سفر نامہ عرب کی 3 قسط: دمام کا برڈ آئی ویو تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
دمام سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں واقع ہے، جس کی سرحدیں کویت، قطر، متحدہ عرب امارات، اومان اور یمن سے ملتی ہیں۔
اندرونی طرف صوبہ ریاض اور صوبہ نجران واقع ہیں۔ علاقہ کا رقبہ 800 مربع کلومیٹر اور اس کی شہری آبادی 2009 میں 842,000 تھی۔ یہ مشرقی صوبے کا صوبائی صدر مقام ہے اور دمام سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر دوسرا بڑا شہر الخبر واقع ہے، جو کاروباری مرکز اور بندرگاہ ہے۔ بین الاقوامی آمدورفت کے لیے شاہ فہد پل (The King Fahd Causeway) کے ذریعے صوبہ کو بحرین سے ملایا گیا ہے۔ (ویکی پیڈیا)
ویکی پیڈیا کے مطابق یہ ہے مختصر خاکہ ساحل پر واقع اس خوب صورت شہر کا جس کی زمین نے معیشت میں نہایت کمزور اور خستہ حالی کے شکار سعودی عرب کی 1935 میں اس وقت تقدیر بدل دی، جب یہاں پہلے پہل کافی تمناؤں اور کوششوں کے بعد کالے سونے یعنی خام تیل کا کنواں دریافت کیا گیا۔
اس سے قبل اس مملکت کی معیشت کا بڑا حصہ حجاج کرام کے ساتھ منسلک تھا اور کہیں کہیں زراعت و تجارت کا بھی وجود تھا جبکہ اس خداداد نعمت کے بعد آج سعودی عرب دنیا میں تیل پیدا کرنے والے تین بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور مالی، معاشی اور سیاسی طور پر نہایت مضبوط ملک ہے۔
ہمیں اپنے اسی سفر دمام میں سعودی تیل کی کمپنی آرامکو سعودیہ کا ایریا دیکھنے کا موقع ملا، جس کے سر تیل ہی نہیں بلکہ عام طور پر بھی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہونے کا تاج رہا ہے۔ دمام کوئی بہت پرانا شہر نہیں۔ 1923 میں اس وقت کے موجودہ بادشاہ عبد العزیز کی اجازت سے بحرین سے ہجرت کر کے آئے قبیلے الدواسیر نے اس کی بنیاد رکھی، جو ابتداء الخبر میں آباد ہوا۔
وجہ تسمیہ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ ماہی گیروں کے بحری جہازوں کو خبردار کرنے کے لیے یہاں ڈرم بجائے جاتے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ نام دوواما (بھنور) لفظ سے بنا ہے، جو ایک قریبی جگہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس سے عام طور پر مچھلی پکڑنے والوں کو گریز کرنا ہوتا تھا۔
99 سال بوڑھے اس شہر کی تاریخ اور ترتیب چاہے جیسی رہی ہو، بود و باش اختیار کرنے کے لیے یہ نہایت موزوں، سیاحوں کے لیے خوب صورت اور دل جلوں کے لیے دل بھاتا معتدل شہر ہے۔ نہ پولیوشن، نہ لبا لب راہیں، نہ گندگی اور نہ ضروریات کی فراہمی میں کسی کمی کا احساس۔ کشادہ سڑکوں پر اپنی پوری رفتار کے ساتھ دوڑتی گاڑیاں شاید یہ بتانے کے لیے کافی ہوں گی کہ پر سکون شہری زندگی کے لیے اور کیا چاہیے۔
عرب ممالک کی روڑوں پر اس تبصرے کی ضرورت نہیں کہ روڑ کیسے ہونے چاہیے۔ نہ کشادگی اور روانی کے نقطہ نظر سے، نہ صفائی اور مسافرانہ سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے اور نہ ہی بناوٹ کی عمدگی کے ناحیے سے۔ یہ سب ہم جیسے غریب ملکوں کے لیے آزاد چھوڑے ہوئے ایشوز ہیں۔
دمام ہی کا واقعہ ہے کہ وہاں کے دوسرے دورے پر وہاں سے دوبئی جانے کے لیے جب ہم ایرپورٹ پہنچ رہے تھے تو دیکھا کہ ہماری روڑ کے ساتھ ساتھ ایک متبادل روڑ بھی ہے، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ روڑ خالی رہتا ہے، اگر کبھی اس رواں روڑ کی مرمت مقصود ہو تو ہمارے یہاں کی طرح یہ راستے کو تنگ کر کے کام نہیں کرتے، وہ متوازی روڑ کھول دیتے ہیں۔
ایسے ہر ترقی کے موڑ پر ہمیں اتر پردیش کے وزیر اعلی جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی کی یاد آتی ہے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے دہلی سے مراداباد جانے والے راستے پر بننے والے ایک پل کے لیے اس شاہ راہ کو کھود کر رکھ دیا اور کمال ذہانت یہ کہ اس بات کی قطعی فکر نہیں کی گئی کہ اس راستے پر سے گزرنے والی گاڑیوں کا کیا ہوگا!
عرب جس طرح سہولیات فراہم کرتے ہیں، اسی طرح اصولوں کی پاسداری اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بھی ہر ممکن جتن کرتے ہیں۔ چناں چہ عرب ممالک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ مخالفہ یعنی اصول راہ کی مخالفت کرنے والوں پر عائد جرمانے ہوا کرتے ہیں۔ یہ جرمانے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ کوئی بھی مجرم جرم دوہرانے سے پہلے سو سو بار سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اگر کسی گاڑی کی رفتار 140 فی گھنٹہ مقرر ہے تو اس حد کو کراس کرنے والے پر تین ہزار ریال کا جرمانہ ہے، کس بہادر کی ہمت ہوگی کہ 60 ہزار جیسی موٹی رقم بطور جرمانہ ادا کرے۔
اصولوں کی پامالی پر گہری نظر رکھنے کے لیے ہر شاہ راہ کے کنارے کنارے اور شہروں کے اندرونی حصوں میں جگہ جگہ نہایت قیمتی کیمرے نصب کیے گئے ہیں، جو کئی بار نظر بھی نہیں آتے لیکن جیسے ہی کسی خانہ خراب پر ان کی نظر ٹیڑھی ہوتی ہے، فوکس کے طور پر گاڑی پر ایک بجلی سی کوندتی ہے اور اسی کے ساتھ ڈرائیور کا دل، دل بسمل بن جاتا ہے۔
انہی اصولوں کا نتیجہ ہے کہ یہاں ہر کوئی ڈرائیورنگ کی ہمت نہیں جٹا پاتا اور بہترے جذباتی قسم کے ڈرائیور بہت جلد راہ راست پر آکر خواہی نخواہی سنجیدہ بن ہی جاتے ہیں۔ البتہ ہمیں کچھ ایسے بے نیاز بھی ملے جو اپنی گاڑیوں کی قیمت سے زیادہ جرمانے بھر چکے تھے اور اب انھیں ڈرائیورنگ اچھی نہیں لگتی۔
دمام کی خوب صورتی کی دو وجہیں ہیں:
شہر بھر کے مکانوں کی بناوٹ کشادگی، ہوا داری، تہذیب، صفائی، یکسانیت اور سسٹم کے ساتھ کی گئی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ تقریباً تمام عمارتوں کی ہائٹ تین سے چار منزلہ تک ہے اور ایسا صرف دمام میں نہیں بلکہ عرب کے بیشتر شہروں میں اس بات کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ کہاں کتنے منزلہ مکانات بنائے جا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ یکسانیت نگاہوں میں خوب جچتی ہے۔
مملکت بحرین کے چھوٹے سے جزیرے کو عرب سے جوڑنے والا شاہ فہد پل دمام کو عرب ہی نہیں، بحرین کے لیے بھی بہت خاص بنا دیتا ہے۔ ہم نے 28 اپریل کو خوب سلیقے سے اس بوڑھے برج کی 25 کلومیٹر کی سیر کی۔ ایک سیدھی لائن کی طرح بنا یہ ہائی وے بحری برج اس کونے سے اس کونے تک دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
برج کے درمیانی حصے کو اتنا بلند بنایا گیا ہے کہ اس کے نیچے سے بڑے بحری بیڑے بھی آسانی سے گزر سکتے ہیں اور اس کے لیے ٹھیک درمیانی حصے کو اس طرح اٹھایا گیا ہے جیسے کسی پہاڑی پر چڑھائی ہو رہی ہو لیکن یہ چڑھائی اتنی سیدھی اور خوب صورت ہوتی ہے کہ نشیب اور فراز کسی کا ذرا احساس نہیں ہوتا۔
دمام سے سے برج کی شروعات کے ساتھ ہی دائیں بائیں سمندر کے اندر کا خاصا حصہ جو کوئی ایک کلومیٹر کے رقبے کو محیط ہے، مٹی ڈال کر خشک کیا گیا ہے۔ بتا رہے ہیں کہ اس مصنوعی جزیرے میں گورنمنٹ سیاحوں کے لیے کچھ خاص کرنا چاہتی ہے۔ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اتنے خاصے حصے کو جزیرہ بنانے اور پھر موٹے پتھروں سے اس کی حصار بندی کرنے میں کتنا صرفہ ہوا ہوگا۔
برج کا اختتام ہی بحرین کی شروعات ہے۔ کئی قطاروں میں ٹرکیں اور چھوٹی بڑی گاڑیاں چیک پوسٹ پر چیک ہو رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف ساحل کا لطف اٹھانے والے الگ جماوڑا لگائے رہتے ہیں۔ کنارے پر نہایت ٹھنڈی اور بہت تیز ہواؤں کے تھپیڑوں کے بیچ کافی پینے اور یہاں بنے ہوئے خوب صورت پارکوں، مسجد، ہوٹلوں اور سیاحتی دل کشیوں میں گھومنے کا اپنا الگ ہی لطف ہے۔ آپ بھی کل تک لطف اندوزی کیجیے۔ (جاری)
تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیران
چیرمین : تحریک علمائے ہند، جے پور