ازقلم: فداءالمصطفی قادری مصباحی یخادم الافتاء شرعی عدالت سنکیشور کرناٹک۔
موجودہ وقت میں ملکی پیمانے پر جو احتجاج ہورہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، خاص کر خواتین کا احتجاج تو تاریخی احتجاج کی حیثیت حاصل کرچکاہے۔ اس وقت یہ عوامی احتجاج خود اس قدر مشہور ومتعارف ہوگیا ہے کہ جہاں کہیں بھی احتجاج ہورہا ہوں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندے پہنچ جاتےہیں۔
بھارت میں ہم رہتے ہیں بھارت کا قانون نہیں جانتے تعجب ہے ۔۔آج کتاب منگواسکتے ہیں وہ بھی گھر بیٹھے تو ابھی آڈر کریں ۔ بھارت کا آئین
ایسے حالات میں ہم پر اپنے احتجاج کی حفاظت لازم ہے کیونکہ ان موقعوں کو غنیمت جان کر سیاسی لوگ اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے ان جگہوں پر پہنچنے کی کوشش کریں گے بلکہ پہنچ بھی رہے ہیں۔ ان کا پہنچنا کالے قانون کی مخالفت کے ارادے سے کم اور اپنا *ووٹ بینک بڑھانے کی نیت سے زیادہ ہوتاہے* کبھی کبھی یہ لوگ اپنے مفاد کے لیے ایسی باتیں بھی ان جگہوں پر کہ جاتے ہیں جن سے یہ خود تو گمنامی سے نکل کر میڈیا کی سرخی بن جاتے ہیں مگر ساتھ ہی عوامی احتجاج کی شبیہ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ حالیہ احتجاجات میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔
کیا آپ طارق بن زیاد کے بارے پڑھنا چاہتے ہیں اور آپ کے کتاب نہیں تو پھر دیر کس بات کا ابھی اور اسی وقت آڈر کریں کیتاب گھر پہنچ جایگی طارق بن زیاد
احتجاج پر سیاست کا دھبہ
واضح رہے کہ اب تک جس احتجاج میں بھی سیاسی لیڈروں نے شرکت کی ہے اسے موجودہ حکومت نے اپوزیشن کی سیاست کہ کر خارج کردیا ہے، خود میڈیا نے بھی اس احتجاج کو سیاسی نظریہ سے متعارف کرایاہے اور *جب کسی عوامی احتجاج کو سیاسی قرار دےدیا جائے تو وہ بے اثر ہوجاتاہے۔
عوامی آواز اور عوامی احتجاج ہزاروں سیاسی احتجاجات پر بھاری ہوتے ہیں لھذا اپنے احتجاج کی عوامی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے سیاسی لوگوں سے بچائے رکھیں ورنہ ساری محنتیں اور قربانیاں سیاست کی نذر ہوکر رہ جائیں گی۔ ہم میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے احتجاج میں اگر کسی اپوزیشن لیڈر کو بلائیں گے تو یہ احتجاج کامیاب ہوجائے گا مگر یہ سوچ غلط ہے بلکہ وہ احتجاج جس میں اپوزیشن لیڈروں کی شرکت ہوتی ہے وہ سرے سے سیاسی قرار دےدیا جاتاہے اور *سیاسی احتجاجات کا حال یہ ہے وہ عموما بے معنی اور بی بنیاد ہوا کرتے ہیں پھر اس زمرے میں شامل ہوکر آپ کے احتجاج کا کیا انجام ہوگا؟۔
موجودہ حالات میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں ان میں ایک مثال مشرقی بہار کے کشن گنج شہر کے احتجاج کی ہے وہاں کی عوام نے حال ہی میں ایک تاریخی احتجاج رکھا تھا شاید کہ ایسا احتجاج وہاں کبھی ہوا ہو، اس میں بطور مہمان خصوصی بیرسٹر جناب اسد الدین اویسی صاحب مدعو تھے۔میڈیا میں اس کی یوں رپورٹنگ ہوئی: *ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے بہار کے کشن گنج میں “سی اےاے” کے خلاف ایک ریلی کی اور اس میں سرکار پر نشانہ سادھا۔* اس رپورٹنگ میں نہ تو عوامی مطالبات کا کوئی ذکر کیاگیا، نہ لوگوں کی تعداد کی کوئی بات ہوئی اور نہ وہاں موجود عوام سے میڈیا نے بات چیت کی۔ یعنی ایک سیاسی نام سارے حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے کافی ہوگیا۔ یہ تھا عوامی احتجاج پر سیاسی رنگ پڑنے کا انجام۔
لھذا عوام اپنے احتجاج کو اپنے طور پر کرتے رہیں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ اس میں سیاسی لوگوں کا دخل نہ ہونے پائے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے احاطے میں سیاسی لوگوں کو نہ آنے دیں* تاکہ ان کی آواز خالص عوامی آواز رہے اور جب تک یہ آواز عوامی رہےگی تب تک پراثر رہےگی۔
بکاؤ شاہین باغ
ابھی حال ہی میں بی جے پی “آئی ٹی سیل” نے ٹوییٹر
Bikao Shaheen Bagh # ٹرینڈ کیا ہے جس میں یہ دعوی کیاگیا تھا کہ شاہین باغ کی خواتین وہاں 500 روپے کی لیے دھرنے پر بیٹھتی ہیں۔ ان کی اس حرکت سے آپ ان کے ذہنیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ لوگ اس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے کس حد تک گرسکتے ہیں؟ ۔
کیونکہ یہ احتجاج ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جسے نہ وہ نگل سکتے ہیں اور نہ اگل سکتے ہیں اسی لیے وہ اسے ختم کرنے کی ہرممکن کوشش میں لگے ہیں لھذا ہمیں ہر قدم پر احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
مفتی صاحب کے دوسرے مضمامین پڑھنے کے لیے کلک کریں کریں
گزارش
شاہین باغ اور دوسری جگہوں پر احتجاج کے لیے بیٹھی خواتین سے گزارش ہے کہ وہاں کسی بھی سیاسی لیڈر کا تعاون قبول نہ کریں چاہے وہ چائے، ناشتہ، پانی وغیرہ کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر ان پر میڈیا یا کسی بی جے پی لیڈر کی نظر پڑی تو وہ اسے کوئی اور نام دےکر ایک نیا ہنگامہ کھڑا کردیں گے۔
میڈیا سے ہوشیار!!!۔
گودی میڈیا موجودہ حکومت کی رکھیل ہے اس کی ہرچال ہمارے خلاف ہوتی ہے لھذا *شاہین باغ* یا کسی دوسری جگہ خواتین میڈیا سے سوچ سمجھ کر بات کریں، چاہے میڈیا کا جو بھی سوال ہو جواب میں بس اپنا مدعی رکھیں۔ *مودی، امیت شاہ یا بی جے پی کے خلاف کچھ بھی نہ بولیں* ورنہ احتجاج کے مقصد پر پانی پھر جائے گا اور ویسے بھی دہلی میں خفیہ پلاننگ کے تحت کل سے N,S,A (National Security Advisor) نافذ کردیا گیا ہے ۔
جس کے تحت کسی بھی شخص کو بھڑکاؤ بیان دینے کے جرم میں تین مہینے تک کے لیے پولیس حراست میں ڈال سکتی ہے لھذا میڈیا سے زیادہ بات چیت نہ کریں، نعرے وغیرہ بھی سوچ سمجھ کر لگائیں میڈیا والے چاہیں گے کہ آپ حکمراں پارٹی کے خلاف بولیں اور عین ممکن ہے کہ وہ آپ کو اکسائیں بھی مگر آپ خود پر کنٹرول رکھیں۔ اپنے بچے بچیوں کو میڈیا سے بالکل بات نہ کرنے دیں اگر وہ کرنا بھی چاہیں تو انہیں دور رکھیں اور سیدھے سیدھے منع کردیں۔ ابھی حال ہی میں ABP News نے شاہین باغ کے چند بچوں سے بات چیت کی، بچوں نے باتوں ہی باتوں میں مودی کے خلاف کچھ کہ دیا تو اسے ان لوگوں نے کٹَّرتا اور پردھان منتری دشمنی کا نام دے کر خوب واویلا مچایا۔
[…] […]