ ھاجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی یادگار ہے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا اپنے لختِ جگر حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی تلاش کر نے کے لیے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سات بار چلی اور دوڑی تھیں
اللہ پاک کو حضرت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی یہ ادا پسند آگئی لہذا اسی سنت ہاجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اللہ پاک نے باقی رکھتے ہوئے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لیے صفا ومروہ کی سعی کو واجب کردیا اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں سے کچھ دن ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے غارِ حرا میں گزارے تھے
اس دوران آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم دن کو کھانے سے پرہیز کرتے اور رات کو ذکر اللہ میں مشغول رہتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے روزے فرض کئے تاکہ اس کےمحبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی سنت قائم رہے. (فیضانِ سنت ج1ص935/936)
روزہ رکھنے سے روزہ داروں کو صحت ملتی ہے جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان صحت نشان ہے.:بےشک اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کے کہ آپ اپنی قوم کو خبر دیجئے کہ جو بھی بندہ میری رضا کے لیے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو میں اس کے جسم کو صحت بھی عطا فرماتاہوں. اور اس کو عظیم اجر بھی دونگا.(بحوالہ شعب الایمان ج3 ص412)
مگر بعض لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کمزور ہوکر بیمار پڑجاتا ہے حالاں کہ ایسا نہیں ہے
جیسا کہ حدیث پاک میں گزرا بلکہ روزہ رکھنے سے صحت ہی ملتی ہے چناں چہ الملفوظ حصہ 2ص 143 پر ہے سرکار اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
“ایک سال رمضان المبارک سے تھوڑا عرصہ قبل والد مرحوم حضرت رئیس المتکلمین سیدنا ومولانا مفتی نقی علی خان علیہ الرحمہ خواب میں تشریف لائے اور فرمایا بیٹا آئندہ رمضان المبارک میں تم سخت بیمار پڑ جاؤگے مگر خیال رکھنا کوئی روزہ قضا نہ ہونے پائے چناں چہ والد صاحب علیہ الرحمہ حسب الارشاد واقعی رمضان المبارک میں سخت بیمار ہو گیا لیکن کوئی روزہ نہ چھوٹا الحمد للہ عزوجل روزوں ہی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت عطا فرمائی اور صحت کیوں نہ ملتی کہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ارشاد پاک بھی تو ہے :صُوْمُوْاتَصِحُّوْا… یعنی روزہ رکھو صحتیاب ہوجاؤگے.،، (بحوالہ درمنثورج1 ص440)
اہم مسائل روزہ
روزہ کے لیے بھی اسی طرح نیت شرط ہے جس طرح کہ نماز، زکوٰۃ وغیرہ کے لئے شرط ہے لہذا بغیر نیت روزہ اگر کوئی شخص صبح صادق کے بعد سے لیکر غروب آفتاب تک بالکل نہ کھائے پیئے تب بھی اس کا روزہ نہ ہو گا (بحوالہ ردالمحتارج3ص331)
رمضان المبارک کا روزہ ہویا نفل یا نذرِ معیّن کا روزہ یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے کسی مخصوص دن کے روزہ کی منّت مانی ہو مثلاً خود سن سکے اتنی آواز سے یوں کہا ہو کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لیے اس سال ربیع الاول شریف کی ہر پیر شریف کا روزہ ہے تو یہ نذرِ معیّن ہے اور اس منت کا پورا کرنا واجب ہوگیا ان تینوں قسم کے روزوں کے لیے غروب آفتاب کے بعد سے لےکر نصف النہار شرعی یعنی “ضحوکُبرٰی،، سے پہلے پہلے تک جب بھی نیت کرلیں روزہ ہو جائے گا. (بحوالہ ردالمحتارج3 ص332)
نیت دل کے ارادے کا نام ہے زبان سے کہنا شرط نہیں مگر زبان سے کہ لینا مستحب ہے اگر رات میں روزہ رمضان المبارک کی نیت کریں تو یوں کہے
نیت روزہ :نَوَی٘تُ اَنْ اَصُو٘مَ غداً لِلّٰہِ تعالیٰ مِنْ فَرَضِ رمَضانَ ھٰذا. ترجمہ :میں نے نیت کی کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس رمضان کا فرض روزہ کل رکھوں گا اگر دن میں نیت کریں تو یوں کہیں :نویتُ اَن اَصومَ ھٰذَاال٘یَو٘مَ لِلہِ تَعالیٰ من فرَضِ رمَضانَ
ترجمہ :میں نے نیت کی کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس رمضان کا فرض روزہ آج رکھوں گا. (بحوالہ ردالمحتارج3 ص332)
غروب آفتاب کے بعد سے لیکر رات کے کسی وقت میں بھی نیت کی پھر اس کے بعد رات ہی میں کھایا پیا تو نیت نہ ٹوٹی وہی پہلی ہی کافی ہے پھر سے نیت کرنا ضروری نہیں. (بحوالہ الجوھرۃ النیرۃ ج1 ص175)
سَحَری کھانا بھی نیت ہی ہے خواہ ماہ رمضان کے روزے کے لئے ہویا کسی اور روزے کے لئے مگر جب سَحَری کھاتے وقت یہ ارادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ رکھوں گا تو یہ سحَری کھانا نیت نہیں. (الجوھرۃ النیرۃ ج1ص186)
رمضان المبارک کے ہرروزے کے لیے نئی نیت ضروری ہے۔
پہلی تاریخ یاکسی بھی اور تاریخ میں اگر پورے ماہ رمضان کے روزے کی نیت کربھی لی تو یہ نیت صرف اسی ایک دن کے حق میں ہے، باقی دنوں کے لیے نہیں. (بحوالہ ایضاً 187)
معاذاللہ عزوجل آپ نے رمضان کا روزہ قصداً یعنی جان بوجھ کر توڑ ڈالا تھا تو آپ پر اس روزہ کی قضا بھی ہے اور( اگر کفارے کی شرائط پائی گئیں تو) ساٹھ روزے کفارے کے بھی رکھنے ہوں گے اب آپ نے اکسٹھ روزے رکھ لئے قضا کا دن معین نہ کیا تو اس میں قضا اور کفارہ دونوں ادا ہوگئے. (بحوالہ عالمگیری ج1ص196)
حدیث :نبی کریم اشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنے ساتھ جب کسی صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سَحَری کھانے کے لیے بلاتے تو ارشاد فرماتے آؤ برکت کا کھانا کھالوں (بحوالہ ابوداؤد شریف ج2ص442)
روزہ رکھنے کے لیے سحری کھا کر قوت حاصل کرو اور دن یعنی دوپہر کے وقت آرام یعنی قیلولہ کرکے رات کی عبادت کے لئے طاقت حاصل کرو. (بحوالہ ابن ماجہ ج2 ص321)
تین آدمی جتنا بھی کھالیں ان شاءاللہ تعالیٰ ان سے کوئی حساب نہ ہو گا بشرطیکہ کھانا حلال ہو
(1)روزہ دار افطار کے وقت
(2)سحری کھانے والے
(3)مجاہد جو اللہ پاک کے راستے میں سرحد اسلام کی حفاظت کرے
(الترغیب والترہیب ج2 ص90) سحری پوری کی پوری برکت ہے پس تم نہ چھوڑو چاہے یہی ہوکہ تم پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لو بےشک اللہ پاک اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں سحری کرنے والوں پر. (بحوالہ مسند امام احمد ج4ص88)
ان تمام فرامین سے ہمیں درس ملتا ہے کہ سَحَری ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے جس سے بے شمار جسمانی اور روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں اسی لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اسے (یعنی سحری کو) پوری کی پوری برکت فرمایا.اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سحری کرنا سنت ہے اور اس میں بڑی برکتیں رکھی گئی ہیں اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ سحَری میں ہمارے لیے ڈھیروں ثواب بھی رکھ دیا
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اگرچہ کھانے پینے کے ہماری طرح محتاج نہیں تاہم ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم غلاموں کی خاطر سحَری فرمایا کرتے تاکہ محبت والے غلام اپنے محسن آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی سنت سمجھ کر سحَری کرلیا کریں یوں انہیں دن کے وقت روزہ میں قوت کے ساتھ ساتھ سنت پر عمل کرنے کا ثواب بھی ہاتھ آئے بعض مسلمانوں کو دیکھا گیا ہے کہ کبھی سحَری کرنے سے رہ جاتے ہیں تو فخریہ باتیں بناتے ہیں
اور یوں کہتے سنائی دیتےہیں ہم نے تو سحَری کے بغیر ہی روزہ رکھ لیا ہے ۔ مکی مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دیوانوں! سحری کے بغیر روزہ رکھنا کوئی کمال تو نہیں جس پر فخرکیا جارہا ہے بلکہ سحَری کی سنت چھوٹنے پر ندامت وشرمندگی ہونی چاہیے افسوس کرنا چاہیے کہ تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ایک عظیم سنت چھوٹ گئی
حضرت سیدنا شیخ شرف الدین المعروف بابا بلبل شاہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت سے اتنی طاقت بخشی ہے کہ میں بغیر کھائے پئےاور بغیر سازوسامان کے اپنی زندگی گزار سکتا ہوں مگر چونکہ یہ امورسرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہیں اس لیے میں ان سے بچتا ہوں “میرے نزدیک سنت کی پیروی ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے”۔ (فیضان سنت ج1ص997)
کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ سحَری روزہ کے لئے شرط ہے. ایسا نہیں سحَری کے بغیر بھی روزہ ہوجاتا ہے مگر جان بوجھ کر سحری نہ کرنا مناسب نہیں کہ ایک عظیم سنت سے محرومی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ سحری میں خوب ڈٹ ڈٹ کر کھانا ہی ضروری نہیں. چند کھجوریں اور پانی ہی اگر بہ نیت سحری کھالیں جب بھی کافی ہے بلکہ کھجور اور پانی سے تو سحری کرنا سنت بھی ہے
جیسا کہ صحابی رسول حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم اشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سحری کے وقت مجھ سے فرماتے :”میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے مجھے کچھ کھلاؤ. تو میں کچھ کھجوریں اور ایک برتن میں پانی پیش کر تا. (بحوالہ سنن کبری للنسائی ج2 ص80)
معلوم ہوا روزہ دار کے لیے ایک تو سحری کرنا بذات خود سنت ہے اور کھجور اور پانی سے سحری کرنا دوسری سنت ہے مزید سرکار علیہ السلام کا فرمان عالی شان بھی ہے “نعمَ السحُورُالتَّمرُ،،یعنی کھجور بہترین سحری ہے. (بحوالہ الترغیب والترہیب ج2ص90)
مگر روزہ رکھنے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ! آج سحری کا آخری وقت مثلاً چار بجکرپچپن منٹ پر ہے تو وقت پر کھانا پینا بند کردیں اذان کا ہرگز انتظار نہ فرمائیں اذان سحری کا وقت ختم ہو نے کے بعد نماز فجر کے لیے دی جاتی ہے روزہ بند کر نے کے لیے نہیں بلکہ صرف نماز کے لیے دی جاتی ہے
اسی طرح جب غروب آفتاب یعنی سورج ڈوبنے کا یقین ہوجائے، افطار کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے نہ کسی آواز یا اذان کا بلکہ کوئی چیز کھا لینی چاہیے مگر کھجور یا چھوہارا یا پانی سے افطار کرنا سنت ہے
افطار کے بعدکی دعا یہ ہے
اللھمَ اِنِّی لکَ صُم٘تُ وبِکَ آمنتُ وعلیکَ تَوکَلتُ وعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَر٘تُ. ترجمہ :اے اللہ میں تیرے لئے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایااور تجھی پر بھروسہ کیا اور تیرے دیئے ہوئے رزق سے روزہ افطار کیا. (بحوالہ عالمگیری ج1ص200)
نیز افطار کے لیے اذان شرط اور ضروری نہیں ہے ورنہ ان علاقوں میں روزہ کیسے کھلےگا جہاں مسجد ہی نہیں اور اذان ہی نہیں ہوتی ہے. بلکہ وقت دیکھ کر جب ٹائم ہو جائے روزہ کھول لینی چاہیے
اور حدیث پاک میں فرمان مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہے اللہ پاک فرماتاہے :میرے بندوں میں مجھے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے.،، (بحوالہ ترمذی ج2ص164) یعنی وقت ہونے کے بعد فوراً روزہ کھول لیتا ہے
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو کبھی اس طرح نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے افطار سے پہلے نماز مغرب ادا فرمائی ہو، چاہے ایک گھونٹ پانی ہی ہوتا. پہلے افطار فرماتے؛ . (الترغیب والترہیب ج2ص91)
افطار کرانے کی فضیلت
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں؛ نبی کریم اشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے :جس نے حلال کھانے یا پانی سے (کسی مسلمان کو) افطار کروایا فرشتے ماہ رمضان کے اوقات میں اس کے لئے استغفار (یعنی مغفرت) کی دعائیں کرتےہیں. اور جبریل علیہ السلام شب قدر میں اس کے لئے استغفار کرتے ہیں. (بحوالہ طبرانی المعجم الکبیر ج6ص262)
ایک روایت میں ہے :جو روزہ دار کو پانی پلائےگا اللہ پاک اسے میرے حوض سے پلائےگا کہ جنت میں داخل ہو نے تک پیاسا نہ ہو گا.،، (بحوالہ صحیح ابن خُزیمہ ج3 ص193) نیزیہ غلط فہمی کسی کو نہ رہے
کہ میں کسی کے گھر روزہ افطار کروں گا تو میرا روزہ اس کا (یعنی روزہ افطار کرانے والے کا ہوجائے گا یہ غلط ہے اور یہ غلط فہمی دور کریں بلکہ ہرایک کو اپنا اپنا ثواب ملے گا
افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہیں :جیسا کہ سرکار علیہ السلام کا فرمان عالی شان ہے. بےشک روزہ دار کے لیے افطار کے وقت ایک ایسی دعا ہوتی ہے جو رد نہیں کی جاتی.،، (بحوالہ الترغیب والترہیب ج2ص53)
دوسری حدیث میں ہے فرمان مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہے:تین شخصوں کی دعا رد نہیں کی جاتی
(1)ایک روزہ دار کی بوقت افطار
(2)بادشہ عادل کی
(3)مظلوم کی. ان تینوں کی دعا اللہ پاک بادلوں سے بھی اوپر اٹھا لیتاہے اور آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے “مجھے میری عزت کی قسم! میں تیری ضرور مدد فرماؤں گااگرچہ کچھ دیر بعد ہو. (بحوالہ ابن ماجہ ج2ص349)
اللہ پاک بطفیل حبیب پاک عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہمیں رمضان المبارک کی خوب قدر کرنے اور عبادتیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ اشرف الانبیاء والمرسلین واشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم۔
از:ابوضیاءغلام رسول سعدی کٹیہاری
خطیب وامام فیضان مدینہ، مسجد علی بلگام کرناٹک
مقام بوہر، پوسٹ تیلتا،ضلع کٹیہاربہار
8618303831