از: (علامہ )سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا صلہ اور ان کی نافرمانی کا انجام : احادیث کی روشنی میں
والدین رشتے میں ہمارے ماں باپ ہوتے ہیں۔ رشتوں کو اگر دیکھا جائے تو رشتے دو طرح کے بنتے ہیں، ایک روحانی دوسرے جسمانی ۔
روحانی رشتہ جس کو ہم ایمانی رشتہ بھی کہتے ہیں یہ ایک محبتوں کا کنکشن ہوتاہے۔ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دوام بخشا ہے جو قیامت کے دن بھی باقی رہے گا جس کی شہادت اللہ کا کلام دیتاہے۔ :﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾(سورۃ:۴۳،آیت:۶۷) گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، مگر پرہیزگار۔(کنزالایمان) یعنی جس دن ساری دوستیاں، محبتیں اور رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی اس دن بھی یہ کنکشن اور محبتوں کا جڑاؤ باقی رہنے والا ہے اور کام آنے والا بھی۔ جن عظیم ہستیوں کے ساتھ ہمارا یہ روحانی رشتہ اور محبتوں کا کنکشن ہے وہ انبیاے کرام، صحابۂ کرام، اہل بیت اطہار اور صالحین و اولیا ے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی جماعت ہے۔
اِن سبھی محبتوں،عشق کے کنکشنوں کا محور و مرکز ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اعلیٰ صفات ہے۔ ہمارے سبھی روحانی رشتے ہمارے آقا و مولیٰ نبی کریم ﷺ کی وجہ سے ہیں۔ اگر کوئی وہاں سے کٹ گیا تو جہان سے ہی کٹ گیااورساتھ ہی ساتھ ہمارے یہاں سےبھی کٹ گیا۔ اس لیے کہ ان رشتوں کی اصل اور جڑ ذاتِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ و الثنا ہے ۔جیسے کسی درخت کی شاخیں ، پتے ،پھول اور پھل اس لیے ہرے بھرے ہوتے ہیں کہ ان کا کنکشن درخت کی جڑ کے ساتھ بناہوا ہوتاہے، جس وقت ان کا وہ کنکشن جڑ سے کٹ جاتاہے تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔بالکل اسی طرح محبوب رب العالمین سید المرسلین ﷺ اصل کائنات ہیں جب جس وقت بھی اگر کسی کا کنکشن آپ ﷺ کی ذات سے کٹ جاتاہے ، تو وہ ہر طرح اور ہر سمت سے کٹ جاتاہےپھر اس کا کنکشن شیطان کے ساتھ تو ہوسکتاہے مگر ایک مومن کے ساتھ نہیں ہوسکتاچاہے وہ پیر ہو یا کوئی فقیر، جو ہمارے نبی کریم ﷺ کا نہیں وہ ہمارابھی نہیں۔ کیونکہ بات ہورہی ہے رشتۂ روحانی کی جس کو ہم رشتۂ ایمانی بھی کہتے ہیں، اور ایمان کی اصل محبت مصطفیٰ ﷺ ہے۔جب کوئی ذات مصطفیٰ ﷺ سے کٹا تو اب وہ مؤمن ہی نہیں رہا، جب مؤمن نہیں ہے تو سبھی ایمانی و روحانی رشتے بھی از خود ختم ہوجاتے ہیں۔
اب آتے ہیں جسمانی رشتہ کی جانب : جسمانی رشتے کے محور والدین ہوتے ہیں۔ چچا اس لیے چچا ہے کہ وہ ہمارے والد کا بھائی ہے، پھوپھی اس لیے پھوپھی ہے کہ وہ ہمارے والد کی بہن ہے، اسی طرح مامو اس لیے مامو ہے کہ وہ ہماری والدہ کا بھائی ہے، خالہ اس لیے خالہ ہے کہ وہ ہماری ماں کی بہن ہے ، اسی طریقہ سے ساری رشتہ داریاں بنتی ہیں جن کا سبب صرف ہمارے والدین کریمین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی ہمارے والدین سے کٹ جاتاہے تو وہ ہم سے بھی کٹ جانا چاہیے، ورنہ ہم خود والدین سے کٹ جائیں گے، اور جو اصل سے کٹ جاتاہے ، وہ کہیں کا نہیں رہتا۔
اس لیے اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے والدین سے اچھا سلوک کرکے ان کے ساتھ جُڑے رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی عظمت و اہمیت کو اپنی لاریب کتاب میں اس طرح اُجاگر فرماتاہے۔ ارشاداتِ باری تعالیٰ: ﴿لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾(سورۃ البقر:۸۳) ترجمہ: ’کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجواور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو‘۔ (کنزالایمان)﴿وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِا لْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾(سورۃ النساء:۳۶) ترجمہ: ’اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو‘۔ (کنزالایمان) ﴿وَقَضیٰ رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾(سورۃ لاسراء:۲۳) ترجمہ: ’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘۔ (کنزالایمان)
مندرجہ بالا آیاتِ بیّنات میں اللہ رب العزت نے اپنی عبادات کے بعد جس اہم امر کا سب سے پہلے حکم صادر فرمایاہے وہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کرناہے۔کتبِ احادیث والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک،ان کی خدمت اور ان کا ادب و احترام کرنے کی فضیلت، اور ان کی نافرمانی کی وعیدوں سےبھری پڑی ہیں، ان میں سے چند احادیث کریمہ ھدیۂ قارئین ہیں۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت اور اس کا اجر
۱:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ فرمایا: ”اَلصَّلوٰۃُ عَلٰی وَقْتِھَا“ وقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا؟ فرمایا:”ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ“ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔ عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا:”اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ“ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں مجھے یہ بتایا اور اگر مزید عرض کرتا تو اور بتاتے۔(الجامع الصحیح للبخاری، ج:۲، کتاب الادب،ص۸۸۲،م قدیمی کتب خانہ کراچی)
۲:حضرت عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں: ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں ہجرت اور جہاد پر آپ سے بیعت کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے اجر کا طالب ہوں، (آقاکریم ﷺنے) دریافت فرمایا: ’کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟‘ اس نے عرض کیا: جی ہاں! دونوں زندہ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’کیا تو اللہ تعالیٰ سے اجر کا طلب گار ہے؟‘ اس نے عرض کیا :جی ہاں!آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”فَارْجِعْ اِلٰی وَالِدَیْکَ فَاَحْسِنْ صُحْبَتَھُمَا“ اپنے ماں باپ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے اچھا سلوک کرو۔(الصحیح لمسلم،ج:۶،کتاب البر و الصلۃ ص:۴۱۱، رقم:۲۶۳۱، م دار التاصید، بیروت)
۳:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’تین آدمی جارہے تھے کہ انہیں بارش نے آلیا، چنانچہ وہ ایک پہاڑ کے غار میں چھُپ گئے، پہاڑ کے اوپری حصے سے ایک بہت بڑا پتھر غار کے مُنہ پر آ گرا اور وہ (لوگ غار کے اندر) بند ہوگئے، چنانچہ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کوئی ایسا نیک عمل دیکھو جو تم نے محض اللہ کے لیے کیا ہواور اس کے وسیلے سے دعا کرو، شاید کہ اللہ ہمیں کشادگی عطا فرمائے، ان میں سے ایک نے کہا:” اَللّٰھُمَّ اِنَّہٗ کَانَ لِی وَالِدَانِ شَیْخاَنِ کَبِیرَانِ ، وَلِی صِبْیَۃٌ صِغَارٌ، کُنْتُ اَرْعٰی عَلَیھِمْ، فَاِذَا رُحْتُ عَلَیْھِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأتُ بِوَالِدَیَّ اَسْقِیْھِمَا قَبْلَ وَلَدِی، وَاِنَّہٗ نَأَی بِیَ الشَّجَرُ یَوْمًا، فَمَا اَتَیْتُ حَتّٰی اَمْسَیْتُ فَوَجَدْتُھُمَاقَدْ نَامَا “ اے اللہ! میرے انتہائی عمر رسیدہ اور بوڑھے والدین تھے نیزمیرے بچے چھوٹے چھوٹے تھے، میں اُن کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا، جب میں شام کو واپس آتا تو ان کے لیے بکریوں کا دودھ نکالتا اور بچوں سے پہلے والدین کو پلاتا تھا، ایک دن جنگل میں دور نکل گیااورشام ہوگئی، جب واپس لوٹا تو وہ دونوں سوچکے تھے، ”فَحَلَبْتُ کَمَا کُنْتُ اَحْلَبُ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُؤُوسِھِمَا اَکْرَہُ اَنْ اُوقِظَھُمَامِنْ نَوْمِھِمَا، وَ اَکْرَہُ اَنْ اَبْدَاَ بِالصِبْیَۃِ قَبْلَھُمَا، “میں ہمیشہ کی طرح دودھ لیکر آیا اور ان دونوں کے سرہانے کھڑا ہوگیا، میں نے انہیں نیند سے جگانا پسند نہ کیا اور مجھے ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھی اچھا نہ لگتاتھا ”وَ الصِّبْیَۃُ یَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَیَّ، فَلَمْ یَزَلْ ذَالِکَ دَأْبِی وَدَأْبَھُمْ حَتّٰی طَلَعَ الْفَجْرُ،“، اور بچے میرے پیروں میں رات بھر روتے رہےحتٰی کہ صبح ہونے تک میں اور وہ اسی حال میں رہے ”فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ فَعَلْتُ ذَالِکَ ابْتِغَاءَ وَجْھِکَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَۃً نَری مِنَ السَّماءَ“ یا اللہ! تو جانتاہے اگر میں نے یہ کام فقط تیری رضا کی خاطر کیاہے تو ہمارے لیے کشادگی عطا فرما تاکہ ہم آسمان تو دیکھ سکیں۔ ”فَفَرَجَ اللہُ لَھُمْ فُرْجَۃً حَتّٰی یَرَوْنَ مِنْھَا السَّمَاء“(الی آخر الحدیث)پس اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو تھوڑاسا ہٹادیا کہ اس میں سے اُنہیں آسمان دکھائی دینے لگا۔ (الجامع الصحیح للبخاری ج:۲ کتاب الادب، باب اجابۃ دعاءِ مَن بَرَّ وَالدیہ،ص:۸۸۳)
مگر ابھی بھی وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے یہاں تک کہ بقیہ دونوں ساتھیوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کے ذریعہ سے دعا کی، اور وہ پتھر کی چٹان مکمل طور پر غار کے مُنہ سے ہٹ گئی اور وہ باہر نکلے۔
۴:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”مَنْ سَرَّہُ اَنْ یُمَدَّ لَہُ فِی عُمُرِہٖ وَیُزَادَ فِی رِزْقِہٖ فَلْیَبَرَّ وَالِدَیْہِ وَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ“ جو چاہتاہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کے رزق میں زیادتی ہو، تو اس کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک و صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری،ج۳، فی بر الوالدین،رقم:۱۶، ص:۲۱۷، دارالکتب علمیہ، بیروت)
۵:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”مَنْ بَرَّوَالِدَیْہِ طُوْبٰی لَہٗ زَادَ اللہُ فِی عُمُرِہٖ“جو شخص والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہے اس کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمادےگا۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری،ج۳، فی بر الوالدین،رقم:۱۷، ص:۲۱۷، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
طوبیٰ جنت میں ایک بہت بڑے درخت کا نام بھی ہے، والدین کی خدمت کرنے والے کو اس کا سایہ بقدر خدمت نصیب ہوگا۔(حاشیہ :الترغیب و الترھیب)
۶:حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی ِ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! (ﷺ) میں جہاد میں شرکت کا ارادہ کرکے آپ سے مشورہ طلب کرنے آیاہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ھَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ“ کیا تمہاری والدہ ہے؟ اس نے عرض کیا :جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: ”فَالْزَمْھَا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْدَ رِجْلِھَا“تم ان کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت ان کے پیروں کے پاس ہے۔ (مشکوۃ المصابیح للتبریزی، ج:۲، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثانی،رقم:۴۷۱۹ ص:۴۳۴مکتبہ رحمانیہ لاھور)
۷:حضرت عمر بن مرہ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ! ﷺ میں یہ گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، میں پانچ نمازیں پڑھتاہوں، میں اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتاہوں، اور رمضان کے روزے رکھتاہوں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”مَنْ مَّاتَ عَلٰی ھٰذا کَانَ مَعَ النَّبِیِّیْن وَ الصِّدِقِیْنَ وَ الشُھَدَاءِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ھٰکَذَا“جس شخص کو اس حالت پر موت آجائےوہ قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اورشھداء کے ساتھ اس طرح ہوگا۔ (نبی کریم ﷺ نے) اپنی دو اُنگلیاں ملا کر یہ بات ارشاد فرمائی”مَالَمْ یَعُقَّ وَالِدَیْہِ“ بشرطیکہ وہ اپنے ماں باپ کا نافرمان نہ ہو۔ (المسند لاحمدبن حنبل ج:۴، کتاب البرو الصلۃ، باب : بر الوالدین،ص:۱۵۰ رقم:۵۴۷۱)
جو لوگ اپنے والدین کی خدمت اورضرورت پر دھیان نہ دے کرلوگوں کے درمیان بڑے نیک بنے پھرتے ہیں انہیں مذکورہ حدیث پر غور کرنا چاہیے، کہ کوئی بندہ صوم و صلوٰۃ کا کتنا بھی پابند کیوں نہ ہو مگر اس سے ماں باپ کی خدمت میں اگر معمولی چوک ہوگئی تو ساری عبادتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی، قیامت کے دن اسے کافی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ اس لیے اپنے والدین کی خدمت پر خوب خوب دھیان دیں۔
Donations Details
AlBarkaat Educational and Welfare Trust
A/C 45350100013943
IFSC Code
BARB0THAKIS
Bank of Broda Thakurganj Branch.
PhonePay & GooglePay Number
9905084119
पैसे भेजने के बाद आप हमें स्क्रीनशाट भेज कर ख़बर कर दें!
Call&WhatsApp
+91 9925055786
+91 9905084119
والدین کے نافرمان کا انجام:
۸:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”رَغِمَ اَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ اَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ اَنْفُ“ ’اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ !(ﷺ) وہ کون شخص ہے؟ (جس کی ناک خاک آلود ہو) فرمایا: ”مَنْ اَدْرَکَ اَبْوَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ اَحَدَھُمَا اَوْ کِلَیْھِمَافَلَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔“ جس نے اپنے ماں باپ دونوں میں سے ایک، یا دونوں کو بُڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہوسکا۔ (الصحیح لمسلم،ج:۶،کتاب البر و الصلۃ ص:۴۱۵،رقم:۲۶۳۳، دار التاصید، بیروت)
۹:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”رِضَی الرَّبِّ فِیْ رِضَی الْوَالِدِ وَ سَخْطُ الرَّبِّ فِی سَخْطِ الْوَالِدِ“ اللہ رب العزت کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہےاور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی،ج:۲، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثانی،رقم:۴۷۰۷ ص:۴۳۳،)
۱۰:حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نبیِ کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں موجود تھے کہ ایک شخص حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: ایک نوجوان حالتِ نزع میں ہے اسے کہاجاتاہے کہ’ لا الہ الا اللہ ‘ پڑھ مگر نہیں پڑھ سکتا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دریافت فرمایا:”کَانَ یُصَلِّی؟“ نماز پرھتاتھا؟ عرض کی گئی: جی ہاں! اللہ کے رسول ﷺ اُٹھے ، آپ ﷺ کے ساتھ ہم بھی اُٹھے ، آقا کریم ﷺ اس نوجوان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:”قُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ کہو: ’لاالہ الا اللہ‘ اس نے عرض کی میں کہہ نہیں سکتا، فرمایا:”لِمَ؟“ کیوں نہیں کہہ سکتا؟عرض کی گئی: یہ اپنی ماں کی نافرمانی کرتاتھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اَحَیَّۃٌ وَالِدَتَہٗ؟“ کیا اس کی ماں زندہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا :جی ہاں! آقاکریم ﷺ نےفرمایا: ”اُدْعُوْھَا“ اسکو بلاؤ۔ (والدہ کو بلایا گیا) وہ خدمت میں حاضر ہوئی نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”ھٰذَا اِبْنُکَ؟“ یہ تمہارا بیٹا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اَرَیْتِ لَوْ اُجِّجَتْ نَارٌ ضَخْمَۃٌ، فَقِیْلَ لَکِ: اِنْ شَفِعْتَ لَہٗ خَلَّیْنَا عَنْہُ، وَاِلَّا حَرَّکْنَاہُ بِھٰذِہِ النَّارِ، اَکُنْتِ تَشْفَعِیْنَ لَہٗ؟“ کیا خیال ہے تمہارا؟ اگر بہت بڑی آگ بھڑکائی جائے اور تمہیں کہا جائے کہ تم اگر اس کی سفارش کرو تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں ورنہ اس آگ میں اسے جلا ڈالیں گے، تو کیا تم اس کی سفارش کروگی؟ (یا جل جانے دوگی؟)۔ ماں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ﷺ (ایسی حالت میں تو ضرور) میں اس کی سفارش کروں گی۔ ارشاد فرمایا:”فَاشْھِدِی اللہَ وَاشْھِدِیْنِی قَدْ رَضِیْتِ عَنْہُ“پھر اللہ تعالیٰ کو اور مجھے گواہ بنا کر کہو کہ تم اس سے راضی ہوگئی ہو۔وہ عرض کرنے لگی : یا اللہ (عزوجل)میں تجھے اور تیرے رسول(ﷺ) کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں یقینًا اپنے بیٹے سے راضی ہوگئی ہوں۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اس نوجوان سے فرمایا: ”یَا غُلَامُ قُلْ“اے نو جوان کہہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ رَسُوْلُہٗ“اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں ، میں گواہی دیتاہوں کہ بیشک محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔ (والدہ کی معافی کے بعد حضور کے ارشاد پر اسے کلمۂ شہادت کی توفیق حاصل ہوئی)تو اس نے یہ الفاظ دہرائے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَنْقَذَہُ بِیْ مِنَ النَّارِ“تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے وسیلہ سے اس نوجوان کو دوزخ کی آگ سے بچالیا۔ الترغیب و الترھیب للمنذری،ج۳، الترھیب من عقوق الوالدین، رقم:۱۶، ص:۲۲۶، دارالکتب العلمیہ، بیروت) ۱۱:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَمَنَّانٌ وَّ لَا عَاقٌ وَّ لَا مُدْمِنُ خَمْرٍ“جنت میں داخل نہیں ہوگا، احسان جتانے والا، والدین کا نا فرمان، اور مستقل شراب پینے والا۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی ج:۲، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثانی،رقم:۴۷۱۳، ص:۴۳۳)
۱۲:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہےفرماتے ہیں:اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”ثَلَاثٌ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَ لَا یَنْظُرُاللہُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: اَلْعَاقُ وَالِدَیْہِ،وَالْمِرَأَۃُالْمُتَرَجِّلَۃُ الْمُتَشَبِّھَۃُ بِالرِّجَالِ، وَالدَّیُوْثُ“ تین ایسے افراد ہیں کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے، اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت فرمائےگا:والدین کا نافرمان، اور وہ عورت جوچال ڈھال لباس وغیرہ میں مردوں کی مشابہت کرتی ہے، اور دیوث(بےغیرت) ”وَ ثَلَاثَۃٌ لَا یَنْظُرُاللہُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: اَلْعَاقُ بِوَالِدَیْہِ، وَمُدْمِنُ الْخَمَرِ، وَ الْمَنَّانُ بِمَااَعْطیٰ“ اور وہ تین شخص جن پر اللہ تبارک و تعالیٰ نظرِ رحمت نہیں فرمائےگا: والدین کا نافرمان، اور شراب پر ہمیشگی کرنے والا، اورکسی کو کچھ دے کر احسان جتانے والا۔(المسند لاحمدبن حنبل،رقم:۶۱۸۰،ص۴۷۲، بیت الافکار الدولیہ،سعودیہ)
۱۳:حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”کُلُّ الذُّنُوْبِ یُؤَخِّرُ اللہُ مَاشَاءَ مِنْھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، اِلَّا عُقُوْقَ الْوَالِدَیْنِ، فَاِنَّ اللہَ تَعَالَیٰ یُعَجِّلُہٗ لِصَاحِبِہٖ فِیْ الْحَیَاۃِ قَبْلَ الْمَمَاتِ“سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت تک مؤخر رکھتاہے، مگر ماں باپ کے ستانے کی سزا مرنے سے پہلے زندگی میں (بھی) دیتاہے۔(المستدرک للحاکم،ج:۴، البر وصلۃ، رقم:۷۲۶۳، ص:۱۷۲،دار الکتب العلمیہ، بیروت )
۱۴:حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”ثَلٰثۃٌ لَایُقَبِّلُ اللہُ مِنْھُمْ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، عَاقٌ، وَمَنَانٌ، وَ مُکَذِّبٌ بِقَدْرٍ“ تین شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ ان کے نفل قبول فرماتاہے اور نہ فرض۔ ماں باپ کا نافرمان، صدقہ دے کر احسان جتانے والا،اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔ (جامع الاحادیث للامام احمدرضا البریلوی، ج۴،ص:۱۹۳، رقم:۲۳۳۹، بحوالہ:مجمع الزوائد للھیثمی، ۷/۲۰۶)
۱۵:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ، مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ، مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ“ ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے، ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے، ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے۔(جامع الاحادیث للامام احمد رضا البریلوی، ج۴،ص۱۹۳، رقم:۲۳۴۰)
۱۶:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ کے رسول ﷺتشریف لائےاور ہم اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”یَامَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ اِتَّقُوْا اللہَ، وَصِلُوْا اَرْحَامَکُمْ ، فَاِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ ثَوَابٍ اَسْرَعَ مِنْ صِلَۃِ الرَّحْمِ، وَاِیَّاکُمْ وَا لْبَغْیَ، فَاِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ عُقُوْبَۃٍ اَسْرَعَ مِنْ عُقُوْبَۃِ الْبَغْیِ، وَاِیَّاکُمْ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَاِنَّ رِیحَ الْجَنَّۃِ تُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ اَلْفِ عَامٍ، وَاللہِ لَا یَجِدُھَا عَاقٌ، وَلَا قَاطِعُ رَحِمٍ، وَلَا شَیْخٌ زَانٍ، وَلَا جَارٌ اِزَارہُ خُیَلَاءَ اِنَّمَا الْکِبْرِیَاءُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“(الی آخر الحدیث)اے جماعتِ مسلمین! اللہ سے ڈرتے رہو۔ اپنے رشتےداروں سے صلہ رحمی کرو، کیونکہ صلہ رحمی کے ثواب سے جلدی ملنے والا اور کوئی ثواب نہیں۔ ظلم(کرنے) سے بچو کیونکہ ظلم کی سزا سے جلدی ملنے والی اور کوئی سزا نہیں۔ اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے سے بچو کیونکہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی دوری سے محسوس کی جا سکتی ہے، اللہ کی قسم والدین کا نافرمان، رشتے توڑنے والا، بوڑھا زانی، اور تکبر سےتہبند لٹکا کر چلنے والا اس (ایک ہزار سال کی دوری سے محسوس کی جانے والی جنت کی خوشبو کوبھی) نہ پاسکیں گے۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری، ج:۳، الترھیب من عقوق الوالدین،ص:۲۲۵، رقم:۱۴)
۱۷:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَنْ اَصْبَحَ مُطِیْعًا لِلّٰہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہٗ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّۃِ وَاِنْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَ مَنْ اَصْبَحَ عَاصِیًا لِلّٰہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہٗ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ اِنْ کَانَ وَاحِداً فَوَاحِداً“جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور والدین کی فرمانبرداری میں صبح کرےتو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اگر ایک ہوتو ایک (دروازہ)، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اپنے والدین کی نافرمانی میں صبح کرے تو اس کے لیے جہنم کےدو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اگر ایک ہو تو ایک دروازہ۔ ایک آدمی نے عرض کیا اگرچہ وہ ظلم کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”وَاِنْ ظَلَمَاہُ وَاِنْ ظَلَمَاہُ وَاِنْ ظَلَمَاہُ“اگرچہ وہ ظلم کریں، اگرچہ وہ ظلم کریں، اگرچہ وہ ظلم کریں۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثالث، رقم: ۴۷۲۳، ص:۴۳۵)
۱۸:حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ“ کیا میں تمہیں بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟۔ ہم نے عرض کیا: جی ہاں(ضرورفرمائیں) یارسول اللہ!ﷺ فرمایا:”اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ، وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ“(الی آخر الحدیث)اللہ کے ساتھ شریک ٹھرانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا۔(الجامع الصحیح للبخاری، ج:۲ کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر،ص:۸۸۴)۔
۱۹:حضرت عبید اللہ بن ابوبکر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا، یا کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:”اَلشِّرْکُ بِا اللہِ، وَقَتْلُ نَفْسٍ، وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ،“(الی آخر الحدیث) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی جان کو (ناحق ) قتل کرنا، اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ (الجامع الصحیح للبخاری، ج:۲ کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر،ص:۸۸۴)
۲۰:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”لَا تَعُقَّنَّ وَالِدَیْکَ وَاِنْ اَمْرَاکَ اَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَھْلِکَ وَ مَالِکَ“اپنے ماں باپ کی نافرمانی مت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو اپنے گھربار کو چھوڑ دے۔۔( المسند لاحمد بن حنبل،۵/۱۹۹،رقم:۸۴۹۵، دار القلم، دمشق)
۲۱:حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اَطَعْ وَالِدَیْکَ وَ اَنْ اَخْرَجَاکَ مِنْ مَالِکَ وَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ھُوَ لَکَ“ اپنے ماں باپ اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے تیرے مال سے نکال دیں، اور ہر اس چیز سے جو تیری ہے۔(جامع الاحادیث، ج:۴، کتاب الادب/حقوق الوالدین،ص:۱۹۱، رقم:۲۳۳۶بحوالہ: الدرمنثور للسیوطی،۴/۱۸۳)
ماں باپ کے حقوق اولاد پر
۲۲:حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ﷺ بیٹے پر ماں باپ کے کیا حق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”ھُمَا جَنَّتُکَ وَ نَارُکَ“ وہ تیرے لیے جنت اور دوزخ ہیں۔ (السنن لابن ماجہ کتاب الادب، باب بر الوالدین،ص:۸۳۰ رقم:۳۶۶۲، دار الفکر بیروت، لبنان)
یعنی اگر تو اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے گا اور ان کی خدمت کرے گا تو وہ تیرے لیے جنت کا ذریعہ بن جائیں گے، اور اگر تو اُن کی نافرمانی کرتا رہے گا اور ان کی خدمت کرکے ان کو خوش نہیں رکھےگا، تو تیرا ٹھکانا دوزخ ہے۔ ۲۳:حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:”اَلْوَالِدُ اَوْسَطُ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ، فَاَضَعْ ذَالِکَ الْبَابَ اَوِ احْفَظَہٗ“ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے ، اب تیری مرضی اسے گرادے یا اسے قائم رکھے۔ (السنن لابن ماجہ،کتاب الادب باب برالوالدین، ص:۸۳۰،رقم:۳۶۶۳ دار الفکر بیروت، لبنان)
۲۴:حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”اِنَّ اللہَ یُوْصِیْکُمْ بِاُمَّھَاتِکُمْ“بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ماؤں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتاہے۔ (راوی کا بیان ہے) یہ بات آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمائی(پھر فرمایا:) ” اِنَّ اللہَ یُوْصِیْکُمْ بِآبَائِکُمْ“بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتاہے، (پھر فرمایا:) ” اِنَّ اللہَ یُوْصِیْکُمْ بِالْاَقْرَبِ فَالْاَقْرَبِ“اللہ تعالیٰ تمہیں قریب سے قریب رشتے داروں کےساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتاہے۔ (السنن لابن ماجہ کتاب الادب،باب بر الوادین،ص:۸۳۰، رقم:۳۶۶۱ دار الفکر بیروت، لبنان)
۲۵:ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کاہے؟ فرمایا:”زَوْجُھَا“ اس کے شوہر کا، میں نے عرض کی: اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا:”اُمُّہٗ“ اس کی ماں کا۔(المستدرک للحاکم، ج:۴، البرو الصلۃ، رقم:۷۲۴۴، ص۱۶۷، دار الکتب علمیۃ)
۲۶:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھنے لگا: میرے اچھے سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اُمُّکَ“ تیری ماں، عرض کیا: پھر کون؟فرمایا:”پھر تمہاری ماں“ عرض کیا :پھر کون؟ فرمایا:”پھر تمہاری ماں“ عرض کیا:پھر کون؟ فرمایا:”پھر تمہارا باپ“۔(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الادب،۸۸۳)
۲۷:حضرت ابن سلامۃ سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اُوْصِیْ اِمْراً بِاُمِّہٖ، اُوْصِیْ اِمْراً بِاُمِّہٖ، اُوْصِیْ اِمْراً بِاُمِّہٖ، (ثَلَاثاً)اُوْصِیْ اِمْرَاً بِاَبِیْہِ، اُصِیْ اِمْرَاً بَمَوْلَاہُ الَّذِیْ یَلِیْہِ، وَاِنْ کَانَ عَلَیْہِ مِنْہُ اَذًی یُؤْذِیہِ“میں آدمی کو وصیت کرتاہوں اس کی ماں کے حق میں، میں آدمی کو وصیت کرتاہوں اس کی ماں کے حق میں، میں آدمی کو وصیت کرتاہوں اس کی ماں کے حق میں، (راوی کا بیان ہے ) یہ بات آپ ﷺ نے تین بار دہرائی، )میں آدمی کو اس کے باپ کے حق میں وصیت کرتاہوں، میں آدمی کو (ماتحت) غلام کے بارے میں وصیت کرتاہوں (کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا رہے) چاہے وہ اس کے لیے کسی ایذا کا سبب بنے ہوں۔(السنن لابن ماجہ کتاب الادب، باب بر الوادین، ص:۸۲۹، رقم:۳۶۵۷ دار الفکر بیروت، لبنان)
مذکورہ بالا تینو حدیثوں سے پتہ چلا کہ ماں کے حقوق اولاد پر باپ کے حقوق سے زیادہ ہیں۔ اس کو مزید سمجھنے کے لیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح نظرِ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں:’مگر اس زیادتی کے یہ معنی ہیں کہ خدمت دینے میں باپ پر ماں کو ترجیح دے، مثلاً سو روپے ہیں اور کوئی خاص وجہ مانع تفضیل مادر نہیں تو باپ کو پچیس دے اور ماں کو پچہتر، یا ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو، یا دونوں سفر سے آئے ہیں، پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھر باپ کے، وعلی ہذالقیاس۔ نہ یہ کہ اگر والدین میں باہم تنازع ہوتو ماں کا ساتھ دے کر معاذ اللہ باپ کے درپئے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے، یا اسے جواب دے یا بے ادبانہ آنکھ ملاکر بات کرے، یہ سب باتیں حرام ہیں اور اللہ عزوجل کی معصیت۔ اور اللہ تعالیٰ کی معصیت میں نہ ماں کی اطاعت نہ باپ کی۔ تو اسے ماں باپ میں کسی کا ایسا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں، وہ دونوں اس کی جنت و نار ہیں، جسے ایذا دےگا دوزخ کا مستحق ہوگا۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔۔ معصیت خالق میں کسی کی اطاعت نہیں، اگر مثلاً ماں چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کا آزار پہونچائے اور یہ نہیں مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے ہونے دے اور ہرگز نہ مانے، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں کے معاملے میں ان کی ایسی ناراضیاں کچھ قابل لحاظ نہ ہوں گی کہ ان کی نری زیادتی ہے۔ کہ اس سےاللہ تعالیٰ کی نافرمانی چاہتے ہیں۔ بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں تقسیم فرمائی کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے جس کی مثالیں ہم لکھ آئے۔ اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم و آقاہے ۔(فتاوی رضویہ، ج:۲۴، ص:۳۹۵،رضافاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور)
۲۸:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے فرمایا:”یَافُلَانُ مَنْ ھٰذا مَعَکَ؟“ تیرے ساتھ یہ کون شخص ہے؟ اس نے عرض کیا: میرا باپ ہے۔ ارشاد فرمایا:”فَلَا تَمْشِ اَمَامَہٗ، وَلَا تَجْلِسْ قَبْلَہٗ، وَلَا تُدْعُہٗ بِاِسْمِہٖ، وَلَا تَسْتَسِبَّ لَہٗ“ تو اس کے آگے مت چلنا، اور نہ اس سے پہلے بیٹھنا، اور نہ اس کو نام لے کر بلانا، اور نہ اس کے لیے نازیبا الفاظ بولو۔(مجمع الزوائد للھیثمی، ج۱۶،کتاب البروالصلۃ، باب باجاء فی البر و حق الوالدین، ص:۴۶۷،رقم:۱۳۴۱۷،دارالمنھاج،سعودیہ)
۲۹:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: یارسول اللہ !ﷺ میں مال و عیال والاآدمی ہوں اور میرے باپ میرا سب مال لے لینا چاہتے ہیں۔تو فرمایا:”اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبِیْکَ“تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کاہے۔(السنن لابن ماجہ، کتاب التجارات باب ماللرجل من مال ولدہٖ،ص:۵۳۱،رقم:۲۲۹۱، دار الفکر بیروت، لبنان)
۳۰: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: یارسول اللہ !ﷺ میں مال و عیال والاآدمی ہوں اور میرے باپ میرا سب مال لے لینا چاہتے ہیں۔ (تو ہم اور ہمارے بال بچے کیا کھائیں گے؟ اور ہمارا گزربسر کیسے ہوگا؟)سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اُدْعُہْ لِیَہْ“ اپنے باپ کو میری بارگاہ میں لاؤ، جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے فرمایا تمہارا یہ بیٹا کہتا ہےکہ تم اس کا مال لے لینا چاہتے ہو؟ ( یہ کیا معاملہ ہے؟)
اُس نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس سے دریافت فرمائیے کہ میں وہ مال لے کر کیا کرتاہوں؟ اس کی پھوپھیوں یا دوسرے قرابت داروں پر خرچ کرتاہوں یا اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ چلاتاہوں؟ اتنے میں طائرسدرہ حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں کہ یا رسو ل اللہ! یہ بڑے میاں اپنے دل میں کچھ اشعار بھی مرتب کر کے لائے ہیں جن کو ابھی ان کے کانوں نے بھی نہیں سناہے، وحی پاکر حضور سید عالم ﷺ نے ان سے فرمایاتم نے اپنے دل میں جو اشعار کہے ہیں وہ مجھے سناؤ، بڑے میاں عرض کرنے لگے، یارسول اللہ! ہمیشہ آپ کے معجزات سے اللہ تعالیٰ ہمارے دل کا نور یقین بڑھاتا رہتاہے۔ پھر اشعار سنائے:
غَذَوْتُکَ مَوْلُوْداً وعَلَتْکَ یَافِعًا
تُعَلُّ بِمَا اَجْنِی عَلَیْکَ وَتُنْھَلٗ
اِذَا لَیْلَۃٌ ضَاقَتْکَ بِالسُّقْمِ لَمْ اَبِتْ
لِسُقْمِکَ اِلَّا سَاھِراً اَتَملْمَلٗ
تَخَافُ الرَّدٰی نَفْسِی عَلَیْکَ وَ اِنَّھَا
لِتَعْلَمُ اَنَّ الْمَوْتَ حَتْمٌ مُّوَکَّلٗ
کَاَنِّیْ اَنَا الْمَطْرُوْقُ دُوْنَکَ بِالَّذِیْ
طُرِقْتَ بِہٖ دُوْنی فَعَیْنَایَ تَھْمَلٗ
فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَ الْغَایَۃَ الَّتِیْ
اِلَیْکَ مَدٰی مَاکُنْتُ فِیْکَ اُؤَمِّلٗ
جَعَلْتَ جَزَائِیْ غِلْظَۃً وَ فَظَاظَۃً
کَاَنَّکَ اَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلٗ
فَلَیْتَکَ اِذَالَمْ تَرَعْ حَقَّ اُبُوَّتِیْ
کَمَا یَفْعَلُ الْجَارُ الْمُجَاوِرُ تَفْعَلٗ
وَاَوْ لَیْتَنِیْ حَقَّ الْجَوَارِ وَ لَمْ تَکُنْ
عَلَیَّ بِمَالِیْ دُوْنَ مَالِکَ تَبْخَلٗ
1 ) اے بیٹے! جب سے تو پیدا ہوا تیرے لیے غذا فراہم کی اور تیرے باشعور ہونے تک تیرے نان و نفقہ کا بار اُٹھایا تو برابر میری کمائی سے مستفید ہوتا رہا اور پروان چڑھتارہا۔
2) جب کوئی رات بیماری کا غم لے کر تجھ پر آتی تو میں تیری ناسازیِ طبع و بیماری کےکے باعث رات بھر جاگ جاگ کر بڑی بے چینی و بے قراری سے صبح کرتا۔
3)میرا جی تیرے موت کے اندیشے سے ڈرتا رہتا حالانکہ اسے خوب معلوم تھا کہ موت یقینی ہےاور سب پر مُسلط کی گئی ہے۔
4)میری آنکھیں اس طرح زارو قطار رو روکر آنسو بہاتیں کہ جیسے وہ بیماری جو رات میں تجھے ہوئی تھی تجھے نہیں بلکہ مجھے ہوئی تھی۔
5) میں نے تجھے اتنی شفقت اور پیار کے ساتھ دکھ اٹھا اٹھا کر پالا، پوسا اور جب تو پروان چڑھا اور عمر کی اس منزل کو پہونچا جس میں مجھے امید لگی ہوئی تھی کہ اس عمر کا ہوکر تو میرے کام آئےگا۔
6)تو اس کے بدلے میں تو میرے ساتھ سختی اور بد خلقی سے پیش آیا گویا میرے اوپر تیرا ہی فضل و احسان ہے۔
7) اے کاش! جب تو نے حق پدری کا لحاظ نہ کیا تو کم از کم وہی سلوک کرتا جو ہمسایہ کرتاہے۔
8)تونے مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور مجھ پر اس مال کو خرچ کرنے میں بخیلی نہ کرتا جو اصل میں تیرا نہیں میرا ہی ہے۔
بوڑھے کے یہ درد بھرے اشعار سن کر حضور رحمت عالم ﷺ روپڑے اور بیٹے کا گریبان پکڑ کر ارشاد فرمایا:”فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبیْکَ“ جا تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔(جامع الاحادیث ج:۴ کتاب الادب باب حقوق والدین، ص:۱۹۴، رقم:۲۳۴۳،وایضا ؛ حقوق الوالدین ص۲۰،خطیب البراہین صوفی نظام الدین بحوالہ: نصب الرایہ احادیث الھدایہ، ج:۳، ص۳۳۷،مجلس علمی پاکستان)
۳۱:حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا یارسول اللہ! ﷺ میں نے اپنی والدہ کو اپنے کندہوں پر اُٹھاکر ایسے گرم پتھروں پر دو میل تک سفر کرتا رہا جن پر اگر گوشت کا ٹکڑا ڈالا جائے تو وہ بھون جائےگا۔ تو کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا؟ اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا:”لَعَلَّہُ اَنْ یَّکُوْنَ لِطَلْقَۃٍ وَاحِدَۃٍ“شاید کہ (تیرا یہ عمل تیری پیدائش کے وقت جو درد کے جھٹکے تیری ماں نے سہے ان میں سے )ایک جھٹکے کا بدلہ ہوجائے۔(مجمع الزوائد للھیثمی، ج:۱۶،کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی البر و حق الوالدین،رقم۱۳۴۱۵، ص:۴۶۶)
والدین کے وہ حقوق جو ان کے انتقال کے بعد اولاد پر عائد ہوتے ہیں
۳۲:حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بدری صحابی ہیں روایت فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انصار میں سے ایک شخص حاضرِ بارگاہ ہوکر عرض کرنے لگا: یارسول اللہ! ﷺ کیامیرے والدین کی طرف سے ان کے انتقال کے بعد مجھ پر کچھ نیکیاں باقی ہیں جو میں ان کے لیے کروں؟۔ فرمایا: ”نَعَمْ خِصَالٌ اَرْبَعَۃٌ: اَلصَّلَاۃُ عَلَیْھِمَا، وَالْاِسْتِغْفَارُ لَھُمَا، وَاِنْفَاذُ عَھْدِھِمَا، وَ اِکْرَامُ صَدِیْقِھِمَا، وَصِلَۃُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لَا رَحِمَ لَکَ اِلَّا مِنْ قِبَلِھِمَا، فَھُوَ الَّذِیْ بَقِیَ عَلَیْکَ مِنْ بِرِّھِمَا بَعَدَمَوْتِھِمَا“ہاں چار چیزیں ہیں: ان پر نمازِ جنازہ پڑھنا، ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا، ان کے زندگی میں کیئے ہوئے عہد پورے کرنا، اور ان دونوں کے دوستوں(باپ کے دوستوں ماں کی سہیلیوں) کا عزت و احترام کرنااور ان رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جن سے رشتہ ان کی وجہ سے قائم ہوا۔ (المسند لاحمدبن حنبل ج۴ البروصلۃ، ص:۱۵۳ رقم:۵۴۸۱،دارالقلم دمشق)
۳۳:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّصِلَّ اَبَاہُ فِیْ قَبَرِہٖ فَلِیَصِلَّ اِخْوَانُ اَبِیْہِ مِنْ بَعَدِہٖ“ جو شخص چاہے کہ باپ کی قبر میں اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، وہ باپ کے بعد اس کے عزیزوں اور دوستوں سے نیک برتاؤ کرے۔ (جامع الاحادیث ج ۴ کتاب الادب/ حقوق الوالدین، ص:۲۱۱ رقم:۲۳۷۶)
۳۴:حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَا عَلیٰ اَحَدِکُمْ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّتَصَدَّقَ لِلّٰہِ صَدَقَۃً تَطَوُّعًا اَنْ یَجْعَلَھَاعَنْ وَالِدَیْہِ اِذَاکَانَ مُسْلِمَیْنَ فَیَکُوْنُ لِوَالِدَیْہِ اَجْرُھَا وَلَہٗ مِثْلُ اُجُوْرِھِمَا بَعْدَ اَنْ لَا یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمَا شَیْئًا“جب تم میں سے کوئی شخص صدقۂ نافلہ کا ارادہ کرے ، تو اس میں اپنے والدین کی طرف سےنیت کرے بشرطیکہ وہ دونوں مسلمان ہوں۔ ان دونوں کو اس کا ثواب پہونچےگا اور اسے ان دونوں کے ثواب کے برابر ملےگا۔ اور ان کے ثواب میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔(جامع الاحادیث ج:۳،کتاب الجنائز،ص۸۶، رقم:۱۱۷۱)
۳۵:حضرت ابو اسید مالک بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اِسْتِغْفَارُ الْوَلَدِ لِاَبِیْہِ بَعَدَ الْمَوْتِ مِنَ الْبِرِّ“ اولاد کا اپنے ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا حسنِ سلوک سے ہے۔( کنز العمال للمتقی ج۱۶، باب۸ فی بر الوادین، رقم:۴۵۴۴۹،ص۴۶۳،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
۳۶:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِیْ الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! اَنَّیْ لِیْ ھٰذِہٖ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ“اللہ عزوجل اپنے نیک بندے کے جنت میں درجات بلند فرمائےگا ، تو وہ بندہ عرض کرتاہے یارب! یہ میرے لیے (اتنے انعامات کیوں؟) تو اس سے کہا جائےگا: تیرے بیٹے کے تیرے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی وجہ سے۔(المسندلاحمدبن حنبل،ج:۴، کتاب البروصلۃ، باب برالوالدین، رقم:۵۴۷۰،ص:۱۵۰دارالقلم، دمشق)
۳۷:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”اِذَا تَرَکَ الْعَبْدُ دُعَاءَ لِلْوَالِدَیْنِ فَاِنَّہٗ یَنْقَطِعُ عَنْہُ الرِّزْقَ“آدمی جب ماں باپ کے لیے دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے ، تو اس کا رزق قطع ہو جاتاہے۔(جامع الاحادیث ج:۴، ص:۲۰۶، بحوالہ: کنز العمال للمتقی ج۱۶، باب فی بر الدین، ص:۴۸۲، رقم:۴۵۵۵۶، م مؤسسۃ الرساۃ، بیروت)
ماں باپ کی طرف سے حج کرنا
۳۸:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ حَجَّ عَنْ اَبِیْہِ اَوْ اُمِّہٖ فَقَدْ قَضیٰ عَنْہُ حَجَّتُہٗ، وَکَانَ لَہٗ فَضَلُ عَشَرَ حَجَجٍ“جس شخص نے اپنے والد کی طرف سے یا ماں کی طرف سے حج کیا اس کا حج ادا ہوجاتاہے اور اس کو دس حجوں کا ثواب ہوتاہے۔(کنزالعمال ج:۱۶، ص:۴۶۸، رقم:۴۵۴۸۴، م مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
۳۹:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَیْہِ اَوْ قَضیٰ عَنْھُمَا مَغْرُمًا بَعَثَہُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامۃِ مَعَ الْاَبْرَارِ“جس شخص نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا یا ان کا قرض چکایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو نیکوں کے ساتھ اُٹھائے گا۔ (کنزالعمال ج:۱۶، ص:۴۶۸، رقم:۴۵۴۸۵، م مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
۴۰حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اِذَا حَجَّ الرَّجُلُ عَنْ وَالِدَیْہِ تُقَبَّلُ مِنْہُ وَ مِنْھُمَا، تُبْشِرُ بِہٖ اَرْوَاحُھُمَا فِیْ السَّمَاءِ وَ کُتِبَ عِنْدَاللہِ بَرًّا“جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے حج کرتاہے، تو وہ حج اس کی طرف سے اور ان دونوں (ماں باپ) کی طرف سے قبول کیا جاتاہے، اور ان دونوں کی روحیں آسمان میں اس سے خوش ہوتی ہیں، اور یہ شخص اللہ عزوجل کے نزدیک ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا لکھا جاتاہے۔ (جامع الاحادیث کتاب الادب/ حقوق الوالدین،ج:۴، ص:۲۰۸،رقم:۲۳۶۸ بحوالہ السنن للدارقطنی۲/۲۷۲)
۴۱:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَیْہِ بَعَدَ وَفَاتِھِمَا، کَتَبَ اللہُ لَہٗ عِتْقًا مِّنَ النَّارِ، وَکَانَ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْھُمَا اَجْرُ حَجَّۃٍ تَامَۃٍ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمَا شَیئٌ“ جو اپنے والدین کے انتقال کے بعد ان کی طرف سے حج کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دیتاہے، اور ان دونوں(والدین جن کی طرف سے حج کیا) پورے حج کا ثواب عطا فرماتاہےبغیر کوئی کمی کیے۔(شعب الایمان،ج:۶، باب فی بر الوالدین،فصل فی حق الولدین بعد موتھما، ص:۲۰۵، رقم:۷۹۱۲، م دارالکتب علمیہ،بیروت)
جمعہ کے دن ماں باپ کی قبروں کی زیارت کرنا
۴۲:حضرت محمد بن نعمان نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:” مَنْ زَارَ قَبْرَ اَبْوَیْہِ اَوْ اَحْدُھُمَافِیْ کُلِّ یَوْمِ جُمْعَۃِ ، غَفِرَ لَہٗ وَ کُتِبَ بَرًّا“ جو اپنے والدین دونوں یا ایک کی قبر کی ہر جمعہ کو زیارت کرے اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور اس کو (اپنے والدین کے ساتھ) نیک سلوک کرنے والا لکھا جاتاہے۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی ج۲، کتاب جنائز، باب زیارۃ القبور، ص:۲۶۲، رقم:۱۷۶۸، م مکتب البشری، کراتشی)
۴۳:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَنْ زَارَ قَبْرَ اَبْوَیْہِ اَوْ اَحْدُھُمَافِیْ کُلِّ یَوْمِ جُمْعَۃِ مَرَّۃً ، غَفَرَ اللہُ وَ کُتِبَ بَرَّہُ“ جو اپنے ماں باپ کی یا ان میں سے ایک کے قبر کی ہر جمعہ کے دن زیارت کرے، اللہ تعالیٰ اس کے(گناہ) معاف کرے، اور اس کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا لکھا جاتاہے۔(جامع الاحادیث ج۴، ص۲۰۹، رقم:۲۳۷۲ بحوالہ مجمع الزوائد للھیثمی، ۸/۱۳۷)
۴۴:امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:” مَنْ زَارَ قَبْرَ والِدَیْہِ اَوْ اَحْدُھُمَافِیْ کُلِّ جُمْعَۃٍ فَقَرَأَ عِنْدَہٗ یٰسین غَفرَ اللہُ لَہٗ بِعَدَدِ کُلِّ حَرَفٍ مِنْھَا“جوشخص ہر جمعہ کو والدین یا ایک کی زیارتِ قبر کرے وہاں یٰسین شریف پڑھے، یٰسین شریف میں جتنے حرف ہیں ان سب کی گنتی کے برابر اللہ تعالیٰ اس کے لیے مغفرت فرمائے۔ (جامع الاحادیث ج۴، کتاب الادب/ حقوق الوالدین،ص:۲۱۰ رقم:۲۳۷۴، بحوالہ اتحاف سادۃ للزبیدی۱۰/۳۹۳،الجامع الصغیر للسیوطی ۲/۵۲۸ )
دعا ہے کہ : اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو اپنے محبوب کریم ﷺ کے مذکورہ فرامین پر عمل کرکے اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہٖ اجمعین ۔