[عرس امجدی میں یوم اساتذہ پر خصوصی تحریر]
استاذ ہی لکھتے ہیں نئی صبح کی تحریر آصف جمیل امجدی
ہر انسان کی کام یابی کے پیچھے کسی نہ کسی شخصیت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے، جس کی دی ہوئی تربیت و صلاحیت کو بروۓ کار لاتے ہوۓ انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہوا منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ دراصل وہ شخصیت استاد ہوتا ہے۔انسان اپنی ماں کی گود سے لے کر قبر تک مسلسل علم حاصل کرتا رہتا ہے۔ مادرعلمی سے لے کر سکول اور پھر فنی تربیت حاصل کرنے کے بعد حصول روزگار میں بھی استاذ کی دی ہوئی تربیت کا انسان کی کام یابی میں اصل کردار ہوتا ہے۔
در اصل استاد ہی انسان کو معاشرے میں جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے،اور غلط سہی کی پہچان کراتا ہے۔ اسی لیے استاد کو پوری قوم کا معمار کہا جاتا ہے۔کیونکہ ایک استاد کی دی ہوئی اچھی تربیت سے نسلیں ترقی کرتی ہیں۔اور انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی شعبہ ہو یا کوئی بھی احسن کام ہو اس کے لیے ایک استاد کا وجود ناگزیر ہوتا ہے ناہی کسی کام کو بغیر سیکھے کیا جاسکتا ہے۔ جب بچہ بولنے کے قابل ہوتا ہے تو والدین اسے سب سے پہلے اسکول یا کسی مدرسے میں داخلہ کرواتے ہیں۔ جہاں اساتذء کرام نہ صرف کتابوں سے روشناس کراتے ہیں بلکہ اس کی ذہنی نشونما اور کردار کی تربیت بھی اس بچے کی تعلیم کا حصہ ہوتی ہے۔ پھر جب تعلیمی ادارے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد انسان عملی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اسے پھر کسی استاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔
روزگار کے لیے فن ضروری ہے اور فنی تربیت کے لیے استاد کا ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس کو پھر کسی استاذ کا ہی دامن تھامنا پڑتا ہے۔ اس طرح استاد کے علم سے استفادہ کرلینے کے بعد انسان روزگار حاصل کرنے کے قابل بنتا ہے۔ جب بھی انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ پاۓ گا تو اس کی زندگی کے رموز و اوقاف کے فریم پر سنہرے حرفوں سے “استاد” لکھا ہوگا۔ تعلیم قومی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ تعلیم یافتہ افراد ہی سماجی زندگی کے تانے بانے بنتے ہیں۔ وقت کی نبض پر انہی کی نظر ہوتی ہے۔
بدلتے حالات کا تجزیہ کرتے ہوۓ منصوبہ بندی بھی انہی کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے۔قوموں کے عروج و زوال میں تعلیمی زندگی اور ان کے تقاضوں پر عمل آوری فیصلہ کن کردار نبھاتی ہے۔ حصولِ علم کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رُکن استاذ ہے، تحصیلِ علم میں جس طرح درسگاہ و کتاب کی اہمیت ہے اسی طرح حصولِ علم میں استاذ کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ استاذ کی تعظیم و احترام شاگرد پر لازم ہے کہ استاذ کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے اور ادب کے بغیر علم تو شاید حاصل ہو جائے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے اسے یوں سمجھئے: “با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب”
استاذ کے ادب کے مختلف دینی اور دُنیوی فوائد طالبِ علم کو حاصل ہوتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
(1) امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ علم، اہلِ علم اور اپنے استاذ کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔
(2) امام فخر الدین ارسا بندی رحمۃ اللّٰه علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اور سلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب و احترام کیا کرتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاذ کی خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔ (راہ علم، ص 35 تا 38 ملتقطاً)
(3) صلاحیتِ فکر و سمجھ میں اضافہ ہونا
(4) ادب کے ذریعے استاذ کے دل کو خوش کر کے ثواب حاصل کرنا، حدیث ِپاک میں ہے: اللّٰه پاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔ (معجم اوسط، 6 / 37، حدیث: 7911)
(5) ادب کرنے والوں کو اساتذۂ کرام دل سے دُعائیں دیتے ہیں اور بزرگوں کی دعا سے انسان کو بڑی اعلیٰ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ (صراط الجنان، 8 / 281)
(6) ادب کرنے والے کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہے کیونکہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔ (تعلیم المتعلم، ص 35)
(7)استاذ کے ادب سے علم کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔
(علم و علماء کی اہمیت، ص 108)
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو علم و اہلِ علم کا ادب سکھائیں۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰه عنہ نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ بے شک تم سے تمہارے بیٹے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جو تم نے اسے سکھایا اور تمہاری فرمانبرداری کے بارے میں اس لڑکے سے سوال کیا جائے گا۔ (شعب الایمان، حدیث: 8409)
☜اپنے استاد کی ہمیشہ دل سے قدر کیجیے، وہ چاہے مالی طور پر کم حیثیت کے ہوں، کبھی بھی ان کو مزاق کا نشانہ نہ بنائیۓ۔ یہ خدا کو غضب ناک کرنے والی بات ہے۔
☜استاد روحانی باپ کی طرح ہوتا ہے، سختی کرے یا ترش بولے تو اس کی اِدھر اُدھر شکایت نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ اس کا جائز شکوہ اور گلہ دور کرکے اسے خوشی کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔
☜استاد کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا چاہیے۔
☜استاد کی نظروں میں مقام بنانا مشکل کام نہیں ۔ اس کی پسند اور نگاہوں کو جانیں۔ جس جس خوبی اور کام کو وہ محبوب رکھتے ہیں اسے اختیار کریں۔
☜استاد سے کبھی گستاخی نہ کریں اور نہ ہی اونچے لہجے میں بات کریں۔
☜استاد کے ساتھ کج بحثی سے ہمیشہ گریز کریں۔غیر موجودگی میں ان کے عزت کی حفاظت کریں۔ ناکہ دوسروں کے ساتھ مل کر ان کے الٹے سیدھے نام رکھے جائیں اور ان کا مزاق اڑایا جاۓ۔
☜استاد سے تعلیم کے علاوہ بھی مشورے لینے اور رہنمائی حاصل کرنا کا ماحول بنانا چاہیے۔تاکہ ان کے تجربے اور مشاہدے سے فیض حاصل ہوسکے۔
☜استاد سے تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی رابطہ رکھنا چاہیے اور کبھی کبھی تحائف بھی بھجواتے رہنا چاہیے۔ روحانی ماں باپ کی دعائیں بے حد کارگر ہوتی ہیں۔
استاذ محترم کو میرا سلام کہنا
اے دوستو!
ملیں تو بس اک پیام کہنا
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ سکھایا
ان پڑھ تھا اور جاہل، قابل مجھے بنایا
دنیاۓ علم و دانش کا راستہ مجھے دکھایا
مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام
کہنا استاذ محترم کو میرا سلام
مجھ کو خبر نہ تھی آیا ہوں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لاۓ تھے آسماں سے
پہنچا دیافلک تلک استاذ نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
جینے کا فن سکھایا مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتاۓ، رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں، پھولوں کی انجمن تھی
تم فخر قوم بننا اور نازش وطن بھی
ہے یاد مجھ کو ان کا اک اک کلام
کہنا! استاذ محترم کو میرا سلام کہنا
جو علم کا علم ہے استاذ کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے استاد کی عطا ہے
جو فکر تازہ دم ہے استاد کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے استاد کی عطا ہے
ان کی عطا سے چمکا ہے نام کہنا!
استاذ محترم کو میرا سلام کہنا
(مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں)
تحریر: آصف جمیل امجدی
6306397662