از قلم : غلام رسول سعدی :: ضیاے انوار تاج الشریعہ قدس سرہ
اللہ پاک اپنے نیک اورمحبوب بندوں پر انوار وتجلیات کی بارشیں نازل فرماتا ہے اور بلند مقام ومرتبےپر فائز فرماتا ہے۔ جس کی بنیاد پر کائنات میں نیک بندوں کےڈنکے بجتے ہیں۔
انہیں نیک بندوں میں وارث علوم اعلیٰ حضرت نبیرہ سرکار حجۃ الاسلام جانشین حضور مفتی اعظم ہند شہز ادۂ مفسر اعظم قائم مقام مفتی اعظم ہندمخدوم اہلسنت فخرازہر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختررضا خان ازہری معروف بحضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ والرضوان کی ذات بھی ہے۔
جن کو اللہ پاک نےایسی شان ومقام عطا کی تھی کہ جن کے دیدار کے لیے آنکھیں انتظار میں رہتی تھیں اور جن کی صحبت اختیار کرلینے کو عشاقِ اولیاء سرمایہ حیات سمجھتے تھے۔ کیوں کہ حدیث پاک میں مفہوم بھی ہے کہ اللہ پاک جن نیک بندوں سے محبت فرماتاہےان کی محبت مخلوق میں ڈال دیتا ہے پھر مخلوق خدا بغیر بلائے بھی اس نیک بندے کی طرف دوڑ لگاتی ہے پھر وہاں لوگوں کی بھیڑ اور جم غفیر کی وجہ سےجگہ تنگ پڑ جاتی ہےکہ کچھ دیر ہی سہی ان کی صحبت یا دیدار نصیب ہو جائے۔
فقیہ اسلام مخدوم اہل سنت مبلغ اعظم عالم جانشین حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد اسماعیل رضا خان معروف بہ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختررضا خان علیہ الرحمہ نسباً بڑہیچ پٹھان، مسلکاً سنی حنفی، مشرباقادری برکاتی، مولداومسکنابریلوی، تعلیما منظری، اور تکمیلا ازہری ہیں۔
چودہویں صدی ہجری کے نصف آخر، بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول میں غیر منقسم ہندوستان اور روہیلکھنڈ کے مرکز علم وعرفاں، مخزن فیض برکت، منبع جودوسخا،معدن نورونکہت بریلی شریف میں عالم ارواح سے عالم اجسام میں جلوہ گر ہوئے۔ اور ٢٥فروری ١٩٤٢ءمحلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔
نسب و خاندانی پس منظر
تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختررضا خان ازہری قادری (وفات ٢٠جولائی ٢٠١٨ء بروزجمعہ بعد نماز مغرب) بن مفسر اعظم حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم رضا خان جیلانی میاں(وفات ١٣٨٥ھ/١٩٦٥ء) بن حجۃالاسلام مولانا مفتی محمد حامد رضا خان(١٣٦٢ھ/١٩٤٣ء ) بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری(١٣٤٠ھ/١٩٢١ء) ناناجان مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خان (١٤٠٢ھ/١٩٨١ء)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کاخاندان افغان النسل اور قبیلہ بڑہیچ سے تعلق رکھتا ہے۔ مورثِ اعلیٰ شہزادہ سعید اللہ خان قندھار حکومت افغانستان کے ولی عہد تھے، خاندانی اختلاف کی وجہ سے قندھار کوترک وطن کر لاہور آئے۔ یہاں پر گورنر نے اپنے شیش محل میں آپ کے قیام کا انتظام کیا اور دربار محمد شاہ بادشاہ دہلی اطلاع بھیجوائی، دربار سے شاہی مہمان نوازی کا حکم صادر ہوا۔ پھر شہزادہ سعید اللہ خان نے دہلی بادشاہ محمد شاہ سے جاکر ملاقات کی، آپ کو بادشاہ نے فوج کا جنرل بنادیا اور آپ کے ساتھیوں کو بھی فوج میں اچھی جگہ مل گئی۔ روہیل کھنڈ میں کچھ بغاوت کے آثار نمایاں ہوئے تو بادشاہ نے آپ کو روہیل کھنڈ دارالسلطنت بریلی بھیج دیا تاکہ وہاں امن وامان قائم کریں۔ آپ کے صاحبزادے سعادت یارخان دربار دہلی میں وزیر مملکت تھے، ان کو کلیدی قلمدان ملا تھا ان کی اپنی علیحدہ مہر تھی۔
حافظ کاظم علی خان کے عہد میں مغلیہ حکومت کا زوال شروع ہوگیا۔ ہر طرف بغاوتوں کا شور اور آزادی خودمختاری کا زور تھا۔ آپ اودھ کی کمان سنبھالنے پہونچے۔ آپ کے فرزند مولانا شاہ رضا علی خان بریلوی جنہوں نے ١٨٥٧ءمیں اہم کردار ادا کیا۔ انگریز نے ان کا سرقلم کرنے کے لئے پانچ ہزار کے انعام کا اعلان کیا تھا۔ آپ کے دو فرزند مولانا مفتی نقی علی خان بریلوی اور دوسرے مولانا حکیم تقی علی خان بریلوی، تولد ہوئے جنہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں۔
مولانا نقی علی خان بریلوی کے تین فرزند تولد ہوئے۔
(١) اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری بریلوی
(٢) مولانا حسن رضا خان حسن بریلوی
(٣) مولانا مفتی محمد رضا خان بریلوی۔ (کرامات تاج الشریعہ ص١٩تا٢٠)
تسمیہ خوانی
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف جب چار سال، چار ماہ، اور چار دن کی ہوئی تو والدماجد مفسر اعظم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خان جیلانی بریلوی نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی اور اس میں دارالعلوم منظر اسلام کے جملہ طلبہ کودعوت دی۔ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفیٰ رضا خان نوری بریلوی قدس سرہ، نےرسم بسم اللہ اداکرائی۔
اور “محمد” نام پر عقیقہ ہوا۔ پکارنے کا نام” محمد اسماعیل رضا “اور عرف” محمد اختررضا”تجویز فرمایا۔ حضور مفتی اعظم ہند کی صاحبزادی یعنی جانشین مفتی اعظم ہند کی والدہ ماجدہ نے تعلیم وتربیت کاخاص خیال رکھا۔
چوں کہ ناناجان کاصحیح جانشین اسی نواسے کو مستقبل میں بننا تھا۔ اور ساری توقعات انہیں سے وابسطہ تھیں۔ اسی لیے ناناجان حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی دعائیں بھی آپ کے حق میں نکلتی رہیں۔ (کرامات تاج الشریعہ ص٢٠)
تاج الشریعہ کا قوت حافظہ
تاج الشریعہ بچپن ہی سے ذہانت و فطانت اور قوت حافظہ کے مالک تھے۔ اور عربی ادب کے دل دادہ تھے۔ جامعہ ازہر مصر میں داخلہ کے بعد آپ کی جامعہ کے اساتذہ اور تلامذہ سے گفتگو ہوئی تو آپ کی بے تکلف فصیح وبلیغ عربی گفتگو سن کر محو حیرت ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک عجمی النسل ہندوستانی، عربی النسل اہل علم حضرات سے گفتگو کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا۔ واقعی قابل حیرت بات ہے۔
جامعہ ازہر مصر کے”شعبہ کلیہ اصول الدین “کا سالانہ امتحان اگر چہ تحریری ہوتا تھا۔ مگر معلومات عامہ (جنرل نالج) کا امتحان تقریری ہوتا تھا۔ چناں چہ جامعہ سالانہ امتحان کے موقع پر جب جانشین مفتی اعظم کا امتحان ہوا، تو ممتحن نے آپ کی جماعت کے طلبہ سے علم کلام کے چند سوالات کئے، پوری جماعت میں سے کوئی ایک بھی طالب علم ممتحن کے سوالات کے صحیح جوابات نہ دے سکا۔ ممتحن نے روئے سخن آپ کی طرف کرتے ہوئے سوالات کو دوہرایا جانشین مفتی اعظم نے ان سوالات کا ایسا شافی وکافی جواب دیا کہ ممتحن تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ:آپ تو حدیث واصول حدیث پڑھتے ہیں علم کلام میں کیسے جواب دے دیا آپ نے علم کلام کہاں پڑھا؟
جانشین مفتی اعظم نے جواب میں کہا کہ میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں چند ابتدائی کتابیں علم کلام کی پڑھی تھیں اور مجھے مطالعہ کا بہت شوق تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ کے سوالات کے جواب دے دیئے۔ اگر اس سے بھی مشکل سوال ہوتا تو میں صحیح جواب دیتا۔ آپ کے جواب سے مسرور ہو کر ممتحن جامعہ نے آپ کو جماعت میں پہلا مقام اور پوزیشن دی اور آپ اول نمبروں سے پاس ہوئے۔ (کرامات تاج الشریعہ ص22/تا23)
آج کل کی پیری مریدی اور تاج الشریعہ
مضمون نگار رقم طراز ہیں:اس زمانے میں پیران کرام کی کمی نہیں شاید مریدین سے زیادہ پیر صاحبان کی تعداد ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ جو چیز کسی مارکیٹ میں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ تواس کا ویلو اور ڈیمانڈ کم ہوجاتی ہے۔
ایسا ہی کچھ حال آج کل کے پیرمغاں حضرات کاہے۔ گھر گھر میں پیرہیں، اس لئے پیر کی عظمت واہمیت لوگوں میں آج مفقود نظر آرہی ہے، لیکن انہیں لوگوں میں کچھ ہستیاں ہیں جو پیری کے اعلی مقام پر فائز اور مشیخیت کے بلندوبالامعیارپرقائم ہیں۔ انہیں مقدس ہستیوں میں حضور تاج الشریعہ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اگر حقیقت میں نگاہوں سے دیکھاجائے تو بلاشبہ تاج الشریعہ اس وقت اعظم المشائخ فی العصر فی الملک ہیں۔
بہت سے پیروں کے پرچارک مارکیٹ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جوان کی جھوٹی اور غلط سلط کرامتیں بیان کرکے سیدھے سادھے لوگوں کو ان کےدام تزویرمیں پھنساتے پھرتےہیں ۔ لیکن بحمدہ تعالیٰ وبعنایت نبیہ المصطفی حضرت تاج الشریعہ کی شان ہی کچھ نرالی ہے کہ کہیں آپ کا کوئی ایجنٹ اور نہ پرچارک بلکہ رب قدیرکی طرف سے آپ کواتنی مقبولیت حاصل ہے کہ میری دانست میں فی زمانہ آپ سے زیادہ مرید کسی کے بھی نہیں ہیں۔ ذالک فضل الله یوتیہ من یشاء۔
مولانا توحید اشرفی
ساکن شہزادپورامبیڈکرنگرکابیان ہے کہ حضور تاج الشریعہ کا سفر ہالینڈ کا ہوا۔ جلسہ میں بہت سے ڈاکٹرس اور پروفیسرس ٹائی لگاکر شریک تھے آپ نے ٹائی کی حقیقت اور ٹائی کےتعلق سے عیسائیوں کے عقیدے پر بھرپور تقریر فرمائی، اور ٹائی کے جتنے اقسام ہیں ان کی بھی وضاحت فرمائی۔ اس تعلق سے جلسہ کے بعد آپ سے استفادہ ہوا، آپ نے دلائل وبراہین کے ساتھ تشفی بخش جواب ہالینڈ روانہ فرمایا اس سلسلے میں آپ کی کتاب “ٹائی کا مسئلہ” وجود میں آئی۔
حضور تاج الشریعہ نے یہ ہرگز نہیں سوچا کہ یورپ کے دنیاوی منصب پر فائز اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات جلسہ میں موجود ہیں، اگر ٹائی کے تعلق سے گفتگو ہوئی تو کہیں یہ سب ناراض نہ ہو جائیں، آپ نے حکم شرع بیان فرماکر اپنے عالمانہ فقیہانہ وقار کو مجروح ہونے سے بچا لیا۔
آج کل پیرومرشد کودیکھا جاتا ہے کہ پیرطریقت کی مسند پر بیٹھنے کے بعد احکام شریعت کو نظر انداز کر ناان کا شیوہ بن گیا ہے، ان کوصرف فکر رہتی تو آمدنی کی، نماز، روزہ، اذکارووظائف اور تذکیہ نفس وتصفیہ قلوب کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے عورتوں کا اٹھنا بیٹھناغیرشرعی امور دیکھنا اور تنبیہ کرنا، اسے حکمت عملی کا نام دینا ایسے پیروں کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔
مگر تاج الشریعہ ایک صاحب علم وفن کے ساتھ بحرطریقت کے غواص بھی ہیں، مشاہدین میں سے کسی پر یہ امرمخفی نہیں ہے کہ حضور تاج الشریعہ کے سامنے کوئی غیر شرعی امر واقع ہوجائے اور آپ نے خاموشی اختیار کی ہو، بلکہ فوراً حکم شرع بیان فرمائے ہیں، آپ کی شخصیت جہاں نورعلی نورہےوہیں پاکیزہ کردار وعمل کے تاجدار بھی ہیں۔ حضرت علامہ سیدشاہ فخرالدین اشرف اشرفی جیلانی سجادہ نشین کچھوچھہ مقدسہ فرماتے ہیں:خانوادہ رضویہ کے
چشم وچراغ، شریعت وطریقت علم بردار، فقیہ عصر، شیخ الاسلام والمسلمين حضرت علامہ مولانا تاج الشریعہ الحاج محمد اختررضا خان صاحب قبلہ مدظلہ العالی ملقب بہ ازہری میاں کی ذات ستودہ صفات ہیں۔
جو علم وعمل، زہدوتقوی، شرم و حیا، صبروقناعت، صداقت و استقامت، وغیرہ عظیم صفات حسنہ سے متصف ہیں۔ سفر وحضر ہر حالت میں نماز کی پابندی فرماتے تھے اور ٹرین سے سفر کرتے ہوئے بھی نمازیں قضا نہ کرتے بلکہ ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم پر نماز ادا تے۔ راحت و تکلیف، کمزوری و توانائی، کسی لمحہ بھی نماز کی پابندی سے غفلت نہیں فرماتے۔ نیز ائیرپورٹ میں بھی وقت نماز ہونےپر اہتمام نماز فرماتے اور پڑھتے۔ الله پاک ہمیں بھی پابند صوم وصلوۃ کی توفیق عطا فرمائے۔
تقوی وطہارت ، زہدوورع کی یہ نادر مثالیں آج کے پرفتن دور میں نایاب ہیں۔ جولوگوں کےلئے درس عبرت اور نمونہ عمل ہیں۔ آپ کاظاہروباطن یکساں ہے، یہی وجہ ہے کہ حکم شرع بیان کرتے وقت کسی کی پرواہ نہیں کر تے ہیں۔
آج تک حاضر ین میں سے کسی نےآ کے پاس عورتوں کو بیٹھتے ہوئے نہیں دیکھا، عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرمریدکرتےہوئے نہیں دیکھا، چین والی گھڑی پہن کرکسی عالم یاغیرعالم کو بیٹھے نہیں دیکھا
۔ یہ حقیقت ہے کہ جو اللہ اور رسول ﷺ سے ڈرتا ہےاس سے خدا کی مخلوق ڈرتی ہے۔ آپ کا تصلب فی الدین کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ایسا مرشد طریقت کسی کو مل جائے تو واقعی اس کی آخرت سنور جائے گی۔
تاج الشریعہ بیک وقت دوجگہ
٢٠١٣ءمیں حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے ہمراہ صاحبزادہ مولانا مفتی عسجدرضاقادری مہتمم جامعۃالرضا بریلی شریف ساؤتھ افریقہ کے علاوہ دارالسلام تنزانیہ کے، ہرارے، زمباوےاور ملاوی وغیرہ کے تبلیغی سفر پر تشریف لے گئے تھے۔ واپسی پر ملاوی کا ایک واقعہ جوحضرت کی زندہ جاوید کرامت سے منسوب ہے، راقم سے بیان کیا۔ کہ جمعہ کا دن تھا محمد اسلم مرزا رضوی میرے پاس بےتانہ آئےاور بغل گیر ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ نے نماز کہاں پڑھی،میں نے بتایا کہ فلاں مسجد میں پڑھی
وہاں حضرت نے نماز جمعہ ادا کرائی، اسلم مرزا نے نماز جمعہ کسی دوسری مسجد میں پڑھی تھی یہاں عین نماز جمعہ حضرت تاج الشریعہ کی زیارت اور مصافحہ اور دست بوسی بھی کی تھی، اسلم مرزا صاحب کا اپنی مسجد میں زیارت کرنااور حضرت کا کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھانا واقعی کسی عظیم کرامت سے کم نہیں۔اس مجلس میں کسی نے کہا حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ بیک وقت 70 جگہ جلوہ نمائی کرسکتے ہیں، توان کے جانشین اور خلیفہ بیک وقت دوجگہ کیون نہیں ہوسکتے۔اسلم مرزا صاحب حضرت کی یہ کرامت دیکھ کر فوراً گھر گئے اور اپنے بیوی بچوں کو لاکر حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرادیا۔ اور انہوں نے یہ اپنا چشم دید واقعہ تمام لوگوں سے بیان کرکے حیرت میں ڈال دیا وہ کہتے ہیں کہ اس دن سے میری عقیدت و محبت میں ہزار درجہ اضافہ ہوگیا۔(کرامات تاج الشریعہ ص95، 96)
یقیناً سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات ایسی تھیں کہ جن پر صرف دس بیس پچاس نہیں بلکہ زمانہ نثار ہونے کو تیار رہتے تھے اور پھر اس کا اندازہ بعد وفات جنازہ کودیکھنے کے بعدہوا کہ سرکار تاج الشریعہ کی ذات کتنی عظیم الشان تھی۔
ایک صوتی پیغام اور رحلت تاج الشریعہ
ایک صوتی پیغام جس سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کافرمان تھاکہ میں اکثر سفر میں رہتا ہوں میراکہیں(بریلی سے باہر ) انتقال ہو جائے تو مجھے بریلی نہ لےجایا جائے بلکہ وہیں کسی ولی کے قریب دفن کیا جائے، اور میری تدفین میں تاخیر نہ کی جائے
اس دور میں ایسی وصیت اللہ کے ولی اور فقیہ سے ہی متصور ہے۔جس میں شرعی حکم کی بجاآوری کی تلقین کی جارہی ہے۔ اللہ پاک حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے فیضان سے ہمیں اور اہل سنت کو مالامال فرمائے اور اولیاء کرام کی سچی غلامی نصیب فرما کر خاتمہ بالخیر فرمائے۔
محتاج کرم فقیر :
ابوضیاءغلام رسول سعدی آسوی اشرفی رضوی کٹیہاری
(خلیفہ مشائخ کچھوچھہ و بریلی)
خطیب وامام فیضان مدینہ مسجد، امن نگر،بلگام کرناٹک انڈیا